Search This Blog

Columns

شبیر احمد شگری کی تحریریں جو مختلف اخبارات اورمجلات میں کالمز اورخصوصی ایڈیشن کی صورت میں چھپ چکے ہیں۔
ریکارڈ پر موجود تحریروں کی تعداد تقریبا:  300
مکمل  صفحے پر مشتمل خصوصی اشاعتوں کی تعداد: 80
        ❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞


یوم اقبال کے حوالے سےمیری تحریر"حضرت اقبال اور فارسی زبان" کی اسلام ٹائمز، ابلاغ اور روزنامہ ایمرا میں خصوصی اشاعت۔
حضرت اقبال ؒ اور فارسی زبان
تحریر: شبیر احمد شگری
مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا محمدعلی ،مولانا شوکت علی،حضرت قائد اعظم محمد علی جناح جیسی نمایاں شخصیات، جن کی زندگی بھی حضرت اقبالؒ کی حیات کے مانند تھی۔یہ سب ایک ہی نسل اور عہد سے تعلق رکھتے تھے اوران کا شمار حریت پسندوں و مجاہدوں میں تھالیکن حضرت اقبالؒ کی شخصیت ان سے جداگانہ تھی، حضرت اقبالؒ کے کام کی عظمت کا موازنہ کسی اور سے نہیں کیا جاسکتا۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ باقی شخصیات کے کاموں کی اہمیت کم تھی لیکن حضرت اقبالؒ کا مسئلہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اسلامی دنیا اور مشرق کا مسئلہ تھا ۔انھوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔
حضرت اقبالؒ کبھی ایران نہیں گئے لیکن ان کی زیادہ شاعری فارسی زبان میں ہے ۔ حضرت اقبالؒ کی فارسی شاعری اور جو اہمیت وہ ایران کو دیتے تھے اس کی وجہ سے ایرانی قوم ان کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ ایران میں حضرت اقبال کو اقبال لاھوری کے نام سے جانا جاتا ہے اور لاھور کو بھی ایرانی انھی کے توسط سے پہچانتے ہیں۔ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای خود کو حضرت اقبالؒ کا مرید مانتے ہیں۔ اور ان سے عشق کا یہ عالم ہے کہ حضرت اقبال کے دو ہزار سے زائد اشعاران کو زبانی یاد ہیں۔خامنہ ای صاحب انقلاب ایران سے پہلے حضرت اقبالؒ پر کتاب لکھ چکے تھے ۔ اسی طرح شہید مطہری جیسی دانشور شخصیت بھی حضرت اقبال سے بہت متاثر تھی۔ ایرانی کہتے ہیں کہ حضرت اقبال انقلاب اسلامی ایران کی پیشگوئی کر چکے تھے ۔ انھوں نے فرمایا تھا۔
میرسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ ام از روزن دیورا زندان شما
اس شعر میں حضرت اقبالؒ فرما رہے ہیں کہ میں نے زندان کے دیوار کے سوراخ سے ایک مرد کو آتے دیکھا ہے جو غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالے گا۔ ایرانی اس شعر کو حضرت اقبالؒ کی حضرت امام خمینی ؒ کی آمد اورانقلاب اسلای ایران کی پیشگوئی کہتے ہیں۔ اس لئے بھی ایرانی قوم حضرت اقبالؒ کو بہت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ یہاں میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی اس تقریر کے چند جملے بھی بیان کرنا چاہوں گا جو انھوں نے 1986 میں کی تھی جب وہ ایران کے صدر تھے ۔ تہران میں ہونے والی اس تقریب میں حضرت اقبال کے بیٹے جاوید اقبال مرحوم اور ان کے بیٹے منیب اقبال نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ تقریر انتہائی پر اثر اور ایرانیوں کی حضرت اقبال سے محبت و جزبات کا بہترین اظہار بھی ہے ۔جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں پاکستان کے علاوہ دوسری قوموں نے حضرت اقبال سے کیا رہنمائی لی ہے ۔
آیت اللہ خامنہ ای صاحب فرماتے ہیں۔ وہ درخشاں ستارہ جس کی یاد ،جس کا شعر ،جس کی نصیحت اور سبق گٹھن کے تاریک ترین ایام میں ایک روشن مستقبل کو ہماری نگاہوں کے سامنے مجسم کررہا تھا،آج خوش قسمتی سے ایک مشعل فروزاں کی طرح ہماری قوم کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کیے ہوئے ہے ۔ہماری عوام جو دنیا میں اقبال کے پہلے مخاطب تھے ،افسوس کہ وہ کافی بعد میں اس سے آگاہ ہوئے ،ہمارے ملک کی خاص صورت حال ،خصوصاً اقبال کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے محبوب ملک ایران میں منحوس استعماری سیاست کا غلبہ اس امر کا باعث بنا کہ وہ کبھی ایران نہ آئے ۔فارسی کے اس عظیم شاعر جس نے اپنے زیادہ تر اشعار اپنی مادری زبان میں نہیں بلکہ فارسی میں کہے ،کبھی اپنی پسندیدہ اور مطلوب فضا،ایران میں قدم نہیں رکھا ،اور نہ صرف یہ کہ وہ ایران نہ آئے بلکہ سیاست نے ،جس کے خلاف اقبال عرصہ درازتک برسرِ پیکار رہے ،اس بات کی اجازت نہ دی کہ اقبال کے نظریات و افکار کا بتایا ہوا راستہ اور درس ایرانی عوام کے کانوں تک پہنچے جسے سننے کیلئے وہ سب سے زیادہ بے تاب تھے ۔اس سوال کا جواب کہ کیوں اقبال ایران نہیں آئے ،میرے پاس ہے ۔
جب اقبال کی عزت و شہرت عروج پر تھی اور جب بر صغیر کے گوشہ و کنار میں اور دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں انہیں ایک عظیم مفکر،فلسفی ،دانشور ،انسان شناس اور ماہر عمرانیات کے طور پر یاد کیا جاتا تھا،ہمارے ملک میں ایک ایسی سیاست نافذ تھی کہ ایران آنے کی دعوت نہ دی گئی اور ان کے ایران آنے کے امکانات فراہم نہ کئے گئے ۔سالہا سال تک ان کی کتابیں ایران میں شائع نہ ہوئیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس ملک میں ایرانی اور مسلمان کے تشخص کو نابود کرنے کیلئے غیر ملکی ادب و ثقافت کا تباہ کن سیلاب رواں تھا۔اقبال کا کوئی شعر اور کوئی تصنیف مجالس و محافل میں عوام کے سامنے نہ لائی گئی۔
آج اقبال کی آرزو یعنی اسلامی جمہوریت نے ہمارے ملکی میں جامہ عمل پہن لیا ہے ۔اقبال لوگوں کی انسانی اور اسلامی شخصیت کے فقدان سے غمگین رہتے تھے اور اسلامی معاشروں کی معنوی ذلت اور ناامیدی کو سب سے بڑے خطرے کی نگاہ سے دیکھتے تھے ،لہذا انہوں نے اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ مشرقی انسان اورخصوصاً مسلمان کی ذات اور وجود کیلیے کام کیا۔
اگر وہ آج زندہ ہوتے تو ایک ایسی قوم کو دیکھ سکتے جو اپنے پیروں پر زندگی بسر کرتی ہے ، اپنے قیمتی اسلامی دارالحکومتوں سے سیراب ہے ، خود انحصاری کرتی ہے ، اور مغربی غلامی اور مغربی اقدار کے نظام سے بے نیاز اور طاقتور زندگی گزارتی ہے اور اہداف پیدا کرتی ہے ۔ ان اہداف پر چلتی ہے ، اور خود کو قومیت اور وطن پرستی کی چار دیواری میں قید نہیں کرتی اور اقبال کے دوسرے خواب، جو ان کے گراں قدر اثرات میں بکھرے پڑے ہیں، اس قوم میں یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
فارسی زبان جس نے اپنے اقبال کے ذہن کے ساتھ زندگی گذاری ہے ،بات کروں تاکہ اس عظیم اجتماع مین اپنے اوپر ان کے عظیم احسان اور اپنے عزیز لوگوں کے ذہن پر ان کے اثرا ت کے عظیم حق کو کسی حد تک ادا کرسکیں۔ اقبال تاریخ اسلام کے نمایاں ،عمیق اوراعلی شخصیتوں میں سے ہیں کہ ان کی خصوصیات اور زندگی کے صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھا جاسکتا اور ان کے صرف اس پہلو اور اس خصوصیت کے لحاظ سے تعریف نہیں جاسکتی ۔اگر ہم صرف اسی پر اکتفا کریں اور کہیں کہ اقبال ایک فلسفی ہیں اور ایک عالم ہیں تو ہم نے حق ادا نہیں کیا ۔اقبال بلاشک ایک عظیم شاعر ہیں اور ان کا بڑے شعرائ میں شمار ہوتا ہے ۔اقبال کے اردو کلام کے بارے میں اردو زبان و ادب کے ماہرین کہتے ہیں کہ بہترین ہے ،شاید یہ تعریف، اقبال کی بڑی تعریف نہ ہو کیونکہ اردو زبان کی ثقافت اور نظم کا سابقہ زیادہ نہیں ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے اردو کلام نے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں بر صغیر کے افراد پر(خواہ ہندو ہوں یا مسلمان) گہرا اثر ڈالا ہے اور ان کو اس جد وجہد میں اس وقت تدریجی طور پر بڑھ رہی تھی ،زیادہ سے زیادہ جوش دلایا ہے ۔
طوالت کے پیش نظریہاں خامنہ ای صاحب کی تقریر کا ایک مختصر ساحصہ پیش کیا ہے لیکن آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایرانی قوم بھی حضرت اقبال ؒ کو اپنا قومی شاعر مانتی ہے اور ان کی بہت قدر کرتی ہے ۔ اور صرف ایران ہی کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا میں حضرت اقبال کے افکار کو پڑھا جاتا ہے اس پر تحقیق کی جاتی ہے ۔ اور ساری دنیا ان کی عظمت کی قائل ہے ۔
آنلائن لنک
ابلاغ
https://iblagh.com/442601
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/.../%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA...
siasiat
https://siasiyat.com/.../%d8%ad%d8%b6%d8%b1%d8%aa-%d8%a7.../
5cn network
https://5cntv.com/urdu-column-hazrat-iqbal-and-persian.../







❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
"عرب کا اونٹ"
تحریر: حاجی شبیر احمد شگری
مسئلہ فلسطین دراصل ہے کیا اور اس کی ابتدا کیسے ہوئی ہے؟۔ اور یہودی جو کہ ایک ناپسندیدہ قوم تھی جس سے دنیا تنگ تھی کس طرح ایک امن پسند اور مہمان نواز عرب علاقے میں گُھس کا غاصب بن بیٹھی اور آج دنیا کی معیشت پر تسلط جمائےبیٹھی ہے۔ حتٰی کہ آج دنیا میں کہیں بھی یہودی پیدا ہوتا ہے تو اسے خود بخوداسرائیلی نیشنلٹی مل جاتی ہے۔ یہودی انتہائی چالاک، مکارمگربزدل قوم ہے۔ مگر استعمار کی پشت پناہی کے سر پر ڈینگیں مارتا ہے۔ حال ہی میں طوفان الاقصٰی آپریشن سے اسرائیل کے پاؤں اکھڑ گئے اور اس پر لرزہ طاری ہوگیا تھا۔ بڑے عہدیداروں کے استعفے آنے شروع ہوگئے تھے۔ اور فورا ہی امریکہ اس کوتھپکی دینے پہنچ گیا ۔
یہودی ہیں کون؟ یہودپیغمبروں کے پیروکار ہیں لیکن خدائی احکامات سے انکارکی وجہ ہے ان پر عذاب بھی نازل ہوئے۔ کبھی بابلی لشکر نے یہود کا قتل عام کیا تو کبھی فارس فوج نے انہیں غلام بنا لیا۔ رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے یہود کو بیت المقدس سے نکال باہر کیا تھا۔ یہود ہی حضرت عیسیٰؑ کے قاتل تھے۔ اسی لیے فلسطین پر عیسائیوں کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی ان سے برا سلوک کیا۔ اس لئےان کے ساتھ عیسائی عوام کا سلوک اچھا نہیں تھا۔ اس وجہ سے بہت سے یہود نے اسلامی ممالک میں پناہ لی جہاں وہ جزیہ دے کر امن ‘ شہری حقوق اور آزادی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔یہودی وہ قوم تھے جن کے کرتوت صحیح نہیں تھے اس لئے یورپی یہودیوں کے روزمرہ کے رویوں، انفرادی گندگی اور سماجی خرابیوں، مذہبی داستانوں اور عجیب و غریب رسومات سے تنگ آچکے تھے۔ اورمغرب میں یہود سے نفرت کی جاتی تھی۔
یہودی ایسی مطلبی قوم ہے کہ جس نے ان کے ساتھ اچھا کیا اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔ جرمنی نومبر 1918 میں پہلی جنگ عظیم ہارا تو وہ دعوی کرتے ہیں کہ جرمنی کو عسکری طور پر شکست نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ یہودیوں سمیت، اندرونی دشمنوں نے جرمنی کے ساتھ غداری کی تھی۔ وہ اس نظریہ کو "پیٹھ میں چھرا گھونپنا" کہتے ہیں۔ ہٹلر جس نے یہودیوں کو تباہ و برباد کردیا تھا تو کچھ کو چھوڑ دیا اور ایک تاریخی فقرہ کہا تھا کہ وہ کچھ یہودیوں کو اس لئے چھوڑ رہا ہے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ اس نے یہودیوں کوکیوں مارا تھا۔ اور واقعی آج ہم دیکھ رہے ہیں۔
1947 میں فلسطین کے شمال میں واقع بندرگاہ حیفہ کی ایک تصویر آج کل وائرل ہوئی ہے جو کہ فلسطین کی طرف بھاگ کر پناہ لینے کے لئے آنے والے 4500 یہودی پناہ گزینوں کے جہاز کی تصویر ہے ۔ یہودی پناہ گزینوں کے جہاز کے عرشے پر یہ جملہ لکھا ہواہے کہ The Germans destroyed our family don't you destroy our hope یعنی "جرمنی نے ہمارے گھروں اور رہائشگاہوں کو تباہ کر دیا، براہ مہربانی فلسطینیوں، ہماری امید کو تباہ نہ کریں"۔ ذرا سوچیں ان بے شرم احسان فراموش یہودی رحم اور ہمدردی کی بھیک مانگتے ہوئے فلسطین میں داخل ہورہے تھے۔ اب 76 سال بعد فلسطین کی سرزمین سے ہی انکار کر رہے ہیں۔اورآج کس بے شرمی سے کہا جاتا ہے کہ فلسطین کی زمینیں خریدی گئی تھیں۔
کاش کہ اس وقت فلسطینی ہٹلر کی اس بات پر ہی غور کرلیتے ۔اور انھیں پناہ نہ دیتے۔ لیکن کیا کریں ان عربوں کا جن کی مہمان نوازی کی عادت نے اس جیسی مکار قوم کی مہمان نوازی کی ان کو پناہ دی۔یہاں فلسطینی عربوں پر عرب کے اونٹ کی مثال بالکل صادق آتی ہے جو پہلے خیمے میں گردن ڈالتا ہے اور پھر پورا گھس جاتا ہے۔ پھر مالک کو ہی خیمے سے نکال باہر کرنے کی سوچتا ہے۔ اور یہودیوں نے بالکل اسی طرح ہی فلسطین میں گھس کر خود انھیں نکال باہر کرنا شروع کیا۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ یہودی سب سے پہلے کب اور کیسے فلسطین پہنچے فلسطین آکرانھوں نے کیا خباثتیں کیں۔ اور کیسے دھوکے سے اپنا مقام بنایا اور فلسطین پر قابض ہوئے۔
عرب سخی اور فیاض کے لوگ ہیں وہ اپنی مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں ۔وہ لوگ جنہوں نے ان میں پناہ لی، مدد مانگی اور مدد کی توقع کی، سلامتی چاہتے تھے اور اس وقت سلامتی کی تلاش میں تھے۔فلسطینی عربوں نے، اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ انسانی اقدار کا مظاہرہ ، اور اپنے پیر پر کلہاڑی مارتے ہوئے ہوئے ، 1880 میں یورپ میں جبر سے بھاگنے والے بہت سے یہودیوں کو قبول کیا ۔ حالانکہ اس وقت عربوں نے یورپ میں یہودیوں کے ساتھ بد سلوکی اور بدعنوانی کی خبریں سنی تھیں۔ وہ قوم جس نے پیسے اور تجارت سے بدعنوانی کی اور یورپیوں کو قرضوں میں ڈبو کر ان پر دباؤ ڈالا۔ اس وقت یورپی یہودیوں کے رویوں، سماجی خرابیوں، اور عجیب و غریب رسومات سے تنگ آچکےتھے ۔
تاہم فلسطینی عربوں نے یورپیوں کی شکایات پر کان نہیں دھرے، جس کی سزا آج وہ بھگت رہے ہیں۔ فلسطین میں آنے والے یہودیوں میں یورپ سے بھاگے ہوئے یہودیوں کا ایک گروہ بھی تھا جس کی قیادت یوسف بن رحیم کر رہا تھا۔ جو یروشلم میں داخل ہوئے۔ اس وقت قدس وسیع و عریض شہر اور اسلامی شہروں کی دلہن تھا۔ قدس ایک پاکیزہ مقدس مقام تھا جہاں کے باشندوں پر ظلم نہیں ہوتا تھا، اس کے لوگ بھوکے نہیں مرتے تھے۔ یوسف بن رحیم نےشیخ جراح کے محلے میں پناہ لی۔ جوخوبصورت فن تعمیر، سرسبز اور پھل دار درختوں، منفرد گلیوں اور باغات والا محلہ جو اسے یروشلم کے دوسرے محلوں سے ممتاز کرتا ہے ۔ یہاں انھیں یروشلم کے شیخ جراح محلے میں عثمانی نظام کے مطابق 99 سال کی مدت کے لیے ایک پلاٹ لیز پر دینے پر اتفاق کیا۔یہاں غور کریں انھیں لیز پر جگہ دی جارہی ہے نہ کہ فروخت کی جارہی ہے۔اوریروشلم میں بے گھر یہودیوں کو غیر ملکی شہری سمجھا جاتا تھا اور وہ عثمانی قانون کے تابع تھے، جس نے یروشلم کی زمینوں پر قبضہ محدود کر دیا تھا ۔
یہودی پناہ گزینوں کاسالانہ کرایہ کی ادائیگیوں کے ساتھ قیام 1948 کی جنگ تک رہا۔جب صہیونیوں نے القدس شہر کے مغربی حصے پر قبضہ کر لیا اور شیخ جراح کے محلے پر قبضہ کرنے میں ناکام رہنے کے بعد یہودی باشندے اس خوف سے وہاں سے فرار ہو گئے کہ فلسطینی اور اردنی ان سے بدلہ لیں گے۔ اور فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہو گیا، تمام فلسطینی مغربی یروشلم چھوڑ کر چلے گئے اور مشرقی یروشلم میں کوئی یہودی باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد سے عرب اور یہودی علاقوں کے درمیان تنازع اور کشیدگی شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے ۔
یہ شیخ جراح کے محلے کی کہانی ہے جنھوں نےاپنی بدقسمتی سے ان لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جو رحم کے مستحق نہیں تھے۔ بُرا اور ناپاک رویہ اور چالبازی، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، غاصبانہ قبضہ اور ناجائز حصول ان کی زندگی کے بنیادی اصول تھے۔ لیکن یہ باطل قائم نہیں رہے گا اور یہ ظلم غالب نہیں آئے گا۔ اور اس کے گھر والوں پر برا دن آئے گا اور حق اس کے گھر والوں کو لوٹ آئے گا۔
❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
مسئلہ فلسطین کے بارے میں میری تحریر" عرب کا اونٹ" کوانتہائی پسند کیا گیا۔ یہ کالم آج کے بے شمار اخبارات و جرائد میں چھپا جو میری نظر سے گزرے پیش خدمت ھے۔
عرب کا اونٹ
تحریر:شبیر احمد شگری
آنلائن لنک
روزنامہ مشرق
https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-10-30/1
روزنامہ ایمرا
سیاسیات
https://siasiyat.com/?p=11858
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/ur/article/1091905/
5CN
https://5cntv.com/عرب-کا-اونٹ،-حاجی-شبیر-احمد-شگری/
ابلاغ
https://iblagh.com/440937







❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
ایران کی بڑی کامیابی، پابندیوں کا خاتمہ
تحریر: شبیراحمد شگری
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے باضابطہ طور پر ایران پر میزائل سے متعلق پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد ایران کے میزائل تجربات، میزائلوں کی درآمدات اور برآمدات پربھی پابندیاں ختم ہوگئیں اور اب اس حوالے سے کسی بھی ملک کو ایران کے اثاثے روکنے یا مالی لین دین پر پابندی عائد کرنے کا حق حاصل نہی ہوگا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے باضابطہ طور پر ایران کے میزائل پروگرام پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سیکریٹریٹ نے رکن ممالک کو ایک نوٹ بھیجا ہے جس میں بشمول میزائل تجربات کے لئے ایران کو پارٹس کی برآمد اور درآمد نیز سلامتی کونسل کی پابندیوں کے تحت ایرانی افراد اور اداروں کو املاک ضبط کرنے اور مالی خدمات فراہم کرنے سے متعلق پابندیوں کو باضابطہ طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ ان پابندیوں میں بیلسٹک میزائل سے متعلق سرگرمیوں اور منتقلی پر پابندیاں شامل ہیں، ساتھ ہی کچھ ایرانی افراد اور اداروں پر پابندیاں بھی شامل ہیں۔
یہ تبدیلیاں تمام منظور شدہ افراد اور اداروں کی UNSC کی متفقہ فہرست میں بھی کی گئیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایران اب اقوام متحدہ کی پابندیوں کا شکار نہیں ہے، حالیہ برسوں میں امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے اقدامات کو برقرار رکھنے کے لیے کی جانے والی وسیع سیاسی اور قانونی کوششوں کے باوجود ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ان پابندیوں کے خاتمے کو حتمی شکل دیے جانے کے باوجود مغربی ممالک نے اتحادی ممالک کے ایک محدود گروپ کی جانب سے بیان جاری کر کے مذکورہ عمل کو حتمی شکل دینے پر شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی تاہم پابندیوں کے خاتمے کو حتمی شکل دی گئی۔ آخر کار اقوام متحدہ کی طرف سے مذکورہ پابندیوں کے خاتمے سے متعلق ایک سرکاری نوٹ پر دستخط کیے گئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے باوجود انہیں جاری رکھنے کے امریکہ اور یورپی ممالک کے دعوے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران امریکا سے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ پابندیوں کے مطلوبہ نتائج نہیں ملے، اب وقت آگیا ہے کہ امریکا غلط راستہ چھوڑکردرست کا انتخاب کرے۔
اس سے پہلے ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ کہ 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی اس صورت ممکن ہے جب امریکا پابندیاں ہٹا دے۔ ہم ایک حق کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ایرانی قوم سے چھینا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 'ایران نے معاہدے میں شامل تمام شرائط پوری کی ہیں لیکن امریکا اوریورپی ممالک نے ایسا نہیں کیا۔
ایران نے امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔جوہری معاہدے میں شامل برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران پر معاہدے پر من و عن عمل کرنے کے لیے زور دیا تھا لیکن ایران بدستور اس کو مسترد کرتا رہا ہے۔
ایران ایک پرامن اسلامی ملک ہےجو سنہ 1958 میں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ 1968 میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیشرفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فیصد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔ تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے۔ یہ ایندھن دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہ یورنییم کا ایندھن دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔ اس وقت ایران اس حوالے سے ٹیکنالوجی رکھنے والے دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے اور ایران مشرق وسطی کا واحد ملک ہے کہ اس سلسلے میں جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا،توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکا اور گنتی کے چند دیگر ممالک کہ جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے تہران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں۔ ایران کا بائیکاٹ۔ نفسیاتی جنگ۔ سیاسی دباؤ۔ فوجی حملے کی دھمکی۔ یہا ں تک کہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے ۔
❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
ایران پر پابندیوں کے خاتمے پر لکھی گئی میری تحریر"ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ" اخبار و جرائد میں شائع ہوئیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
تحریر: شبیر احمد شگری
آنلائن پڑھنے کے لئے۔
روزنامہ مشرق
https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-10-22/1
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/.../%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7...
سیاسیات
https://siasiyat.com/.../%d8%a7%db%8c%d8%b1%d8%a7%d9%86.../
5Cn
https://5cntv.com/urdu-news-ending-sanctions-on-iran/





❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
تَنْگ آمَد بَجَنْگ آمَد
فلسطین اور طوفان الاقصیٰ کے حالیہ تناظر میں لکھی گئی تحریر
تحریر: شبیر احمد شگری
غزہ کی مزاحمتی تنظیم حماس کا طوفان الاقصی آپریشن حقیقت میں یکایک کسی طوفان کی طرح اسرائیل کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ھے۔ ایک ایسے طوفان کی صورت میں دشمن پر برس پڑا ھے کہ دشمن حواس باختہ ھوگیا ھے۔ دنیا بھی اس اچانک اور بھرپور حملوں پر حیران ہے۔ نظر آرہا ھے کہ ایک لمبے عرصے سے صیہونیوں کے ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے فلسطینیوں نے اس مرتبہ مزید مستحکم ارادوں سے کمر کس لی ھے۔ اور ایک نئے جوش و جذبے سے اپنے دشمن پر پل پڑے ہیں۔ ایک ایسے دشمن پر جو صرف فلسطین کے نہیں بلکہ عالم اسلام کے دشمن ھیں۔ جو قبلہ اول پر قابض ہیں۔جنھوں نے عالم اسلام کی غیرت کو للکارا ھے۔ البتہ یہ اور بات ھے کہ یہ غیرت کب اورکتنا جاگتی ہے۔ حماس نے ابتداکردی ھے حزب اللہ اور ایران بھی کھل کر ان کی حمایت کررہے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ دیگرمسلمان ممالک کا کیا رد عمل کیا کردار سامنے آتا ھے جوکہ فی الحال زبانی کلامی ہی ھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج مسلمانوں کے مسائل خود اپنے کمزوریوں کی وجہ سے ہیں۔ اللہ پاک نے مسلمانوں کو اس عظیم دین کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال کر رکھا ہے۔ لیکں آج مسلماں آپس میں دست و گریباں ہیں۔۔ کاش عالم اسلام ہی اگر متحد ہوتا تو فلسین اور کشمیر میں آج یہ حالات نہ ھوتے۔
شاعر مشرق حضرت اقبال ؒ نے کیا خوب فرمایا تھا۔
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک ۔ کچھ بڑی بات تھی ھوتے جو مسلمان بھی ایک۔
اگر مسلمان ہی ایک ہوجائیں تو کرہ ارض پر کسی کی مجال نہ ہو کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے ۔ تمام دنیا کے مسلمان ایک خدا کو مانتے ہیں اور جدا جدا ہیں جبکہ کافر سب الگ الگ خداکو مانتے ہیں لیکن سب ایک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مٹھی بھر یہودی آج قبلہ اول پر قابض ہے اور فلسطینی بھائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہے۔بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ نے فرمایا تھا کہ اگر مسلمان ایک ایک بالٹی اسرائیل کی طرف پھینک دیں تو اسرائیل اس میں بہہ جائے گا۔ مگر ہم اپنی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔
حالانکہ اس وقت ایک جماعت حماس کے دانت کھٹے کردینے والے حملوں نے یہ ثابت کردیا ھے کہ "رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن" مسلمانوں کی تاریخ اس چیز سے بھری پڑی ہے کہ مسلمان کم تعداد میں ہونے کے باوجود ہمیشہ دشمن کو زیر کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ مسلمان جذبہ ایمان سے بھرپور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد کی امید پر جنگ لڑتا ہے۔ اور حاکمیت تو صرف اس ذات پاک کے ہاتھ میں ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا ۔ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اسرائیل اپنی ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں کے گھمنڈ میں بدمست ہاتھی کی طرح فلسطینی عوام بچوں اور عورتوں کو اپنی طاقت کے بل پر روند رہا تھا۔لیکن اسے ابرہا کے ہاتھیوں کا لشکر یاد نہ رہا جسے ابابیلوں کے جھنڈ نے ڈھیر کردیا تھا۔ یہی حال کچھ حماس کے چھاتہ برداروں نے بھی کیا ہے۔اور اس وقت بدمست اسرائیل بدحواسی کا شکار ہے۔ بربریت کے خاتمے کے لئے طوفان الاقصی کے بھرپور حملوں کے نتیجے میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کھوکھلی صیہونی حکومت کی طاقت اور ہیبت کی داستانیں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ مختلف ویڈیوز میں صیہونی فوج پر حملے، اعلٰی فوجیوں حکام کی گرفتاری اور صیہونیوں کو جان بچا کر بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ حماس کے جانبازوں نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دشمن پردھاوا بولا ہے۔ شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن ۔ نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی
اور ان کا مقصد کشور کشائی نہیں ہےبلکہ قبلہ اول اور اپنے چھینے گئے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش ہے ۔
ان تازہ کاروائیوں میں صیہونیت کی بدحالی اپنی جگہ اس کے حواریوں کے بھی دانٹ کھٹے ہوچکے ہیں۔ اور اب آپ دیکھیں گے کہ امریکہ اوریورپی حکومتیں فریاد کریں گی کہ نہتے یہودیوں پر ظلم ہورہا ہے ۔ اور جنگ روکنے اور صلح کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ جو اسرائیل کی پشت پناہی کے سوا کچھ نہیں۔ ورنہ حقوق انسانی کے ان علمبرداروں کو
فلسطین میں نہتے مسلمانوں بچوں اور عورتوں پر ہونے والے ظلم نظر نہیں آتے۔ ان کے کتے بلیوں کی جانیں بھی انھیں عزیز ہیں جبکہ مسلمانوں کا خون بہت سستا ہے۔بہر حال یہ بہترین وقت ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان متحد ہوکر فلسطین کو صیہونیت کے چنگل سے آزادی دلائیں۔ حزب اللہ اور ایران میدان میں آچکے ہیں اور ان کی طرح دوسرے ممالک کو بھی دو ٹوک اقدام اٹھانا ہوگا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے بانی پاکستان قائداعظم ؒ کا فلسطین کے بارے میں دوٹوک موقف تھا۔ بانی پاکستان اور پاکستان کا موقف باقاعدہ طور پر پاکستانی پاسپورٹ پر نظر آتا ھے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لئے کارآمد نہیں ھے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے ٹھیک نو ماہ بعد مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں واقع انبیائے کرام کی سرزمین، ارضِ فلسطین پر شب خون مارا گیا تھا۔ 1947 ء میں جب قائد اعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسرائیلی وزیر اعظم نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائد اعظم کے نام بھجوایاجس کا جواب قائداعظم نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا،دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کی بجائے جان دے دے گا، مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے، میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکا اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوں کے خلاف پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انہیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہوں گی۔
بابائے قوم کے فرمان کے مطابق آج بالکل ایسا ہی ہورہا ہے۔ اس لئے آج پاکستان اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو بھی نہ صرف ببانگ دہل اپنے موقف کا اعلان کرنا چاہئے بلکہ فلسطینیوں کی بھرپور مدد کرنی چاہئے تاکہ ہماری غیرت قبلہ اول آزاد ہوسکے۔ اور مسلمانوں کے قلب میں گھونپے گئے صیہونی خنجر کو نکالا جاسکے۔
❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
" تنگ آمد بجنگ آمد"
روزنامہ مشرق اور دیگر جرائد میں فلسطین کے حالیہ تناظر میں لکھی گئی میری تحریر"
تحریر شبیر احمد شگری
آنلائن پڑھیں ۔ روزنامہ مشرق
https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-10-10/1
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/.../%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7...
5CN
https://5cntv.com/urdu-international-news-urdu-column/
siasiyat
https://siasiyat.com/.../%d8%aa%d9%8e%d9%86%d9%92%da%af.../
فاران
https://faraan.org/%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86.../





❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
جشن میلاد النبی اور ھفتہ وحدت کی خوبصورتیاں
تحریر: شبیر احمد شگری
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔ ذات باری تعالٰی نے حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اور ان تمام جہانوں میں سے بھی ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اس نبی پاک کی امت ہیں۔اسی طرح بلاتفریق مذہب و ملت حتٰی مخلوقات عالم و تمام عالمین کے لئے حضور پاک کی ذات مبارکہ رحمت ثابت ہوئی ہے۔ رحمت اللعالمین کی آمد اور جشن صادقین کے ایام کی سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ اسی ہفتے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت بھی ہوئی ہے۔ یقین جانیں اگر ہم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پاک کی سیرت اور احکامات پر عمل کریں تو دین و دنیا اور دونوں جہانوں میں کامیابیاں ہمارا مقدر ٹہریں گی۔ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہمارا ایمان ہے اور ان کا کلمہ پڑھنے والا ہی مسلمان کہلاتا ہے۔ اگر عملی طور پر بھی ہم اسے اپنا لیں تو ہماری مشکلات حل ہوجائیں۔ آج ہم مسلمانوں کی مشکلات کی اہم وجہ یہی ہے کہ ہم نے قرآن کا احترام اسے چوم کر اونچے طاقوں میں رکھنے کو قرار دیا اور نبی پاک کی سیرت پر عمل کرنے کی بجائے ان سے صرف جزباتی وابستگی اپنائے رکھی۔ کلام مجید کو چوم کر رکھ دینا قرآن کی عزت نہیں ہے۔ بلکہ اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنا اس کی صحیح معنوں میں عزت ہے۔اسی طرح نبی پاک سے جذباتی وابستگی تو ہم سب بڑھ چڑھ کر رکھتے ہیں۔ ان کی محبت کے دعویدار بن کر ایک دوسرے پر گستاخی کے فتوے لگاتے ہیں لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین پر عمل کرنے کی طرف توجہ کم ہے۔ حالانکہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے مطابق نماز نہ پڑھنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، برے کاموں سے پرہیزنہ کرنا اور اسی طرح دیگر اعمال کی خلاف ورزی کرنے پر ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ اور ان کی خوشنودی اور کامیابی ان کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور اگر صحیح معنوں میں اس پر عمل پیرا ہوتے تو آج عالم اسلام جن مشکلات میں گھرے ہیں اس سے دوچار نہ ہوتے۔
ان ایام میں جہاں بھی جائیں درود سلام نعت کی محفلیں اور مسلمانوں کے اندر جوش و خوش اور محبت دیکھ کرخوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ان دنوں میں کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کو گرمجوشی سے مبارکباد پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ مشلمانوں کے اندر وحدت کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے اندر حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت کے حوالے سے روایت میں کچھ اختلاف ضرور ہے۔ کچھ 12 ربیع الاول اور کچھ 17 ربیع الاول کو رسول پاک کی ولادت کی تاریخ مانتے ہیں۔ لیکن وحدت المسمین کے داعی اور بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ نے اس فرق کو بھی ایک خوبصورت شکل میں ڈھال دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت کو اپنے اتحاد کا محور قرار دیں۔ اور12 یا 17 کی بجائے 12 سے 17 ربیع الاول پورا ہفتہ "ھفتہ وحدت" کے طور پر منایا جائے۔ ان کی اس تجویز کا پورے عالم اسلام میں بھرپور خیرمقدم کیا گيا اور اب پورے ہفتے میں عید میلادالنبی (ص) کے سلسلے میں جشن اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے ۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکے گی۔ مسلمانوں کے لئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے ۔ اس بات میں کوئی برائی نہیں ہے ۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔
قرآن پاک کہتا ہے کہ "و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں ۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں ۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے ۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے ۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس عمل کو انجام دینا چاہئے ۔
یہ صرف ہمارے پیارے دین اسلام کی خوبصورتی ہے کہ ہمدلی اور باہمی اخوت کے جذبے سے سرشار قومیں جو کوئی سیاہ فام، کوئی سفید فام اور کوئی زرد فام نسلوں پر مشتمل ہیں اور درجنوں مختلف زبانوں سے تعلق رکھتی ہیں، سب کی سب خود کو عظیم امت مسلمہ کا جز جانتی اور اس پر فخر کرتی ہیں ۔ سب ہر دن ایک ہی مرکز کی سمت رخ کرکے بیک آواز اللہ تعالی سے راز و نیاز کرتی ہیں،سر بسجود ہوتی ہیں۔ سب کو ایک ہی آسمانی کتاب سے درس و الہام ملتا ہے ۔ اور دنیا کے ہر حصےمیں چوبیس گھنٹوں میں یہ مسلمان اللہ کا نام اور ذکر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمان امت ایک حد قیمتی ثقافت کے ساتھ اور بے مثال درخشندگی کے ساتھ، حیرت انگیز یکسانیت اور مثالی یگانگت سے بہرہ مند ہے ۔ ذات باری تعالی کریم نے مسلمانون کو اپنے حقوق اور دفاع کے لئے لامحدودوسائل کی عظیم دولت سے مالا مال کررکھا ہے۔ ایسی ہستیاں ہمیں عطا کی ہیں جو کفر کے مقابلے میں ڈٹ جانے کے لئے ہمیں درس و رہنمائی کرتی رہی ہیں۔ مسلمانوں کے پاس موجود تہذیب و تمدن قدیم ترین اور منفردہے۔
ان صلاحیتوں کی بنا پر مسلمان اپنا بہترین دفاع کرسکتے ہیں۔ اللہ سے تمسک، توکل اللہ اور ایمانی و روحانی طاقت جیسی نعمتوں کو اگر بروئے کار لائیں گے تو ایک ناقابل تسخیر امت ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان امور پراللہ سے خلوص کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔ اور رب کی عطا کردہ کامیابی اور توکل پر کامل یقین ہو۔ تو کامیابی اور بلندی یقینی ہے۔ کیونکہ اللہ پاک فرماتا ہے۔ " ولینصرن اللہ من ینصرہ" (اللہ اس کی مدد کرےگا جو اللہ کی نصرت کرے گا، حج 40)۔ اور اگر آج ہم اللہ کی مدد کے وعدے یہ تمام وسائل ہونے کے باوجود دنیا میں مشکلات کا شکار ہیں تو اس میں ظاہر ہے خود ہماری کمزوریاں ہیں خامیاں ہیں۔ اگر آج خدا کے عطا کردہ وسائل پر دشمن قابض میں تو اس میں ہم مسلمانوں کی ہی کمزوری ہے۔ آج پوری دنیا میں فلسطین، کشمیر، یمن، شام اسی طرح دوسرے مقامات پر مسلمانوں پر مظالم ہورہے ہیں تو یہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہونے کے سبب ہیں۔ کیا یہ سب کو مل کر اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامنے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہیں۔ دشمن ہمیں مختلف فرقوں میں قوم میں نسل میں بانٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے مفادات حاصل کررہا ہے۔ لیکن مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مجبور و بے بس ہیں۔ اسلئے آج مسمانوں کی کامیابی کا واحد حل صرف اللہ کی رسی کو مل کر اور مظبوطی سے تھام لینے میں ہے۔اللہ پاک ہمیں اس ماہ مبارک میں اسلام کی تعلیمات اور نبی پاک کی سیرت پر مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
"جشن میلاد النبی اور ھفتہ وحدت کی خوبصورتیاں" روزنامہ مشرق اور دیگر اخبار و جرائد میں
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ مشرق
https://mashriqakhbar.com.pk/

5cn
https://5cntv.com/urdu-columns-celebration-of-milad-ul.../

روزنامہ حاوی رپورٹ

ابلاغ
https://iblagh.com/435615

اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/ur/article/1084955/

سیاسیات
https://siasiyat.com/?p=10993


❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞

" ایران کا پہلا زیارتی، سیاحتی و ثقافتی سفر" روزنامہ مشرق کے سنڈے میگزین میں ایران کے سفرنامے کا آج اتوار کو پہلا حصہ ۔ 10 ستمبر 2023
تحریر: شبیر احمد شگری۔

" ایران کا پہلا زیارتی، سیاحتی و ثقافتی سفر" روزنامہ مشرق کے سنڈے میگزین میں ایران کے سفرنامے کا آج اتوار کو پہلا حصہ ۔ 17 ستمبر 2023
تحریر: شبیر احمد شگری۔

❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم"
تحریر: شبیر احمد شگری
گذشتہ روز پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم سے ملاقات ہوئی۔اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نے ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کی "پڑوسی پہلے " کی پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یہ پالیسی علاقائی ترقی اور باہمی تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے وژن سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ اسلام آباد دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے ۔انھوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ایران کے ساتھ اقتصادی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانا علاقائی امن و سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے ۔
اس ملاقات میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات بالخصوص معیشت، توانائی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں حالیہ پیش رفت کو مزید آگے بڑھانے کی خواہش اور عزم کا اظہار کیا۔
ایرانی سفیر گو کہ پاکستان میں حال ہی میں تعینات ہوئے ہیں لیکن پاکستان اور ایران کے بہترین تعلقات کے بارے میں انھوں نے کئی بیانات دئیے اور ان کے عزم کا اظہارر بھی ہوتا ہے ۔ ایرانی سفیر رضا امیری مقدم کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کو سستی گیس، بجلی اور تیل دے سکتے ہیں۔ انھوں نے ایران اور پاکستان کے دارالحکومتوں کے درمیان براہ راست پروازیں شروع کرنے کے بارے میں بتایا۔ان کا کہنا تھا کہ ایران نے اپنی چار ائیر لائنوں کیلئے اجازت طلب کی ہے ، جبکہ فی الحال لاہور اور کراچی سے مشہد کیلئے پروازیں چل رہی ہیں۔ایران سے گیس پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو فراہم کرنے کے بارے میں عزم کا اظہار کیا ۔ایرانی سفیر رضا امیری مقدم کا کہنا ہے کہ پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے اس بحران کو حل کرنے کیلئے ایران پاکستا ن کو سستی گیس، سستی بجلی اور سستا تیل فراہم کر سکتا ہے ۔ایرانی سفیر رضا امیری مقدم نے گذشتہ دنوں ایک سوال کے جواب میں چین کی کاوشوں سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے متعلق پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام میں ھمسائے کا بلند مقام اور حقوق ہیں۔ کسی ایک ھمسائے کو شکل ہو تو دوسرے کو اس کی مدد کرنی چاہئے ۔
ایران اور پاکستان کے مابین قدیم ثقافتی، تاریخی، دینی و ادبی رشتے ہیں۔ بہت کم ممالک ایسے ہوں گے جو ایران و پاکستان کی طرح بہت سے رشتوں میں منسلک ہوں۔ ہم ایسی گراں قدر ثقافتی مشترکات کے مالک ہیں جو ہماری شناخت کا جزو ہیں۔ فارسی زبان، 800سالہ تاریخ، فارسی زبان میں علمائ، حکمائ، شعرائ اور بزرگان دین کے قدیم آثار و مکتوب، پاکستان کی لائبریریوں میں موجود فارسی زبان میں تحریر ہزارہا قلمی نسخے ، فارسی زبان کا اردو زبان کی تشکیل میں خاص کردار، دونوں ممالک کے شعرائ، مثلاً حافظ، سعدی، مولانا رومی، علامہ اقبال کے علاوہ ثقافت و ادب سے وابستہ دیگر نامور شخصیات کی دو طرفہ مقبولیت، یہ وہ بنیادیں ہیں جنہوں نے دونوں ممالک کے عوام کو برادرانہ مضبوط رشتوں سے جوڑ دیا ہے ہمیں چاہئے کہ اس مشترک میراث کی قدر کریں اور آئندہ کی نسلوں تک پہنچانے کیلئے اس کی حفاظت کریں۔ ان رشتوں کومظبوط بنانے کے لئے ، اساتذہ طلبہ، اہل علم و دانش اور ہنر مندوں کے وفود کے تبادلے یقیناً ایک دوسرے سے مزید آشنائی کا سبب بنیں گے جس پر ہمیں توجہ دینا ہے ۔ ایران و پاکستان کے درمیان قراردادوں اور معاہدوں کی کمی نہیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ مصمم عزم و ارادہ ہے جو ان معاہدوں میں روح ڈال سکے ۔ امید ہے کہ دونوں ممالک کے حکام اور عوام کی جاری کوششیں ماضی کی کمی کو پورا کرنے اور اپنے بلند مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کو بجلی، پٹرول اور گیس کے شدید بحران کا مسلسل سامنا ہے ۔ اوراس بحران کے حل میں مدد کے لئے ایرانی حکومت بارہا خواہش کا اظہار کر چکی ہے ۔ لیکن جانے کون سی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے اس پر زیادہ پیشرفت نہیں ہوسکی ہے ۔ ہمارے ساتھ ہی موجود برادر ہمسایہ ملک ایران میں اس وقت پٹرول 15 روپے لٹر ہے ۔ اسی طرح گیس اور بجلی انتہائی سستی ہے ۔ لیکن ہم یہ سہولیات ایران سے لینے سے معذور ہیں۔ ہم دور دراز سے مہنگا پٹرول تو خرید سکتے ہیں لیکن اپنی عوام کو سہولت دینے میں ہمت نہیں دکھا سکتے ۔ اپنی غریب عوام پر جتنا مرضی بوجھ لادتے جارہے ہیں لیکن بیرونی طاقتوں کے سامنے بے بس ہیں۔ آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر ہماری حکومت عوام کو بجلی کے بلوں میں رلیف نہیں دے سکتی۔ گذشتہ حکومت مہنگائی ختم کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئی آئی اورعوام کو مزید ہنگائی کے بجھ تلے دبا کر اپنی غلطیاں بھی گذشتہ حکومت کے کھاتے میں ڈال چکی ہے ۔ ساری پارٹیوں نے مل کر حکومت چلائی لیکن عوام کے لئے ایک دھیلے کی بھی کوئی سہولت نظر نہیں آئی بلکہ غریب عوام مہنگائی میںپس کررہ گئی ہے ۔ نتیجہ ھم سب کے سامنے ہے عوام بجلی کے بل جلارہے ہیں اور سڑکوں پر موجود ہیں، پہیہ جام ہڑتال شروع ہوچکی ہے لیکن عوام کو بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ نگران حکومت کیا کچھ کرے اس حکومت کا کام تو مقررہ مدت میں الیکشن کی راہ ھموار کرنا ہے ۔ ھم اس حد تک ان مشکلات میں جکڑ چکے ہیں کہ اس کا حل جمھوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت ہی نکال سکتی ہے ۔ لیکن ھماری گذشتہ حکومتوں نے کچھ ہمت دکھائی ہوتی اور ھمسایہ اوربرادر اسلامی ملک ایران سے ہی مدد لی ہوتی اور مستحکم بنیادوں پر عملی اقدامات کئے ہوتے تواس وقت پاکستان میں توانائی کا بحران شاید نہ ہوتا۔ مشکلات کا سامنا تو ایران کو بھی ہے جو مسلسل بین الاقوامی دشمنی اور پابندیوں کا شکار ہے لیکن انھوں نے جرات مندانہ اقدامات کر کے اپنے ملک کی عوام کو بہت ساری سہولیات مہیا کی ہیں۔ اور ایران دنیا بھر کی پابندیوں کے باوجود مسلسل ترقی کررہا ہے اور اس کی وجہ دنیا کے رویے کی پرواہ کئے بغیر اپنے ملک کے لئے بہترین اقدامات کرنا ہیں۔ ہمیں بھی اسی عزم کی ضرورت ہے کہ مجبوریوں کی بیڑیوں کو کاٹ ڈالیں اورصرف اپنے ملک کا مفاد سوچیں۔ دنیا کی پرواہ کئے بغیر ہمیں ایران کی پیشکش کو اپنانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے ۔ کیونکہ پاکستان اور ایران بہت سارے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔
"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" روزنامہ مشرق


"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" مارگلہ نیوز پر
https://www.facebook.com/photo/?fbid=710115737822597&set=pcb.710118074489030

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" 5CN پر
https://5cntv.com/urdu-newsiran-committed-to-help-pakistan/?fbclid=IwAR0BHy7c5a5PwML7witro1yQ_cJtznVsEvPUm4X6ItGZx7LOstS6GFvq02Y

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" سیاسیات پر

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" فوکس ٹوڈے پر

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" اسلام ٹائمز پر
https://www.islamtimes.org/ur/article/1079533/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%AF%D8%AF-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92-%D9%BE-%D8%B1%D8%B9%D8%B2%D9%85?fbclid=IwAR17X40tgmRcejQUsv8Bwt9usmyb4KkdHNvbol_4dcm9cPVRFLZtwibZWTU

"ایران پاکستان کی مدد کے لئے پرعزم" فیملی میگزین میں
https://family.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/lahore/2023-09-10/page-36

❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞

کیا ہم خود بھی گستاخ تو نہیں؟ یہ تحریر میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوئی۔
تحریر: شبیر احمد شگری
حال ہی میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے افسوسناک واقعے پر ساری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ یہ پرامن احتجاج مسلمانوں کا حق تھا جس کی وجہ سے غیر مسلموں کی اس شدت پسندی کی پوری دنیا میں حوصلہ شکنی ہوئی۔ لیکن پھر اچانک کیا ہوا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں اقلیتوں کا تحفظ آئین وحکومت کی ذمہ داری ہے اتنا بڑا افسوسناک واقعہ پیش آگیا کہ ہمیں اپنے اقلیتی بھائیوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کون سی سازش ھے کیا اس کے ذریعے پوری دنیا میں قرآن کی بےحرمتی کے خلاف ھونے والے مظاہروں اورواضح موقف کو نقصان پہنچایا گیا یا ملک عزیز کے امن کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی۔ اگر کسی نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی تواس کی تحقیقات متعلقہ اداروں کا کام ھے۔اس کے لئے قوانین موجود ہیں۔ نہ کہ ہم خود قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ھم عملی سے زیادہ جذباتی مسلمان ہیں۔ حالانکہ ہمارے لئے واضح نمونہ عمل کلام خدا رسول پاک اور ان کے اہلبیت کی سیرت سب کچھ موجود ھیں۔ ھمیں اپنے معاملات میں اس پر عمل کرنا چاہئے۔ جس نبی پاک کا ھم کلمہ پڑھتے ہیں کیا ھماری سوچ ان سے بھی بڑھ کر ہے؟ ہمارا ہر عمل ان کی سیرت کے مطابق ھونا چاہئے۔ جذباتیات میں آکر کہیں ھم خود قرآن پاک کی اور رسول پاک کی گستاخی تو نہیں کررہے۔ کیا دوسروں کا عمل برا اور ھم خود جومرضی کریں اچھا ھے؟. حالیہ جڑانوالہ کے واقعے نے بہت سے سوالات پیدا کردئیے ہیں۔ اس کا جواب رسول پاک کی سیرت سے تلاش کریں اور حضور پاک کے عیسائیوں سے کئے گئے وعدے کو یاد کریں۔ تو بحیثیت مسلمان شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ھم نے خدا کے رسول کے احکامت کی توہین کی ہے۔
سینٹ کیتھرین کی خانقاہ جدید مصر میں دنیا کی قدیم ترین خانقاہ ہے۔ یہاں عیسائی مخطوطات کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ ہے۔اس خانقاہ کو عالمی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں پر عیسائیت کی سب سے پرانی اور نایاب تصاویر بھی موجود ہیں۔ یہ عیسائی تاریخ کا ایک ایسا خزانہ ہے جو چودہ سو سال سے مسلمانوں کی حفاظت میں سنبھال کر رکھا گیا ہے۔
یہ 628 عیسوی کی بات ہے جب سینٹ کیتھرین کی خانقاہ کا ایک وفد نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور ان سے پناہ دینے کی درخواست کی۔ جس پر آپ نے انہیں حقوق کا پورا ضابطہ عطا کیا۔ اور سینٹ کیتھرین کے ساتھ عہد کیا گیا۔
” یہ پیغام محمد ابن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ، چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک، ایک عہد ہے کہ ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ بے شک میں، میرے خدمتگار، مددگار اور پیروکار ان کا تحفظ کریں گے کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں؛ اور خدا کی قسم میں ہر اس بات سے اجتناب کروں گا جو انہیں ناخوش کرے۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا۔ نہ ان کے منصفوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ نہیں کرے گا، نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ وہاں سے کوئی شئے مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔ اگر کسی نے وہاں سے کوئی چیز لی تو وہ خدا کے عہد کو توڑنے اور اس کے نبی کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔ بے شک وہ میرے اتحادی ہیں اور انہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں سفر کرنے یا جنگ پر مجبور نہیں کرے گا۔ ان کے لئے جنگ مسلمان کریں گے۔ اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان سے شادی کرے گی تو ایسا اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو گا۔ اُس عورت کو عبادت کے لئے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ ان کے گرجا گھروں کا احترام کیا جائے گا۔ انہیں گرجا گھروں کی مُرمت یا اپنے معاہدوں کا احترام کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ (مسلمانوں کی) قوم کا کوئی فرد روزِ قیامت تک اس معاہدے سے رُوگردانی نہیں کرے گا۔”
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمائے ہوئے اس واضح لائحہ عمل پر میں اس سے زیادہ بات اس لئے نہیں کروں گا کہ میرے نبی پاک کے اقلیت کو دئیے گئے اس تحفظ کے بعد اس سے آگے کیا رہ جاتا ھے۔ صرف اطاعت اور یا نافرمانی رہ جاتی ہے۔
قرآن پاک کی بے حرمتی چاہے کچھ دن پہلے والی ہو یا حالیہ جڑانوالہ والی۔ ان بدبختوں کو اس کی جو سزا ھے ضرور ملنی چاہئے۔ اگر کوئی قانون نہ بھی دے تو اللہ کا قانون انصاف پر مبنی ہے۔اس سے مبرا کوئی نہیں بے شک اس پر پرامن احتجاج ھمارا حق بنتا ھے۔مگر ذرا سوچیں ہم مسلمان کفار کی صرف قرآن اور رسول پاک کی گستاخی پر سیخ پا ھوجاتے ہیں۔ لیکن معذرت کے ساتھ کہیں رسول پاک اور قرآن پاک کی شان میں زیادہ گستاخی خود ھم تو نہیں کررہے ہیں۔ قرآن کو صرف چوم کر اونچے طاقوں میں رکھ دینا یہ قرآن کا احترام نہیں ھے۔ اس کو نہ پڑھنا اور پڑھ کر عمل نہ کرنا یہ اللہ سے گستاخی ہے۔ ھم دن رات جھوٹ بول رہے ہیں چوری، دھوکہ فراڈ، نماز نہ پڑھنا، روزہ نہ رکھنا، غیبت، دوسرے بھائیوں کو تکلیف دینا، زیادتی کرنا تو معاشرے کی ایک عام سی صورتحال ھے۔ کیا رسول پاک نے ان باتوں سے ہمیں منع نہیں فرمایا؟ ہم میں موجود یہ اعمال رسول پاک کے تعلیمات کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور ان کی شان میں گستاخی نہیں؟ کیا ھم خدا کے احکامات کی ڈھیٹ پنے سے دھجیاں نہیں اڑارہے؟ طاقت ور کا کمزور پر ظلم روز بروز بڑھتا جارہا ھے۔ کیا یہ اللہ اور رسول کی گستاخی نہیں ہے۔ ہم اپنے رسول اور قرآن کے احکامات کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کریں۔ بس کوئی غیرہمارے خدا کو ھمارےرسول کو ہمارے قرآن کو کچھ نہ کہے۔استغفراللہ کیسا کھلا تضاد ہے۔ خدا سے رسول سے قرآن و اہلبیت سے ہمارے رشتے صرف جذباتی ہی نظر آتے ہیں حالانکہ عملی صورت میں کردار کی شکل میں نظر آنے چاہئے تھے۔
اللہ پاک ھم سب کو خدا اس کے رسول اور اہلبیت کرام کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین یا رب العالمین
میں نے ایک عام معاشرے کی صورتحال بیان کی ہے جس میں میں خود بھی شامل ہوں میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ھے۔ لیکن جڑانوالہ کا افسوسناک واقعہ اور اسی طرح کے دیگر واقعات پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ یہ سیرت اور احکامات رسول کے خلاف ہے۔ مگر میں کس سے شکوہ کروں سکول اور تعلیمی اداروں کے نصاب سے رسول پاک اور اسلام کی عظیم ہستیوں کی تعلیمات کو موثر اور جدید انداز میں فروغ دینے کی بجائے ان کو کم کیا جارہا ہے ہٹایا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ سے مذہبی ہم آھنگی پر بات کرنے کی بجائے شرپسندی والے بل پاس کئے جارہے ہیں۔اتحاد کی بجائے ہم فرقوں سے نہیں نکل رہے۔ ابھی جڑانوالہ کا زخم ہرا ہے۔ جس پر میڈیا سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر تبصرے ہورہے ہیں لیکن یہ بھی شاید بہت سے دوسرے زخموں کی طرح وقت کی بے حسی کی مٹی تلے دب جائے گا۔کیونکہ شاید ماضی کی طرح اس واقعے کا علمی وعملی سدباب تو کوئی ھونا نہیں ھے۔ اور پھرھم خدانخواستہ اسی طرح کے کسی اور واقعے تک اسے بھی بھول چکے ہوں گے۔
روزنامہ مشرق میں میرا کالم "ھم خود بھی گستاخ تو نہیں" پڑھنا نہ بھولیں۔ https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-08-21/1

"ھم خود بھی گستاخ تو نہیں" اسلام ٹائمز پر
https://www.islamtimes.org/ur/article/1076832/?fbclid=IwAR3JBERN74CKq7pJoQiFqtdwgMJCFBQWn0OaiUPtARSdBamRXh5MMkwyQGU

"ھم خود بھی گستاخ تو نہیں" سیسیات پر شائع ہونے والی تحریرکا لنک
https://siasiyat.com/%da%a9%d8%a7%d9%84%d9%85%d8%b2/%da%a9%db%8c%d8%a7-%db%81%d9%85-%d8%ae%d9%88%d8%af-%d8%a8%da%be%db%8c-%da%af%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d8%ae-%d8%aa%d9%88-%d9%86%db%81%db%8c%da%ba%d8%9f/?fbclid=IwAR0MpVRO7KSzgVg2umETR-_VF589LW7Oti1x88m1Q5LfQl7PE8-e_T6L83s
"حجت الاسلام والمسلمین آغاسیدحیدر علی موسوی" کی برسی کے موقع پر مرحوم کی زندگی پر آغاسید حیدر موسوی مرحوم خطابت،فصاحت اور بلاغت پر خوب دسترس رکھتے تھے۔
آغا حیدر علی موسوی مرحوم کی دوسری برسی کے موقع پر
تحریر: شبیر احمد شگری
آغا حسن موسوی مرحوم وہ عظیم عالم باعمل شخصیت تھے جنھوں نے جب لاہور کی سرزمین پر قدم رکھا اور اپنی فیملی سمیت موچی دروازہ لاہور تشریف لائے تو موچی دروازہ لاہور کے افراد آپ کے علمی شخصیت سے اس قدر متاثر اور گرویدہ ہوئے کہ انھوں نے موسوی خاندان کو ہمیشہ کے لئے لاہور رہنے پر مجبور کردیا۔مسجد کشمیریاں کی رونقیں اور موچی دروازہ لاہور کے مکینوں نے اس محبت کا ثبوت اور بھرم آج تک قائم رکھا ہوا ہے کہ آ ج آغا حسن مرحوم کی تیسری نسل اس جگہ پر اپنی علمی اور دینی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ آغا حسن مرحوم کے بعد ان کے بیٹے آغا سید علی موسوی مرحوم نے بھی پاکستان کے جید علما میں ایک ممتاز نام پیدا کیا اور علمائے شیعیت کے رہبر بالخصوص وحدت اسلامی کے لئے عظیم خدمات انجام دیں۔ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند آغا سید حیدر موسوی مرحوم اپنے والد اور دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آخر عمر تک مسجد کشمیریاں کی دینی سرپرستی کے ساتھ ساتھ بیشمار علمی اور دینی خدمات انجام دیتے رہے۔
اور یہی سلسلہ اور فرائض ان کے بیٹے آغا جواد موسوی ادا کررہے ہیں۔
آغا سید حیدر موسوی مرحوم 1953 میں نجف اشرف عراق جیسے علمی شہر میں پیدا ہوئے۔ آغا سید علی موسوی کے آپ سب سے بڑے فرزند تھے۔ آپ کو بلتی، فارسی ،اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ سول لائن کالج لاہور سے ایف اے کی تعلیم 1973 میں مکمل کرنے کے بعد آپ ائیرفورس جوائن کرنے کے مراحل میں تھے۔
لیکن آپ کے دادا آغا سید حسن الموسوی مرھوم نے انہیں دینی تعلیم کے لئے راغب کیا۔اور قم المقدس بھیجا وہاں آپ کی تعلیمی کفالت آیت اللہ شیخ علی بوستانی شگری رحمت اللہ علیہ کے ذمے تھی۔آپ نے ادبیات کے لئے آیت اللہ محمد علی مدرس افغانی، فقہ کے لئےآقائے وجدانی، درس اصول آیت اللہ مصطفی اعتمادی، مکاسب آیت اللہ ابوالفضل تبریزی اورتفسیر قرآن کے لئے آیت اللہ جواد آملی جیسے عظیم اور جید علما کی شاگردی حاصل کی جس کی وجہ سے وہ ان تمام علوم پر بہت گرفت رکھتے تھے۔
اور پھر درس و تدریس کا یہ سلسلہ ساری عمربھر جاری رہا۔انقلاب اسلامی ایران
کی تحریک میں بھی آپ نے بھرپور حصہ لیا۔آپ ھمیشہ اول وقت میں نماز ادا کرتے تھے۔ اول وقت نماز کی برکت سے انقلاب ایران کے دوران ایک دفعہ ان کی جان بھی بچ گئی جب وہ نماز ادا کرنے مسجد میں تھے توباہر موجود آپ کے دوستوں کو شاہ کے سپاہیوں نے شہید کردیا تھا۔
آپ کو تبلیغ کے لئے والد محترم نے سکردو میں اپنے آبائی گاوں حسین آباد بھیجا جہاں آپ نے تبلیغ کے ساتھ حسین آباد کی مرکزی مسجد میں نماز باجماعتپڑھاتے رہے۔
1983 میں آپ دینی تعلیم کے لئے دوبارہ قم المقدس چلے گئے اور علمی میدان میں نہایت جانفشانی سے تدریس کا سلسلہ جااری رکھااور اس دوران آپ کو اللہ نے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں۔
پاکستان واپس آکر آپ نے فیصل آباد میں مدرس کے طور پہلی دفعہ تدریس کا سفر شروع کیا اور جامعہ علوم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے پرنسپل مقرر ہو ئےجس سے آج تک شاگرد فیضیاب ہورہے ہیں۔
1991میں آپ فیصل آباد سے لاہور منتقل ہو ئے اور درسگاہ علوم اسلامی کی بنیاد رکھیاس کے ساتھ ساتھ جامع مسجد کشمیریاں میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
ان کے نام پر بنایا گیا کاروان حج حیدری برصغیر کا پہلا حج کاروان تھا جس کی بنیاد ان کے والد صاحب آغا سید علی موسوی نے رکھی۔
2012 میں آپ کے والد مرحوم کی وفات کے بعد ساری ذمہ داری آغا حیدر موسوی مرحوم کے کندھوں پر آگئی۔ آپ کر دودفعہ قاتلانہ حملہ بھی ہوچکا تھا ایک فیصل آباد میں دوسرا مسجد کشمیریاں کے خودکش دھماکے میں جہاں سیکیورٹی گارڈ کی
قربانی کی وجہ سے آپ اور نمازیوں کی جان بچ گئی۔
ذکر حسین علیہ السلام سے اتنی محبت تھی کہ اندرون موچی گیٹ میں اپنے والد محترم اور دادا مرحوم کی یاد میں ایک امام بارگاہ کی بنیاد رکھی اور اس کا نام بھی حسینیہ دارالتوحید رکھا۔
آپ نے 26 حج ادا کئے۔ دودفعہ کربلا تشریف لے گئے اور ایک دفعہ شام کی زیارت کی۔آپ کی گفتگو میٹھی انداز بیاں شیریں ، حسن اخلاق سے بھرپور، معیاری اور ادبی ہوتی تھی۔والد صاحب کی طرح آپ بھی جوانوں سے بہت محبت کرتے تھے۔
آخری ایام میں اپنے صحت کے حوالے سے قرآن سے استخارہ کیا تواستخارہ آیاکہ آپ جنت کےباغوں میں ہونگے بہترین لباس زیب تن ہوگا نعمتوں سے بہرہ مند ہونگے تو مسکراتے ہوئے قرآن کو بند کردیا۔
الحاج آغا سید حیدر الموسوی اسلام آباد میں ایک ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں چند دن ہی زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کرگئے۔
آغا حیدر علی موسوی مرحوم کے جنازے مِیں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ آپ کو جامع مسجد سکردو میں غسل دیا گیا مولانا شیخ حسن جعفری نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔اور ہزاروں افراد کی آہوں اور سسکیوں میں آبائ گاوں حسین آباد میں اپنے دادا دادی کی قبور کے نزدیک اور والد مرحوم کے پہلو میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔
ویڈیو لنک۔
https://youtu.be/37a9GC2o8XU
❤️💐🌷🌹🪷🌺🌸🌻🪻🥀💞
"پاک ایران تعلقات" کے حوالے سے شبیر احمدشگری کی
ایرانی وزیر خارجہ اور وزیر سیاحت کی پاکستان آمد کے موقع پر روزنامہ
بیتاب سے خصوصی بات چیت پر خصوصی ایڈیشن۔انٹرویو: ملک امداد الہی

روزنامہ مشرق میں میرا کالم "امام حسین ع کا مدینے سے کربلا کا سفر" کا پہلا حصہ پڑھنا نہ بھولیں۔
https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-07-29/1

روز عرفہ کا یادگار دن۔
تحریر: حاجی شبیر احمد شگری
آج کے دن ھم روز عرفہ میں تھے۔ حج اور زیارات ایسے اعمال ہیں جن کی تمنا ہر مسلمان کرتا ہے لیکن جو انسان حج و زیارات بجا لاتا ہے تو پھر اس کے دل میں کبھی ختم نہ ہونے والی تڑپ پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر انسان بار بار ان مقدس مقامات پر پہنچنے کی تمنا کرتا ہے۔ اور انسان کے لئے یہ سفر ھمیشہ کے لئے یادگار بن جاتے ہیں۔
عرفہ مناسک حج کے آغاز کا دن ہے۔اس روز تمام حاجی میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔دعا و استغفار کرتے ہیں اور رب کریم کی اتنی بڑی رحمت سعادت کی صورت میں حاصل ہونے پر سر بسجود ہیں۔ یوم عرفہ کی اہمیت صرف ایک حاجی کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔ اسی لئے اس دن کی مناسبت سے معصومین علیھم السلام سے منسوب دعائیں بھی ہیں۔جس میں مشہور ترین دعا، امام حسینؑ کی تعلیم کردہ دعائے عرفہ ہے.جسے امام حسینؑ نے خود میدان عرفات میں پڑھا ہے اس لئے تمام شیعیان عالم اگرچہ میدان عرفات میں حاضر نہ ہوں مگر اس دن اپنے مولا و آقا کی اقتداء کرتے ہوئے اس دعا کو پڑھتے ہیں۔ ایک حاجی جب عرفات میں اس دعا کو پڑھتا ہے تو وہ اس دعا اور عرفات کے ان روحانی لمحات کوساری زندگی یاد کرتا رہتا ہے۔
بالخصوص آج روز عرفہ والے دن دل میں بہت تڑپ پیدا ہوئی کہ ھم آج کے دن عرفات میں تھے۔ 2019 کا حج شاید میرے لئےکئی اعتبار سے بہت اہم تھا ایک تو یہ کہ میری زندگی کا پہلا حج تھا۔ دوسرے یہ انتہائی آزادی اور بغیر کسی پابندی کے ادا کئے جانے والا آخری حج تھا کیونکہ اس کے بعد تو کرونا کی وجہ سے جانے کتنی پابندیاں لگ گئیں۔ اور دوسال کے تکلیف دہ انتظار کے بعد حجاج کو حج نصیب ہوا۔ اس لحاظ سے میں خود کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس ذات رب کریم کا شکر ادا کرتا رہتا ہوں کہ اس مہربان رب نے کتنی بڑی مہربانی کی۔
اور کرونا کےسالوں میں حج کے دوران خانہ کعبہ میں صرف چند افراد دیکھ کر دل بھر آیا۔ کہاں 2019 کا حج جب کعبۃ اللہ شریف میں اتنا رش ہوتا کہ ھمیں حرکت کرنا مشکل ہوتی تھی۔ یہ بھی حج کا ایک خاص کلچر ہی تھا۔اس حج کا ایک اپنا ہی مزہ تھا اوراب وہ دھکم پیل بھی نہ رہی۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کےفرمان کے مطابق جو عرفات پہنچ گیا اور اس نے شک کیا کہ اس کے گناہ معاف نہیں ہوئے تو اس نے بڑا گناہ کیا۔ اللہ اکبر۔ معصومین ؑ کے اس فرمان کے مطابق بلاشبہ ھم جب دنیا میں آئے اس وقت کی طرح پاک صاف ہوچکے تھے۔ کتنی خوش قسمتی تھی جو اس مالک نے ہمیں عطا فرمائی۔ عرفات کے بارے میں مزید پڑھا تو معلوم ہوا کچھ گناہ ایسے ہیں جو صرف عرفات میں ہی بخشے جاتے ہیں۔ اس سے آپ عرفات کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
آج اس وقت ہم عرفات میں تھے اور دعائے عرفہ پڑھی جارہی تھی۔امام زمانہ عج بھی تو ضرور حج کے لئے تشریف لاتے ہوں گےظاہر ہے روز عرفہ ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ جب امام عج تشریف لاتے ہیں تو ابر رحمت برستی ہے۔ یقینا ایسا ہی ہوا کہ اچانک کالے بادل نجانے کہاں سے امڈ آئے اور خطرناک گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہوگئی۔ اور گرج چمک اور بارش کا اتنا شور تھا کہ خیمے میں مولانا صاحب جس سپیکر پر دعا پڑھ رہے تھے اس کی آواز بھی اس شور میں دب چکی تھی۔ ٹینٹ میں جگہ جگہ پانی ٹپکنے لگا تھا۔ لگتا تھا ہوا کسی وقت ٹینٹ کو اکھاڑ کر ہوا میں اڑا لے جائے گی۔ ٹینٹ کے قالین پانی میں ڈوب چکے تھے۔ ھم سمیت عرفات،مزدلفہ اورمنٰی کے لئے جو سامان ھمارے ساتھ تھا وہ بھی بھیگ چکا تھا۔ لیکن ھمیں کہاں کسی چیز کی ہوش تھی۔ستر ماؤں سے زیادہ مہربان رب کے حضور ھماری دعائیں، فریادیں اورچیخ و پکار گرج چمک اور بارش کے شور میں دب رہی تھیں۔ ایک عجب روحانی ماحول اور کیفیت سب پر طاری ہوچکی تھی۔ گناہوں کے بخشے جانے کی خوش خبری سے موت کا خوف ختم ہوچکا تھا اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمنا بھی تمام ہوچکی تھی۔ کیونکہ اپنے حقیقی اور مہربان رب سے ہمارا براہ راست رابطہ قائم ہوچکا تھا۔ ہم ایک دعا مانگتے تو بجلی ایسے کڑکتی اور ایسی گرج ہوتی کہ جیسے ہمیں رب کی طرف سے جواب مل رہا ہو ۔ قبول کیا اور مانگ! باقی حاجی نہیں معلوم کیا دعائیں مانگ رہے تھے لیکن میرے لبوں پر یہ دعا بھی خصوصی طور پرتھی اے مالک مہربان تو نے بخش دیا تیرا بہت شکریہ بس اب ایک ہی دعا ہے کہ مجھے یہیں موت آجائے۔ کیونکہ آج ھم گناہوں سے پاک ہوچکے اب ہمیں لوٹ کر پھر اسی گناہ گار زندگی میں نہیں جانا جہاں پھر گناہ کے مواقع موجود ہوں گے۔ میرے مالک ہم خطاکار ہیں کہیں غلطی سے بھی پھر کوئی گناہ نہ کر بیٹھیں اور تجھ سے پھر شرمندگی اٹھانا پڑے۔ ہمیں گھر واپس نہیں جانا ہمیں اپنے گھر والوں کی بھی ضرورت نہیں ہمیں صرف تو عزیز ہے بس ہمیں یہیں موت دے دے تاکہ پھر کوئی گناہ ھم سے سرزد نہ ہوسکے۔
صحیح معنوں میں ان روایات کا اسی روز عرفہ کے دن پتہ چلا کہ قیامت کے دن قریبی رشتے بھی ایک دوسرے کو نہیں پہچانیں گے۔ اور عرفات میں ھمارا بھی یہی حال تھا کہ ہم گھروالوں،خاندان دنیا ہر چیز سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ اصل میں حقیقت بھی تو یہی ہے۔ جب ہمیں موت آئے گی تو کتنے ہی عزیز رشتہ دار گھر والے کیوں نہ ہوں ہمیں منوں مٹی تلے دبا کر ہمارے ہمارے اعمال کے ساتھ ہمیں چھوڑ کر واپس دنیا کی رونقوں میں لوٹ جائیں گے۔
اس موقع پر لاہور کے مشہور قافلہ سالارالحاج شیخ علی جاویدجعفری صاحب نے مجھے بتایا کہ شگری صاحب آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ نےاس طرح کی باران رحمت دیکھی مجھے 21 سال ہوگئے ہیں حج کاروان لاتے ہوئے میں نے آج تک ایسی بارش نہیں دیکھی۔ رب کی اس خصوصی رحمت کا دل سے شکرادا کیا۔
خیر بارش اس وقت تھمی جب ہمیں مزدلفہ کےلئے روانہ ہونا تھا۔ اور آج رات ہمیں کھلے آسمان تلے گزارنی تھی۔ یوں ھم عرفات سے ابراور رحمتیں سمیٹتے ہوئے مذلفہ کے لئے روانہ ھوگئے۔
شبیر احمد شگری ۔
ایران سعودیہ بہتر تعلقات مزارات بقیع کی تعمیرکے لئے امید کی کرن ہیں۔
تحریر: شبیر احمد شگری
گذشتہ دنوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری سے نہ صرف عالم اسلام میں وحدت کی فضا قائم ہوگی بلکہ ان شااللہ عالم اسلام کے کچھ دیرینہ مسائل کا حل بھی نکلنے کی امید ہے۔ 2019 میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کےلیے عمران خان نے کردار ادا کیا تھا اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے دورے کئے اور سربراہان سے ملاقاتیں بھی کیں۔ ایران کے سابق صدر نے بیان بھی دیا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت کا آغاز کیا گیا ہے۔طویل عرصے کی برف پگھلنے میں بھی تھوڑا وقت لگا اور بالآخر سرکاری سطح پر دونوں ممالک کے درماین تعلقات میں بہتری آئی۔ جس کا عالم اسلام نے خیرمقدم کیا۔ دونوں اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ یمن، اور شام کے مسئلے کے علاوہ سعودی عرب کا امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات تھے۔ کیونکہ ایران نے ہمیشہ دنیا کے مظلوم اور بالخصوص اسلامی ممالک میں کسی بھی جارحیت کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ ان سے ہمدردی کے علاوہ ان کی بھرپور حمایت سے دریغ نہیں کیا ہے۔ خصوصا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ایران کا موقف اور حمایت بالکل واضح رہی ہے۔
سعودی عرب مکہ میں عظیم فریضہ حج اور مقدس مراکز خانہ کعبہ اور مسجد نبوی، جنت البقیع اور دیگر مقامات کی وجہ سے تمام دنیا کے مسلمانوں کی عقیدت یہاں سے جڑی ہے۔ اگرچہ آل سعود کے بہت سے اقدامات نے مسلمانوں کے دل کو بہت ٹھیس بھی پہنچائی ہے۔ لیکن ان مقدس مقامات کی وجہ سے مسلمان مجبور تھے۔ اس میں سب سے بڑا واقعہ اکیس اپریل انیس سو چھبیس مطابق آٹھ شوال کو پیش آیا جب آل سعود نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر تسلط حاصل کیا توانہوں نے قبرستان "بقیع" اور حضرت رسول خدا صلی اللہ آلہ انکے اہلبیت علیہم السلام اور اصحابہ منتجبین کے آثارکو مسمار کرنا شروع اوردشمنی اہلبیت ؑمیں اب تک بیشمار مقدسات کوبدعت کی آڑ میں شہید کرچکے ہیں۔ اس لئے 8 شوال کو انہدام جنت البقیع کے دن پر ہر سال سوگ منایا جاتا ہے۔ اس تاریخی قبرستان میں دختر رسولؐ گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاسے منسوب قبر کے علاوہ حضرت فاطمہؑ بنت اسد، حضرت امام حسنؑ، حضرت امام زین العابدینؑ، حضرت امام محمد باقرؑ اور حضرت امام جعفر صادقؑ جیسی عظیم المرتبت ہستیوں کے مزارات اقدس موجود ہیں۔ ان ہستیوں کے علاوہ بھی صدر اسلام کی کئی مقدس ہستیاں اور اکابر اس قبرستان میں دفن ہیں۔ آلِ شیخ اور آلِ سعود خاندان کی مشترکہ سازشوں اور ملی بھگت سے عالم اسلام کے ایک سرمائے کو نابود کر دیا گیا۔ ائمہ بقیع کی قبروں پر واقع قیمتی فولادی تعویذ قبر جسے اصفهان، ایران کے مایہ ناز ماہر اہل فن نے بنایا تھاوہابی آل سعود اسے بھی اکھاڑ کر چرا لے گئے۔
بقیع کی تباہی کے ساتھ ہی مسلمانوں نے سعودیوں کے اس فعل کی مذمت کی اور بقیع کی تباہی کے خلاف احتجاج کیا اور نہ صرف قم اور نجف کے مدارس کے علماء نے بلکہ ہندوستان اور دیگر اسلامی ممالک کے مسلمانوں نے بھی ردعمل کا اظہار کیا۔ اسی بنا پر ایران اور نجف کے علمائے کرام نے مشترکہ اجلاس منعقد کیے اور مکہ میں مسلمانوں کی بدامنی اور سیکورٹی کے فقدان کی وجہ سے حج بھی ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا۔پوری دنیا کے شیعہ سنی مسلمان نےبھرپور احتجاج اور شدید غم و غصےکا اور آل سعود سے نفرت کا اظہار کیا تو وہ اس مزاحمت سے ڈر گئے اور وہ مکمل منصوبہ بندی کے باوجود حرم نبوی کو منہدم کرنے کی جراّت نہ کر سکے۔ مسلمانوں کی شدید مذاحمت اور شیعہ علماء اور ایرانی حکومت کی جانب سے ائمہ بقیع پر بارگاہوں کی تعمیر اور جنت البقیع کے قبرستان کے ارد گرد چاردیواری کے مطالبے پر سعودی عرب کی جانب سے مزارات کی تعمیر پر رضامندی بھی ظاہر کی گئی ۔اس وقت کے سعودی بادشاہ نے اس درخواست کو قبول کر لیا اور یہاں تک کہ بقیع کی زیارت اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت کی دستاویز بھی تحریر کی مگر
اسے اب تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اب تک مذہبی شدت پسندی کو رواج دیا ہےجس کا اقرار خود محمد بن سلمان نے ایک انٹرویو میں کیا۔ لیکن اب شاید اسے بھی یہ بات محسوس ہورہی ہے کہ دوسرے عرب ممالک ترقی کررہے ہیں اس لئے کچھ اصلاحات کی جائیں اور صرف حج کے موقع پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ مقدس مقامات پر پوری دنیا سے حاضری کی وجہ سے کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہر سال عاشورہ اور اربعین کے موقع پر حج سے بھی کئی گنا زیادہ مسلمان عراق ،کربلا ، شام میں حاضری دیتے ہیں۔جن کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے۔تو شاید سعودی حکومت اس وجہ سے ہی ان مزارات کی تعمیر کی اجازت دے دے تاکہ دوسرے ممالک میں جانے والے مسلمان زائرین یہاں بھی آئیں اور ان مزارات کو انہدام کرنے اور بدعت کی آڑمیں جو انھوں نے مسلمانوں کو اذیت دے رکھی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کی نفرت میں اضافہ ہوا شاید اس میں بھی کچھ کمی آسکےجس سے لامحالہ سعودی عرب کو ہی فائدہ ہوگا۔کیونکہ ابھی تک تو جنت البقیع میں موجود آئمہ طاہرین ؑ کے انہدام شدہ مزارات اور دیگر قبور کے قریب بھی مسلمانوں کو جانے نہیں دیا جاتا۔آل سعود کی جانب سے شرک کے فتووں کے جواب میں رہبر معظم حضرت سید علی خامنہ ای تکفیری تحریک کی سوچ کو عالم اسلام کی آفات میں سے ایک آفت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کسی شخص کی قبر پر جانا اور اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا مانگنا۔ اپنے لیے رحمت مانگنا۔ کیا شرک ہے؟ بلکہ انسان کو برطانیہ اور امریکی سی آئی اے انٹیلی جنس پالیسیوں کا آلہ کاربننا شرک ہے۔ ان حرکتوں سے مسلمانوں کے دلوں رنجیدہ ہوتے ہیں۔ وہ زندہ ظلم کے سامنے اطاعت کو شرک نہیں سمجھتے، بڑوں کی عزت کو شرک سمجھتے ہیں! یہ بذات خود ایک المیہ ہے۔ آج اسلامی دنیا میں جو شر انگیز تکفیری رجحان ہےاسلام کے مصائب میں سے ایک ہے۔
سعودی نہ صرف مدفون ائمہ کے مزارات اور مزارات کی تعمیر کی اجازت نہیں دیتے بلکہ زیارتوں پر بھی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ کسی کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ وہ زیارت پڑھے اور اہل بیت علیہم السلام کے لیے آنسو بہائے۔
گذشتہ دنوں ایران اور سعودیہ کی صلح کو لے کر سوشل میڈیا پر بہت پوسٹس وائرل ہوئیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنت البقیع کے مزارات کی تعمیر پر معاہدہ طے پاگیا ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ایران کی جانب سے ابھی تک سرکاری یا غیر سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن امید قوی ہے کہ صلح کے بعد جو بھی پیشرفت ہوگی اس میں ایران کی جانب سے یہ اولین مطالبہ ہوگا کہ بقیع میں آئمہ کے مزارات کے حوالے سے جو دیرینہ معاہدہ پہلے ہی سے ہوچکا ہے اس پرعمل در آمد کیا جائے۔ او پوری دنیا کے طرح یہاں عظیم الشان مزارات تعمیر ہوں۔ تاکہ پوری دنیا سے محبان اہلبیت علیھم السلام یہاں آکر حاضری دے سکیں۔ اس سلسلے میں پوری دنیا کے محبان اہلبیت ؑ اس وقت ایران کی حکومت کی جانب توقع لگائے بیٹھے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ ایران ان مقدس مقامات کو تعمیر کروائے۔ اور جس طرح دیگر مقدس مقامات کی ضریح ایران کی جانب سے نصب کی گئی ہیں یہاں بھی نصب کی جائیں اور شاندار روضے تعمیر ہوسکیں۔
یہ بہترین موقع ہے کہ تباہ شدہ دربار اور مزار کو دوبارہ تعمیر کرنے کے قابل بنایا جائے۔ اور جب مذاکرات ہورہے ہیں تو اس اہم معاملے کی پیروی ضرورکی جائے اور سعودی عرب کو اس کا وعدہ یاد دلایا جائے کہ98 سال گزرنے کو باوجود بقیع میں مدفون ائمہ کی قبور پرآج بھی دربار یا مزار نہیں ہے۔۔حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ ایران اس مسئلے سے غافل نہیں ہے۔
ایران کے حج و زیارت کی تنظیم نے حالیہ برسوں میں بقیع کی تعمیر نو کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اور بقیع کمیٹی تشکیل دے کر بقیع کے ماڈل کی نقاب کشائی بھی کی ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ بقیع کی تعمیر کے لیے تیار ہے۔
بحرحال اس وقت مسلمانوںکے لئے ایران اور سعودیہ کے تعلقات میں پیشرفت سے مزارات جنت البقیع کی تعمیرکے لئے امید کی کرن پیدا ہوگئی ہے۔

