شبیر احمد شگری کی تحریریں جو مختلف اخبارات اورمجلات میں کالمز اورخصوصی ایڈیشن کی صورت میں چھپ چکے ہیں۔
ریکارڈ پر موجود تحریروں کی تعداد تقریبا: 300
مکمل صفحے پر مشتمل خصوصی اشاعتوں کی تعداد: 80
❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
یوم اقبال کے حوالے سےمیری تحریر"حضرت اقبال اور فارسی زبان" کی اسلام ٹائمز، ابلاغ اور روزنامہ ایمرا میں خصوصی اشاعت۔
حضرت اقبال ؒ اور فارسی زبان
تحریر: شبیر احمد شگری
مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا محمدعلی ،مولانا شوکت علی،حضرت قائد اعظم محمد علی جناح جیسی نمایاں شخصیات، جن کی زندگی بھی حضرت اقبالؒ کی حیات کے مانند تھی۔یہ سب ایک ہی نسل اور عہد سے تعلق رکھتے تھے اوران کا شمار حریت پسندوں و مجاہدوں میں تھالیکن حضرت اقبالؒ کی شخصیت ان سے جداگانہ تھی، حضرت اقبالؒ کے کام کی عظمت کا موازنہ کسی اور سے نہیں کیا جاسکتا۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ باقی شخصیات کے کاموں کی اہمیت کم تھی لیکن حضرت اقبالؒ کا مسئلہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اسلامی دنیا اور مشرق کا مسئلہ تھا ۔انھوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔
حضرت اقبالؒ کبھی ایران نہیں گئے لیکن ان کی زیادہ شاعری فارسی زبان میں ہے ۔ حضرت اقبالؒ کی فارسی شاعری اور جو اہمیت وہ ایران کو دیتے تھے اس کی وجہ سے ایرانی قوم ان کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ ایران میں حضرت اقبال کو اقبال لاھوری کے نام سے جانا جاتا ہے اور لاھور کو بھی ایرانی انھی کے توسط سے پہچانتے ہیں۔ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای خود کو حضرت اقبالؒ کا مرید مانتے ہیں۔ اور ان سے عشق کا یہ عالم ہے کہ حضرت اقبال کے دو ہزار سے زائد اشعاران کو زبانی یاد ہیں۔خامنہ ای صاحب انقلاب ایران سے پہلے حضرت اقبالؒ پر کتاب لکھ چکے تھے ۔ اسی طرح شہید مطہری جیسی دانشور شخصیت بھی حضرت اقبال سے بہت متاثر تھی۔ ایرانی کہتے ہیں کہ حضرت اقبال انقلاب اسلامی ایران کی پیشگوئی کر چکے تھے ۔ انھوں نے فرمایا تھا۔
میرسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ ام از روزن دیورا زندان شما
اس شعر میں حضرت اقبالؒ فرما رہے ہیں کہ میں نے زندان کے دیوار کے سوراخ سے ایک مرد کو آتے دیکھا ہے جو غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالے گا۔ ایرانی اس شعر کو حضرت اقبالؒ کی حضرت امام خمینی ؒ کی آمد اورانقلاب اسلای ایران کی پیشگوئی کہتے ہیں۔ اس لئے بھی ایرانی قوم حضرت اقبالؒ کو بہت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ یہاں میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی اس تقریر کے چند جملے بھی بیان کرنا چاہوں گا جو انھوں نے 1986 میں کی تھی جب وہ ایران کے صدر تھے ۔ تہران میں ہونے والی اس تقریب میں حضرت اقبال کے بیٹے جاوید اقبال مرحوم اور ان کے بیٹے منیب اقبال نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ تقریر انتہائی پر اثر اور ایرانیوں کی حضرت اقبال سے محبت و جزبات کا بہترین اظہار بھی ہے ۔جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں پاکستان کے علاوہ دوسری قوموں نے حضرت اقبال سے کیا رہنمائی لی ہے ۔
آیت اللہ خامنہ ای صاحب فرماتے ہیں۔ وہ درخشاں ستارہ جس کی یاد ،جس کا شعر ،جس کی نصیحت اور سبق گٹھن کے تاریک ترین ایام میں ایک روشن مستقبل کو ہماری نگاہوں کے سامنے مجسم کررہا تھا،آج خوش قسمتی سے ایک مشعل فروزاں کی طرح ہماری قوم کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کیے ہوئے ہے ۔ہماری عوام جو دنیا میں اقبال کے پہلے مخاطب تھے ،افسوس کہ وہ کافی بعد میں اس سے آگاہ ہوئے ،ہمارے ملک کی خاص صورت حال ،خصوصاً اقبال کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے محبوب ملک ایران میں منحوس استعماری سیاست کا غلبہ اس امر کا باعث بنا کہ وہ کبھی ایران نہ آئے ۔فارسی کے اس عظیم شاعر جس نے اپنے زیادہ تر اشعار اپنی مادری زبان میں نہیں بلکہ فارسی میں کہے ،کبھی اپنی پسندیدہ اور مطلوب فضا،ایران میں قدم نہیں رکھا ،اور نہ صرف یہ کہ وہ ایران نہ آئے بلکہ سیاست نے ،جس کے خلاف اقبال عرصہ درازتک برسرِ پیکار رہے ،اس بات کی اجازت نہ دی کہ اقبال کے نظریات و افکار کا بتایا ہوا راستہ اور درس ایرانی عوام کے کانوں تک پہنچے جسے سننے کیلئے وہ سب سے زیادہ بے تاب تھے ۔اس سوال کا جواب کہ کیوں اقبال ایران نہیں آئے ،میرے پاس ہے ۔
جب اقبال کی عزت و شہرت عروج پر تھی اور جب بر صغیر کے گوشہ و کنار میں اور دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں انہیں ایک عظیم مفکر،فلسفی ،دانشور ،انسان شناس اور ماہر عمرانیات کے طور پر یاد کیا جاتا تھا،ہمارے ملک میں ایک ایسی سیاست نافذ تھی کہ ایران آنے کی دعوت نہ دی گئی اور ان کے ایران آنے کے امکانات فراہم نہ کئے گئے ۔سالہا سال تک ان کی کتابیں ایران میں شائع نہ ہوئیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس ملک میں ایرانی اور مسلمان کے تشخص کو نابود کرنے کیلئے غیر ملکی ادب و ثقافت کا تباہ کن سیلاب رواں تھا۔اقبال کا کوئی شعر اور کوئی تصنیف مجالس و محافل میں عوام کے سامنے نہ لائی گئی۔
آج اقبال کی آرزو یعنی اسلامی جمہوریت نے ہمارے ملکی میں جامہ عمل پہن لیا ہے ۔اقبال لوگوں کی انسانی اور اسلامی شخصیت کے فقدان سے غمگین رہتے تھے اور اسلامی معاشروں کی معنوی ذلت اور ناامیدی کو سب سے بڑے خطرے کی نگاہ سے دیکھتے تھے ،لہذا انہوں نے اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ مشرقی انسان اورخصوصاً مسلمان کی ذات اور وجود کیلیے کام کیا۔
اگر وہ آج زندہ ہوتے تو ایک ایسی قوم کو دیکھ سکتے جو اپنے پیروں پر زندگی بسر کرتی ہے ، اپنے قیمتی اسلامی دارالحکومتوں سے سیراب ہے ، خود انحصاری کرتی ہے ، اور مغربی غلامی اور مغربی اقدار کے نظام سے بے نیاز اور طاقتور زندگی گزارتی ہے اور اہداف پیدا کرتی ہے ۔ ان اہداف پر چلتی ہے ، اور خود کو قومیت اور وطن پرستی کی چار دیواری میں قید نہیں کرتی اور اقبال کے دوسرے خواب، جو ان کے گراں قدر اثرات میں بکھرے پڑے ہیں، اس قوم میں یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
فارسی زبان جس نے اپنے اقبال کے ذہن کے ساتھ زندگی گذاری ہے ،بات کروں تاکہ اس عظیم اجتماع مین اپنے اوپر ان کے عظیم احسان اور اپنے عزیز لوگوں کے ذہن پر ان کے اثرا ت کے عظیم حق کو کسی حد تک ادا کرسکیں۔ اقبال تاریخ اسلام کے نمایاں ،عمیق اوراعلی شخصیتوں میں سے ہیں کہ ان کی خصوصیات اور زندگی کے صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھا جاسکتا اور ان کے صرف اس پہلو اور اس خصوصیت کے لحاظ سے تعریف نہیں جاسکتی ۔اگر ہم صرف اسی پر اکتفا کریں اور کہیں کہ اقبال ایک فلسفی ہیں اور ایک عالم ہیں تو ہم نے حق ادا نہیں کیا ۔اقبال بلاشک ایک عظیم شاعر ہیں اور ان کا بڑے شعرائ میں شمار ہوتا ہے ۔اقبال کے اردو کلام کے بارے میں اردو زبان و ادب کے ماہرین کہتے ہیں کہ بہترین ہے ،شاید یہ تعریف، اقبال کی بڑی تعریف نہ ہو کیونکہ اردو زبان کی ثقافت اور نظم کا سابقہ زیادہ نہیں ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے اردو کلام نے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں بر صغیر کے افراد پر(خواہ ہندو ہوں یا مسلمان) گہرا اثر ڈالا ہے اور ان کو اس جد وجہد میں اس وقت تدریجی طور پر بڑھ رہی تھی ،زیادہ سے زیادہ جوش دلایا ہے ۔
طوالت کے پیش نظریہاں خامنہ ای صاحب کی تقریر کا ایک مختصر ساحصہ پیش کیا ہے لیکن آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایرانی قوم بھی حضرت اقبال ؒ کو اپنا قومی شاعر مانتی ہے اور ان کی بہت قدر کرتی ہے ۔ اور صرف ایران ہی کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا میں حضرت اقبال کے افکار کو پڑھا جاتا ہے اس پر تحقیق کی جاتی ہے ۔ اور ساری دنیا ان کی عظمت کی قائل ہے ۔
آنلائن لنک
ابلاغ
https://iblagh.com/442601
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/.../%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA...
siasiat
https://siasiyat.com/.../%d8%ad%d8%b6%d8%b1%d8%aa-%d8%a7.../
5cn network
https://5cntv.com/urdu-column-hazrat-iqbal-and-persian.../





❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
"عرب کا اونٹ"
تحریر: حاجی شبیر احمد شگری
مسئلہ فلسطین دراصل ہے کیا اور اس کی ابتدا کیسے ہوئی ہے؟۔ اور یہودی جو کہ ایک ناپسندیدہ قوم تھی جس سے دنیا تنگ تھی کس طرح ایک امن پسند اور مہمان نواز عرب علاقے میں گُھس کا غاصب بن بیٹھی اور آج دنیا کی معیشت پر تسلط جمائےبیٹھی ہے۔ حتٰی کہ آج دنیا میں کہیں بھی یہودی پیدا ہوتا ہے تو اسے خود بخوداسرائیلی نیشنلٹی مل جاتی ہے۔ یہودی انتہائی چالاک، مکارمگربزدل قوم ہے۔ مگر استعمار کی پشت پناہی کے سر پر ڈینگیں مارتا ہے۔ حال ہی میں طوفان الاقصٰی آپریشن سے اسرائیل کے پاؤں اکھڑ گئے اور اس پر لرزہ طاری ہوگیا تھا۔ بڑے عہدیداروں کے استعفے آنے شروع ہوگئے تھے۔ اور فورا ہی امریکہ اس کوتھپکی دینے پہنچ گیا ۔
یہودی ہیں کون؟ یہودپیغمبروں کے پیروکار ہیں لیکن خدائی احکامات سے انکارکی وجہ ہے ان پر عذاب بھی نازل ہوئے۔ کبھی بابلی لشکر نے یہود کا قتل عام کیا تو کبھی فارس فوج نے انہیں غلام بنا لیا۔ رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے یہود کو بیت المقدس سے نکال باہر کیا تھا۔ یہود ہی حضرت عیسیٰؑ کے قاتل تھے۔ اسی لیے فلسطین پر عیسائیوں کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی ان سے برا سلوک کیا۔ اس لئےان کے ساتھ عیسائی عوام کا سلوک اچھا نہیں تھا۔ اس وجہ سے بہت سے یہود نے اسلامی ممالک میں پناہ لی جہاں وہ جزیہ دے کر امن ‘ شہری حقوق اور آزادی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔یہودی وہ قوم تھے جن کے کرتوت صحیح نہیں تھے اس لئے یورپی یہودیوں کے روزمرہ کے رویوں، انفرادی گندگی اور سماجی خرابیوں، مذہبی داستانوں اور عجیب و غریب رسومات سے تنگ آچکے تھے۔ اورمغرب میں یہود سے نفرت کی جاتی تھی۔
یہودی ایسی مطلبی قوم ہے کہ جس نے ان کے ساتھ اچھا کیا اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔ جرمنی نومبر 1918 میں پہلی جنگ عظیم ہارا تو وہ دعوی کرتے ہیں کہ جرمنی کو عسکری طور پر شکست نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ یہودیوں سمیت، اندرونی دشمنوں نے جرمنی کے ساتھ غداری کی تھی۔ وہ اس نظریہ کو "پیٹھ میں چھرا گھونپنا" کہتے ہیں۔ ہٹلر جس نے یہودیوں کو تباہ و برباد کردیا تھا تو کچھ کو چھوڑ دیا اور ایک تاریخی فقرہ کہا تھا کہ وہ کچھ یہودیوں کو اس لئے چھوڑ رہا ہے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ اس نے یہودیوں کوکیوں مارا تھا۔ اور واقعی آج ہم دیکھ رہے ہیں۔
1947 میں فلسطین کے شمال میں واقع بندرگاہ حیفہ کی ایک تصویر آج کل وائرل ہوئی ہے جو کہ فلسطین کی طرف بھاگ کر پناہ لینے کے لئے آنے والے 4500 یہودی پناہ گزینوں کے جہاز کی تصویر ہے ۔ یہودی پناہ گزینوں کے جہاز کے عرشے پر یہ جملہ لکھا ہواہے کہ The Germans destroyed our family don't you destroy our hope یعنی "جرمنی نے ہمارے گھروں اور رہائشگاہوں کو تباہ کر دیا، براہ مہربانی فلسطینیوں، ہماری امید کو تباہ نہ کریں"۔ ذرا سوچیں ان بے شرم احسان فراموش یہودی رحم اور ہمدردی کی بھیک مانگتے ہوئے فلسطین میں داخل ہورہے تھے۔ اب 76 سال بعد فلسطین کی سرزمین سے ہی انکار کر رہے ہیں۔اورآج کس بے شرمی سے کہا جاتا ہے کہ فلسطین کی زمینیں خریدی گئی تھیں۔
کاش کہ اس وقت فلسطینی ہٹلر کی اس بات پر ہی غور کرلیتے ۔اور انھیں پناہ نہ دیتے۔ لیکن کیا کریں ان عربوں کا جن کی مہمان نوازی کی عادت نے اس جیسی مکار قوم کی مہمان نوازی کی ان کو پناہ دی۔یہاں فلسطینی عربوں پر عرب کے اونٹ کی مثال بالکل صادق آتی ہے جو پہلے خیمے میں گردن ڈالتا ہے اور پھر پورا گھس جاتا ہے۔ پھر مالک کو ہی خیمے سے نکال باہر کرنے کی سوچتا ہے۔ اور یہودیوں نے بالکل اسی طرح ہی فلسطین میں گھس کر خود انھیں نکال باہر کرنا شروع کیا۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ یہودی سب سے پہلے کب اور کیسے فلسطین پہنچے فلسطین آکرانھوں نے کیا خباثتیں کیں۔ اور کیسے دھوکے سے اپنا مقام بنایا اور فلسطین پر قابض ہوئے۔
عرب سخی اور فیاض کے لوگ ہیں وہ اپنی مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں ۔وہ لوگ جنہوں نے ان میں پناہ لی، مدد مانگی اور مدد کی توقع کی، سلامتی چاہتے تھے اور اس وقت سلامتی کی تلاش میں تھے۔فلسطینی عربوں نے، اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ انسانی اقدار کا مظاہرہ ، اور اپنے پیر پر کلہاڑی مارتے ہوئے ہوئے ، 1880 میں یورپ میں جبر سے بھاگنے والے بہت سے یہودیوں کو قبول کیا ۔ حالانکہ اس وقت عربوں نے یورپ میں یہودیوں کے ساتھ بد سلوکی اور بدعنوانی کی خبریں سنی تھیں۔ وہ قوم جس نے پیسے اور تجارت سے بدعنوانی کی اور یورپیوں کو قرضوں میں ڈبو کر ان پر دباؤ ڈالا۔ اس وقت یورپی یہودیوں کے رویوں، سماجی خرابیوں، اور عجیب و غریب رسومات سے تنگ آچکےتھے ۔
تاہم فلسطینی عربوں نے یورپیوں کی شکایات پر کان نہیں دھرے، جس کی سزا آج وہ بھگت رہے ہیں۔ فلسطین میں آنے والے یہودیوں میں یورپ سے بھاگے ہوئے یہودیوں کا ایک گروہ بھی تھا جس کی قیادت یوسف بن رحیم کر رہا تھا۔ جو یروشلم میں داخل ہوئے۔ اس وقت قدس وسیع و عریض شہر اور اسلامی شہروں کی دلہن تھا۔ قدس ایک پاکیزہ مقدس مقام تھا جہاں کے باشندوں پر ظلم نہیں ہوتا تھا، اس کے لوگ بھوکے نہیں مرتے تھے۔ یوسف بن رحیم نےشیخ جراح کے محلے میں پناہ لی۔ جوخوبصورت فن تعمیر، سرسبز اور پھل دار درختوں، منفرد گلیوں اور باغات والا محلہ جو اسے یروشلم کے دوسرے محلوں سے ممتاز کرتا ہے ۔ یہاں انھیں یروشلم کے شیخ جراح محلے میں عثمانی نظام کے مطابق 99 سال کی مدت کے لیے ایک پلاٹ لیز پر دینے پر اتفاق کیا۔یہاں غور کریں انھیں لیز پر جگہ دی جارہی ہے نہ کہ فروخت کی جارہی ہے۔اوریروشلم میں بے گھر یہودیوں کو غیر ملکی شہری سمجھا جاتا تھا اور وہ عثمانی قانون کے تابع تھے، جس نے یروشلم کی زمینوں پر قبضہ محدود کر دیا تھا ۔
یہودی پناہ گزینوں کاسالانہ کرایہ کی ادائیگیوں کے ساتھ قیام 1948 کی جنگ تک رہا۔جب صہیونیوں نے القدس شہر کے مغربی حصے پر قبضہ کر لیا اور شیخ جراح کے محلے پر قبضہ کرنے میں ناکام رہنے کے بعد یہودی باشندے اس خوف سے وہاں سے فرار ہو گئے کہ فلسطینی اور اردنی ان سے بدلہ لیں گے۔ اور فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہو گیا، تمام فلسطینی مغربی یروشلم چھوڑ کر چلے گئے اور مشرقی یروشلم میں کوئی یہودی باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد سے عرب اور یہودی علاقوں کے درمیان تنازع اور کشیدگی شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے ۔
یہ شیخ جراح کے محلے کی کہانی ہے جنھوں نےاپنی بدقسمتی سے ان لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جو رحم کے مستحق نہیں تھے۔ بُرا اور ناپاک رویہ اور چالبازی، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، غاصبانہ قبضہ اور ناجائز حصول ان کی زندگی کے بنیادی اصول تھے۔ لیکن یہ باطل قائم نہیں رہے گا اور یہ ظلم غالب نہیں آئے گا۔ اور اس کے گھر والوں پر برا دن آئے گا اور حق اس کے گھر والوں کو لوٹ آئے گا۔
❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
مسئلہ فلسطین کے بارے میں میری تحریر" عرب کا اونٹ" کوانتہائی پسند کیا گیا۔ یہ کالم آج کے بے شمار اخبارات و جرائد میں چھپا جو میری نظر سے گزرے پیش خدمت ھے۔
عرب کا اونٹ
تحریر:شبیر احمد شگری
آنلائن لنک
روزنامہ مشرق
https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-10-30/1
روزنامہ ایمرا
سیاسیات
https://siasiyat.com/?p=11858
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/ur/article/1091905/
5CN
https://5cntv.com/عرب-کا-اونٹ،-حاجی-شبیر-احمد-شگری/
ابلاغ
https://iblagh.com/440937






❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
ایران کی بڑی کامیابی، پابندیوں کا خاتمہ
تحریر: شبیراحمد شگری
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے باضابطہ طور پر ایران پر میزائل سے متعلق پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد ایران کے میزائل تجربات، میزائلوں کی درآمدات اور برآمدات پربھی پابندیاں ختم ہوگئیں اور اب اس حوالے سے کسی بھی ملک کو ایران کے اثاثے روکنے یا مالی لین دین پر پابندی عائد کرنے کا حق حاصل نہی ہوگا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے باضابطہ طور پر ایران کے میزائل پروگرام پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سیکریٹریٹ نے رکن ممالک کو ایک نوٹ بھیجا ہے جس میں بشمول میزائل تجربات کے لئے ایران کو پارٹس کی برآمد اور درآمد نیز سلامتی کونسل کی پابندیوں کے تحت ایرانی افراد اور اداروں کو املاک ضبط کرنے اور مالی خدمات فراہم کرنے سے متعلق پابندیوں کو باضابطہ طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ ان پابندیوں میں بیلسٹک میزائل سے متعلق سرگرمیوں اور منتقلی پر پابندیاں شامل ہیں، ساتھ ہی کچھ ایرانی افراد اور اداروں پر پابندیاں بھی شامل ہیں۔
یہ تبدیلیاں تمام منظور شدہ افراد اور اداروں کی UNSC کی متفقہ فہرست میں بھی کی گئیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایران اب اقوام متحدہ کی پابندیوں کا شکار نہیں ہے، حالیہ برسوں میں امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے اقدامات کو برقرار رکھنے کے لیے کی جانے والی وسیع سیاسی اور قانونی کوششوں کے باوجود ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ان پابندیوں کے خاتمے کو حتمی شکل دیے جانے کے باوجود مغربی ممالک نے اتحادی ممالک کے ایک محدود گروپ کی جانب سے بیان جاری کر کے مذکورہ عمل کو حتمی شکل دینے پر شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی تاہم پابندیوں کے خاتمے کو حتمی شکل دی گئی۔ آخر کار اقوام متحدہ کی طرف سے مذکورہ پابندیوں کے خاتمے سے متعلق ایک سرکاری نوٹ پر دستخط کیے گئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے باوجود انہیں جاری رکھنے کے امریکہ اور یورپی ممالک کے دعوے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران امریکا سے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ پابندیوں کے مطلوبہ نتائج نہیں ملے، اب وقت آگیا ہے کہ امریکا غلط راستہ چھوڑکردرست کا انتخاب کرے۔
اس سے پہلے ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ کہ 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی اس صورت ممکن ہے جب امریکا پابندیاں ہٹا دے۔ ہم ایک حق کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ایرانی قوم سے چھینا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 'ایران نے معاہدے میں شامل تمام شرائط پوری کی ہیں لیکن امریکا اوریورپی ممالک نے ایسا نہیں کیا۔
ایران نے امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔جوہری معاہدے میں شامل برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران پر معاہدے پر من و عن عمل کرنے کے لیے زور دیا تھا لیکن ایران بدستور اس کو مسترد کرتا رہا ہے۔
ایران ایک پرامن اسلامی ملک ہےجو سنہ 1958 میں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ 1968 میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیشرفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فیصد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔ تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے۔ یہ ایندھن دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہ یورنییم کا ایندھن دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔ اس وقت ایران اس حوالے سے ٹیکنالوجی رکھنے والے دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے اور ایران مشرق وسطی کا واحد ملک ہے کہ اس سلسلے میں جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا،توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکا اور گنتی کے چند دیگر ممالک کہ جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے تہران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں۔ ایران کا بائیکاٹ۔ نفسیاتی جنگ۔ سیاسی دباؤ۔ فوجی حملے کی دھمکی۔ یہا ں تک کہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے ۔
❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
ایران پر پابندیوں کے خاتمے پر لکھی گئی میری تحریر"ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ" اخبار و جرائد میں شائع ہوئیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
تحریر: شبیر احمد شگری
آنلائن پڑھنے کے لئے۔
روزنامہ مشرق
https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-10-22/1
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/.../%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7...
سیاسیات
https://siasiyat.com/.../%d8%a7%db%8c%d8%b1%d8%a7%d9%86.../
5Cn
https://5cntv.com/urdu-news-ending-sanctions-on-iran/




❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
تَنْگ آمَد بَجَنْگ آمَد
فلسطین اور طوفان الاقصیٰ کے حالیہ تناظر میں لکھی گئی تحریر
تحریر: شبیر احمد شگری
غزہ کی مزاحمتی تنظیم حماس کا طوفان الاقصی آپریشن حقیقت میں یکایک کسی طوفان کی طرح اسرائیل کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ھے۔ ایک ایسے طوفان کی صورت میں دشمن پر برس پڑا ھے کہ دشمن حواس باختہ ھوگیا ھے۔ دنیا بھی اس اچانک اور بھرپور حملوں پر حیران ہے۔ نظر آرہا ھے کہ ایک لمبے عرصے سے صیہونیوں کے ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے فلسطینیوں نے اس مرتبہ مزید مستحکم ارادوں سے کمر کس لی ھے۔ اور ایک نئے جوش و جذبے سے اپنے دشمن پر پل پڑے ہیں۔ ایک ایسے دشمن پر جو صرف فلسطین کے نہیں بلکہ عالم اسلام کے دشمن ھیں۔ جو قبلہ اول پر قابض ہیں۔جنھوں نے عالم اسلام کی غیرت کو للکارا ھے۔ البتہ یہ اور بات ھے کہ یہ غیرت کب اورکتنا جاگتی ہے۔ حماس نے ابتداکردی ھے حزب اللہ اور ایران بھی کھل کر ان کی حمایت کررہے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ دیگرمسلمان ممالک کا کیا رد عمل کیا کردار سامنے آتا ھے جوکہ فی الحال زبانی کلامی ہی ھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج مسلمانوں کے مسائل خود اپنے کمزوریوں کی وجہ سے ہیں۔ اللہ پاک نے مسلمانوں کو اس عظیم دین کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال کر رکھا ہے۔ لیکں آج مسلماں آپس میں دست و گریباں ہیں۔۔ کاش عالم اسلام ہی اگر متحد ہوتا تو فلسین اور کشمیر میں آج یہ حالات نہ ھوتے۔
شاعر مشرق حضرت اقبال ؒ نے کیا خوب فرمایا تھا۔
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک ۔ کچھ بڑی بات تھی ھوتے جو مسلمان بھی ایک۔
اگر مسلمان ہی ایک ہوجائیں تو کرہ ارض پر کسی کی مجال نہ ہو کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے ۔ تمام دنیا کے مسلمان ایک خدا کو مانتے ہیں اور جدا جدا ہیں جبکہ کافر سب الگ الگ خداکو مانتے ہیں لیکن سب ایک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مٹھی بھر یہودی آج قبلہ اول پر قابض ہے اور فلسطینی بھائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہے۔بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ نے فرمایا تھا کہ اگر مسلمان ایک ایک بالٹی اسرائیل کی طرف پھینک دیں تو اسرائیل اس میں بہہ جائے گا۔ مگر ہم اپنی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔
حالانکہ اس وقت ایک جماعت حماس کے دانت کھٹے کردینے والے حملوں نے یہ ثابت کردیا ھے کہ "رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن" مسلمانوں کی تاریخ اس چیز سے بھری پڑی ہے کہ مسلمان کم تعداد میں ہونے کے باوجود ہمیشہ دشمن کو زیر کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ مسلمان جذبہ ایمان سے بھرپور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد کی امید پر جنگ لڑتا ہے۔ اور حاکمیت تو صرف اس ذات پاک کے ہاتھ میں ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا ۔ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اسرائیل اپنی ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں کے گھمنڈ میں بدمست ہاتھی کی طرح فلسطینی عوام بچوں اور عورتوں کو اپنی طاقت کے بل پر روند رہا تھا۔لیکن اسے ابرہا کے ہاتھیوں کا لشکر یاد نہ رہا جسے ابابیلوں کے جھنڈ نے ڈھیر کردیا تھا۔ یہی حال کچھ حماس کے چھاتہ برداروں نے بھی کیا ہے۔اور اس وقت بدمست اسرائیل بدحواسی کا شکار ہے۔ بربریت کے خاتمے کے لئے طوفان الاقصی کے بھرپور حملوں کے نتیجے میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کھوکھلی صیہونی حکومت کی طاقت اور ہیبت کی داستانیں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ مختلف ویڈیوز میں صیہونی فوج پر حملے، اعلٰی فوجیوں حکام کی گرفتاری اور صیہونیوں کو جان بچا کر بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ حماس کے جانبازوں نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دشمن پردھاوا بولا ہے۔ شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن ۔ نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی
اور ان کا مقصد کشور کشائی نہیں ہےبلکہ قبلہ اول اور اپنے چھینے گئے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش ہے ۔
ان تازہ کاروائیوں میں صیہونیت کی بدحالی اپنی جگہ اس کے حواریوں کے بھی دانٹ کھٹے ہوچکے ہیں۔ اور اب آپ دیکھیں گے کہ امریکہ اوریورپی حکومتیں فریاد کریں گی کہ نہتے یہودیوں پر ظلم ہورہا ہے ۔ اور جنگ روکنے اور صلح کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ جو اسرائیل کی پشت پناہی کے سوا کچھ نہیں۔ ورنہ حقوق انسانی کے ان علمبرداروں کو
فلسطین میں نہتے مسلمانوں بچوں اور عورتوں پر ہونے والے ظلم نظر نہیں آتے۔ ان کے کتے بلیوں کی جانیں بھی انھیں عزیز ہیں جبکہ مسلمانوں کا خون بہت سستا ہے۔بہر حال یہ بہترین وقت ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان متحد ہوکر فلسطین کو صیہونیت کے چنگل سے آزادی دلائیں۔ حزب اللہ اور ایران میدان میں آچکے ہیں اور ان کی طرح دوسرے ممالک کو بھی دو ٹوک اقدام اٹھانا ہوگا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے بانی پاکستان قائداعظم ؒ کا فلسطین کے بارے میں دوٹوک موقف تھا۔ بانی پاکستان اور پاکستان کا موقف باقاعدہ طور پر پاکستانی پاسپورٹ پر نظر آتا ھے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لئے کارآمد نہیں ھے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے ٹھیک نو ماہ بعد مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں واقع انبیائے کرام کی سرزمین، ارضِ فلسطین پر شب خون مارا گیا تھا۔ 1947 ء میں جب قائد اعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسرائیلی وزیر اعظم نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائد اعظم کے نام بھجوایاجس کا جواب قائداعظم نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا،دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کی بجائے جان دے دے گا، مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے، میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکا اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوں کے خلاف پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انہیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہوں گی۔
بابائے قوم کے فرمان کے مطابق آج بالکل ایسا ہی ہورہا ہے۔ اس لئے آج پاکستان اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو بھی نہ صرف ببانگ دہل اپنے موقف کا اعلان کرنا چاہئے بلکہ فلسطینیوں کی بھرپور مدد کرنی چاہئے تاکہ ہماری غیرت قبلہ اول آزاد ہوسکے۔ اور مسلمانوں کے قلب میں گھونپے گئے صیہونی خنجر کو نکالا جاسکے۔
❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
" تنگ آمد بجنگ آمد"
روزنامہ مشرق اور دیگر جرائد میں فلسطین کے حالیہ تناظر میں لکھی گئی میری تحریر"
تحریر شبیر احمد شگری
آنلائن پڑھیں ۔ روزنامہ مشرق
https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-10-10/1
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/.../%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7...
5CN
https://5cntv.com/urdu-international-news-urdu-column/
siasiyat
https://siasiyat.com/.../%d8%aa%d9%8e%d9%86%d9%92%da%af.../
فاران
https://faraan.org/%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86.../





❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
جشن میلاد النبی اور ھفتہ وحدت کی خوبصورتیاں
تحریر: شبیر احمد شگری
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔ ذات باری تعالٰی نے حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اور ان تمام جہانوں میں سے بھی ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اس نبی پاک کی امت ہیں۔اسی طرح بلاتفریق مذہب و ملت حتٰی مخلوقات عالم و تمام عالمین کے لئے حضور پاک کی ذات مبارکہ رحمت ثابت ہوئی ہے۔ رحمت اللعالمین کی آمد اور جشن صادقین کے ایام کی سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ اسی ہفتے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت بھی ہوئی ہے۔ یقین جانیں اگر ہم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پاک کی سیرت اور احکامات پر عمل کریں تو دین و دنیا اور دونوں جہانوں میں کامیابیاں ہمارا مقدر ٹہریں گی۔ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہمارا ایمان ہے اور ان کا کلمہ پڑھنے والا ہی مسلمان کہلاتا ہے۔ اگر عملی طور پر بھی ہم اسے اپنا لیں تو ہماری مشکلات حل ہوجائیں۔ آج ہم مسلمانوں کی مشکلات کی اہم وجہ یہی ہے کہ ہم نے قرآن کا احترام اسے چوم کر اونچے طاقوں میں رکھنے کو قرار دیا اور نبی پاک کی سیرت پر عمل کرنے کی بجائے ان سے صرف جزباتی وابستگی اپنائے رکھی۔ کلام مجید کو چوم کر رکھ دینا قرآن کی عزت نہیں ہے۔ بلکہ اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنا اس کی صحیح معنوں میں عزت ہے۔اسی طرح نبی پاک سے جذباتی وابستگی تو ہم سب بڑھ چڑھ کر رکھتے ہیں۔ ان کی محبت کے دعویدار بن کر ایک دوسرے پر گستاخی کے فتوے لگاتے ہیں لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین پر عمل کرنے کی طرف توجہ کم ہے۔ حالانکہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے مطابق نماز نہ پڑھنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، برے کاموں سے پرہیزنہ کرنا اور اسی طرح دیگر اعمال کی خلاف ورزی کرنے پر ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ اور ان کی خوشنودی اور کامیابی ان کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور اگر صحیح معنوں میں اس پر عمل پیرا ہوتے تو آج عالم اسلام جن مشکلات میں گھرے ہیں اس سے دوچار نہ ہوتے۔
ان ایام میں جہاں بھی جائیں درود سلام نعت کی محفلیں اور مسلمانوں کے اندر جوش و خوش اور محبت دیکھ کرخوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ان دنوں میں کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کو گرمجوشی سے مبارکباد پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ مشلمانوں کے اندر وحدت کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے اندر حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت کے حوالے سے روایت میں کچھ اختلاف ضرور ہے۔ کچھ 12 ربیع الاول اور کچھ 17 ربیع الاول کو رسول پاک کی ولادت کی تاریخ مانتے ہیں۔ لیکن وحدت المسمین کے داعی اور بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ نے اس فرق کو بھی ایک خوبصورت شکل میں ڈھال دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت کو اپنے اتحاد کا محور قرار دیں۔ اور12 یا 17 کی بجائے 12 سے 17 ربیع الاول پورا ہفتہ "ھفتہ وحدت" کے طور پر منایا جائے۔ ان کی اس تجویز کا پورے عالم اسلام میں بھرپور خیرمقدم کیا گيا اور اب پورے ہفتے میں عید میلادالنبی (ص) کے سلسلے میں جشن اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے ۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکے گی۔ مسلمانوں کے لئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے ۔ اس بات میں کوئی برائی نہیں ہے ۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔
قرآن پاک کہتا ہے کہ "و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں ۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں ۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے ۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے ۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس عمل کو انجام دینا چاہئے ۔
یہ صرف ہمارے پیارے دین اسلام کی خوبصورتی ہے کہ ہمدلی اور باہمی اخوت کے جذبے سے سرشار قومیں جو کوئی سیاہ فام، کوئی سفید فام اور کوئی زرد فام نسلوں پر مشتمل ہیں اور درجنوں مختلف زبانوں سے تعلق رکھتی ہیں، سب کی سب خود کو عظیم امت مسلمہ کا جز جانتی اور اس پر فخر کرتی ہیں ۔ سب ہر دن ایک ہی مرکز کی سمت رخ کرکے بیک آواز اللہ تعالی سے راز و نیاز کرتی ہیں،سر بسجود ہوتی ہیں۔ سب کو ایک ہی آسمانی کتاب سے درس و الہام ملتا ہے ۔ اور دنیا کے ہر حصےمیں چوبیس گھنٹوں میں یہ مسلمان اللہ کا نام اور ذکر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمان امت ایک حد قیمتی ثقافت کے ساتھ اور بے مثال درخشندگی کے ساتھ، حیرت انگیز یکسانیت اور مثالی یگانگت سے بہرہ مند ہے ۔ ذات باری تعالی کریم نے مسلمانون کو اپنے حقوق اور دفاع کے لئے لامحدودوسائل کی عظیم دولت سے مالا مال کررکھا ہے۔ ایسی ہستیاں ہمیں عطا کی ہیں جو کفر کے مقابلے میں ڈٹ جانے کے لئے ہمیں درس و رہنمائی کرتی رہی ہیں۔ مسلمانوں کے پاس موجود تہذیب و تمدن قدیم ترین اور منفردہے۔
ان صلاحیتوں کی بنا پر مسلمان اپنا بہترین دفاع کرسکتے ہیں۔ اللہ سے تمسک، توکل اللہ اور ایمانی و روحانی طاقت جیسی نعمتوں کو اگر بروئے کار لائیں گے تو ایک ناقابل تسخیر امت ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان امور پراللہ سے خلوص کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔ اور رب کی عطا کردہ کامیابی اور توکل پر کامل یقین ہو۔ تو کامیابی اور بلندی یقینی ہے۔ کیونکہ اللہ پاک فرماتا ہے۔ " ولینصرن اللہ من ینصرہ" (اللہ اس کی مدد کرےگا جو اللہ کی نصرت کرے گا، حج 40)۔ اور اگر آج ہم اللہ کی مدد کے وعدے یہ تمام وسائل ہونے کے باوجود دنیا میں مشکلات کا شکار ہیں تو اس میں ظاہر ہے خود ہماری کمزوریاں ہیں خامیاں ہیں۔ اگر آج خدا کے عطا کردہ وسائل پر دشمن قابض میں تو اس میں ہم مسلمانوں کی ہی کمزوری ہے۔ آج پوری دنیا میں فلسطین، کشمیر، یمن، شام اسی طرح دوسرے مقامات پر مسلمانوں پر مظالم ہورہے ہیں تو یہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہونے کے سبب ہیں۔ کیا یہ سب کو مل کر اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامنے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہیں۔ دشمن ہمیں مختلف فرقوں میں قوم میں نسل میں بانٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے مفادات حاصل کررہا ہے۔ لیکن مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مجبور و بے بس ہیں۔ اسلئے آج مسمانوں کی کامیابی کا واحد حل صرف اللہ کی رسی کو مل کر اور مظبوطی سے تھام لینے میں ہے۔اللہ پاک ہمیں اس ماہ مبارک میں اسلام کی تعلیمات اور نبی پاک کی سیرت پر مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
"جشن میلاد النبی اور ھفتہ وحدت کی خوبصورتیاں" روزنامہ مشرق اور دیگر اخبار و جرائد میں
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ مشرق
https://mashriqakhbar.com.pk/

5cn
https://5cntv.com/urdu-columns-celebration-of-milad-ul.../

روزنامہ حاوی رپورٹ

ابلاغ
https://iblagh.com/435615

اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/ur/article/1084955/

سیاسیات
https://siasiyat.com/?p=10993

❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
" ایران کا پہلا زیارتی، سیاحتی و ثقافتی سفر" روزنامہ مشرق کے سنڈے میگزین میں ایران کے سفرنامے کا آج اتوار کو پہلا حصہ ۔ 10 ستمبر 2023
تحریر: شبیر احمد شگری۔

" ایران کا پہلا زیارتی، سیاحتی و ثقافتی سفر" روزنامہ مشرق کے سنڈے میگزین میں ایران کے سفرنامے کا آج اتوار کو پہلا حصہ ۔ 17 ستمبر 2023
تحریر: شبیر احمد شگری۔

❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم"
تحریر: شبیر احمد شگری
گذشتہ روز پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم سے ملاقات ہوئی۔اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نے ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کی "پڑوسی پہلے " کی پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یہ پالیسی علاقائی ترقی اور باہمی تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے وژن سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ اسلام آباد دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے ۔انھوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ایران کے ساتھ اقتصادی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانا علاقائی امن و سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے ۔
اس ملاقات میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات بالخصوص معیشت، توانائی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں حالیہ پیش رفت کو مزید آگے بڑھانے کی خواہش اور عزم کا اظہار کیا۔
ایرانی سفیر گو کہ پاکستان میں حال ہی میں تعینات ہوئے ہیں لیکن پاکستان اور ایران کے بہترین تعلقات کے بارے میں انھوں نے کئی بیانات دئیے اور ان کے عزم کا اظہارر بھی ہوتا ہے ۔ ایرانی سفیر رضا امیری مقدم کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کو سستی گیس، بجلی اور تیل دے سکتے ہیں۔ انھوں نے ایران اور پاکستان کے دارالحکومتوں کے درمیان براہ راست پروازیں شروع کرنے کے بارے میں بتایا۔ان کا کہنا تھا کہ ایران نے اپنی چار ائیر لائنوں کیلئے اجازت طلب کی ہے ، جبکہ فی الحال لاہور اور کراچی سے مشہد کیلئے پروازیں چل رہی ہیں۔ایران سے گیس پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو فراہم کرنے کے بارے میں عزم کا اظہار کیا ۔ایرانی سفیر رضا امیری مقدم کا کہنا ہے کہ پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے اس بحران کو حل کرنے کیلئے ایران پاکستا ن کو سستی گیس، سستی بجلی اور سستا تیل فراہم کر سکتا ہے ۔ایرانی سفیر رضا امیری مقدم نے گذشتہ دنوں ایک سوال کے جواب میں چین کی کاوشوں سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے متعلق پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام میں ھمسائے کا بلند مقام اور حقوق ہیں۔ کسی ایک ھمسائے کو شکل ہو تو دوسرے کو اس کی مدد کرنی چاہئے ۔
ایران اور پاکستان کے مابین قدیم ثقافتی، تاریخی، دینی و ادبی رشتے ہیں۔ بہت کم ممالک ایسے ہوں گے جو ایران و پاکستان کی طرح بہت سے رشتوں میں منسلک ہوں۔ ہم ایسی گراں قدر ثقافتی مشترکات کے مالک ہیں جو ہماری شناخت کا جزو ہیں۔ فارسی زبان، 800سالہ تاریخ، فارسی زبان میں علمائ، حکمائ، شعرائ اور بزرگان دین کے قدیم آثار و مکتوب، پاکستان کی لائبریریوں میں موجود فارسی زبان میں تحریر ہزارہا قلمی نسخے ، فارسی زبان کا اردو زبان کی تشکیل میں خاص کردار، دونوں ممالک کے شعرائ، مثلاً حافظ، سعدی، مولانا رومی، علامہ اقبال کے علاوہ ثقافت و ادب سے وابستہ دیگر نامور شخصیات کی دو طرفہ مقبولیت، یہ وہ بنیادیں ہیں جنہوں نے دونوں ممالک کے عوام کو برادرانہ مضبوط رشتوں سے جوڑ دیا ہے ہمیں چاہئے کہ اس مشترک میراث کی قدر کریں اور آئندہ کی نسلوں تک پہنچانے کیلئے اس کی حفاظت کریں۔ ان رشتوں کومظبوط بنانے کے لئے ، اساتذہ طلبہ، اہل علم و دانش اور ہنر مندوں کے وفود کے تبادلے یقیناً ایک دوسرے سے مزید آشنائی کا سبب بنیں گے جس پر ہمیں توجہ دینا ہے ۔ ایران و پاکستان کے درمیان قراردادوں اور معاہدوں کی کمی نہیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ مصمم عزم و ارادہ ہے جو ان معاہدوں میں روح ڈال سکے ۔ امید ہے کہ دونوں ممالک کے حکام اور عوام کی جاری کوششیں ماضی کی کمی کو پورا کرنے اور اپنے بلند مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کو بجلی، پٹرول اور گیس کے شدید بحران کا مسلسل سامنا ہے ۔ اوراس بحران کے حل میں مدد کے لئے ایرانی حکومت بارہا خواہش کا اظہار کر چکی ہے ۔ لیکن جانے کون سی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے اس پر زیادہ پیشرفت نہیں ہوسکی ہے ۔ ہمارے ساتھ ہی موجود برادر ہمسایہ ملک ایران میں اس وقت پٹرول 15 روپے لٹر ہے ۔ اسی طرح گیس اور بجلی انتہائی سستی ہے ۔ لیکن ہم یہ سہولیات ایران سے لینے سے معذور ہیں۔ ہم دور دراز سے مہنگا پٹرول تو خرید سکتے ہیں لیکن اپنی عوام کو سہولت دینے میں ہمت نہیں دکھا سکتے ۔ اپنی غریب عوام پر جتنا مرضی بوجھ لادتے جارہے ہیں لیکن بیرونی طاقتوں کے سامنے بے بس ہیں۔ آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر ہماری حکومت عوام کو بجلی کے بلوں میں رلیف نہیں دے سکتی۔ گذشتہ حکومت مہنگائی ختم کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئی آئی اورعوام کو مزید ہنگائی کے بجھ تلے دبا کر اپنی غلطیاں بھی گذشتہ حکومت کے کھاتے میں ڈال چکی ہے ۔ ساری پارٹیوں نے مل کر حکومت چلائی لیکن عوام کے لئے ایک دھیلے کی بھی کوئی سہولت نظر نہیں آئی بلکہ غریب عوام مہنگائی میںپس کررہ گئی ہے ۔ نتیجہ ھم سب کے سامنے ہے عوام بجلی کے بل جلارہے ہیں اور سڑکوں پر موجود ہیں، پہیہ جام ہڑتال شروع ہوچکی ہے لیکن عوام کو بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ نگران حکومت کیا کچھ کرے اس حکومت کا کام تو مقررہ مدت میں الیکشن کی راہ ھموار کرنا ہے ۔ ھم اس حد تک ان مشکلات میں جکڑ چکے ہیں کہ اس کا حل جمھوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت ہی نکال سکتی ہے ۔ لیکن ھماری گذشتہ حکومتوں نے کچھ ہمت دکھائی ہوتی اور ھمسایہ اوربرادر اسلامی ملک ایران سے ہی مدد لی ہوتی اور مستحکم بنیادوں پر عملی اقدامات کئے ہوتے تواس وقت پاکستان میں توانائی کا بحران شاید نہ ہوتا۔ مشکلات کا سامنا تو ایران کو بھی ہے جو مسلسل بین الاقوامی دشمنی اور پابندیوں کا شکار ہے لیکن انھوں نے جرات مندانہ اقدامات کر کے اپنے ملک کی عوام کو بہت ساری سہولیات مہیا کی ہیں۔ اور ایران دنیا بھر کی پابندیوں کے باوجود مسلسل ترقی کررہا ہے اور اس کی وجہ دنیا کے رویے کی پرواہ کئے بغیر اپنے ملک کے لئے بہترین اقدامات کرنا ہیں۔ ہمیں بھی اسی عزم کی ضرورت ہے کہ مجبوریوں کی بیڑیوں کو کاٹ ڈالیں اورصرف اپنے ملک کا مفاد سوچیں۔ دنیا کی پرواہ کئے بغیر ہمیں ایران کی پیشکش کو اپنانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے ۔ کیونکہ پاکستان اور ایران بہت سارے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔
"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" روزنامہ مشرق

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" مارگلہ نیوز پر
https://www.facebook.com/photo/?fbid=710115737822597&set=pcb.710118074489030

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" 5CN پر
https://5cntv.com/urdu-newsiran-committed-to-help-pakistan/?fbclid=IwAR0BHy7c5a5PwML7witro1yQ_cJtznVsEvPUm4X6ItGZx7LOstS6GFvq02Y

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" سیاسیات پر

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" فوکس ٹوڈے پر

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" اسلام ٹائمز پر
https://www.islamtimes.org/ur/article/1079533/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%AF%D8%AF-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92-%D9%BE-%D8%B1%D8%B9%D8%B2%D9%85?fbclid=IwAR17X40tgmRcejQUsv8Bwt9usmyb4KkdHNvbol_4dcm9cPVRFLZtwibZWTU

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" فیملی میگزین میں
https://family.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/lahore/2023-09-10/page-36
.jpg)
❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
کیا ہم خود بھی گستاخ تو نہیں؟ یہ تحریر میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوئی۔
تحریر: شبیر احمد شگری
حال ہی میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے افسوسناک واقعے پر ساری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ یہ پرامن احتجاج مسلمانوں کا حق تھا جس کی وجہ سے غیر مسلموں کی اس شدت پسندی کی پوری دنیا میں حوصلہ شکنی ہوئی۔ لیکن پھر اچانک کیا ہوا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں اقلیتوں کا تحفظ آئین وحکومت کی ذمہ داری ہے اتنا بڑا افسوسناک واقعہ پیش آگیا کہ ہمیں اپنے اقلیتی بھائیوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کون سی سازش ھے کیا اس کے ذریعے پوری دنیا میں قرآن کی بےحرمتی کے خلاف ھونے والے مظاہروں اورواضح موقف کو نقصان پہنچایا گیا یا ملک عزیز کے امن کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی۔ اگر کسی نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی تواس کی تحقیقات متعلقہ اداروں کا کام ھے۔اس کے لئے قوانین موجود ہیں۔ نہ کہ ہم خود قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ھم عملی سے زیادہ جذباتی مسلمان ہیں۔ حالانکہ ہمارے لئے واضح نمونہ عمل کلام خدا رسول پاک اور ان کے اہلبیت کی سیرت سب کچھ موجود ھیں۔ ھمیں اپنے معاملات میں اس پر عمل کرنا چاہئے۔ جس نبی پاک کا ھم کلمہ پڑھتے ہیں کیا ھماری سوچ ان سے بھی بڑھ کر ہے؟ ہمارا ہر عمل ان کی سیرت کے مطابق ھونا چاہئے۔ جذباتیات میں آکر کہیں ھم خود قرآن پاک کی اور رسول پاک کی گستاخی تو نہیں کررہے۔ کیا دوسروں کا عمل برا اور ھم خود جومرضی کریں اچھا ھے؟. حالیہ جڑانوالہ کے واقعے نے بہت سے سوالات پیدا کردئیے ہیں۔ اس کا جواب رسول پاک کی سیرت سے تلاش کریں اور حضور پاک کے عیسائیوں سے کئے گئے وعدے کو یاد کریں۔ تو بحیثیت مسلمان شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ھم نے خدا کے رسول کے احکامت کی توہین کی ہے۔
سینٹ کیتھرین کی خانقاہ جدید مصر میں دنیا کی قدیم ترین خانقاہ ہے۔ یہاں عیسائی مخطوطات کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ ہے۔اس خانقاہ کو عالمی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں پر عیسائیت کی سب سے پرانی اور نایاب تصاویر بھی موجود ہیں۔ یہ عیسائی تاریخ کا ایک ایسا خزانہ ہے جو چودہ سو سال سے مسلمانوں کی حفاظت میں سنبھال کر رکھا گیا ہے۔
یہ 628 عیسوی کی بات ہے جب سینٹ کیتھرین کی خانقاہ کا ایک وفد نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور ان سے پناہ دینے کی درخواست کی۔ جس پر آپ نے انہیں حقوق کا پورا ضابطہ عطا کیا۔ اور سینٹ کیتھرین کے ساتھ عہد کیا گیا۔
” یہ پیغام محمد ابن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ، چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک، ایک عہد ہے کہ ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ بے شک میں، میرے خدمتگار، مددگار اور پیروکار ان کا تحفظ کریں گے کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں؛ اور خدا کی قسم میں ہر اس بات سے اجتناب کروں گا جو انہیں ناخوش کرے۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا۔ نہ ان کے منصفوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ نہیں کرے گا، نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ وہاں سے کوئی شئے مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔ اگر کسی نے وہاں سے کوئی چیز لی تو وہ خدا کے عہد کو توڑنے اور اس کے نبی کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔ بے شک وہ میرے اتحادی ہیں اور انہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں سفر کرنے یا جنگ پر مجبور نہیں کرے گا۔ ان کے لئے جنگ مسلمان کریں گے۔ اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان سے شادی کرے گی تو ایسا اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو گا۔ اُس عورت کو عبادت کے لئے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ ان کے گرجا گھروں کا احترام کیا جائے گا۔ انہیں گرجا گھروں کی مُرمت یا اپنے معاہدوں کا احترام کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ (مسلمانوں کی) قوم کا کوئی فرد روزِ قیامت تک اس معاہدے سے رُوگردانی نہیں کرے گا۔”
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمائے ہوئے اس واضح لائحہ عمل پر میں اس سے زیادہ بات اس لئے نہیں کروں گا کہ میرے نبی پاک کے اقلیت کو دئیے گئے اس تحفظ کے بعد اس سے آگے کیا رہ جاتا ھے۔ صرف اطاعت اور یا نافرمانی رہ جاتی ہے۔
قرآن پاک کی بے حرمتی چاہے کچھ دن پہلے والی ہو یا حالیہ جڑانوالہ والی۔ ان بدبختوں کو اس کی جو سزا ھے ضرور ملنی چاہئے۔ اگر کوئی قانون نہ بھی دے تو اللہ کا قانون انصاف پر مبنی ہے۔اس سے مبرا کوئی نہیں بے شک اس پر پرامن احتجاج ھمارا حق بنتا ھے۔مگر ذرا سوچیں ہم مسلمان کفار کی صرف قرآن اور رسول پاک کی گستاخی پر سیخ پا ھوجاتے ہیں۔ لیکن معذرت کے ساتھ کہیں رسول پاک اور قرآن پاک کی شان میں زیادہ گستاخی خود ھم تو نہیں کررہے ہیں۔ قرآن کو صرف چوم کر اونچے طاقوں میں رکھ دینا یہ قرآن کا احترام نہیں ھے۔ اس کو نہ پڑھنا اور پڑھ کر عمل نہ کرنا یہ اللہ سے گستاخی ہے۔ ھم دن رات جھوٹ بول رہے ہیں چوری، دھوکہ فراڈ، نماز نہ پڑھنا، روزہ نہ رکھنا، غیبت، دوسرے بھائیوں کو تکلیف دینا، زیادتی کرنا تو معاشرے کی ایک عام سی صورتحال ھے۔ کیا رسول پاک نے ان باتوں سے ہمیں منع نہیں فرمایا؟ ہم میں موجود یہ اعمال رسول پاک کے تعلیمات کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور ان کی شان میں گستاخی نہیں؟ کیا ھم خدا کے احکامات کی ڈھیٹ پنے سے دھجیاں نہیں اڑارہے؟ طاقت ور کا کمزور پر ظلم روز بروز بڑھتا جارہا ھے۔ کیا یہ اللہ اور رسول کی گستاخی نہیں ہے۔ ہم اپنے رسول اور قرآن کے احکامات کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کریں۔ بس کوئی غیرہمارے خدا کو ھمارےرسول کو ہمارے قرآن کو کچھ نہ کہے۔استغفراللہ کیسا کھلا تضاد ہے۔ خدا سے رسول سے قرآن و اہلبیت سے ہمارے رشتے صرف جذباتی ہی نظر آتے ہیں حالانکہ عملی صورت میں کردار کی شکل میں نظر آنے چاہئے تھے۔
اللہ پاک ھم سب کو خدا اس کے رسول اور اہلبیت کرام کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین یا رب العالمین
میں نے ایک عام معاشرے کی صورتحال بیان کی ہے جس میں میں خود بھی شامل ہوں میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ھے۔ لیکن جڑانوالہ کا افسوسناک واقعہ اور اسی طرح کے دیگر واقعات پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ یہ سیرت اور احکامات رسول کے خلاف ہے۔ مگر میں کس سے شکوہ کروں سکول اور تعلیمی اداروں کے نصاب سے رسول پاک اور اسلام کی عظیم ہستیوں کی تعلیمات کو موثر اور جدید انداز میں فروغ دینے کی بجائے ان کو کم کیا جارہا ہے ہٹایا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ سے مذہبی ہم آھنگی پر بات کرنے کی بجائے شرپسندی والے بل پاس کئے جارہے ہیں۔اتحاد کی بجائے ہم فرقوں سے نہیں نکل رہے۔ ابھی جڑانوالہ کا زخم ہرا ہے۔ جس پر میڈیا سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر تبصرے ہورہے ہیں لیکن یہ بھی شاید بہت سے دوسرے زخموں کی طرح وقت کی بے حسی کی مٹی تلے دب جائے گا۔کیونکہ شاید ماضی کی طرح اس واقعے کا علمی وعملی سدباب تو کوئی ھونا نہیں ھے۔ اور پھرھم خدانخواستہ اسی طرح کے کسی اور واقعے تک اسے بھی بھول چکے ہوں گے۔
روزنامہ مشرق میں میرا کالم "ھم خود بھی گستاخ تو نہیں" پڑھنا نہ بھولیں۔ https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-08-21/1