"ایران سعودیہ بہتر تعلقات مزارات بقیع کی تعمیر کے لئے امید کی کرن" کے موضوع پر میری تحریر آج کے روزنامہ مشرق میں پڑھنا نہ بھولیں۔ 29 اپریل 2023
https://mashriqakhbar.com.pk/page/p4/2023-04-29/1شہادت امام علی علیہ السلام کے موقع پر میری تحریر پر پندرہ روزہ "پرچار" کا اسپیشل ایڈیشن ۔ 15 اپریل 2023

شہادت امام علی علیہ السلام کے موقع پر روزنامہ "صدائے وطن"میں میری تحریر" شہادت امام علی علیہ السلام"



شہادت امام علی علیہ السلام کے موقع پر روزنامہ قدامت میں میری تحریر" شہادت امام علی علیہ السلام"


یوم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے میری تحریر " آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت خدیجہ سے محبت و عقیدت" کے موضوع پر آج کےروزنامہ ایمرا کا خصوصی ایڈیشن




https://t.co/iGCK6v7dcy










https://www.islamtimes.org/ur/article/1035236





http://ur.imam-khomeini.ir/ur/c5_48080/%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA/%D8%B3%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D9%82%D8%A7%D8%B3%D9%85-%D8%B3%D9%84%DB%8C%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%B9%DB%81%D8%AF-%D8%B3%D8%A7%D8%B2-%DA%A9%D9%85%D8%A7%D9%86%DA%88%D8%B1

https://globalaffairs.com.pk/2023/01/sardar-qasim-soleimani-a-covenant-making-commander/



















https://www.islamtimes.org/ur/article/1030133







































https://www.irna.ir/.../%D9%86%D9%88%DB%8C%D8%B3%D9%86%D8...

https://www.islamtimes.org/ur/article/997379




https://www.tribunewired.com/2022/05/22/significant-progress-in-pak-iran-joint-trade/
















 
برکات رمضان اور قرآن و اہلبیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔


اشاعت
خاص روزنامہ "بھلیکا"(پنجابی)۔ 30 اپریل 2022

"انبیا کی سرزمین مقبوضہ فلسطین" کے موضوع پر میری تحریر کو مختلف اخبارات روزنامہ مشرق، ایمرا،
پاکستان اور
ویبسائیٹ پر اشاعت خاص کے طور پر شائع کیا گیا۔28 اپریل 2022











شہادت امام علی علیہ السلام کے حوالے سے خصوص ایڈیشن۔
روزنامہ بھلیکا (پنجابی), روزنامہ ایمرا,روزنامہ بلدیات, روزنامہ افلاک,روزنامہ پاکستان اور وائس آف پریس۔
تحریر: شبیراحمد شگری
روزنامہ بھلیکا (پنجابی) 20 رمضان 2022


روزنامہ افلاک 19 رمضان 2022

روزنامہ بلدیات 21 رمضان 2022
وائس آف پریس ۔ 21 رمضان 2022


روزنامہ ایمرا 21 رمضان 2022


روزنامہ پاکستان لنک ۔ 21 رمضان 2022




تمام ادیان و مذاہب کے نجات دہندہ امام مہدی علیہ السلام ہی ہیں۔
تحریر: شبیر احمد شگری
17 مارچ 2022
دنیا میں ظلم و جور ،فسق و فجور،باطل کا زور اور حق سے دوری جیسے علامات کی وجہ سے ہمیں واضح نظر آرہا ہے کہ آج تمام عالم اور دنیا روز بروز تباہی کی طرف جارہی ہے ۔ قرآن و احادیث کے مطابق اس تباہی سے نجات دہندہ کوبھی ذات تبارک و تعالٰی نے ہمارے لئے پیدا فرمادیا ہے ۔ اورسب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ اس نجات دہندہ سے مراد امام مہدی علیہ السلام کی ذات بابرکت ہے ۔ اور یہ عقیدہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ دیگر آسمانی کتابوں اور مذاہب کے پیروکاربھی محکم انداز میں اس عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام کے متعلق قرآن میں متعدد آیات ہیں ان میں سے ایک آیت یہ بھی ہے کہ جس کی تفسیر شیعہ اور سنی دونوں مفسیرین نے "ظہور مہدی"سے کی ہے ۔ ذکر کے علاوہ ہم نے زبور میں لکھا ہے کہ میرے نیک بندے دین کے وارث ہوں گے ۔(سورہ انبیا آیت١٠٥)۔اور تعجب ہے کہ موجودہ عبارت زبور میں بھی تحریف کے بغیر موجود ہے ۔احادیث کی کتابوں میں تقریبا دو ہزار سے زیادہ احادیث و روایات امام مہدی(عج) کے موضوع کے متعلق بیان ہوئی ہیں۔اور امام مہدی علیہ السلام کے بارے سنی و شیعہ کی اس قدر احادیث ہیں کہ شمار کرنے سے باہر ہیں۔
پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا”خوش نصیب ھیں وہ لوگ جو مہدی علیہ السلام کی زیارت کریں گے ، اور خوش نصیب ھے وہ شخص جو ان سے محبت کرتا ھوگا، اور خوش نصیب ھے وہ شخص جو ان کی امامت کو مانتا ھو“۔ ابوبصیر امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور امام مہدی علیہ السلام کی اقتدائ میں نماز ادا کریں گے ۔ (کمال الدین جلد۲ ص ۳۴۵)۔
۔ ابوھریرہ رسول اکرم سے نقل کرتے ہیں : اس زمانہ میں تم کیسے ہو گے کہ جب مریم کا فرزند نازل ہوگا اور امام تم لوگوں میں سے ہوگا۔ (صحیح بخاری جلد ۳ ص ۱۲۷)۔
تمام مذاہب جہان یہ بات مشترک ہے کہ دنیا کا مصلح اور نجات دہندہ آخری زمانے میں آئے گا اور انسانی خیانتوں کا خاتمہ کردے گا اور اس کی جہانی واحد حکومت، عدالت و جمہوریت کی بنیاد پر استوار ہو گی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ اس بات پرایمان رکھتے ہیں کہ یہ مصلح،نجات دہندہ ہستی اور پردہ غیب میں موجود ہے ۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہپردہ غیبت سے ان کی برکات و رہنمائی ہم تک اس طرح پہنچ رہی ہے جیسے سورج اپنی روشنی بادل کی اوٹ سے بھی ہم تک پہنچا رہا ہوتا ہے ۔ اور کچھ کا کہنا ہے کہ وہ ہستی آئے گی یا پیدا ہوگی۔ حالانکہ کسی رہبریا خدا کے نمائندے کی موجودگی ہر دور میں رہی ہے بیشک اللہ ہر امور کے لئے کافی ہے ۔ لیکن یہ خدا کی مصلحت ہے کہ اس نے ہماری ہدایت کے لئے پیغمبر اور پاک ہستیاں بھیجی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے الہ پاک خود فرماتا ہے کہ تم میری مدد کروحالانکہ اللہ کو مدد کی کیا ضرورت ہے ۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے ۔مگر یہ عقیدہ سب رکھتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام ہی نجات دہندہ ہیں جوآخری زمانے میں دنیا کونجات دلائیں گے ۔مختلف ادیان ومذاہب کی تمام مقدس کتب واضح اورتقریباً ایک ہی انداز سے مصلح امام مہدی و قائم کے آنے کی خوشخبری دیتی ہیں اور ان خوشخبریوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا صاحب قدرت عظیم اور معجزہ ساز شخصیت ہیں جو حکومت جہانی کو کرہ زمین پر عدالت و حریت کی اساس پر قائم کر دیں گے اوریہ عقیدہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ ادیان کے پروردگاراس مصلح جہانی کی انتظار میں ہیں۔ اوراس نجات دہندہ اور بڑے مصلح کے آنے کی نوید قرآن پاک کے علاوہ آسمانی اورمختلف مذاہب کی مقدس کتابوں میں بہت زیادہ ہے ۔ مگر تحریر کی طوالت کے پیش نظر یہاں ہم مختصر طور پر ان کا حوالے دیں گے ۔
زبور میں واضح ذکر ہے کہ اگرچہ تاخیر سے آئے اس کے انتظار میں بیٹھو کیونکہ وہ آئے گا اور ضرور آئے گا ذرا بھر دیر نہ کرے گا بلکہ تمام امتوں کو اپنے پاس جمع کرے گا اور تمام اقوام عالم کو اپنی طرف بلائے گا(کتاب حقوق نبی فصل٢ بند٣،٥)(کتاب الشیعہ فصل ١١ج١تا١٠).
اسی طرح انجیل میں بھی امام مہدی علیہ السلام کا ذکر اوران کے لئے باقاعدہ ظہور کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔
اور اس وقت کو دیکھا جائے گا کہ بادل پر سوار ہو کر قوت و جلال سے آئے گا پس اپنی حفاظت کرو تمہارے دل غافل نہ ہوں وہ اچانک تم پر ظاہر ہو جائے گا دعا کرو اور نجات حاصل کرو اور فرزند انسان کے سامنے سرخرو ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔۔(انجیل لوقاباب ٢١بند٣٣،٢٧)
ہندوؤں کے نزدیک جو مقدس کتابیں معروف ہیں جن کے لانے والے پیغمبر کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں ان کتب میں زیادہ تصریحات مہدی موعودعلیہ السلام کی ہیں۔
ہندوؤں کی مقدس کتاب ‘دید‘‘ میں ہے کہ دنیا کی بربادی کے بعد آخری زمانے میں ایسا بادشاہ ظاہرہوگا جو تمام مخلوق کا پیشوا ہو گا اس کا نام منصور ہو گا) امام مہدی کا لقب منصوربھی ہے (تمام دنیا پر دین الہیٰ نظام کا حاکم ہو گا اور ہر شخص کو خواہ مومن ہو یا کافر پہچانتا ہو گا۔
زردتستیوں کیی معروف کتاب ‘حاماسب نامہ‘‘ میں زروشت سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر کی بیٹی کے فرزند جو کہ دنیا کا سورج اور زمانے کا شاہ ہے وہ بادشاہ ہو نگے اور دنیا میں یزدان کی اجازت سے اس کا حکم چلائے گا اور آخری پیغمبر کے وہ جانشین ہوں گے ۔
اگرچہ قرآن کے علاوہ باقی تمام آسمانی کتب تحریف سے محفوظ نہیں رہیں مگر ان کتب میں بھی بعض مقامات تحریف سے بالکل محفوظ ہیں کہ انہی مقامات پر مہدی موعود اور مصلح جہانی کے آنے کی اطلاع اور اس کی عالمی حکومت کی بات ہوئی ہے ۔
وَلِکلِّ قَوْمٍ ہَادٍ(ترجمہ: اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہوتا ہے ۔) جس کی بنیاد پر خدا ہر قوم کی ہدایت کے لئے انہی میں سے ایک شخص کو انتخاب فرماتا ہے جو ان کی ہدایت کرے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں نقل ہوا ہے کہ: ہر زمانے میں ہم اہل بیت میں سے ایک امام موجود ہو گا جو لوگوں کو پیغمبر اکرمؐ کے لائے ہوئے احکامات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
اس لئے اگرہم ذات باری تعالی، کو عادل تسلیم کرتے ہیں تو اس کا لازمی و منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی جانب سے ہر زمانے میں کسی نہ کسی عہدہ دار ہدایت وراہنمائی کا وجود بھی ضروری ماننا پڑے گا اگر چہ وہ ظاہر نہ ہو اور پردہ غیب میں رہ کر ہی ہدایت کے کام کو آگے بڑھارہا ہو یہ سلسلہ ہدایت جو بعد ختم نبوت بصورت امامت شروع ہوا اس کی ابتدا جیسا کہ ظاہر ہے مقام ختم نبوت سے ہوتی ہے اور انتہا اس مقام پر ہوتی ہے جہاں ذہن انسانی کی رسائی کے لئے نبوت جیسی کوئی علامت بھی موجود نہیں یہی سبب ہے کہ اس منصب جلیل کے ان حضرات نے تمام مصیبتوں کو اور آزمائشوں کو صبر و شکر خدا کے ساتھ طے کیا تب خدائے بزرگ و برتر نے یہ منزلت اور یہ عہدہ انھیں عطا فرمایا۔
اس وقت امت کا سب سے اہم فریضہ معرفت امام مہدی علیہ السلام کا حصول ہے چونکہ وہی ہماری اس دنیا کے نجات دہندہ ہیں۔ اور یہ اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا"چنانچہ امت کو چاہیے کہ امام علیہ السلام کی معرفت کی راہ میں جدوجہد کرے " خصوصا ان دعاؤں کی کثرت سے تلاوت کی جائے جو راہ میں معاون ہیں جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے : خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ کرے تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکتا خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو مجھے اپنی حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ کرے تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاؤں گا۔
امام زمانہؑ کی عمر کی طوالت کی اورعام انسانوں کے عمر سے عدم مطابقت کے سلسلے میں سوالات بھی اٹھائے گئے ۔جن کا واضح جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے لئے اس امر میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔کیونکہ تورات، انجیل اور قرآن میں ایسے انسانوں کا تذکرہ آیا ہے جن کی عمریں بہت طولانی اور غیر معمولی تھیں۔ قرآن میں حضرت نوحؑ کی دعوت کا عرصہ 950 سال ہے ۔اسی طرح حضرت عزیر نبی اور اصحاب کہف کے واقعات قرآن مین واضح ہیں خدا چاہے تو کسی کو بھی طویل عمر عطا کرسکتا ھے ۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت ادریس، حضرت الیاس، حضرت خضر اور حضرت عیسی علیہم السلام زندہ ہیں جبکہ ان کی عمریں امام زمانہؑ کی عمر سے بھی کئی گنا زیادہ طویل ہے ۔
شیعہ مفسرین، معصومین سے منقول احادیث کی بنیاد پر بعض قرآنی آیات کو امام زمانہؑ سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ ائمہؑ سے متعدد احادیث امام زمانہؑ، آپ کی غیبت، ظہور اور حکومت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ بعض حدیثی کتابیں انہی احادیث کو نقل کرنے اور ان کی جمع آوری کی غرض سے لکھی گئی ہیں۔ حدیث کی کتب کے علاوہ بہت سی دوسری کتب بھی امام زمانہؑ سے متعلق موضوعات کے سلسلے میں شائع ہوئی ہیں۔اور چونکہ شیعہ امام مہدی علیہ السلام کو زندہ اور غیبت میں ہونے پر ایمان رکھتے ہیںاور وقت کا امام مانتے ہیں۔ اس لئے انھیں امام زمانہ کہتے ہیں۔اور ان کے ظہور سے متعلق مخصوص دعائیں بھی مانگتے ہیں تاکہ دنیا کوتمام ناانصافیوں سے نجات مل سکے۔
اسی طرح اہل سنت اپنے روائی منابع کی رو سے نسل پیامبر خدا میں سے مہدی نام کے ایک شخص کو آخر الزمان کا نجات دہندہ مانتے ہیں۔ اہل سنت کی اکثریت یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ مہدی نام کا نجات دہندہ آخر الزمان میں پیدا ہوگا البتہ اہل سنت ہی کے بعض علما، جیسے سبط بن جوزی اور ابن طلحہ شافعی وغیرہ شیعوں کی مانند یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مہدی موعودؑ نبی پاک کی اولاد اورسلسلہ امامت میں حسن عسکریؑ کی اولاد میں سے ہیں۔
امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد عدل و انصاف برپا کرنے کو قیام کہا جاتا ہے ۔ یہ قیام کب شروع ہوگا اس بارے میں دقیق معلومات میسر نہیں ہیں لیکن احادیث کی بنا پر یہ قیام مکہ میں مسجد الحرام سے شروع ہوگا اور آٹھ ماہ تک جاری رہے گا۔ اس قیام کا اصلی مرکز عراق ہے اور امام زمانہؑ سفیانی کو اسی علاقے میں شکست دیں گے ۔احادیث کے مطابق امام مہدیؑ نماز عشا کو مسجد الحرام میں ادا فرمائیں گے اس کے بعد خانہ کعبہ میں اپنے قیام کا اعلان فرمائیں گے ۔آپؑ پیغمبر اکرمؐ کی میراث میں سے حضور کی تلوار، زرہ، عمامہ، زین، عصا، ردا اور پرچم ساتھ لائیں گے اور رُکن اور مقام کے درمیان اپنے اصحاب سے بیعت لیں گے ۔
شیخ صدوق کے مطابق امام مہدی علیہ السلام اپنے 313 خصوصی اصحاب کے ساتھ مسجد الحرام میں حاضر ہونگے اور اس آیت کے ساتھ اپنی گفتگو کا آغاز کریں گے کہ: اللہ کا بقیہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایماندار ہو. اس کے بعد ان الفاظ میں: " میں خدا کی زمین پر خدا کا ذخیرہ اور تمہارے اوپر خدا کی حجت ہوں" اپنا تعارف کرائیں گے ۔
احادیث کے مطابق امام زمانہؑ کے قیام میں شامل معروف شخصیات میں سے ایک حضرت عیسیٰ ہیں جو اس قیام میں آپؑ کی حمایت کریں گے ۔اسی طرح اولیائے الہی میں سے ایک گروہ جو اس دنیا سے رخصت ہوئے ہونگے نیز رجعت کریں گے ۔ ان میں سے بعض افراد جن کے اسامی احادیث میں آیا ہے من جملہ یہ ہیں: اصحاب کہف، حضرت یوشع بن نون، مؤمن آل فرعون، سلمان فارسی، ابو دجانہ انصاری اور مالک اشتر نَخَعی۔ بہر حال حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کا عقیدہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اوراہل بیت علیھم السلام کی روایات میں ذکر ہواہے اوراس مسئلہ کے بارے میں اتنی تاکید کی گئی ہے کہ کسی انسان کو اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہی اس دنیا کے نجات دہندہ ہیں کہ جب دنیا تباہی کے دہانے پر اور ظلم و جور سے بھری ہوگی وہی ہوں گے جو خدا کی کائنات کو عدل و انصاف سے بھردیں گے ۔
May be an image of 3 people and monument



حسینؑ ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔
تحریر: شبیر احمد شگری۔
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی۔ حضرت اقبالؒ
شعبان المعظم افق محمدی پر کئی آفتابوں اور ماہتابوں کے طلوع ہونے کا مہینہ ہے۔اس ماہ مبارک میں گلستان محمدی میں ایسے ایسے پھول کھلے ہیں کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود ان کی مہک ترو تازہ ہے اورقصراسلام کو پرسرور پر کیف بنائے ہوئے ہیں۔3 شعبان المعظم کو نواسہ رسول جگر گوشہ علی و بتول امام حسین علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے۔ چار شعبان کو تمنائے علی و بتول حضرت عباس علیہ السلام، 5 شعبان کو انقلاب حسینی کے پاسبان امام زین العابدین علیہ السلام اور 15 شعبان المعظم کو حجت حق اور مہدی موعود تشریف لائے۔
امام حسن علیہ السلام کی ولادت کا سن کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل خوشی سےباغ باغ ہو گیا انہوں نے امام حسین علیہ السلام کو گود میں لیا دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اپنی زبان ان کے منہ میں دی۔ اسطرح امام حسین علیہ السلام کی پہلی خوراک حضور پاک کا لعاب دہن مبارک بنا۔ اورساتویں دن ان کا عقیقہ کیا گیا۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی ولادت کے وقت ہی آپ کی شہادت کی خبر دے دی تھی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کو بہت چاہتے تھے اور دوسروں کو بھی ان سے محبت رکھنے کی تلقین کرتے تھے امام حسین علیہ السلام اصحاب کسا میں سے ہیں ان کی ذات گرامی مباہلہ میں اپنے نانا، والدہ اوربھائی کے ساتھ موجود تھی۔ وہ اہل بیت پیغمبر میں سے بھی ہیں جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل بیت میں سےامام حسن اورامام حسین کو زیادہ چاہتے تھے اور یہ محبت اتنی زیادہ تھی کہ مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے حسنین علیھم السلام مسجد میں آتے تو آپ خطبہ چھوڑدیتے تھے اور ممبر سے اتر کر انہیں اپنی گود میں لے لیتے تھے پیغمبر خدا سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ان دونوں کی محبت نے مجھے ہر کسی دوسرے کی محبت سے بے نیاز کیا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے بارے میں حضورپاک کی بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں کچھ مشھور روایات یہ ہیں۔
حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
عرش کے دائیں جانب لکھا ہوا ہے حسین ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔
جو میرے ان دو بیٹوں (حسن و حسین) کو چاہے گویا اس نے مجھے چاہا ہے جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے گویا مجھ سے دشمن کی ہے۔
حضرت سلمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہتے سنا ہے حسن و حسین میرے بیٹے ہیں جس نے ان سے دوستی کی میرا دوست ہے اور جس نے ان سے دشمنی کی وہ میرا دشمن ہے۔
زید بن حارثہ نقل کرتے ہیں کہ میں کسی کام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا رات کے وقت میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ رسول اللہ نے دروازہ کھولا۔ میں نے دیکھا ان کی عبامیں کچھ ہے۔میں نے اپنے کام کی بجائے ان سے سوال کیا یا رسول اللہ آپ کی عبا میں کیا ہے آپ نے عبا ہٹائی اور حسن حسین کو جو آپ کی گود میں تھے مجھے دکھایا اور فرمایا یہ میرے بچے اور میری بیٹی کے بچے ہیں اس وقت آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا خدا یا تو جانتا ہے میں ان سے محبت کرتا ہوں توبھی ان سے محبت فرما اور ان سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت فرما۔
بہت سی روایات میں ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے بہت زیادہ شباہت رکھتے تھے اور امام حسین علیہ السلام کی صورت و سیرت کاحضور پاک سے شباہت کے سلسلے میں اصحاب نے متعدد بار ذکر کیا ہے خاص طور سے آپ کی قامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھی جو بھی آپ کو دیکھتا اسے رسول خدا یاد آ جاتے تھے.
امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت سے رسول پاک کی محبت کو رشتہ داری کی بنا پرصرف جذباتی لگاؤ نہیں کہہ سکتے بلکہ منقول روایات پر اگر توجہ کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ کو اسلامی معاشرے کے مستقبل کا علم تھا اس طرح وہ حق اور باطل میں امتیاز کرنا چاہتے تھے۔ درحقیقت رسول اللہ نے اپنی ان احادیث کے ذریعے سے راہ حق پر چلنے والوں کو مستقبل میں اہل بیت علیہم السلام کے خلاف ہونے والی عداوتوں اور دشمنیوں سے آگاہ کر دیا تھا اس کے علاوہ دیگر روایات میں رسول خدا نے اہل بیت سے جنگ کو اپنے خلاف جنگ سے تعبیر فرمایا ہے۔
روایات میں ہے کہ ایک دن حسنین علیہم السلام رسول اللہ کے سامنے کشتی لڑ رہے تھے اور رسول اللہ امام حسن علیہ السلام کی حوصلہ افزائی فرما رہے تھے حضرت فاطمۃ الزھراسلام اللہ علیھا نے فرمایا بابا آپ حسن کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جبکہ وہ بڑے ہیں حضور پاک نے فرمایاجبرائیل بھی یہ کھیل دیکھ رہے ہیں اور وہ حسین کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں اور میں حسن کا۔
نماز جماعت کے موقع پر بچپن میں کبھی کبھی حسن حسین علیہم السلام اپنے جد بزرگوار کے پاس آجاتے آپ کی کمر پر سوار ہوجاتے ۔اصحاب بچوں کو رسول اللہ کی کمر سے ہٹانے کی کوشش کرتے لیکن آپ اشارے سے انہیں منع فرماتے تھے اور خود بڑے پیار سے دونوں کے ہاتھ تھام کر انہیں نیچے لاتے اور اپنے زانووں پر بٹھا لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ معمول کے برخلاف سجدے کو بہت طول دیا۔ بعض نمازیوں نے آپ سے سوال کیا آج آپ نے سجدے کو خاصہ طول دیا۔آپ نے فرمایامیرا بیٹا حسین میرے کاندھے پر بیٹھا ہوا تھا میں نے سجدے کو طول دیا تاکہ وہ خود اتر آئے اور میں نے خود اسے کندھے پر سے اتار نا مناسب نہیں چاہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اے لوگو میرے ذریعے تمہیں دین حق سے آگاہی حاصل ہوئی اور علی کے ذریعہ تمہیں صحیح راہ ملی اور تمہاری ہدایت ہوئی حسن کے وسیلہ سے تمہیں نیکیاں عطا ہوئیں لیکن تمہاری سعادت و شفاعت حسین کے ساتھ تمہارے رویے پر منحصر ہے حسین جنت کا ایک دروازہ ہے جو بھی اس سے دشمنی کرے گا خدا اس پر جنت کی خوشبو حرام کردے گا۔
حضرت ام سلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ: ایک دن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا رسول اللہ کے لیے غذا لے کر آئيں اس دن رسول اللہ میرے گھر میں تشریف رکھتے تھے، رسول اللہ نے اپنی بیٹی کی تعظیم کی اور فرمایا جاؤ میرے چچازاد بھائی علی اور میرے بچوں حسن و حسین کو بھی بلا لاؤ تا کہ ہم مل کر کھانا کھائيں کچھ دیر بعد علی و فاطمہ حسنین کا ہاتھ تھامے ہوۓ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوۓ اسی وقت جبرئيل آیۃ تطہیر لے کر نازل ہوۓ اور کہا: انمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا،
اے پیغمبر کے اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویساپاک و پاکیزہ رکھے۔
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا: کساء خیبری لے آؤ (یہ ایک بڑی عبا تھی) رسول اللہ نے علی کو اپنے داہنے طرف زہرا کو بائيں طرف اور حسن و حسین کو زانووں پر بٹھایا اور یہ عبا سب پر ڈال دی اپنے بائيں ہاتھ سے عبا کو سختی سے تھاما اور سیدھا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر تین بار فرمایا: خدایا یہ میرے اہل بیت اور میرا خاندان ہے جیسا کہ تو نے وعدہ کیا ہے ان سے ہر طرح کی برائی کو دور رکھ اور انہیں معصوم و پاک رکھ میں اس کے ساتھ جنگ کروں گا جو ان کے ساتھ جنگ کرے گا اور اس سے میری صلح ہے جو ان سے صلح رکھے گا اور دشمن ہوں اس کا جو ان سے عداوت رکھے گا۔
آیت تطہیر کے نزول کے وقت صرف ان پانچ افراد کے علاوہ کوئی اور شامل آيۃ تطہیر نہیں تھا۔ اسی بنا پر ان حضرات کو اصحاب کساء کہا جاتا ہے اور امام حسین علیہ السلام کو خامس اصحاب کساء کا لقب دیا گیا ہے۔
شیعہ اور سنی علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ نصاری نجران سے سے مباہلہ کے وقت رسول اللہ نے علی و فاطمہ حسن و حسین کو اپنے ساتھ لیا اور انہیں آیۃ شریفہ کے الفاظ" ابنائنا و نسائنا و انفسنا " کا مصداق قرار دیا۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنی حیات طیبہ میں پچیس مرتبہ پیادہ حج کیا ہے۔ جب کہ آپ کے ہمراہ عربی نسل کے گھوڑے بغیر سوار کے ہوا کرتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کافی وسائل و ذرائع کے حامل تھے اور ان سے استفادہ بھی کر سکتے تھے لیکن آپ نے بندگی اور خضوع و خشوع کے تقاضوں کے مطابق پیادہ سفر حج کیا،بغیر سوار کے گھوڑوں کا اپنے ساتھ رکھنے کے دو اسباب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ آپ واپسی میں ان سے استفادہ کرتے تھے، اور دوسرا یہ کہ نوکروں اور خادموں کی طرح سفرکرنا نہایت بندگی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اور کردار سے جو شعائیں پھوٹی ہیں ان سے نہ صرف عالم اسلام منور ہوا ہے بلکہ اس نور نے عالم بشریت کی بھی رہنمائی کی ہے۔اور نواسہ رسول کے ماننے والے تمام مذاہب میں موجود ہیں۔
آپ کی خدمت دین اور خدمت خلق کے جذبے کا ہم اس روایت سے اندازہ لگا سکتے ہیں کے روز عاشورہ لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کی پشت پر گھٹے کے نشان دیکھے تو امام زین العابدین علیہ السلام سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا یہ نشان بیواؤں، یتیموں اور مسکینوں کے گھروں تک نان و خرما پیٹھ پر لاد کر لے جانے کے سبب سے بنے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے غریبوں مجبوروں کی بھی مدد کی بلکہ اسلام کو ضرورت پڑی تو آپ نے اپنےخون سے شجر اسلام کی آبیاری کی اور اپنے کردار کی روشنی سے بتایا کہ ہم اہل بیت کیا ہیں۔ اور کربلا میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اسلام کو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاویدکر دیا۔ اور شاعر کو کہنا پڑا کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔۔۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کے قریب سے گزر رہے تھے آپ کو گھر سے امام حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز آئی آپ نے فرمایا بیٹی حسین کو چپ کراؤ کیا تم نہیں جانتی کہ اس بچے کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔
یہ نبی پاک کاوہی پیارا دلارا حسین ہےکہ جب نبی پاک سجدے میں ہوں اور یہ پشت پر سوار ہوں تو نبی پاک سجدے سے سر نہیں اٹھا سکتے لیکن کتنا عظیم ظلم ہے کہ اسی حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو کربلا کی تپتی ریت پر بھوکھے پیاسے اور سجدے کی حالت میں تن سے جدا کیا جاتا ہے ۔اس پاک گردن پر خنجر چلایا جاتا ہے جہاں ہمارے نبی پاک بوسے لیا کرتے تھے۔ یہ نانا کا وہی نواسہ ہے بچپن میں جس کے رونے سے نانا کوتکلیف ہوتی تھی۔ یہی وہ حسین ہے جس نے اپنا گھر بار لٹا کر جانوں کا نذرانہ پیش کرکے نانا کا دین بچا لیا ۔ یزید ملعون کے بیعت کے تقاضے پر امام حسین علیہ السلام نے واضح ارشاد فرمایا۔ "مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت کبھی نھی کرے گا"۔ امام عالی مقام نےشہادت کا عظیم درجہ پاکریزیدیت کو ہمیشہ کے لئے لعنت اور ذلیل و رسوااور حسینیت کو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید کر دیا۔
عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ کٹا حسین کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ۔
03 مارچ۔ 2022
روزنامہ "ایمرا"میں میری تحریر"حسین ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی" کے موضوع پر اشاعت خاص پڑھنا نہ بھولیں۔
7 مارچ 2022 ۔ https://emra.tv/?p=139151



پاکستان ایران تعلقات کے حوالے سے میری تحریر"پکستان ایران تعلقات میں فروغ کلے لئے سرگرم عمل" پر خصوصی ایڈیشن چھاپنے پر روزنامہ ایمرا، مبصر اور پوسٹ مارٹم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ پاک پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں کوشاں ان ایڈیٹر حضرات کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ آمین
روزنامہ مبصر۔ 26 فروری 2022
روزنامہ ایمرا۔ 22 فروری 2022
روزنامہ مبصر۔ 26 فروری 2022





عید مبعث کے موقع پر خصی تحریر
دو سال قبل حج کےمبارک سفر کےموقع پر غار حرا کے آنکھوں دیکھے حال اور ذاتی تجربے پر تحریر لکھی تھی جسے سب نے بہت پسند کیا ۔ آج کے مبارک دن کی مناسبت سے دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اگر پسند آئے تو کمنٹ کے ساتھ شئیر ضرور کریں۔ جزاک اللہ
"جبل نور" جہاں رسول پاک پرپہلی وحی تری
آدھی رات کے وقت بھی "جبل نور" نور میں نہایا ہوا تھا۔
تحریر: شبیر احمد شگری
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾
ترجمہ: (اے رسول(ص)) اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیے جس نے (سب کائنات کو) پیدا کیا۔ (1) (بالخصوص) انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا۔ (2) پڑھئیے! اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے۔ (3) جس نے قَلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔ (4) اور انسان کو وہ کچھ پڑھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ (5)
دو سال قبل حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے مکہ معظمہ میں جبل نورپر غار حرا میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک حاجی حج کے لئے مکہ مکرمہ جائے لیکن اس مبارک غار پر حاضری کا شرف حاصل نہ کر پائے جہاں ہمارے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی اتری ہو۔ کچھ ناتواں اور مریض حاجی جبل نورپہاڑ پر چڑھنے سے گھبرا بھی رہے تھے۔ اس کی وجہ ایک تو انتہائی گرم موسم اور دوسرا پہاڑ پر چڑھنے کی عادت کا نہ ہونا تھا۔ مجھے تو بلڈ پریشر کا مسئلہ بھی تھااور دومنزلیں سیڑھیاں چڑھنے پر سانس پھول جانے کی حالت ہوجاتی لیکن اس کے باوجود عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سرشار اس بات کا مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ اس عظیم مقام پر ضرورحاضری دینی ہے۔ کیونکہ نہ جانے زندگی میں پھر کبھی یہاں آنے کا موقع ملے یا نہ ملے اس لئے جو مرضی ہوجائے اس مقام کی زیارت ضرور کرنی ہے تاکہ بعد میں حسرت نہ رہ جائے۔کیونکہ وہ متبرک اور عظیم مقام جہاں پہلی وحی اتری۔ جہاں سرکار دوعالم عبادت کیا کرتے تھے ، جہاں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا حضور پاک کے لئے کھانا لے کر جایا کرتی تھیں۔جہاں مولا علی علیہ السلام حضور پاک کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔ تو ہم کیا اور ہماری اوقات کیا۔ لیکن خدا کی دی ہوئی عظیم توفیق ہے کہ ہم اس مقام پر پہنچ سکیں۔
کچھ آسانی اس طرح بھی ہوئی کہ لاہورکے کاروان حج آل عبا کے روح رواں سالار علی جاویدجعفری صاحب نے اپنے تجربات کی روشنی میں ہمیں مشورہ دیا تھا کہ آپ نے جب جبل نور پر جانا ہے تو رات کو جائیں۔اس طرح آپ گرمی کی شدت سے بچ جائیں گے۔ چونکہ ہم ان کے مفید تجربوں اور مشوروں سے پہلے بھی مستفید ہوچکے تھے اس لئے ان کی بات دل کو لگی۔بحرحال ہم تین حاجی میں حاجی شبیر احمد شگری، حاجی علی رضا ،حاجی شہزاد اور لاہور کے دیگر دوستوں کے ھمراہ خانہ کعبہ میں دعائے کمیل پڑھنے کے بعد آدھی رات کو جبل نور روانہ ہونے کا ارادہ کیا۔
خانہ کعبہ سے باہر آکرہم نے ٹیکسی لی اور ٹیکسی والا چونکہ گجرانوالہ کا تھا ۔مدینہ اور مکہ میں اکثر ڈرائیورحضرات گجرانوالہ کے ہیں ۔ہمیں اپنا ہم وطن پاکرٹیکسی ڈرائیور بہت محبت سے پیش آیا اور مناسب کرائے میں ہمیں کافی چڑھائی پر بالکل پہاڑ کے دامن میں چھوڑ گیا۔ جو کہ خود کافی بلندی پرموجود ہے۔ جہاں سے پہاڑ ہ پر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں شروع ہوتی ہیں۔ آدھی رات کو ھم نے " جبل نور" پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ اس پہاڑ کا نام ویسے ہی جبل نور ( نور کا پہاڑ) نہیں رکھا گیا بلکہ یہاں واقعی نور برس رہا تھا۔ ہم نے موبائیل ہاتھ میں لے لئے تھے کہ راستہ دیکھنے کے لئے لائیٹ جلا لیں گے۔ لیکن یہ 1400 سال گزرنے کے باوجود اس کلام نور کے نور کا معجزہ تھا جو نبی پاک پراس پہاڑ پر اترا تھا۔ کہ کوئی لائیٹنگ نہ ہونے کے باوجود آدھی رات کو بھی ہمیں سارا راستہ حتٰی کہ چھوٹی کنکریاں تک صاف نظر آرہی تھیں۔ اور ہم بغیر کسی لائیٹ کے اسی نور کی روشی میں پہاڑ پرچڑھتے گئے۔ ہم تھوڑی تھوڑی دیر بعد آرام کرتے ہوئے چڑھتے رہے تاکہ تھکن نہ ہو۔ پہاڑ پر چڑھنے کے لئے بڑی بڑی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ لیکن کچی پکی۔ کیوں کہ سعودیوں کے حساب سے اگر دیکھا جائے تو شاید اس غار پر جانا بھی بدعت کہلائے گا۔ اس لئے انھوں نے کوئی راستہ بھی نہیں بنایا۔ بتایا گیا کہ یہ سیڑھیاں بھی پاکستانیوں نے بنائی ہیں۔
ہماری طرح اور بھی بہت سے حاجی صاحبان (خواتین و مرد)جذبہ عقیدت سے سرشار پہاڑ چڑ رہے تھے کہ اس مقام پر پہنچنے کا شرف حاصل ہو جہاں رسول پاک اور ان کی اہلبیت علیھم السلام کے مبارک قدم پڑتے رہے ہیں۔ جبل نور پر ثڑھنے والے حجاج میں زیادہ تعداد ایرانی حجاج کی تھی۔ اوپر جانے والے حاجی واپس اترنے والے حاجیوں سے پوچھ رہے تھے حاجی صاحب کتنا فاصلہ مزید رہ گیا ہے۔ حاجی جواب دیتے بس تھوڑا ہی رہ گیا ہے۔ راہ چڑھتے ہوئے کچھ انڈین دوستوں کو دیکھا کہ ایک مولوی صاحب راستے میں محفل جمائے دوستوں کو تبلیغ فرما رہے تھے ۔ اور اپنے دوستوں سے سوال کر رہے تھے۔ کہ غار حرا کا مقام و منزلت زیادہ ہے یا غار ثور کا؟
مجھے بہت عجیب لگا۔ ٹھیک ہے کہ غار ثور میں حضور پاک کے ساتھ ان کے صحابی نے بھی پناہ لی تھی۔ لیکن غار حرا کے ساتھ اس غار کا مقابلہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے ہانپتے اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جواب دیا۔" وہ غار جہاں کلام پاک کی پہلی وحی اتری"۔ سوال کرنے والا اور جنھوں نے جواب دینا تھا دونوں اس غیر متوقع جواب پرخاموش ہوچکےتھے جو کہ ایک گزرتے ہوئے حاجی نے ان کی گفتگو میں شامل ہوتے ہئے دے ڈالا تھا۔اورہم انھیں پیچھے چھوڑآئے۔
کافی چڑھائی چڑھنے کے بعدجب ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے تو خدا کا شکر ادا کیا۔ یہاں سے روشنیوں میں نہایا ہوا پورا مکہ شہر نظر آرہا تھا ۔ جس میں خانہی کعبہ کو صاف دیکھائی دے رہا تھا۔ بڑی راحت محسوس ہوئی۔ یہاں آکر پتہ چلا کہ غار کی طرف جانے کے لئے ہمیں پہاڑ کےدوسری طرف دوبارہ تھوڑا اترنا بھی ہے۔ خیر ہم اترے یہاں لوگوں کی آمد و رفت زیادہ تھی۔ غار سے پہلے گزرنے کے لئے پہاڑ کے درمیان بہت تنگ درہ تھا میں تو سمجھا کہ شاید اس سے گزر نہ سکیں گے لیکن اس تنگ اور کوتاہ قامت درے سے جھک کر ہم بغیر دقت دوسری طرف نکل آئے یہاں ایک دم حجاج کا رش بہت زیادہ نظر آیا کیونکہ اب ہم غار حرا کے بالکل نزدیک پہنچ چکے تھے۔ ہماری نظر غار مبارک پر پڑی۔ جس پر "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ" لکھا تھا۔ ایک عجیب روحانی کیفیت تھی جو الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ سامنے وہ منظر تھا جو بچپن میں اردو اور اسلامیات کی کتابوں میں اور پھر اب تک کی زندگی میں مختلف تصاویر اور ویڈیوزمیں دیکھتے رہے تھے ۔ اورہم یہ نہیں جانتے تھے کہ یہاں کبھی پہنچنا نصیب بھی ہوگا کہ نہیں۔ ہماری یہ کیفیت کوئی بھی شخص اسی وقت محسوس کرسکتا ہے جو یہاں حاضری دینے کی سعادت حاصل کرلے۔ کیونکہ ہم اس جگہ موجود تھے جہاں آقائے دوعالم وقت گزارا کرتے تھے ۔ جہاں بی بی خدیجہ تشریف لاتی رہیں جہاں حضرت علی علیہ السلام کے قدم مبارک پڑتے رہے۔ روح پرعجیب پر کیف و پر لطف سرور ہم پرطاری تھا۔
آگے جگہ بہت تنگ ہوگئی تھی اور رش بہت زیادہ اور اسی رش میں آگے جانے کے لئے قطاربنی ہوئی تھی۔ اوردھکم پیل بھی بہت زیادہ تھی۔ ہر کوئی غار میں پہنچنے کے لئے بےتاب اور زور لگا رہا تھا۔ تھوڑا اورآگے جگہ اور رش کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف پہاڑ دوسری طرف لوگ اورجگہ کی کمی کے باعث کافی دیر تک ایک ٹانگ پرکھڑا بھی رہنا پڑا۔ یہاں ترکی، ایرانی، پاکستانی، انڈین حجاج موجود تھے۔ میرے ساتھ ہی ایک ترک حاجی تھے اور اس کے پیچھے ایک انڈین حاجی شاید تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ جنہیں عربی نہیں آتی تھی وہ ترک حاجی کو پوچھنے لگے ۔ ترکی۔۔۔؟ ترکی۔۔۔۔؟ ترک حاجی جنھیں اردو نہیں آتی تھی، نے ہاں میں سر ہلایا ۔ مولوی صاحب نے پھر سوال داغا۔ سنی ؟ سنی مسلمان۔۔۔؟ حاجی نے پھر سر ہلایا۔ مولوی صاحب قطار میں وقت گزارتے ہوئے ترک حاجی پر فریفتہ ہوئے جارہے تھے کہنے لگے سنی عاشق رسول۔۔۔ سنی عاشق رسول۔۔۔۔ مجھے ان کی بات عجیب لگی لیکن ایک زور کے دھکے سے ہم تھوڑا آگے ہوئے تو دھیان دھکم پیل پر ہوگیا ۔ تھوڑی دیر بعد پھر پیچھے سے اس مولوی صاحب کی آواز آئی جو ترک دوست کوبڑے فخر سے پھر کہنے لگے سنی عاشق رسول ۔۔۔ سنی عاشق رسول۔۔ اور مستی میں سر دھننے لگے۔ جب کچھ وقفے کے بعد تیسری مرتبہ ان کی آواز سنی عاشق رسول۔۔۔ سنائی دی تو مجھ سے رہا نہ گیا قدرتی طور پرایک دم پلٹ کر بڑے احتجاجی انداز میں ان کو کہا۔ بھائی کیا صرف سنی ہی عاشق رسول ہوتے ہیں ۔ اور دنیا میں عاشق رسول کوئی نہیں ہوتا۔ اس احتجاجی حملے کے لئے شاید مولوی صاحب تیار نہیں تھے ہڑبڑا اٹھےاور ان کو کوئی جواب نہ بن پڑا اور شاید ان کو خود بھی احساس ہوگیا تھا کہ یہاں پر سنی حضرات کے علاوہ اور بھی عاشق رسول موجود ہیں۔مجھے اس بات پر بہت حیرت ہوئی کہ یہ صاحب یہاں آکر بھی حاجیوں کو فرقوں میں تقسیم کررہے تھے۔ انھیں اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ ہم اس جگہ موجود ہیں جو رحمت اللعالمین سے منسوب ہے جن کومسلمان تو کیا کفار بھی صادق اورامین کہہ کر پکارتے تھے۔جن کے پاس غیر مسلمان بھی اپنی امانتیں رکھتے تھے ۔
غار کے قریب کھسکتے کھسکتے جیسے جیسے باری قریب آرہی تھی دل بے چین تھا۔ جب بالکل نزدیک پہنچے تو غار مبارک کا اندرونی دیدا ہوا غارمیں تنگ سی جگہ ہے جہاں ایک شحص آرام سے نماز پڑھ سکتا ہے۔ یہاں لوگ کئی کئی رکعتیں نفل پڑھ رہےتھے محبت رسول میں سرشاراورپیچھے کھڑےبیتاب لوگوں کی آوازوں سے بے نیازجو کہہ رہے تھے بھائی جلدی پڑھ لواور لوگ بھی انتظار کر رہے ہیں۔ مگر یہاں کوئی آصانی سے کہاں پہنچتا ہے کہ آسانی سے اس متبرک جگہ کو چھوڑ دے جہاں نبی پاک کا مصلہ تھا اور وہ عبادت فرماتے تھے۔ ہمارے ساتھی حاجی علی رضا نے سوال کیا کیا آپ نے کچھ نوٹ کیا؟میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا تو کہنے لگے پہاڑ پر چڑھنے کی تھکن بالکل محسوس نہیں ہورہی۔ میں نے جب اس پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ واقعی ہماری حالت تو ایسی پرسکون تھی جیسے کوئی پہاڑتو کیا شاید کوئ معمولی چڑھائی بھی نہ چڑھے ہوں۔ رحمت اللعالمین سے منسوب اس مقام پر رحمتیں ہی برس رہی تھیں اور ہم سمیٹ رہے تھے۔ فضا میں درود سلام کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔رہ رہ کر یہ خیال آتا تھا کہ رسول پاک کس طرح دشمنوں سے دوراتنی بلند پہاڑی پر آکر خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔ اس ذات پاک نے ہماری خاطر کتنی مصیبتیں اور صعوبتیں برداشت کیں۔ جب ہمارے ساتھی حاجی غار میں نمازیں ادا کررہے تھے تو مجھےبھی دوسرے حاجیوں کی طرح مظبوطی سے کھڑے ہونا پڑ رہا تھا ورنہ تو پیچھے سے آنے والے زوردار دھکوں سے سب سے آگے والاحاجی غار میں نماز پرھنے والے حاجی پر ہی جاگرے ۔ اور جب میری باری آئی تو ہمارے دوست حاجی شہزاد اور حاجی علی رضا کھڑے ہوئے تو مجھے اس مبارک غار میں نمازیں ادا کرنے کا موقع ملا کیا سعادت تھی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا بس یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھ جیسا حقیر بندہ اس جگہ نماز ادا کررہا تھا اور خدا سے اپنی حاجتیں مانگ رہا تھا جہاں سرکار دوعالم دعائیں مانگا کرتے تھے۔
مجھ میں انکی ثنا کا سلیقہ کہاں، وہ شہِ دو جہاں وہ کہاں میں کہاں
اُن کا مدحِ سرا خالقِ این و آں، وہ رسولِ زماں وہ کہاں میں کہاں
ایک عجب متبرک مقام تھا جہاں بندہ دنیا و مافیھا سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔یوں تو غار کے احاطے میں ہی فرحت بخش خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ لیکن غار میں بالکل سامنے کی جانب ایک بالکل چھوٹا سادرہ کھلا تھا اور جب یہاں سے ہواکی لہر آتی تو اپنے ساتھ خوشبو کاایسا مسرور کن جھونکا لئے آتی کہ نشہ عشق طاری ہوجاتا۔ایک ایسی خوشبو جو میری روح میرے لباس اور آستینوں میں رچ بس گئی تھی۔ کافی عرصے تک میں دیوانہ وار اپنی ان آستینوں کو سونگھتا تو وہی خوشبو محسوس ہوتی اور میں ایک لمبی سانس کھینچ لیتا۔خیر اس مقام پر کس کا دل نہیں چاہے گا کہ زیادہ سے زیادہ وقت گزارے۔ لیکن مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ سرکار دوعالم کے بہت سے مہمان اور عشاق رسول پیچھے میرے اٹھے کے منتظر ہیں۔ ہیں۔ لہٰذا دعاوں اور درود و سلام کے ساتھ بادل ناخوستہ اٹھنا پڑا کیونکہ ایسی جگہ پر تو شاید عمر بھر بھی گزر جائے تو کم ہو۔ خیرہم ایسی جگہ سے واپس ہوئے جہاں دل اور یادیں رہ گئیں۔ لیکن جتنا ہوسکا سعادتیں اور برکات سمیٹ لیں۔ پھر اسی تنگ درے سے گزر کر واپس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے جہاں پر ایک دکان بھی تھی۔ اور چبوترہ بھی بنا ہوا تھا۔ ہم نے ارادہ کیا کہ آج کی بابرکت رات صبح تک یہیں گزاری جائے ویسے بھی تہجد کا وقت تھا ۔ اور ہم کتنے خوش قسمت کہ ایسے مقام پر تہجد کی نمازیں ادا کررہے تھے حتٰی کہ صبح کی اذان کا وقت ہوا اور ہم نے نماز فجر بھی وہیں ادا کی اور اس سے پہلے کہ سورج طلوع ہو اور گرمی کی شدت شروع ہوجائے ہم واپس اترنے لگے۔ اس مرتبہ ہم کہیں رکے بغیررسول پاک کے عشق و مستی میں سرشار نیچے تک اتر آئے۔
اور پہاڑ کے دامن میں موجود ایک دکان پر جاکر دم لیا جہاں سے پانی پیا۔ دکان کا مالک مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والا ایک جوان تھا۔ ہم نےکشمیر کے حالات دریافت کئے تو وہ بہت پریشان تھا اس وقت کشمیر میں تازہ کرفیو نافذ ہوا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ کئی ہفتے ہوگئے فون تک بند ہیں اور گھر والوں کی کوئی خبر نہیں ہے۔ ہم اس سمیت تمام کشمیری بہن بھائیوں کے لئے دعائیں کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئے۔
ایک بات بتاتا چلوں اور حاجی جانتے ہیں کہ حج کی عبادت جسمانی طور پر ایک مشقت والی عبادت ہے اور ہم جب حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں فطری بات ہے کہ بیشمار طواف اور صفا و مروہ کی سعی انسان کو تھکا دیتی ہے۔ لیکن میں آپ کو اپنا تجربہ بتاوں کے ہماری تھکن جبل نور پر چڑھنے اور غارحرا پہنچنے تک تھی۔ اس کے بعد میں نے جتنے عمرے، طواف اور سعی کیں مجھے کبھی تھکن کا احساس نہیں ہوا اور یہ اس متبرک جگہ اس غار مبارک حرا کی برکت تھی جہاں سرکار دوعالم پر پہلی وحی اتری۔
آپ کا کافی وقت لے چکا۔میرا ارادہ بعثت کے حوالے سےمختصر تحریر کا تھالیکن فرط جذبات میں تحریر کچھ لمبی ہوگئی۔ لیکن پھر بھی سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ میری دعا ہے کہ مجھے اور آپ سب کوبار بار حج بیت اللہ اور مکہ و مدینہ کےتمام متبرک مقامات (جبل نور سمیت )کی زیارت بار بار نصیب فرمائے۔ اور جنھوں نے عشق رسول میں یہ تحریر پوری پڑھی ہے ان کے لئے خصوصی دعا ہے کہ رب العالمین ان کو جلد اجد ان مقامات کی زیارات بشمول حج و عمرہ نصیب فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔
عید مبعث کے مبارک موقع پر دعاوں کا ملتمس
شبیر احمد شگری
28 فروری 2022