"ھم خود بھی گستاخ تو نہیں" اسلام ٹائمز پر
https://www.islamtimes.org/ur/article/1076832/?fbclid=IwAR3JBERN74CKq7pJoQiFqtdwgMJCFBQWn0OaiUPtARSdBamRXh5MMkwyQGU

"ھم خود بھی گستاخ تو نہیں" سیسیات پر شائع ہونے والی تحریرکا لنک
https://siasiyat.com/%da%a9%d8%a7%d9%84%d9%85%d8%b2/%da%a9%db%8c%d8%a7-%db%81%d9%85-%d8%ae%d9%88%d8%af-%d8%a8%da%be%db%8c-%da%af%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d8%ae-%d8%aa%d9%88-%d9%86%db%81%db%8c%da%ba%d8%9f/?fbclid=IwAR0MpVRO7KSzgVg2umETR-_VF589LW7Oti1x88m1Q5LfQl7PE8-e_T6L83s
"حجت الاسلام والمسلمین آغاسیدحیدر علی موسوی" کی برسی کے موقع پر مرحوم کی زندگی پر آغاسید حیدر موسوی مرحوم خطابت،فصاحت اور بلاغت پر خوب دسترس رکھتے تھے۔
آغا حیدر علی موسوی مرحوم کی دوسری برسی کے موقع پر
تحریر: شبیر احمد شگری
آغا حسن موسوی مرحوم وہ عظیم عالم باعمل شخصیت تھے جنھوں نے جب لاہور کی سرزمین پر قدم رکھا اور اپنی فیملی سمیت موچی دروازہ لاہور تشریف لائے تو موچی دروازہ لاہور کے افراد آپ کے علمی شخصیت سے اس قدر متاثر اور گرویدہ ہوئے کہ انھوں نے موسوی خاندان کو ہمیشہ کے لئے لاہور رہنے پر مجبور کردیا۔مسجد کشمیریاں کی رونقیں اور موچی دروازہ لاہور کے مکینوں نے اس محبت کا ثبوت اور بھرم آج تک قائم رکھا ہوا ہے کہ آ ج آغا حسن مرحوم کی تیسری نسل اس جگہ پر اپنی علمی اور دینی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ آغا حسن مرحوم کے بعد ان کے بیٹے آغا سید علی موسوی مرحوم نے بھی پاکستان کے جید علما میں ایک ممتاز نام پیدا کیا اور علمائے شیعیت کے رہبر بالخصوص وحدت اسلامی کے لئے عظیم خدمات انجام دیں۔ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند آغا سید حیدر موسوی مرحوم اپنے والد اور دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آخر عمر تک مسجد کشمیریاں کی دینی سرپرستی کے ساتھ ساتھ بیشمار علمی اور دینی خدمات انجام دیتے رہے۔
اور یہی سلسلہ اور فرائض ان کے بیٹے آغا جواد موسوی ادا کررہے ہیں۔
آغا سید حیدر موسوی مرحوم 1953 میں نجف اشرف عراق جیسے علمی شہر میں پیدا ہوئے۔ آغا سید علی موسوی کے آپ سب سے بڑے فرزند تھے۔ آپ کو بلتی، فارسی ،اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ سول لائن کالج لاہور سے ایف اے کی تعلیم 1973 میں مکمل کرنے کے بعد آپ ائیرفورس جوائن کرنے کے مراحل میں تھے۔
لیکن آپ کے دادا آغا سید حسن الموسوی مرھوم نے انہیں دینی تعلیم کے لئے راغب کیا۔اور قم المقدس بھیجا وہاں آپ کی تعلیمی کفالت آیت اللہ شیخ علی بوستانی شگری رحمت اللہ علیہ کے ذمے تھی۔آپ نے ادبیات کے لئے آیت اللہ محمد علی مدرس افغانی، فقہ کے لئےآقائے وجدانی، درس اصول آیت اللہ مصطفی اعتمادی، مکاسب آیت اللہ ابوالفضل تبریزی اورتفسیر قرآن کے لئے آیت اللہ جواد آملی جیسے عظیم اور جید علما کی شاگردی حاصل کی جس کی وجہ سے وہ ان تمام علوم پر بہت گرفت رکھتے تھے۔
اور پھر درس و تدریس کا یہ سلسلہ ساری عمربھر جاری رہا۔انقلاب اسلامی ایران
کی تحریک میں بھی آپ نے بھرپور حصہ لیا۔آپ ھمیشہ اول وقت میں نماز ادا کرتے تھے۔ اول وقت نماز کی برکت سے انقلاب ایران کے دوران ایک دفعہ ان کی جان بھی بچ گئی جب وہ نماز ادا کرنے مسجد میں تھے توباہر موجود آپ کے دوستوں کو شاہ کے سپاہیوں نے شہید کردیا تھا۔
آپ کو تبلیغ کے لئے والد محترم نے سکردو میں اپنے آبائی گاوں حسین آباد بھیجا جہاں آپ نے تبلیغ کے ساتھ حسین آباد کی مرکزی مسجد میں نماز باجماعتپڑھاتے رہے۔
1983 میں آپ دینی تعلیم کے لئے دوبارہ قم المقدس چلے گئے اور علمی میدان میں نہایت جانفشانی سے تدریس کا سلسلہ جااری رکھااور اس دوران آپ کو اللہ نے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں۔
پاکستان واپس آکر آپ نے فیصل آباد میں مدرس کے طور پہلی دفعہ تدریس کا سفر شروع کیا اور جامعہ علوم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے پرنسپل مقرر ہو ئےجس سے آج تک شاگرد فیضیاب ہورہے ہیں۔
1991میں آپ فیصل آباد سے لاہور منتقل ہو ئے اور درسگاہ علوم اسلامی کی بنیاد رکھیاس کے ساتھ ساتھ جامع مسجد کشمیریاں میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
ان کے نام پر بنایا گیا کاروان حج حیدری برصغیر کا پہلا حج کاروان تھا جس کی بنیاد ان کے والد صاحب آغا سید علی موسوی نے رکھی۔
2012 میں آپ کے والد مرحوم کی وفات کے بعد ساری ذمہ داری آغا حیدر موسوی مرحوم کے کندھوں پر آگئی۔ آپ کر دودفعہ قاتلانہ حملہ بھی ہوچکا تھا ایک فیصل آباد میں دوسرا مسجد کشمیریاں کے خودکش دھماکے میں جہاں سیکیورٹی گارڈ کی
قربانی کی وجہ سے آپ اور نمازیوں کی جان بچ گئی۔
ذکر حسین علیہ السلام سے اتنی محبت تھی کہ اندرون موچی گیٹ میں اپنے والد محترم اور دادا مرحوم کی یاد میں ایک امام بارگاہ کی بنیاد رکھی اور اس کا نام بھی حسینیہ دارالتوحید رکھا۔
آپ نے 26 حج ادا کئے۔ دودفعہ کربلا تشریف لے گئے اور ایک دفعہ شام کی زیارت کی۔آپ کی گفتگو میٹھی انداز بیاں شیریں ، حسن اخلاق سے بھرپور، معیاری اور ادبی ہوتی تھی۔والد صاحب کی طرح آپ بھی جوانوں سے بہت محبت کرتے تھے۔
آخری ایام میں اپنے صحت کے حوالے سے قرآن سے استخارہ کیا تواستخارہ آیاکہ آپ جنت کےباغوں میں ہونگے بہترین لباس زیب تن ہوگا نعمتوں سے بہرہ مند ہونگے تو مسکراتے ہوئے قرآن کو بند کردیا۔
الحاج آغا سید حیدر الموسوی اسلام آباد میں ایک ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں چند دن ہی زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کرگئے۔
آغا حیدر علی موسوی مرحوم کے جنازے مِیں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ آپ کو جامع مسجد سکردو میں غسل دیا گیا مولانا شیخ حسن جعفری نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔اور ہزاروں افراد کی آہوں اور سسکیوں میں آبائ گاوں حسین آباد میں اپنے دادا دادی کی قبور کے نزدیک اور والد مرحوم کے پہلو میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔
ویڈیو لنک۔
https://youtu.be/37a9GC2o8XU
❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
"پاک ایران تعلقات" کے حوالے سے شبیر احمدشگری کی
ایرانی وزیر خارجہ اور وزیر سیاحت کی پاکستان آمد کے موقع پر روزنامہ
بیتاب سے خصوصی بات چیت پر خصوصی ایڈیشن۔انٹرویو: ملک امداد الہی

روزنامہ مشرق میں میرا کالم "امام حسین ع کا مدینے سے کربلا کا سفر" کا پہلا حصہ پڑھنا نہ بھولیں۔
https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-07-29/1

روز عرفہ کا یادگار دن۔
تحریر: حاجی شبیر احمد شگری
آج کے دن ھم روز عرفہ میں تھے۔ حج اور زیارات ایسے اعمال ہیں جن کی تمنا ہر مسلمان کرتا ہے لیکن جو انسان حج و زیارات بجا لاتا ہے تو پھر اس کے دل میں کبھی ختم نہ ہونے والی تڑپ پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر انسان بار بار ان مقدس مقامات پر پہنچنے کی تمنا کرتا ہے۔ اور انسان کے لئے یہ سفر ھمیشہ کے لئے یادگار بن جاتے ہیں۔
عرفہ مناسک حج کے آغاز کا دن ہے۔اس روز تمام حاجی میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔دعا و استغفار کرتے ہیں اور رب کریم کی اتنی بڑی رحمت سعادت کی صورت میں حاصل ہونے پر سر بسجود ہیں۔ یوم عرفہ کی اہمیت صرف ایک حاجی کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔ اسی لئے اس دن کی مناسبت سے معصومین علیھم السلام سے منسوب دعائیں بھی ہیں۔جس میں مشہور ترین دعا، امام حسینؑ کی تعلیم کردہ دعائے عرفہ ہے.جسے امام حسینؑ نے خود میدان عرفات میں پڑھا ہے اس لئے تمام شیعیان عالم اگرچہ میدان عرفات میں حاضر نہ ہوں مگر اس دن اپنے مولا و آقا کی اقتداء کرتے ہوئے اس دعا کو پڑھتے ہیں۔ ایک حاجی جب عرفات میں اس دعا کو پڑھتا ہے تو وہ اس دعا اور عرفات کے ان روحانی لمحات کوساری زندگی یاد کرتا رہتا ہے۔
بالخصوص آج روز عرفہ والے دن دل میں بہت تڑپ پیدا ہوئی کہ ھم آج کے دن عرفات میں تھے۔ 2019 کا حج شاید میرے لئےکئی اعتبار سے بہت اہم تھا ایک تو یہ کہ میری زندگی کا پہلا حج تھا۔ دوسرے یہ انتہائی آزادی اور بغیر کسی پابندی کے ادا کئے جانے والا آخری حج تھا کیونکہ اس کے بعد تو کرونا کی وجہ سے جانے کتنی پابندیاں لگ گئیں۔ اور دوسال کے تکلیف دہ انتظار کے بعد حجاج کو حج نصیب ہوا۔ اس لحاظ سے میں خود کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس ذات رب کریم کا شکر ادا کرتا رہتا ہوں کہ اس مہربان رب نے کتنی بڑی مہربانی کی۔
اور کرونا کےسالوں میں حج کے دوران خانہ کعبہ میں صرف چند افراد دیکھ کر دل بھر آیا۔ کہاں 2019 کا حج جب کعبۃ اللہ شریف میں اتنا رش ہوتا کہ ھمیں حرکت کرنا مشکل ہوتی تھی۔ یہ بھی حج کا ایک خاص کلچر ہی تھا۔اس حج کا ایک اپنا ہی مزہ تھا اوراب وہ دھکم پیل بھی نہ رہی۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کےفرمان کے مطابق جو عرفات پہنچ گیا اور اس نے شک کیا کہ اس کے گناہ معاف نہیں ہوئے تو اس نے بڑا گناہ کیا۔ اللہ اکبر۔ معصومین ؑ کے اس فرمان کے مطابق بلاشبہ ھم جب دنیا میں آئے اس وقت کی طرح پاک صاف ہوچکے تھے۔ کتنی خوش قسمتی تھی جو اس مالک نے ہمیں عطا فرمائی۔ عرفات کے بارے میں مزید پڑھا تو معلوم ہوا کچھ گناہ ایسے ہیں جو صرف عرفات میں ہی بخشے جاتے ہیں۔ اس سے آپ عرفات کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
آج اس وقت ہم عرفات میں تھے اور دعائے عرفہ پڑھی جارہی تھی۔امام زمانہ عج بھی تو ضرور حج کے لئے تشریف لاتے ہوں گےظاہر ہے روز عرفہ ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ جب امام عج تشریف لاتے ہیں تو ابر رحمت برستی ہے۔ یقینا ایسا ہی ہوا کہ اچانک کالے بادل نجانے کہاں سے امڈ آئے اور خطرناک گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہوگئی۔ اور گرج چمک اور بارش کا اتنا شور تھا کہ خیمے میں مولانا صاحب جس سپیکر پر دعا پڑھ رہے تھے اس کی آواز بھی اس شور میں دب چکی تھی۔ ٹینٹ میں جگہ جگہ پانی ٹپکنے لگا تھا۔ لگتا تھا ہوا کسی وقت ٹینٹ کو اکھاڑ کر ہوا میں اڑا لے جائے گی۔ ٹینٹ کے قالین پانی میں ڈوب چکے تھے۔ ھم سمیت عرفات،مزدلفہ اورمنٰی کے لئے جو سامان ھمارے ساتھ تھا وہ بھی بھیگ چکا تھا۔ لیکن ھمیں کہاں کسی چیز کی ہوش تھی۔ستر ماؤں سے زیادہ مہربان رب کے حضور ھماری دعائیں، فریادیں اورچیخ و پکار گرج چمک اور بارش کے شور میں دب رہی تھیں۔ ایک عجب روحانی ماحول اور کیفیت سب پر طاری ہوچکی تھی۔ گناہوں کے بخشے جانے کی خوش خبری سے موت کا خوف ختم ہوچکا تھا اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمنا بھی تمام ہوچکی تھی۔ کیونکہ اپنے حقیقی اور مہربان رب سے ہمارا براہ راست رابطہ قائم ہوچکا تھا۔ ہم ایک دعا مانگتے تو بجلی ایسے کڑکتی اور ایسی گرج ہوتی کہ جیسے ہمیں رب کی طرف سے جواب مل رہا ہو ۔ قبول کیا اور مانگ! باقی حاجی نہیں معلوم کیا دعائیں مانگ رہے تھے لیکن میرے لبوں پر یہ دعا بھی خصوصی طور پرتھی اے مالک مہربان تو نے بخش دیا تیرا بہت شکریہ بس اب ایک ہی دعا ہے کہ مجھے یہیں موت آجائے۔ کیونکہ آج ھم گناہوں سے پاک ہوچکے اب ہمیں لوٹ کر پھر اسی گناہ گار زندگی میں نہیں جانا جہاں پھر گناہ کے مواقع موجود ہوں گے۔ میرے مالک ہم خطاکار ہیں کہیں غلطی سے بھی پھر کوئی گناہ نہ کر بیٹھیں اور تجھ سے پھر شرمندگی اٹھانا پڑے۔ ہمیں گھر واپس نہیں جانا ہمیں اپنے گھر والوں کی بھی ضرورت نہیں ہمیں صرف تو عزیز ہے بس ہمیں یہیں موت دے دے تاکہ پھر کوئی گناہ ھم سے سرزد نہ ہوسکے۔
صحیح معنوں میں ان روایات کا اسی روز عرفہ کے دن پتہ چلا کہ قیامت کے دن قریبی رشتے بھی ایک دوسرے کو نہیں پہچانیں گے۔ اور عرفات میں ھمارا بھی یہی حال تھا کہ ہم گھروالوں،خاندان دنیا ہر چیز سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ اصل میں حقیقت بھی تو یہی ہے۔ جب ہمیں موت آئے گی تو کتنے ہی عزیز رشتہ دار گھر والے کیوں نہ ہوں ہمیں منوں مٹی تلے دبا کر ہمارے ہمارے اعمال کے ساتھ ہمیں چھوڑ کر واپس دنیا کی رونقوں میں لوٹ جائیں گے۔
اس موقع پر لاہور کے مشہور قافلہ سالارالحاج شیخ علی جاویدجعفری صاحب نے مجھے بتایا کہ شگری صاحب آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ نےاس طرح کی باران رحمت دیکھی مجھے 21 سال ہوگئے ہیں حج کاروان لاتے ہوئے میں نے آج تک ایسی بارش نہیں دیکھی۔ رب کی اس خصوصی رحمت کا دل سے شکرادا کیا۔
خیر بارش اس وقت تھمی جب ہمیں مزدلفہ کےلئے روانہ ہونا تھا۔ اور آج رات ہمیں کھلے آسمان تلے گزارنی تھی۔ یوں ھم عرفات سے ابراور رحمتیں سمیٹتے ہوئے مذلفہ کے لئے روانہ ھوگئے۔
شبیر احمد شگری ۔
ایران سعودیہ بہتر تعلقات مزارات بقیع کی تعمیرکے لئے امید کی کرن ہیں۔
تحریر: شبیر احمد شگری
گذشتہ دنوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری سے نہ صرف عالم اسلام میں وحدت کی فضا قائم ہوگی بلکہ ان شااللہ عالم اسلام کے کچھ دیرینہ مسائل کا حل بھی نکلنے کی امید ہے۔ 2019 میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کےلیے عمران خان نے کردار ادا کیا تھا اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے دورے کئے اور سربراہان سے ملاقاتیں بھی کیں۔ ایران کے سابق صدر نے بیان بھی دیا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت کا آغاز کیا گیا ہے۔طویل عرصے کی برف پگھلنے میں بھی تھوڑا وقت لگا اور بالآخر سرکاری سطح پر دونوں ممالک کے درماین تعلقات میں بہتری آئی۔ جس کا عالم اسلام نے خیرمقدم کیا۔ دونوں اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ یمن، اور شام کے مسئلے کے علاوہ سعودی عرب کا امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات تھے۔ کیونکہ ایران نے ہمیشہ دنیا کے مظلوم اور بالخصوص اسلامی ممالک میں کسی بھی جارحیت کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ ان سے ہمدردی کے علاوہ ان کی بھرپور حمایت سے دریغ نہیں کیا ہے۔ خصوصا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ایران کا موقف اور حمایت بالکل واضح رہی ہے۔
سعودی عرب مکہ میں عظیم فریضہ حج اور مقدس مراکز خانہ کعبہ اور مسجد نبوی، جنت البقیع اور دیگر مقامات کی وجہ سے تمام دنیا کے مسلمانوں کی عقیدت یہاں سے جڑی ہے۔ اگرچہ آل سعود کے بہت سے اقدامات نے مسلمانوں کے دل کو بہت ٹھیس بھی پہنچائی ہے۔ لیکن ان مقدس مقامات کی وجہ سے مسلمان مجبور تھے۔ اس میں سب سے بڑا واقعہ اکیس اپریل انیس سو چھبیس مطابق آٹھ شوال کو پیش آیا جب آل سعود نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر تسلط حاصل کیا توانہوں نے قبرستان "بقیع" اور حضرت رسول خدا صلی اللہ آلہ انکے اہلبیت علیہم السلام اور اصحابہ منتجبین کے آثارکو مسمار کرنا شروع اوردشمنی اہلبیت ؑمیں اب تک بیشمار مقدسات کوبدعت کی آڑ میں شہید کرچکے ہیں۔ اس لئے 8 شوال کو انہدام جنت البقیع کے دن پر ہر سال سوگ منایا جاتا ہے۔ اس تاریخی قبرستان میں دختر رسولؐ گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاسے منسوب قبر کے علاوہ حضرت فاطمہؑ بنت اسد، حضرت امام حسنؑ، حضرت امام زین العابدینؑ، حضرت امام محمد باقرؑ اور حضرت امام جعفر صادقؑ جیسی عظیم المرتبت ہستیوں کے مزارات اقدس موجود ہیں۔ ان ہستیوں کے علاوہ بھی صدر اسلام کی کئی مقدس ہستیاں اور اکابر اس قبرستان میں دفن ہیں۔ آلِ شیخ اور آلِ سعود خاندان کی مشترکہ سازشوں اور ملی بھگت سے عالم اسلام کے ایک سرمائے کو نابود کر دیا گیا۔ ائمہ بقیع کی قبروں پر واقع قیمتی فولادی تعویذ قبر جسے اصفهان، ایران کے مایہ ناز ماہر اہل فن نے بنایا تھاوہابی آل سعود اسے بھی اکھاڑ کر چرا لے گئے۔
بقیع کی تباہی کے ساتھ ہی مسلمانوں نے سعودیوں کے اس فعل کی مذمت کی اور بقیع کی تباہی کے خلاف احتجاج کیا اور نہ صرف قم اور نجف کے مدارس کے علماء نے بلکہ ہندوستان اور دیگر اسلامی ممالک کے مسلمانوں نے بھی ردعمل کا اظہار کیا۔ اسی بنا پر ایران اور نجف کے علمائے کرام نے مشترکہ اجلاس منعقد کیے اور مکہ میں مسلمانوں کی بدامنی اور سیکورٹی کے فقدان کی وجہ سے حج بھی ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا۔پوری دنیا کے شیعہ سنی مسلمان نےبھرپور احتجاج اور شدید غم و غصےکا اور آل سعود سے نفرت کا اظہار کیا تو وہ اس مزاحمت سے ڈر گئے اور وہ مکمل منصوبہ بندی کے باوجود حرم نبوی کو منہدم کرنے کی جراّت نہ کر سکے۔ مسلمانوں کی شدید مذاحمت اور شیعہ علماء اور ایرانی حکومت کی جانب سے ائمہ بقیع پر بارگاہوں کی تعمیر اور جنت البقیع کے قبرستان کے ارد گرد چاردیواری کے مطالبے پر سعودی عرب کی جانب سے مزارات کی تعمیر پر رضامندی بھی ظاہر کی گئی ۔اس وقت کے سعودی بادشاہ نے اس درخواست کو قبول کر لیا اور یہاں تک کہ بقیع کی زیارت اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت کی دستاویز بھی تحریر کی مگر
اسے اب تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اب تک مذہبی شدت پسندی کو رواج دیا ہےجس کا اقرار خود محمد بن سلمان نے ایک انٹرویو میں کیا۔ لیکن اب شاید اسے بھی یہ بات محسوس ہورہی ہے کہ دوسرے عرب ممالک ترقی کررہے ہیں اس لئے کچھ اصلاحات کی جائیں اور صرف حج کے موقع پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ مقدس مقامات پر پوری دنیا سے حاضری کی وجہ سے کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہر سال عاشورہ اور اربعین کے موقع پر حج سے بھی کئی گنا زیادہ مسلمان عراق ،کربلا ، شام میں حاضری دیتے ہیں۔جن کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے۔تو شاید سعودی حکومت اس وجہ سے ہی ان مزارات کی تعمیر کی اجازت دے دے تاکہ دوسرے ممالک میں جانے والے مسلمان زائرین یہاں بھی آئیں اور ان مزارات کو انہدام کرنے اور بدعت کی آڑمیں جو انھوں نے مسلمانوں کو اذیت دے رکھی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کی نفرت میں اضافہ ہوا شاید اس میں بھی کچھ کمی آسکےجس سے لامحالہ سعودی عرب کو ہی فائدہ ہوگا۔کیونکہ ابھی تک تو جنت البقیع میں موجود آئمہ طاہرین ؑ کے انہدام شدہ مزارات اور دیگر قبور کے قریب بھی مسلمانوں کو جانے نہیں دیا جاتا۔آل سعود کی جانب سے شرک کے فتووں کے جواب میں رہبر معظم حضرت سید علی خامنہ ای تکفیری تحریک کی سوچ کو عالم اسلام کی آفات میں سے ایک آفت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کسی شخص کی قبر پر جانا اور اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا مانگنا۔ اپنے لیے رحمت مانگنا۔ کیا شرک ہے؟ بلکہ انسان کو برطانیہ اور امریکی سی آئی اے انٹیلی جنس پالیسیوں کا آلہ کاربننا شرک ہے۔ ان حرکتوں سے مسلمانوں کے دلوں رنجیدہ ہوتے ہیں۔ وہ زندہ ظلم کے سامنے اطاعت کو شرک نہیں سمجھتے، بڑوں کی عزت کو شرک سمجھتے ہیں! یہ بذات خود ایک المیہ ہے۔ آج اسلامی دنیا میں جو شر انگیز تکفیری رجحان ہےاسلام کے مصائب میں سے ایک ہے۔
سعودی نہ صرف مدفون ائمہ کے مزارات اور مزارات کی تعمیر کی اجازت نہیں دیتے بلکہ زیارتوں پر بھی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ کسی کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ وہ زیارت پڑھے اور اہل بیت علیہم السلام کے لیے آنسو بہائے۔
گذشتہ دنوں ایران اور سعودیہ کی صلح کو لے کر سوشل میڈیا پر بہت پوسٹس وائرل ہوئیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنت البقیع کے مزارات کی تعمیر پر معاہدہ طے پاگیا ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ایران کی جانب سے ابھی تک سرکاری یا غیر سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن امید قوی ہے کہ صلح کے بعد جو بھی پیشرفت ہوگی اس میں ایران کی جانب سے یہ اولین مطالبہ ہوگا کہ بقیع میں آئمہ کے مزارات کے حوالے سے جو دیرینہ معاہدہ پہلے ہی سے ہوچکا ہے اس پرعمل در آمد کیا جائے۔ او پوری دنیا کے طرح یہاں عظیم الشان مزارات تعمیر ہوں۔ تاکہ پوری دنیا سے محبان اہلبیت علیھم السلام یہاں آکر حاضری دے سکیں۔ اس سلسلے میں پوری دنیا کے محبان اہلبیت ؑ اس وقت ایران کی حکومت کی جانب توقع لگائے بیٹھے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ ایران ان مقدس مقامات کو تعمیر کروائے۔ اور جس طرح دیگر مقدس مقامات کی ضریح ایران کی جانب سے نصب کی گئی ہیں یہاں بھی نصب کی جائیں اور شاندار روضے تعمیر ہوسکیں۔
یہ بہترین موقع ہے کہ تباہ شدہ دربار اور مزار کو دوبارہ تعمیر کرنے کے قابل بنایا جائے۔ اور جب مذاکرات ہورہے ہیں تو اس اہم معاملے کی پیروی ضرورکی جائے اور سعودی عرب کو اس کا وعدہ یاد دلایا جائے کہ98 سال گزرنے کو باوجود بقیع میں مدفون ائمہ کی قبور پرآج بھی دربار یا مزار نہیں ہے۔۔حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ ایران اس مسئلے سے غافل نہیں ہے۔
ایران کے حج و زیارت کی تنظیم نے حالیہ برسوں میں بقیع کی تعمیر نو کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اور بقیع کمیٹی تشکیل دے کر بقیع کے ماڈل کی نقاب کشائی بھی کی ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ بقیع کی تعمیر کے لیے تیار ہے۔
بحرحال اس وقت مسلمانوںکے لئے ایران اور سعودیہ کے تعلقات میں پیشرفت سے مزارات جنت البقیع کی تعمیرکے لئے امید کی کرن پیدا ہوگئی ہے۔
"ایران سعودیہ بہتر تعلقات مزارات بقیع کی تعمیر کے لئے امید کی کرن" کے موضوع پر میری تحریر آج کے روزنامہ مشرق میں پڑھنا نہ بھولیں۔ 29 اپریل 2023
https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-04-29/1
شہادت امام علی علیہ السلام کے موقع پر میری تحریر پر پندرہ روزہ "پرچار" کا اسپیشل ایڈیشن ۔ 15 اپریل 2023