امام موسی کاظم (ع) کی جدوجہد:
امام جعفر صادق نے جس روش و طریقے پر اپنی جدوجہد اور منصوبہ بندی کے ذریعہ معاشرے میں اپنا جہاد جاری رکھا ہوا تھا، اسی راستے اور جدوجہد پر امام موسی کاظم نے اپنا جہاد جاری رکھا جس کے چار محور تھے :
پہلا محور:
فکری منصوبہ بندی کرنا، نظریاتی بیداری پیدا کرنا ،نیز منحرف عقائد اور قبائلی ، قومی و مذہبی اختلافات کی چارہ جوئی کے عمل کو آگے بڑھانا ، اس دور کے خطرناک پروپیگنڈوں میں سے ایک الحادی نظریات کی ترویج تھا ، اس کے خلاف امام موسی کاظم کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ مستحکم علمی دلائل کے ساتھ ان سے بحث کرنے کے لیے میدان میں آتے اور ان نظریات کی حقیقت سے دوری اور غیر منطقی ہونے کو آشکار کرتے ، یہاں تک کہ ان نظریات کے حامل لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے اپنی غلطی اور گمراہی کا اعتراف کیا۔
یہ حکمران طبقے پر گراں گزرا اور یوں حکام نے ان کو دبانے اور سخت ترین سزائیں دینے پر اتر آئے ، عقائد کے بارے میں گفتگو کرنے پر پابندی لگا دی گئی ، چنانچہ امام نے اپنے ایک ساتھی ہشام کو پیغام بھیجا کہ وہ لاحق خطرات کے پیش نظر گفتگو میں پرہیز سے کام لے ، یوں ہشام خلیفہ مہدی کے مرنے تک عقائد کے بارے میں بات کرنے سے پرہیز کرتا رہا۔
رجال کشی :ص172
دوسرا محور:
اپنے وفاداروں اور حامیوں کی براہ راست نظارت اور ان کے ساتھ نظم و ہم آہنگی پیدا کرنا ، تا کہ حکومت وقت کو سیاسی طور پر کمزور کرنے ، اس کے ساتھ روابط نہ رکھنے اور سرکاری عدالتوں کی طرف رجوع نہ کرنے کے سلسلے میں مناسب موقف اختیار کیا جا سکے۔
امام کے اس موقف کا اظہار آپ کے ایک ساتھی (صفوان جمال ) کے ساتھ آپ کی گفتگو سے ہوتا ہے ، آپ نے صفوان سے فرمایا :
اے صفوان تمہاری ہر صفت پسندیدہ اور اچھی ہے سوائے ایک چیز کے،
صفوان : قربان جاؤں وہ کون سی صفت ہے ؟
امام : تمہارا اپنے اونٹوں کا اس ظالم ( ہارون) کو کرائے پر دینا۔
صفوان: خدا کی قسم میں نے غرور و تکبر جتانے یا شکار و لہو و لعب کے لیے اسے اونٹ کرائے پر نہیں دیئے بلکہ میں نے تو اس سفر (حج) کے واسطے دئیے ہیں ،علاوہ از این میں بذات خود ان کے ساتھ نہیں جاتا ، بلکہ اپنے آدمیوں کو ان کے ساتھ بھیجتا ہوں۔
امام : اے صفوان کیا کبھی تمہارا کرایہ ان کے ذمے ( واجب الاداء ) باقی رہتا ہے ؟
صفوان :میری جان آپ پر فدا ہو، ہاں ایسا ہوتا ہے ۔
امام : اس صورت میں کیا تمہاری خواہش یہ نہیں ہوتی کہ کرائے کی ادائیگی تک وہ زندہ رہیں ؟
صفوان: جی ہاں !
امام :جو کوئی ان کے زندہ رہنے کی تمنا کرے وہ انہی میں سے ہے اور جس کا تعلق ان سے ہو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
مکاسب شیخ انصاری باب الولایة من قبل الجائر
اس کے بعد اس کے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی :
وَ لا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُون،
سوره ہود 113
امام نے اپنے اصحاب کو ہارونی نظام حکومت میں داخل ہونے اور کسی قسم کا عہدہ یا کام قبول کرنے سے منع کیا ، چنانچہ آپ نے زیاد بن ابی سلمہ سے فرمایا :
اے زیاد میں کسی بلندی سے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو ان ظالموں کے لیے کوئی کام انجام دینے یا ان میں سے کسی کی فرش پر پاؤں رکھنے کی بہ نسبت زیادہ پسند کرتا ہوں۔
مکاسب شیخ انصاری باب الولایة من قبل الجائر،
تیسرا محور:
آپ کا حکام کے مقابلے میں یہ اعلانیہ اور صریح استدلالی موقف اختیار کرنا ، کہ آپ دوسروں کی بہ نسبت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں اور دیگر تمام مسلمانوں سے آپ حق خلافت میں مقدم ہیں ۔
قبر رسول خدا (ص) کے پاس ایک جم غفیر کے سامنے آپ نے ہارون کے روبرو اپنا استدلال پیش کیا ،وہاں ہارون نے رسول اللہ کی ضریح کی جانب رخ کر کے یوں سلام کیا :
اے میرے چچا زاد بھائی آپ پر دورد و سلام ہو ،،
اس وقت امام بھی موجود تھے آپ نے رسول اللہ کو یوں سلام کیا :
سلام ہو آپ پر اے میرے پدر بزرگوار ' '
یہ سننا تھا کہ ہارون آپے سے باہر ہو کر سخت طیش میں آ گیا کیونکہ امام نے فخر و عظمت میں اپنی سبقت ثابت کر دی تھی ، چنانچہ مامون نے غیظ و غضب بھرے لہجے میں کہا:
آپ نے ہم سے زیادہ رسول سے قریب ہونے کا دعوی کیوں کیا ؟
امام نے دو ٹوک اور دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا :
اگر رسول اللہ زندہ ہوتے اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگتے تو کیا تم اسے قبول کرتے ؟
ہارون نے جواب دیا :سبحان اللہ ! یہ تو عرب و عجم کے سامنے میرے لیے باعث فخر ہوتا۔
امام نے فرمایا : لیکن رسول اللہ مجھ سے میری بیٹی نہیں مانگ سکتے اور نہ میں دے سکتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ہمارے باپ ہیں نہ کہ تمہارے ، اسی لیے ہم تمہاری نسبت آنحضرت سے زیادہ نزدیک ہیں۔
اخبار الدول :ص 113
ہارون امام کی دلیل کے آگے منہ کی کھا کر چپ ہو گیا اور امام کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور آپ کو حوالہ زندان کر دیا کیا۔
تذکرة الخواص :ص 359
چوتھا محور:
امت کے انقلابی جذبے کو بیدار کرنے کے لیے علوی انقلابیوں کی ان بغاوتوں اور تحریکوں کی حوصلہ افزائی جن کا مقصد امت مسلمہ کے ضمیر اور اسلامی عزم و ارادے کو ظالم و منحرف حکمرانوں کے آگے سرنگوں ہونے سے بچانا تھا ، امام مخلص علویوں کی مدد بھی فرماتے تھے ،جب شہید فخ حسین بن علی ابن حسن نے امام کے معتقد شیعوں او علویوں کی توہین اور ان پر ہونے والے مظالم کے پیش نظر فاسد ماحول کے خلاف بغاوت کا عزم کیا تو وہ پہلے امام موسی کاظم کی خدمت میں مشہورہ لینے آئے ، امام نے فرمایا: آپ قتل ہو جائیں گے ، پس اپنی تلوار تیز کر لیجئے کیونکہ یہ لوگ فاسق ہیں۔
جب آپ کو حسین کے قتل کی خبر ملی تو آپ نے گریہ فرمایا اور ان الفاظ میں ان کی توصیف کی : خدا کی قسم وہ صالح ، کثرت سے روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے والے اور معروف کا حکم دینے اور منکر سے منع کرنے والے تھے۔ ان کے گھرانے میں ان جیسا کوئی بھی نہ تھا۔
مقاتل الطالبین :ص 453
یہ مختصراً وہ چار محور ہیں جن پر امام موسی کاظم نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا ہوا تھا ، امام موسی کاظم کے فضائل و کمالات بھی ایسی تھے کہ خلفاء وقت کے لیے وہ بھی ناگوار تھے ۔
اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن طلحہ تحریر کرتے ہیں کہ:
هو الامام ، الكبير القدر العظيم الشأن ، الكثير التهجّد ، الجادّة في الإجتهاد، المشهود له بالكرامات ، المشهور بالعبادة ، المواظب علي الطاعات ، يبيّت الليل ساجدا و قائما و يقطع النهار متصدقاً و صائماً ولفرط علمه و تجاوزه عن المعتدين عليه دُعي كاظما ، كان يجازي المسيء بإحسانه إليه ، ويقابل الجاني عليه بعفوه عنه ، و لكثرة عباداته كان يسمي بالعبد الصالح ، ويُعرف بالعراق بباب الحوائج إلي الله ، لنجح المتوسلين إلي الله تعالي به ، كراماته تحار منها العقول۔
وہ ایک عظیم القدر اور عظیم الشان امام تھے، بہت زیادہ تہجد گذار اور محنت و کوشش کرنے والے تھے ، جن کی کرامات ظاہر تھیں اور جو عبادت میں مشہور اور اطاعت الٰہی پر پابندی سے گامزن رہنے والے تھے، راتوں کو رکوع و سجود میں گزارتے تھے اور دن میں روزہ رکھتے اور خیرات فرمایا کرتے تھے، اور بہت زیادہ حلم و بخشش اور اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کی بخشش کی وجہ سے آپ کو کاظم کے نام سے پکارا جاتا تھا، اور جو شخص آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا آپ اس کا جواب نیکی اور احسان کے ذریعہ دیتے تھے، اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے، اور بہت زیادہ عبادت کی وجہ سے آپ کا نام عبد صالح پڑ گیا، اور آپ عراق میں باب الحوائج الی اللہ کے نام سے مشہور ہوئے، کیونکہ ان کے وسیلہ سے خداوند سے متوسل ھواجاتا ہے جس کا نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے۔ اور آپ کی کرامات عقلوں کو حیران کر دیتی ہیں.....،
کشف الغمه :ج2،ص212

پاکستان اور ایران تعلقات میں فروغ کے لئے سرگرم عمل۔
تحریر: شبیر احمد شگری
یہ اقدام خوش ائند ہے کہ پاکستانی تجارتی وفد ایک ہفتے کے دورے پر لاہور سے ایران روانہ ہو چکا ہے۔ جوکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی فروغ کے لئے اہمیت کا حامل ہے ۔یہ وفد تہران،اصفہان،مشہد اور زاہدان میں کاروباری افراد سے ملاقاتیں کرے گا۔ ان ملاقاتوں میں بالخصوص پنجاب اور ایرانی صوبوں کے درمیان اقتصادی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔اورتجارتی تعلقات کو بڑھانے کے اقدامات کئے جائیں گے ۔چیمبر آف کامرس لاھور کے صدر کے مطابق اس دورے کا مقصد دو طرفہ تجارتی تعاون کومظبوط بنانا ہے ۔ اس موقع پر قونصل جنرل ایران لاہور کا کہنا تھا کہ لاہور کا چیمبر آف کامرس پاکستان کا مظبوط چیمبر ہے ۔ اور لاہور چیمبر کا وفد تہران چیمبرکی دعوت پر ایران کا دورہ کررہا ہے ۔ لاہور چیمبر آف کامرس کے وفد کا ایران کا دورہ اس وقت اہمیت کا حامل ہے ۔ جس سے یقیناًدونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا۔ کیونکہ تجارت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔امیدہے کہ یہ تجارتی وفد مفید تجارتی قدامات کے ساتھ لوٹے گا۔
دینی، جغرافیائی، ثقافتی، سیاحتی ، تجارتی یا سرحدی، چاہے کوئی بھی رشتہ ہو پاکستان اور ایران قدیم روابط میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان برادرانہ تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اور پاک ایران دوستی اور برادرانہ تعلقات کا شجر روز بروز تناور اور ثمر آور ہوتا جارہا ہے۔ خصوصاً موجودہ صورت حال میں دونوں ممالک کے تعلقات اورباہمی اقدامات جغرافیائی لحاظ سے اس پورے خطے میں تبدیلی کی طرف اشارہ دے رہے ہیں۔پاکستان اور ایران دو ایسے ہمسایہ اور برادر اسلامی ممالک ہیں جن کی ایک طویل سرحد موجود ہے ۔ بظاہر ایران پر موجود اقتصادی پابندیاں اور بین الاقوامی دباو کی وجہ سے ایران کے ساتھ تجارت میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اگر پاکستان ہمت کرے اور ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی معاملات پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہو تو ہماری بہت سی مشکلات آسان ہوسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی کوششیں جاری ہیں۔ مزید بہتر تعلقات سے دونوں ممالک بہت سے بحرانوں سے باہر نکل سکتے ہیں۔ یہ انتہائی افوسناک امر ہے کہ ہمارے پڑوسی اور برادراسلامی ملک میں تیل، گیس بجلی ہر چیز وافر مقدار میں موجود ہے لیکن اغیار کے دباو میں ہم اس سے استفادہ نہیں کرسکتے ۔ دشمن تو چاہتا ہی یہی ہے کہ اسلامی ممالک کبھی آپس میں متحد نہ ہوسکیں۔ مگر ہم کیا کر رہے ہیں کتنے سال بیت گئے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائین طوالت کا شکار ہے ۔ ایران نے پاکستانی سرحد تک گیس پائپ لائین بھی بچھا رکھی ہے ہمارے دروازے پر گیس موجود ہے ۔ لیکن ہمارے گھروں میں گیس نہ ہونے کی وجہ سے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ ایران میں پٹرول 8 روپے لیٹر ہے جبکہ ہمارے ہاں آئے روز اس میں اضافہ ہی ہوتا آرہا ہے ۔ اسی طرح ہمیں فخر ہے کہ ہمارا دوست ملک ایران جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور ہمیں گیس، بجلی پٹرول دیگر مصنوعات کی برادرانہ پیشکش کرتا رہا ہے ۔ لیکن نا معلوم کونسے عوامل ہیں جو ہمیں ان نعمات سے روکے ہوئے ہیں اور مہنگائی کی دلدل میں پھنسے جارہے ہیں۔ ایران کی پیشکشیں اپنی جگہ لیکن وقت ہے کہ ہم سنجیدگی سے اس پر غورکریں اوراہم اقدامات کریں۔ ایران اور پاکستان تجارت کے حوالے سے ایک دوسرے کی ضروریات کو مکمل کرسکتے ہیں جوکہ مختلف شعبوں بشمول سامان کی نقل و حمل، بارٹر سسٹم کے ذریعے مصنوعات کی لین دین، ٹیرف میں کمی اور سرحد پار مارکیٹوں کے نفاذ میں تعاون کو فروغ دے کر بہت سے مسائل کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔
اس وقت دونوں ممالک کے درمیاں سرحدی ٹرمینلز، ریل ٹرانسپورٹ، سڑکیں اور مارکیٹیں دوطرفہ اقتصادی تعاون کو فروغ دینے میں مدد دینے کا ایک اچھا موقع اور ماحول دستیاب ہے ۔ ایران سے پاکستان اور پھر ترکی سے ٹرین کے ذریعے تجارت کا آغاز بھی کیا گیا ہے جس کا دائرہ یورپ تک پھیلایا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی ٹرکوں کی ایران سے ترکی اور یورپ تک آمدو رفت کے ساتھ ساتھ ایرانی ٹرکوں کی پاکستان اور چین آمدورفت بھی زیر بحث ہے ۔ اسی طرح دونوں برادر ممالک میں سرمایہ کاری اور اقتصادی میدانوں میں بے شمار صلاحیتیں موجود ہیں۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت بھی اس پر کوشش کررہی ہے ۔ عمران خان ایران کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ عمران خان نے خطے کے ممالک بالخصوص علاقے میں اہم کردار ادا کرنے والے ملک ایران کے ساتھ تعلقات کے فروغ پر زور بھی دیا ۔اس کے علاوہ مختلف وفود کے تبادلے بھی ہورہے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے گہرے اور بڑے پیمانے پر تعلقات بھی قائم ہورہے ہیں اور دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان بدستور ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ دونوں برادر ممالک کے درمیاں سیاسی، دفاعی اور سلامتی کے شعبوں میں اچھے تعلقات بنے ہیں۔ نئی سرحدی گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ سرحدی بازاروں کی تعمیر اور نفاذ کے ذریعے اقتصادی تعلقات پر بھی زور دیا جارہا ہے ۔
پاکستان کے صدر عارف علوی نے بھی ترکمانستان میں منعقدہ ای سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر اپنے ایرانی ہم منصب آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات کی اور اس دوران، اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو گہرا کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان بارٹر سسٹم کے ذریعے تجارت کے نفاذ اور اقتصادی رابطوں کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ اجلاسوں کے انعقاد پر زور دیا ہے ۔ حال ہی میں ایرانی صوبے سیستان اور بلوچستان کی سرحد سے منسلک صوبے کے طور پر بلوچستان کے بندرگاہی شہر گوادر میں منعقدہ اجلاس میں پاکستانی صدر عارف علوی ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کے لیے مقامی کرنسی (قومی کرنسی) کے استعمال پر سنجیدگی سے عمل کرنے پر زور دے چکے ہیں۔ اس سلسلے میں صدر پاکستان نے پاکستان کے مرکزی بینک کے گورنر کے ساتھ ساتھ نیشنل ریونیو آرگنائزیشن (ایف بی آر) کے چیئرمین کو مقامی کرنسی کے ذریعے ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے لیے تمام ضروری انتظامات کرنے کی ہدایت دی ہے جو کہ خوش آیند ہے ۔ کیونکہ ایران کے اوپر اقتصادی پابندیوں کی وجہ دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ دوسرے ممالک کے مابین بینکنگ نظام کا ہے ۔ تاہم ایران اور پاکستان کے درمیان بالخصوص بینکنگ کے شعبے میں برادرانہ تعلقات کے فروغ کے لئے بھی کوششیں ہورہی ہیں۔ ایران و پاکستان کے درمیان طویل سرحد اور مختلف قسم کی مصنوعات کے پیش نظر سرحدی منڈیوں کا قیام دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی و تجارتی تعلقات کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے ۔
مشترکہ سرحدی بازاروں کے قیام سے ایران اور پاکستان کے درمیان سالانہ پانچ ارب ڈالر کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ان سرحدی بازاروں کے قیام سے نہ صرف تجارت میں اضافہ ہوگا جبکہ غیر قانونی سمگلنگ کی بھی روک تھام ہو گی۔
حال ہی میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایرانی وزیر داخلہ بھی کہہ چکے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان مختلف سیاسی، دفاعی اور سیکورٹی تعلقات کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے پاکستان اور ایران میں موجودہ صلاحیتوں کے پیش نظر دو پڑوسی ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کا فروغ بہت ضروری ہے ۔
پاکستان اور ایران دو ایسے برادر ممالک ہیں جن کی نہ صرف طویل سرحد ملتی ہے بلکہ دونوں ممالک کی عوام کے دل ایک دوسرے کے لئے دھڑکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی ایسی وجہ ہے جس کی وجہ سے دونوں برادر ممالک کے تعلقات میں وہ قربت نہیں ہے جوکہ ہونی چاہئے ۔ درحقیقت پاکستان اور ایران کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن جب بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں استحکام آنے لگتا ہے تو کوئی نہ کوئی ایسی سازش کی جاتی ہے اور ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے کہ ان ممالک کو ایک دوسرے کا مخالف بنا کر پیش کیا جائے اور یہ حرکتیں اسلام مخالف دشمنوں کے علاوہ اور کون کرسکتا ہے جو کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان اور ایران اوراسی طرح دوسرے اسلامی ممالک آپس میں اکھٹے ہوں۔ اگر ایسا ہوگیا تو ان کی دال کیسے گلے گی۔ لیکن ہمیں سنجیدگی سے اس پرسوچنا ہوگا ہمیں اپنے ملک کی خاطراپنے مسائل حل کرنے کے لئے جرات مندانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔دونوں ممالک کے درمیان نقل وحمل کے شعبے میں تجارت کو بڑھانے ، بارٹرٹریڈ میں اضافے ، مشترکہ سرحدی منڈیوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ٹیرف کو کم کرنے کی پیشکش بھی ہوتی رہی ہیں۔ دونوں ممالک پہلے ہی اسٹریٹجک تعاون پر منصوبہ بندی اورمعاہدے کر چکے ہیں لیکن اب تک صرف ان پرعمل درآمد کا فقدان ہے ۔
ایران میں اسلامی حکومت قائم ہوئے 43سال گزر چکے ہیں طاغوتی قوتیں پورے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکی ہیں لیکن ایران کا کچھ نہیں بگاڑسکی ہیں سوائے اس کے کہ اس ملک پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں اور اسے مجبور کیا جائے ۔ لیکن وہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے ۔ کیوں کہ ایرانی قوم نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کران پابندیوں کویکسر ٹھکرادیا اور بہترین اقدامات سے اپنے پاوں پرمحکم کھڑی ہوچکی ہے ۔ اللہ کا شکر ہے ہم بھی مسلمان ہیں اورآزاد قوم ہیں۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے دباو ہوا ہو یا کوئی اور وجہ بہرحال ان معاملات میں ہماری طرف سے بھی سست روی اختیار کی گئی ہے ۔ ٍامید ہے کہ ہماری حکومت بھی جیسا کہ اس کے ارادوں سے ظاہر ہے ، کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر صرف اپنے ملک کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ہمسایہ برادر ملک کے ساتھ سیاسی، اقصادی، تجارتی، سیاحتی، ثقافتی تعلیمی میدانوں میں بھرپور تعلقات پیدا کرے گی۔ اور ہم ایک دوسرے کے تعاون سے بہت سے معاملات کو فروغ اور استحکام دے سکتے ہیں۔ دونوںممالک نہ صرف اپنے لئے بلکہ پورے خطے میںتبدیلی کا اہم سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ صرف ارادوں سے نکل کر عملی اقدامات بھی کئے جائیں


مختلف اخبارات و میگزین میں چھپنے والی میری تحاریر اور خصوصی ایڈیشنز
2012 تا 2022


جشن مولود کعبہ کے موقع پر میری تحریر پر رازنامہ ایمرا میں خصوصی اشاعت
16 فروری 2022
                                                                                                                                     آج کے روزنامہ پوسٹ مارٹم اور روزنامہ مبصر میں جشن مولود کعبہ کے حوالے سے میری تحریر پر خصوصی ایڈیشن کی اشاعت۔                                                                                                                