شہادت امام علی علیہ السلام کے موقع پر روزنامہ "صدائے وطن"میں میری تحریر" شہادت امام علی علیہ السلام"


شہادت امام علی علیہ السلام کے موقع پر روزنامہ قدامت میں میری تحریر" شہادت امام علی علیہ السلام"
.jpg)

یوم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے میری تحریر " آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت خدیجہ سے محبت و عقیدت" کے موضوع پر آج کےروزنامہ ایمرا کا خصوصی ایڈیشن


https://t.co/iGCK6v7dcy





https://www.islamtimes.org/ur/article/1035236



http://ur.imam-khomeini.ir/ur/c5_48080/%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA/%D8%B3%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D9%82%D8%A7%D8%B3%D9%85-%D8%B3%D9%84%DB%8C%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%B9%DB%81%D8%AF-%D8%B3%D8%A7%D8%B2-%DA%A9%D9%85%D8%A7%D9%86%DA%88%D8%B1

https://globalaffairs.com.pk/2023/01/sardar-qasim-soleimani-a-covenant-making-commander/











https://www.islamtimes.org/ur/article/1030133
























https://www.irna.ir/.../%D9%86%D9%88%DB%8C%D8%B3%D9%86%D8...

https://www.islamtimes.org/ur/article/997379



https://www.tribunewired.com/2022/05/22/significant-progress-in-pak-iran-joint-trade/









برکات رمضان اور قرآن و اہلبیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
"انقلاب کے بعد کا ایرانی سینما"
تحریر: شبیر احمد شگری ۔
روزنامہ الشرق
روزنامہ الشرق ۔ 18 جنوری 2012
ایرانی سینما کے بارے میں چھپنے والا خصوصی ایڈیشن۔
تحریر شبیر احمد شگری روزنامہ الشرق۔ 15ستمبر2011
Shabbir ahmad shigri has written more than 300 columns, articles and scripts on Islamic cultural and political topics. Which are printed in domestic and foreign newspapers and magazines. Which gets a lot of praise.
His columns and articles adorn major newspapers and magazines in Pakistan and other countries. These articles are in Urdu, Persian and English
He has also written a beautiful book on Iran called "سیاحت ایران". This book is in Urdu language and it is described in detail in Iran.Everything has been tried through pictures. This is the only unique book in the Urdu language in terms of design and information.
Click to view his article page. https://web.facebook.com/shigriscolumns/ https://web.facebook.com/shigriscolumns
No comments:
Post a Comment