جشن مولود کعبہ
تحریر: شبیر احمد شگری
13 فروری 2022
کسی را میسر نہ شد این سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
ایک ایسی ہستی کی ذات پر لکھنے کے لئے قلم اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں جو دنیا کی واحد ہستی ہے جس کی ولادت خانہ کعبہ میں مسجد میں ہوئی وریہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے اور کوئی بھی آج تک اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکا۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نام علی رکھا آپ کے مشہور القابات مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیںاور کنیت ابو تراب ہے ۔
جب حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو حضرت فاطمہ بنت اسد کعبہ کے پاس تشریف لے گئی اور اپنے جسم کو کعبے کی دیوار سے مس کر کے گزارش کی اے پروردگار اپنے جد ابراہیم علیہ السلام کے کلام پر ایمان رکھتی ہو پروردگارتجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی، بچے کے حق کا واسطہ جوشکم میں موجود ہےاس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما یہ دعا کرنا تھی اور ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کعبے کی دیوار عباس بن عبدالمطلب اور یزید بن کی نظروں کے سامنے شگافتہ ہوگئی اورفاطمہ بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں تودیوار دوبارہ اصل حالت میں متصل ہوگئی ۔جو حاجی حضرات حض پر جاتے ہیں وہ اس شق دیوار کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔لاکھ کوشش کی گئی اس کو پُر کرنے کی مگر جب 13ا رجب کا دن آتا ہے اس میں پھردراڑ پڑ جاتی ہے۔
فاطمہ بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے سب سے مقدس مقام میں جس کی طرف پوری دنیا کے مسلمان رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں تین دن مہمان رہیں 13رجب کو بچے کی ولادت ہوئی اس کے بعد جب فاطمہ بنت اسد نے کعبے سے باہر آنا چاہا تو دیوا دوبارہ شق ہوئی اور آپ باہر تشریف لائیں اور فرمایا بے میں نے یہ پیغام سنا ہے اس کا بچے کا نام علی رکھنا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ بنت اسد دروازے سے اندر کیوں نہیں گئیں اور دروازے سے کیوں باہر تشریف نہیں لائیں۔شاید رب العالمین دیوار شق فرما یہ چاہتے تھے کہ یہ حقیقت قیامت تک لوگوں کے اوپر عیاں رہے کہ علی ؑ کی ولادت کعبے میں ہوئی اور حضرت فاطمہ بنت اسد دیوار شق ہوکر اندر تشریف لے گئی تھیں۔
حضرت علی علیہ السلام تین سال کی عمر تک اپنے والدین کے پاس رہے اس کے بعد پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے ۔ اس طرح حضرت علی علیہ السلام کوساری زندگی حضور پاک کی رفاقت اور جانثاری نصیب ہوئی یہ خوش نصیبی دنیا میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ علی علیہ السّلام دس برس کے عمر میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم نے رسالت کا اعلان کیا تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائی ۔ آپ ہمیشہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے ، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہر سے باہر، کوہ و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔
حضرت علی علیہ السّلام کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب شب ہجرت مشرکین مکہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازش کی تو آپ نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم کے بستر پر سو کر ان کی سازش کو نا کام کر دیا۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کی لڑی جانی والی جنگوں میں آپ نے شجاعت کے بہترین اور تاریخی جوہر دکھائے ۔ اور ہمیشہ مسلمانوں کو کامیابی سے سرفراز فرمایا۔آپ نے جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شرکت کی۔ جنگ تبوک میں رسول اللہؐ نے مدینے میں آپ کو اپنے جانشین کے طور پر مقرر کیا تھا۔ آپ نے جنگ بدر میں بہت سے مشرکین کو قتل کیا۔ جنگ احد میں آنحضرت کی جان کی حفاظت کی۔ جنگ خندق میں عمرو بن عبدود کو قتل کرکے جنگ کا خاتمہ کر دیا اور جنگ خیبر میں در خیبر کو اکھاڑ کر جنگ فتح کر لی۔
اگر جنگوں میں دیکھا جائے توجنگ بدرسب سے پہلی اور اہم جنگ تھی جو 17 رمضان سنہ 2 ہجری کو بدر کے مقام پر مسلمانوں اور مشرکین قریش کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ میں گوکہ مسلمانوں کی افراد ی قوت کم تھی لیکن انھوں نے مشرکین پر فتح پائی۔ تاریخی حوالوں کے مطابق مسلمانوں کی فتح کے اسباب میں اہم سبب بطور خاص حضرت علیؑ اور حمزہ سید الشہداء کی جانفشانی تھی۔
جنگ احد ، احد نامی پہاڑ پر لڑی گئی۔پہاڑی پر سرکار دوعالم نے 50 تیر اندازوں کو بٹھایا تھا اور فرمایا تھا کہ ہمیں فتح ہو یا شکست ہو نیچے نہیں اترنا۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ اسلام کو فتح ہورہی ہے تو مال غنیمت لوٹنے کے لئے نیچے چلے گئے ۔ تو خالد بن ولید نے پیچھے سے حملہ کردیا ۔ بعد میں مسلمانوں کو جنگ میں فتح تو ہوگئی لیکن اسلام کو بہت نقصان پہنچا۔
جنگ میں میں کسی نے ندا دی کی پیغمبر خداؐ شہید ہوچکے ہیں۔ یہ خبر مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے کا سبب بنی گھمسان کی لڑائی میں کئی مشرکوں نے رسول خداؐ کے قتل کی غرض سے حملے کئے جن کے نتیجے میں آپؐ کے دندان شہید ہوئے اور چہرہ مبارک زخمی ہوا۔ آپؐ پہاڑ میں موجود دراڑ کی پناہ میں چلے گئے ۔ حضرت علی کے سوا رسول اللہؐ کے قریب کوئی اور نہ رہا۔ یہاں حضرت علی علیہ السلام حضور پاک کی حفاظت کرتے ہوئے تنہا بہت بہادری سے لڑتے رہے ۔علی علیہ السلام کی جانفشانی دیکھ کر جبرائیل نے آپ کی تعریف و تمجید کی اور ان کی مشہور ملکوتی ندا لافتٰی الا علی لا سیف الا ذوالفقار کی صدائے بازگشت میدان احد میں ہی سنائی دی۔ اور یہیں ذوالفقار اتری اس جنگ میں آپ کے جسم مبارک پر لگے زخموں کی تعداد 90 تک پہنچی۔آپ ہی کی استقامت کی وجہ سے ہزیمت زدہ مسلمانوں کی ایک جماعت ایک بار پھر رسول خداؐ کے گرد اکٹھی ہوئی۔ جبرائیل نے علی کے جہاد کی طرف اشارہ کرکے رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ جانفشانی ہے ، تو آپؐ نے فرمایا: وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں"، جبرائیل نے عرض کیا "میں بھی آپ سے ہوں اے رسول خدا۔ جس جگہ حضور پاک نے پناہ لی اور جہاں ذوالفقار اتری وہ مقام موجود ہے جس کی زیارت راقم کو حج مقدس کے دوران نصیب ہوئی مگر اس مقام کو اب جالی لگا کربند کردیا گیا ہے اور لوگوں کو پاس جانے سے ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔
جنگ خندق میں بھی حضرت علی علیہ السلام کی بہادری کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح ہوئی اور دشمنوں کو پسپا ہونا پڑا۔دشمن عمرو بن عبد ود ایک بہادر شخص تھا اور اس کی شجاعت زبانزد عام و خاص تھی۔ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ خندق پھلانگ کر مسلمانوں کی جانب آیا اور جنگ کے لئے مبارز طلب کیا مسلمانوں نے خوف کے مارے خاموشی اختیار کرلی۔ بالآخر علی بن ابی طالبؑ رسول خداؐ کی اجازت سے میدان میں آئے اور عمرو کو ہلاک کر ڈالا۔ علیؑ کا یہ اقدام جو عمرو کے قتل پر منتج ہوا۔ جنگ میں اسلام کی فتح و نصرت اور کفار کی شکست میں اس قدر مؤثر تھا کہ رسول خداؐ نے فرمایا: غزوہ خندق کے روز علی کی ایک ضربت ثقلین (جنات اور انسانوں) کی عبادت سے افضل و برتر ہے ۔
غزوہ خیبر رسول خداؐ کے غزوات میں سے ایک ہے جو خیبر کے علاقہ میں پیش آیا۔کئی دن مسلمانوں سے جنگ فتح نہیں ہوسکی روز مسلمان ناکام لوٹتے آخر کار نبی مکرمؐ نے فرمایا: میں کل ایک ایسے آدمی کو جھنڈا دوں گا جو خود بھی اللہ و رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور رسولؐ بھی اس سے محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں فتح دیں گے ۔ لوگوں نے اس حال میں رات بسر کی کہ ہر شخص کی تمنا تھی کہ اسے یہ شرف حاصل ہو۔ جب صبح ہوئی تو نبی کریمؐ کی آواز بلند ہوئی:’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟‘‘ حضرت علی حاضر خدمت ہوئے ، آشوب چشم میں مبتلا تھے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی۔ نبی پاکؐ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن رکھا تو ان کو شفا ہو گئی۔ پھر آپ نے ان کو جھنڈا دیا اور فرمایا: ’’یہ علم لو، اور اسے لے چلو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے ذریعہ فتح عطا فرمائے ۔ جب حضرت علی یہودیوں کے اس قلعہ کے قریب گئے تو قلعہ کی چوٹی سے ایک یہودی نے جھانکا اور پوچھا کہ تم کون ہو؟ آپ نے فرمایا کہ میں علی بن ابی طالبؓ ہوں۔ یہودی نے کہا کہ قسم ہے اس کتاب کی جو موسیٰؑ پر نازل ہوئی تم ضرور غالب رہو گے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے مقابلہ میں نامی گرامی جنگجو مرحب نکلا اور کہنے لگا۔ خیبر جانتا ہے کہ بے شک میں مرحب ہوں اور یہ کہ میں ہر وقت ہتھیار بند ہوتا ہوں اور ایک تجربہ کار جنگجو ہوں اور جب جنگیں ہوتی ہیں تو وہ بھڑک اٹھتا ہے ۔پس حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :میں وہ شخص ہوں جس کا نام اس کی ماں نے حیدر رکھا ہے اور میں جنگل کے اس شیر کی مانند ہوں جو ایک ہیبت ناک منظر کا حامل ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر حضرت علی علیہ السلام نے مرحب کے سر پر ضرب لگائی اور اس کو قتل کر دیا اورفتح آپ کے ہاتھوں ہوئی۔
فتح خیبر کے بعد حسان بن ثابت سمیت بعض شعرائ
نے اس واقعے کے بارے میں خوبصورت اشعار بھی کہے ۔کچھ ترجمہ پیش خدمت ہے ۔
اور علی کو آشوب چشم لاحق تھا شفا بخش دوا کے منتظر تھے لیکن طبیب نہیں مل رہا تھا
اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنے مبارک آب دہن سے آپ کی آنکھوں کو شفا بخشی
پس مبارک ہے وہ جس نے شفا دی اور مبارک ہے وہ جو شفا یاب ہوا
اور رسول اکرمؐ نے فرمایا: "میں آج (یوم خیبر) پرچم ایسے جوانمرد کو دے رہا ہوں جو کاٹ دینے والی تلوار کا مالک اور مرد شجاع ہے ؛ اللہ سے محبت کرنے والا اور اس کے احکام کا پیرو ہے
اللہ سے محبت کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے محبت کرتا ہے اور اسی کے ہاتھوں اللہ تعالی قلعے فتح فرمائے گا۔
رسول خداؐ نے اس مہم کی انجام دہی کے لئے تمام انسانوں کے درمیان علیؑ کو چن لیا، انہیں اپنا وزیر اور بھائی قرار دیا۔
امام علی دینی امور، قانون کے دقیق اجرا اور صحیح طریقے سے حکومت چلانے کے معاملے میں بیحد سنجیدہ و نظر انداز نہ کرنے والے تھے اور یہی سبب تھا جس نے آپ کو بعض افراد کے لئے ناقابل برداشت بنا دیا تھا۔ وہ اس راہ میں حتی اپنے نزدیک ترین افراد کے ساتھ بھی سختی سے پیش آتے تھے ۔ امام علی کے مطابق حاکم کا حق اپنی رعیت پر اور رعیت کا حق اپنے حاکم پر، بزرگ ترین حقوق میں سے ہے جسے خداوند عالم نے قرار دیا ہے اور یہ کاملا دو طرفہ ہے اور دونوں طرف سے حقوق کی رعایت بیحد ثمرات کی حامل ہے ۔ جس وقت حضرت نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر منصوب کیا تو انہیں تمام لوگوں کے ساتھ چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان، مہربانی و خوش اخلاقی و انسانی سلوک سے پیش آنے کی نصیحت فرمائی۔ حضرت کو اپنی مختصر حکومت کے عرصے میں تین سنگین داخلی جنگوں جمل، صفین اور نہروان کا سامنا کرنا پڑا۔
حضرت علیؑ کے اوصاف اور بہادری کی داستانیں اگر بیان کرنے لگ جائیں تو ھم ان کی تعداد بھی نہیں گن سکتے ۔ اس لئے یہاں بھی مضمون کی خاطر انتہائی اختصار سے کام لیا جارہا ہے ۔
آخر کار محراب مسجد کوفہ میں نماز کی حالت میں ابن ملجم مرادی نامی ایک خارجی کے ہاتھوں شہید ہوئے اور مخفیانہ طور پر نجف میں دفن کئے گئے ۔ روضہ امام علی شہر نجف میں مقدس مقامات میں شمار ہوتا ہے ۔ آپ کے روضے میں دیگر مشاہیر بھی مدفون ہیں۔ جن کا تذکرہ بعض مصادر میں حرم امام علی میں مدفون شخصیات کے ضمن میں ہوا ہے ۔حضرت علی ؑ کی مشہور کتاب نہج البلاغہ آپ کے خطبات و اقوال و مکتوبات کا منتخب مجموعہ ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر مکتوبات کی نسبت بھی آپ کی طرف دی گئی ہے جسے رسول خدا نے املا فرمایا اور آپ نے تحریر کیا۔ آپ کے بارے میں مختلف زبانوں میں بہت سی تحریریں لکھی گئیں ہیں۔

وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ
حکومت کی جادو کی چھڑی چل گئی۔میری تحریر پر حکومتی اداروں کا فوری ایکشن۔ صرف 3 دنوں میں تستےپاور ہاوس کےملازمین بھرتی ہونے کے آرڈرز جاری۔ انٹرویوز اور ٹیسٹ کی تاریخ 4 اور7 دسمبر مقرر۔
میں نے کے ٹو کی وادی اوراپنے آبائی گاوں تستے برالدو میں بجلی کے مسائل پر تحریر لکھی جس پر حکومتی مشینری ایک دم حرکت میں آگئی اور فوری ایکشن ہوا۔ اور حکومت کی جانب سےتمام متعلقہ اداروں پر ایکشن لیا گیا ہے۔
وہ کام دو دنوں میں ہوگیا جو گیارہ سالوں سے اٹکا ہوا تھا۔ یعنی تستے پاور ہاوس کے عارضی ملازمین کو 7 دسمبر کو ٹیسٹ اور انٹرویو کے لئے طلب کرلیا گیاہے۔ اس کے علاوہ یقینا تستے پاور ہاوس کی مرمت اور بجلی کے دوسرے مسائل بھی فوری حل ہوں گے۔ جن حکومتی اداروں نے فوری ایکشن لیا ہے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انشااللہ جلد ہی میرے کے ٹو کی وادی دوبارہ روشن ہوگی جو ایک عرصے سے تاریکی میں تھی۔
لیکن ایک بات پر انتہائی افسوس ہے کہ کچھ افراد اس پر بھی سیاست چمکانے لگے جو افراد کئی مہینوں سے پورے برالدو میں ڈوبی تاریکی پر بالکل خاموش تھے۔ جیسے ہی نظر آیا کہ محکمہ برقیات حرکت میں آیا فوری نمبر بنانے کے ئے باتیں کرنے لگے کہ اس سے ملاقات کی فلاں سے ملاقات کی فلاں سے بات ہوئی۔ مجھے وہ صرف ایک بات کا جواب دے دیں۔ آپ نے یہ ملاقاتیں اور فون اتنے مہینوں سے کیوں نہیں کی تھیں۔ ان باتیں کرنے والوں کے تصور میں بھی نہیں ہے کہ کس ہائی لیول سے آرڈرز ہوئے ہیں اگر کسی کو جاننا ہے تو مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔ یا محکمہ برقیات سے سوال کرسکتا ہے کہ یہ فوری ایکشن کس کے کہنے پر ہورہے ہیں۔ ایسے افراد سے یہی کہوں گا کہ انسان کو خود کچھ کرنا چاہئے نا کہ دوسروں کی خدمات کا کریڈٹ اپنے ذمے لے۔
خیر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میں نے صرف اپنے آبائی گاوں اورعلاقے کی خفمت کی ہے مجھے کوئی نام کمانے کا شوق نہیں ہے۔ اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مھ ناچیز کو بہت عزت عطا کی ہے جس کے قابل میں نہیں ہوں۔
ساتھ ہی ایک عرصے سے متاثر ہونے والے ملازمین کو بھی مبارکباد دیتا ہوں کہ انشااللہ اب آپ کے صبر کا پھل ملنے والا ہے۔
صرف بجلی کی بات نہیں ہے میں نے برالدو کے دوسرے مسائل مثلا 4G نیٹ ورک ،سڑک،تعلیم اور صحت پر بھی آواز اٹھائی ہے اور اٹھاتا رہوں گا انشااللہ۔
آخر میں تمام دوستوں کا بھی شکریہ ادا کروں گا جنھوں نے میری تحریر کو بہت پسند کیا اسے شئیر کیا اور مجھے تعریفی میسیجز اور کالز کیں۔ اللہ پاک آپ سب کوسلامت رکھے۔ اور میرے دیس کی مٹی سدا آباد رہے۔ آمین
ملتمس دعا
شبیر احمد شگری

آج کے روزنامہ ایمرا نے انقلاب اسلامی ایران کے حوالے سے میری تحریر"انقلاب اسلامی کے اثرات" پر خصوصی ایڈیشن شائع کیا۔ ۔9 فروری 2022

انقلاب اسلامی ایران کے موقع پر روزنامہ "بھلیکا"(پنجابی) کی میری تحریرپرخصوصی اور خوبصورت اشاعت۔ ھمیشہ کمال محبت سے میری تحریروں کو خوبصورت شکل دینے پر چیف ایڈیٹر مدثر اقبال بٹ اور پیارے دوست رضوان اصغر بٹ کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ھوں۔
"انقلاب اسلامی ایران دے ثمرات"
تحریر: شبیر احمد شگری
برادر ملک اسلامی جمہوریہ ایران دی عوام انقلاب اسلامی ایران دی 43ویں سالگرہ منا رہی اے۔ ایس موقع تے اسیں ایرانی بھراواں نوں مبارکباد پیش کرنے آں۔ بظاہر ایہہ اسلامی انقلاب ایران وچ آیا سی لیکن ایہدے اثرات سارے عالم بالخصوص عالم اسلام اتے خصوصی طور تے نظر آندے نیں۔
11فروری 1979 نوں بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینیؒ نے مغرب نواز ایرانی شاہ دا تختہ اُلٹ کے رکھ دتا سی تے عوام دے استصواب رائے نوں استعمال کردے ہوئے ایران وچ اسلامی جمہوری نظام دی بنیاد رکھی۔ اج اسیں ویکھنے آں کہ ایران وچ اسلامی انقلاب مگروں ہر میدان وچ حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیاں نیں۔ معاشرتی تبدیلی‘ علمی‘ فرہنگی‘ آرٹ‘ فنون لطیفہ‘ سائنس و ٹیکنالوجی یا کوئی وی میدان ہووے اج ایران نے ہر میدان وچ اک نویں تریخ رقم کر دتی اے۔
انقلاب اسلامی مگرون ایران نوں بہت ساری مشکلاں دا سامنا کرنا پیا۔ ساری دنیا ولوں ایران اتے پابندیاں عائد کردتیاں گئیاں۔ جے اسیں اوس ویلے نوں ویکھیے تے 1979 وچ ایران دی آبادی تن کروڑ سٹھ لکھ سی جد کہ ایس ویلے ایران دی آبادی اٹھ کروڑ توں اتے جا چکی اے۔ اسلامی انقلاب مگروں ایران دی آبادی وچ وادھے‘ بیرونی دبائو تے بہت ساری مشکلاں دے باجود آفرین ہووے ایران دے اسلامی نظام تے کہ آغاز وچ امام خمینیؒ دی قیادت تے اوہدے مگروں آیت اللہ خامنہ ای دی قیادت وچ ہن تک ایران نے ساری مشکلاں دا ڈٹ کے مقابلہ کیتا اے تے ایرانی قوم نے ثابت قدم رہ کے ساری دنیا نوں ایہہ دس دتا اے کہ جے صحیح معنیاں وچ اسلامی نظام نافذ ہووے تے پوری دنیا دی مخالفت دے باوجود کفر دے مقابلے وچ دین حق نوں ہمیشہ کامیاب و کامرانی نصیب ہوندی اے تے ساڈے سامنے واضح اے کہ دنیا دے وڈے وڈے تے اپنے آپ نوں سپر پاور آکھن والے ملک اج جھکن تے مجبور نیں۔ طاقت دے نشے وچ چور سامراجی طاقتاں نے اپنے ولوں بھرویاں کوششاں کیتیاں کہ کسے طرحاں ایران نوں جھکن تے مجبور کر دین لیکن جہڑی قوم خدا دی واحدانیت اتے کامل یقین تے ایمان رکھدی ہووے اوہنوں جھکن تے کون مجبور کر سکدا اے بلکہ ہر موقعے تے ایہناں عالمی سازشاں طاقتاں نوں خود منہ دی کھانا پئی اے۔ دن بہ دن اسیں ویکھ رہے آں کہ ایران ہر شعبے وچ کامیابی دے پنجے گاڑدا چلا جا رہیا اے چاہے اوہ معاشڑتی‘ سیاسی‘ تعلیم دا نظام ہووے یا سائنس و ٹیکنالوجی دا ایران نے ہر میدان وچ اپنا لوہا منوایا اے۔
حالیہ سالاں وچ کورونا پاروں وی ایران نوں بہت مشکلاں دا سامنا کرنا پیا لیکن سپرپاور کہلان والے نام نہاد ملکاں نے ایہ سمجھیا کہ ایران نوں ایس موقع تے شکست دتی جا سکدی اے۔ بین الاقوامی امداد تک روکی گئی جہڑا کہ دنیا دے کسے وی شہری دا حق ہوندا اے۔ بین الاقوامی حقوق تے انسانیت دی دھجیاں اڑائی گئیاں لیکن ایران نے ایہدی وی پرواہ نہیں کیتی تے ایہناں سخت ترین مشکل حالات وچ وی نہ صرف ثابت قدم رہیا بلکہ اپنی ویکسین وی تیار کر لئی تے کورونا دی صورتحال تے وی اپنے زور بازو تے قابو پا لیتا۔
امام خمینیؒ دی کرشمہ ساز شخصیت نے نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام دے نقش قدم تے چلدے ہوئے اک ایسی تریخ ساز ریاست دی بنیاد رکھی جہڑی ہن تک یزیدیت نوں کھٹک رہی اے۔ اوہناں نے نہ صرف ایران دی عوام دے حقوق دی جنگ لڑی اے بلکہ ایہدے نال نال عالم اسلام دے حقوق دی وی گل کیتی اے۔ ساری دنیا دے مظلوماں دا ساتھ دتا اے تے اوہناں لئی آواز بلند کیتی اے۔
انقلاب اسلامی ایران مگروں عوام دے فلاح و بہبود دے پروگراماںتے اوہناں دی تعلیم و تربیت تے خصوصی توجہ دتی گئی۔ ایران وچ بجلی‘ گیس‘ ٹیلی فون‘ انٹرنیٹ دی فراہمی‘ تعلیم تے ریلوے دا نظام‘ دفاعی اداریاں دا قیام ہر میدان وچ ایران دی قوم انقلاب دے شروع توں ہن تک ایسے جذبے نال سرشار اے جہدے تحت ایرانیاں نے رہبر کبیر حضرت آیت اللہ خامنہ ای دی سربراہی وچ اپنی جدوجہد قائم رکھی تے جہدے نتیجے وچ کامیابی اوہناں دا مقدر رہی اے۔ اج ایران نہ صرف دنیا دی نظراں دا مرکز بن گیا اے بلکہ خود بین الاقوامی معاملات وچ دنیا دا ساتھ دے رہیا اے۔ مسئلہ فلسطین‘ شام‘ عراق‘ یمن ہووے یا کشمیر ہر تھاں ایران نے مثبت تے مضبوط موقف اپنایا اے۔
ایرانی انقلاب دے دراصل دو پہلو نیں نظری تے عملی۔ نظری تے فکری پہلو خود ایرانیاں دی تریخ وچ موجود اے تے ایرانیاں دی پیداوار وی اے کیوں جے اوہناں نے چودہ سو سال پہلے اسلام قبول کیتا سی تے ایس لئی اسلام دے اصلی تے اساسی عنصر اوہناں دے عقیدے وچ موجود سن ایس لئی اوہناں نے خدا دی ذات اتے تکیہ کیتا تے ایران کامیابی نال ہمکنار ہویا۔ ایسے طرحاں انقلاب ایران عاشورائی وی اے کیوں جے ایران دے انقلاب دی ابتدا ای امام خمینیؒ دی ایس تقریر توں ہوئی سی جہڑی عاشورہ دے موقع تے اوہناں نے کیتی سی تے شاہ نوں للکاریا سی تے جس طرحاں عاشور ی مقصد وچ شہادت طلبی‘ ظلم نال ٹکرائو‘ اللہ دی رضامندی تے پیروی تے امر بالمعروف تے نہی عن المنکر جئے نصب الدین موجود نیں۔ انقلاب اسلامی ایران وچ وی ایسے طرحاں دی خصوصیات نوں اہمیت دتی گئی۔
حالانکہ انقلاب ایران اک اسلامی انقلاب سی مگر اوہنوں نکام کرن لئی طرحاں طرحاں دے ہتھکنڈے استعمال کیتے گئے۔ ایس انقلاب نوں اک خاص مسلک نال وی جوڑن دی کوشش کیتی گئی۔ ایہدے وچ کوئی شک نہیں کہ ایران اک شیعہ مسلم اکثریتی ملک اے لیکن ایتھے دوجے مسالک تے مذاہب دے لوک وی آزادی دے نال اپنی زندگی گزار رہے نیں جہڑی بذات خود ایہناں پروپیگنڈیاں دی نفی اے بلکہ امام خمینیؒ تے وحدت دے علمبردار سن۔ امام خمینیؒ عالم اسلام نال مخاطب ہو کے فرماندے نیں کہ تسیں ہتھ بنھ کے تے ہتھ چھڈ کے نماز پڑھن تے جھگر رہے ہووے جد کہ دشمن تہاڈے ہتھ وچ وڈ دین دی فکر وچ اے۔ ایسے طرحاں امام خمینیؒ ہمیشہ مسلماناں نوں وحدت دا درس دیندے رہے تے اوہناں دے نقش قدم تے چلدے ہوئے ایران دے روحانی پیشوا حضرت آیت اللہ خامنہ ای وی دنیا لئی وحدت دی مثال بنے ہوئے نیں۔ جہڑا وی ایران دے اسلامی انقلاب نوں یا اسلامی جمہوریہ ایران نوں کسے اک خاص مسلک نال جوڑن دی کوشش کردا اے اوہناں لئی اک واضح مثال جواب دی صورت وچ ایہہ اے کہ انقلاب مگروں امام خمینیؒ نے فلسطینیاں دے حقوق لئی آواز بلند کیتی تے اوہناں نے اک اہم اعلان کیتا کہ سارے مسلمان رمضان المبارک دے جمعۃ الوداع نوں یوم القدس دے طور تے منایے تے اج تسیں ویکھدے او کہ یوم القدس فلسطینیاں نال اظہار یکجہتی لئی پوری دنیا دا اک اہم ذریعہ تے آواز اے جد کہ فلسطین وچ اہل سنت مسلمان وسدے نیں لیکن امام خمینیؒ دی نظر صرف ایرانی قوم یا کسے خاص مسلک اتے نہیں بلکہ پورے اسلام دے وحدت تے اوہناں دے مسئلے حل کرن تے سی۔
بانی انقلاب اسلامی نے انقلابی نظریہ نوں صرف مملکت ایران تک محدود نہیں رکھیا بلکہ دنیا دے سارے ستم رسیدہ انساناں نوں ظلم و ستم توں نجات دوان دا ذریعہ وی سمجھیا اے ایس لئی اسیں اج ویکھنے آں کہ دنیا دے کمزور‘ محروم تے مظلوم انساناں نوں جے کوئی اک ریاست امید دواندی اے تے اوہ ملک ایران اے۔
اسلامی انقلابی نظریے دی وجہ نال اج ایرانی قوم نوں آزادی‘ خودمختاری‘ سربلندی تے خوداعتمادی جئی نعمتاں حاصل ہوئیاں نیں ۔ اگرچہ سامراج انقلاب توں لے کے ہن تک بچگانہ طریقے نال اسلامی انقلاب نوں نقصان پہنچان دے در تے رہیا اے لیکن ایرانی عوام دی بابصیرت قیادت دی حکمت عملیاں توں اج تک ساری سازشاں نوں نکام بنا دتا گیا اے۔
سادہ تے عوامی شکل وچ انقلاب دی روش دا اندازہ اوہدے نعریاں توں ہوندا اے تے ایہناں نعریاں توں ای اہداف دی شناسائی ہوندی اے۔ انقلاب اسلامی ایران استقلال‘ آزادی تے جمہوری اسلامی دے اہداف اتے مشتمل سی۔ ظالم شاہی نظام دے خلاف سب توں بنیادی نعرہ استقلال طلبی سی۔ ایہو وجہ اے کہ استقلال تے آزادی ایرانی عوام لئی انقلاب اسلامی دا بہت وڈا تحفہ اے کیوں جے ظالم تے ڈکٹیٹر شاہ پہلوی نے گھٹن دا ماحول بنا کے ایرانی قوم نوں معمولی جئی آزادی توں وی محروم کر رکھیا سی۔ ایسے طرحاں جمہوری اسلامی نے 98 فیصد توں ودھ عوام دے ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کیتی۔ امام خمینیؒ نے ایس دن نوں عید دا دن اعلان قرار دتا تے اپنے پیغام وچ فرمایا ایہ د ن مبارک ہووے جواناں دی شہادت تے مصیبتاں مگروں ایرانی عوام نے دیو صفت دشمن تے فرعون وقت نوں زمین بوس کر دتا تے ایہنوں ایران توں فرار ہون تے مجبور کردتا تے اپنے قیمتی ووٹ دی اکثریت دے ذریعے شاہی سلطنت دی جگہ جمہوری اسلامی نوں بٹھا کے حکومت عدل الٰہی دا اعلان کیتا۔ اک ایسی حکومت جہدے وچ سب نوں اک ای نظر نال ویکھیا جاوے تے عدل الٰہی دا سورج سب تے یکساں نورافشانی کرے تے قرآن و سنت دی باران رحمت سب تے یکساں نازل ہووے۔
اوہناں نے ادیان الٰہی بالخصوص اسلام دے پیغام دا صحیح تعارف کرایا تے گھنائونی سازشاں توں پردہ چک کے عالمی سطح تے لوکاں نوں ایہدے پس پردہ عناصر دے خلاف متحد کیتا تے بے مقصد سامراجی دین دا مقابلہ کرن لئی امریکی اسلام دے مقابلے وچ خالص محمدیﷺ دے اصلی چہرے دا خاکہ پیش کرنا امام خمینیؒ دے موثر اقدامات وچوں اے۔
امام خمینیؒ دا ایہہ اقدام نہ صرف دنیا دی سامراجی طاقتاں دے کارندیاں دے مفادات لئی خطرہ سی بلکہ ایہناں لوکاں دی طبیعت دے وی خلاف سی جہڑے خراج لین دے حامی سن۔ ایہو وجہ اے کہ اوہناں نوں اندر تے باہر دونواں جگہ ردعمل دا سامنا کرنا پیا۔ امام خمینیؒ نے ایس ردعمل دے مقابلے وچ ہمیشہ انقلاب اسلامی تے اسلامی پیغام دے عالمی ہون دی گل کیتی تے انبیاء دی تحریک دے فلسفے دی تشریح دے ضمن وچ اعلان فرمایا کہ انقلاب اسلامی انبیاء دی تحریک ای دا سلسلہ تے اک عالمی تحریک اے۔ اسلام صرف مسلماناں یا فقط ایران لئی نہیں بلکہ انسانیت لئی آیا اے۔ انبیاء تمام انساناں لئی مبعوث ہوئے نیں تے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ سارے انساناں لئی آئے نیں۔ ایس لئی امام خمینیؒ دا فرمانا سی کہ ساڈی تحریک صرف اسلام تک یا اسلامی ملکاں تک محدود نہیں اے بلکہ اسلامی تحریک انبیاء دی تحریک دا سلسلہ اے کیوں جے آپﷺ دی دعوت صرف خطہ عرب تک محدود نہیں سی بلکہ تہاڈی دعوت پوری دنیا لئی اے۔ ویسے تے دنیا وچ بہت ساری تحریکاں تے انقلاب جنم لیندے رہے نیں لیکن ایہناں سارے انقلاب تے تحریکاں تے ایران دے اسلامی انقلاب وچ بنیادی فرق ایہا ے کہ دوجے انقلاب مادی مقصداں لئی برپا ہوئے تے جدوں تک مادیت دا تقاضا سی اوہ انقلاب وی قائم رہے مگر جدوں مادیت جہڑی کہ فنا ہون والی شے اے ختم ہوئی تے اوہ انقلاب وی خود بخود ختم ہو گئے لیکن ایران وچ آن والا انقلاب اسلام دی اساس تے بنیاد تے سی تے ایہ اوہ شے اے جہڑی ہمیشہ قائم رہن والی حقیقت اے۔
انقلاب ایران دی کامیابی مگروں امریکا تے یورپی ملکاں نے اقتصادی پابندیاں‘ میڈیا تے مختلف قسم دی دوجی یلغاراں دے ذریعے ایرانی قوم نوں سرنگوں کرن دی مذموم تے نکام کوششاں کیتیاں لیکن ایرانی قوم نے ہر سازش دا ڈٹ کے مقابلہ کیتا تے ہر واری طاغوتی قوتاں نوں منہ دی کھانا پئی تے ایران دا اسلامی انقلاب اج وی نہ صرف اپنی پوری آب و تاب دے نال ایران وچ موجود اے بلکہ ایہدا چانن پورے عالم تک پہنچ رہیا اے۔تے اج دنیا وچ اٹھن والی اسلامی بیداری دی لہر وی ایران دے اسلامی انقلاب دے دنیا اتے پین والے اثرات دا منہ بولدا ثبوت اے۔


Voice of press published my column
انقلاب اسلامی کے ثمرات

انقلاب اسلامی ایران کی 43ویں سالگرہ کے موقع پرخصوصی تحریر
"انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات"
تحریر: شبیر احمد شگری
برادر ملک اسلامی جمہوریہ ایران کی عوام انقلاب اسلامی ایران کی تینتالیسویں سالگرہ منا رہی ہے۔ اس موقع پر ہم ایرانی بھائیوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ بظاہر یہ اسلامی انقلاب ایران میں آیا تھا لیکن اس کے اثرات تمام عالم بالخصوص عالم اسلام پر خصوصی طور پر نظر آتے ہیں۔
11 فروری 1979 کو بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینیؒ نے مغرب نواز ایرانی شاہ کا تختہ الٹ کر رکھ دیا تھا اور عوام کے استصواب رائے کو استعمال کرتے ہوئے ایران میں اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد ہر میدان میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ معاشرتی تبدیلی، علمی، فرہنگی، آرٹ، فنون لطیفہ، سائنس و ٹیکنالوجی یا کوئی بھی میدان ہو آج ایران نے ہر میدان میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔
انقلاب اسلامی کے بعد ایران کوبہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ساری دنیا کی جانب سے ایران پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اگر ہم اًس وقت کو دیکھیں تو 1979 میں ایران کی آبادی تین کروڑ ساٹھ لاکھ تھی جبکہ اس وقت ایران کی آبادی آٹھ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔اسلامی انقلاب کےبعد ایران کی آبادی میں اضافے، بیرونی دباو اور بہت سی مشکلات کے باوجود آفرین ہو ایران کے اسلامی نظام پر کہ آغاز میں امام خمینیؒ کی قیادت اور اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں اب تک ایران نے تمام مشکلات کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ہے اور ایرانی قوم نے ثابت قدم رہ کر ساری دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ اگر صحیح معنوں میں اسلامی نظام نافذ ہو تو پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود کفر کے مقابلے میں دین حق کوہمیشہ کامیاب و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔ اور ہمارے سامنے واضح ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے اور اپنے آپ کو سپر پاورکہلانے والے ممالک آج گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں طاقت کے نشے میں چور سامراجی طاقتوں نے اپنی طرف سے بھرپور کوششیں کی کہ کسی طرح ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے لیکن جو قوم خدا کی وحدانیت پر کامل یقین اور ایمان رکھتی ہو اس کو گھٹنے ٹیکنے پرکون مجبور کر سکتا ہے بلکہ ہر موقع پر ان عالمی سازشیں طاقتوں کو خود منہ کی کھانا پڑی ہے روز بروزہم دیکھ رہےہیں کہ ایران ہر شعبے میں کامیابی کے پنجے گاڑتا چلا جارہا ہے چاہے وہ معاشرتی، سیاسی،تعلیم کا نظام ہویاسائنس و ٹیکنالوجی کاایران نےہرمیدان میں اپنا لوہا منوایا ہے.
حالیہ برسوں میں کرونا کی وجہ سےبھی ایران کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن سپرپاور کہلانے والے نام نہاد ممالک نے یہ سمجھا کہ ایران کو اس موقع پر شکست دی جا سکتی ہے بین الاقوامی امداد تک روکی گئی جو کہ دنیا کے کسی بھی شہری کا حق ہوتا ہے ۔ بین الاقوامی حقوق اور انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں لیکن ایران نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی اور ان سخت ترین مشکل حالات میں بھی نہ صرف ثابت قدم رہا بلکہ اپنی ویکسین بھی تیار کرلی اور کرونا کی صورتحال پر بھی اپنے زور بازو سےقابو پا لیا۔
امام خمینیؒ کی کرشمہ ساز شخصیت نے نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک ایسی تاریخی سازریاست کی بنیاد رکھی جو اب تک یزیدیت کو کھٹک رہی ہے انھوں نے نہ صرف ایران کی عوام کے حقوق کی جنگ لڑی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے حقوق کی بھی بات کی ہے۔تمام دنیا کےمظلوموں کاساتھ دیا ہے اوران کےلیے آواز بلند کی ہے۔
انقلاب اسلامی ایران کے بعدعوام کے فلاح و بہبود کے پروگراموں اور ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی ایران میں بجلی، گیس، ٹیلی فون، انٹرنیٹ کی فراہمی، تعلیم اورریلوے کا نظام، دفاعی اداروں کا قیام ہر میدان میں ایران کی قوم انقلاب کے شروع سے اب تک اسی جذبے سے سرشار ہےجس کے تحت ایرانیوں نے رہبر کبیر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی سربراہی میں اپنی جدوجہد قائم رکھی اور جس کے نتیجے میں کامیابی ان کا مقدر رہی ہے۔ آج ایران نہ صرف دنیا کی نظروں کا مرکز بن گیا ہے بلکہ خود بین الاقوامی معاملات میں دنیا کا ساتھ دے رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین ، شام، عراق، یمن ہو یا کشمیر ہر جگہ ایران نےمثبت اور مضبوط موقف اپنایا ہے۔
ایرانی انقلاب کے دراصل دو پہلوہیں نظری اورعملی۔ نظری اورفکری پہلو خود ایرانیوں کی تاریخ میں موجود ہے اور ایرانیوں کی پیداوار بھی ہے کیونکہ انہوں نے چودہ سو سال پہلے اسلام قبول کیا تھا اور اس لیے اسلام کےاصلی اور اساسی عنصر ان کے عقیدے میں موجود تھے اس لئے انہوں نے خدا کی ذات پر تکیہ کیا اورایران کامیابی سے ہمکنار ہوا اسی طرح انقلاب ایران عاشورائی بھی ہے کیونکہ کہ ایران کے انقلاب کی ابتدا ہی امام خمینی ؒ کے اس تقریر سے ہوئی تھی جو عاشورہ کے موقع پر انھوں نے کی تھی۔ اور شاہ کو للکارا تھا۔ اور جس طرح عاشورای مقصد میں شہادت طلبی، ظلم سے ٹکراؤ، اللہ کی رضا مندی و پیروی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے نصب العین موجود ہیں انقلاب اسلامی ایران میں بھی اسی طرح کی خصوصیات کو اہمیت دی گئی۔
حالانکہ انقلاب ایران ایک اسلامی انقلاب تھا مگر اس کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ اس انقلاب کو ایک خاص مسلک سے بھی جوڑنے کی کوشش کی گئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران ایک شیعہ مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن یہاں پر دوسرے مسالک اور مذاہب کے لوگ بھی آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ جو بذات خود ان پروپیگنڈوں کی نفی ھے۔ بلکہ امام خمینیؒ تو وحدت کے علمبردار تھے۔ امام خمینیؒ عالم اسلام سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ تم ہاتھ باندھ کر اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے پر جھگڑ رہے ہو جبکہ دشمن تمہارے ہاتھ ہی کاٹ دینے کی فکر میں ہے۔ اسی طرح امام خمینیؒ ہمیشہ مسلمانوں کو وحدت کا درس دیتے رہے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایران کے روحانی پیشوا حضرت آیت اللہ خامنہ ای بھی دنیا کے لئے وحدت کی مثال بنے ہوئے ہیں۔
جو بھی ایران کے اسلامی انقلاب کو یا اسلامی جمہوریہ ایران کو کسی ایک خاص مسلک سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے ان کے لئے ایک واضح مثال جواب کی صورت میں یہ ہے کہ انقلاب کے بعد امام خمینیؒ نے فلسطینیوں کےحقوق کے لیے آواز بلند کی اور انہوں نے ایک اہم اعلان کیا کہ تمام مسلمان رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منائیں اور آج آپ دیکھتے ہیں کہ یوم القدس فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے پوری دنیا کا ایک اہم ذریعہ اور آواز ہے۔ جبکہ فلسطین میں اہل سنت مسلمان بستے ہیں لیکن امام خمینیؒ کی نظر صرف ایرانی قوم یا کسی خاص مسلک پر نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے وحدت اوران کےمسائل حل کرنے پر تھی۔
بانی انقلاب اسلامی نے انقلابی نظریہ کو صرف مملکت ایران تک محدود نہیں رکھا بلکہ دنیا کے تمام ستم رسیدہ انسانوں کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کا ذریعہ بھی سمجھا ہے اس لئے ہم آج دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کمزور،محروم اورمظلوم انسانوں کو اگر کوئی ایک ریاست امید دلاتی ہے تووہ ملک ایران ہے۔
اسلامی انقلابی نظریے کی وجہ سے آج ایرانی قوم کو آزادی، خودمختاری، سربلندی اور خود اعتمادی جیسی نعمتیں حاصل ہوئی ہے اگرچہ سامراج انقلاب سے لے کر اب تک بچگانہ طریقے سے اسلامی انقلاب کو نقصان پہنچانے کے درپے رہا ہے لیکن ایرانی عوام کی بابصیرت قیادت کی حکمت عملیوں سے آج تک تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے.
سادہ اور عوامی شکل میں انقلاب کی روش کا اندازہ اس کے نعروں سے ہوتا ہے اور ان نعروں سے ہی اہداف کی شناسائی ہوتی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران استقلال، آزادی اور جمہوری اسلامی کے اہداف پرمشتمل تھی ظالم شاہی نظام کے خلاف سب سے بنیادی نعرہ استقلال طلبی تھا یہی وجہ ہے کہ استقلال اور آزادی ایرانی عوام کے لیے انقلاب اسلامی کا بہت بڑا تحفہ ہے کیونکہ ظالم اور ڈکٹیٹر شاہ پہلوی نے گھٹن کا ماحول بنا کر ایرانی قوم کو معمولی سی آزادی سے بھی محروم کر رکھا تھا اسی طرح جمہوری اسلامی نے 98 فیصد سے زیادہ عوام کے ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ امام خمینیؒ نے اس دن کو عید کا دن اعلان قرار دیا اور اپنے پیغام میں فرمایا یہ دن مبارک ہو جوانوں کی شہادت اورمصیبتوں کے بعد ایرانی عوام نےدیو صفت دشمن اور فرعون وقت کو زمین بوس کر دیا اور اس کو ایران سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا اور اپنے قیمتی ووٹ کی اکثریت کے ذریعے شاہی سلطنت کی جگہ جمہوری اسلامی کو بٹھا کر حکومت عدل الہی کا اعلان کیا۔ایک ایسی حکومت جس میں سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جائے اورعدل الہی کا سورج سب پر یکساں نور افشانی کرے ۔ اور قرآن اور سنت کی باران رحمت سب پر یکساں نازل ہو ۔
انھوں نے ادیان الہی بالخصوص اسلام کے پیغام کا صحیح تعارف کرایا اور گھناؤنی سازشوں سے پردہ اٹھا کر عالمی سطح پر لوگوں کو اس کے پس پردہ عناصر کے خلاف متحد کیا۔اوربے مقصد سامراجی دین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی اسلام کے مقابلے میں خالص محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسلام کے اصلی چہرے کا خاکہ پیش کرنا امام خمینی ؒکے موثر اقدامات میں سے ہے۔
امام خمینیؒ کا یہ اقدام نہ صرف دنیا کی سامراجی طاقتوں کے کارندوں کے مفادات کے لیے خطرہ تھا بلکہ ان لوگوں کی طبیعت کے بھی خلاف تھا جو خراج لینے کے حامی تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں اندر اور باہر دونوں جگہ رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ امام خمینیؒ نے اس ردعمل کے مقابلے میں ہمیشہ انقلاب اسلامی اور اسلامی پیغام کے عالمی ہونے کی بات کی۔ اور انبیاء کی تحریک کے فلسفے کی تشریح کے ضمن میں اعلان فرمایا کہ انقلاب اسلامی انبیاء کی تحریک ہی کا سلسلہ اور ایک عالمی تحریک ہے۔اسلام صرف مسلمانوں یا فقط ایران کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے لیے آیا ہے انبیاء تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔ اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انسانوں کے لیے آئے ہیں۔ اس لیے امام خمینیؒ کا فرمانا تھا کہ ہماری تحریک صرف اسلام تک یااسلامی ممالک تک محدود نہیں ہے۔بلکہ اسلامی تحریک انبیاء کی تحریک کا تسلسل ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت صرف خطہ عرب تک محدود نہ تھی بلکہ آپ کی دعوت پوری دنیا کے لئے ہے۔
یوں تو دنیا میں بہت سی تحریکیں اور انقلاب جنم لیتے رہے ہیں لیکن ان تمام انقلاب اور تحریکوں اور ایران کے اسلامی انقلاب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دیگر انقلاب مادی مقاصد کے لیے برپا ہوئے اور جب تک مادیت کا تقاضا تھا وہ انقلاب بھی قائم رہے مگر جب مادیت جو کہ فنا ہونے والی شے ہے ختم ہوئی تو وہ انقلاب بھی خود بخود ختم ہوگئے۔ لیکن ایران میں آنے والا انقلاب اسلام کی اساس اور بنیاد پر تھا اور یہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والی حقیقت ہے۔
انقلاب ایران کی کامیابی کے بعد امریکا اور یورپی ممالک نے اقتصادی پابندیوں، میڈیاوار اور مختلف قسم کی دوسری یلغاروں کے ذریعے ایرانی قوم کو سرنگوں کرنے کی مذموم اور ناکام کوششیں کی لیکن ایرانی قوم نے ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر بار طاغوتی قوتوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ اور ایران کا اسلامی انقلاب آج بھی نہ صرف اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ایران میں موجود ہے بلکہ اس کی روشنی پورے عالم تک پہنچ رہی ہے۔ اور آج دنیا میں اٹھنے والی اسلامی بیداری کی لہر بھی ایران کے اسلامی انقلاب کے دنیا پر پڑنے والے اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


ایک خوبصورت اور مثالی معاشرے کے قیام کے لئے حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا کےیوم ولادت کو "یوم خواتین" کے طور پر منایا جائے۔
تحریر: شبیر احمد شگری
میں یہ تحریر اس امید سے لکھ رہا ہوں کہ یہ تحریر اس بات کا محرک بن سکے کہ پاکستان میں حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا کےیوم ولادت کوسرکاری طور پر یوم خواتین کے طور پر منایا جائے۔ کیونکہ بحیثیت مسلمان اور نبی پاک کا امتی ہونے کے ناطے ہم سب ان کی صاحبزادی اور جنتی خواتین کی سردار جناب سیدہ کی شان اور احترام کے قائل ہیں۔یہ احترام ہم پر واجب ہے کیونکہ یہ رسول پاک کی وہ پاک بیٹی ہیں جن کے احترام میں حضور پاک اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوتےتھے۔ تو کیوں نہ ہم اس ہستی کے یوم ولادت کو یوم خواتین کے طور پر منائیں۔ ان پاک ہستیوں کے دکھائے گئے راہ عمل تو ہماری زندگی اور آخرت کی کامیابی کے لئے مشعل راہ ہونے چاہئے تھے۔ لیکن ان پاک ہستیوں سے دوری کی وجہ سے آج ہم بہت سی بے راہ روی کا شکار ہیں۔ اگر ہم نے حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کے مثالی کردا ر کو اپنے گھر،خاندان اور زندگی میں حقیقی طور پر نافذ العمل کیا ہوتا تو بیک وقت بیٹی ، بیوی اور ماں کی مثالی حیثیت کے حامل اس کردار کی برکت سے نہ صرف ہم اپنے خاندان بلکہ معاشرے کو بھی ایک حسین روپ میں دیکھ سکتے تھے۔ کیونکہ ہماری زندگی میں ایک بیٹی، بیوی اور ماں عورت کے وہ تین روپ ہوتے ہیں جو انسان کی تربیت، رحمت، سکون و آسودگی کا سبب بنتے ہیں۔ ایک مرد کا کبھی بھی ان رشتوں سے فرار ممکن نہیں ہے۔اور اگر یہی بیٹی ، بیوی اور ماں جناب سیدہ کے کردار کو اپنا لیتی تو ان کے باپ ، شوہر اور بیٹوں میں بھی رسول پاک، شیر خدا اور حسنین کریمین کی کچھ نہ کچھ جھلک ضرور نظر آرہی ہوتی ۔ ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو اکثر خواتین اپنے حقوق کی محرومی کا ڈھنڈورا پیٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ اور یہ اسی وجہ سے ہے کہ ہمارے سامنے اتنے عظیم مثالی کردار اور نمونہ عمل کے ہوتے ہوئے ہم نے اس سے دوری اختیار کی ہوئی ہے۔ نتیجتاً معاشرے میں بگاڑ،بے راہ روی والا ماحول اور "میرا جسم میری مرضی " جیسے نعرے جنم لیتے دکھائی دیتے ہیں اور وہ بھی ہمارے اسلامی جمہوریہ جیسے ملک میں۔ حالانکہ جتنا احترام عورت کو اسلام دیتا ہے وہ کسی اور مذہب میں ہرگزموجودنہیں ہے۔ عمومی طور پر ھمارے گھرانوں میں موجود باپ بیٹی، شوہر بیوی اور ماں بیٹے کے مرکزی کرداروں کے درمیاں عزت ،پیار اور احترام کےانتہائی خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اور جن گھرانوں میں بھی ایسا ماحول موجود ہے وہ خوش قسمتی سے اورسکون کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔اس لئے دنیا و آخرت کی کامیابی اور زندگی میں سکون کے لئے ہم بیک وقت مثالی نمونہ عمل رکھنے والے کرداروں کے امتزاج کی حامل ہستی حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا کے نقش قدم پر چل کر کامیابی سے ھمکنار ہوسکتے ہیں۔
یوں تو احادیث اورروایات کی روشنی میں ھم جا بجا جناب سیدہ جیسی عظیم ہستی کی شان اورکردار کے عظمت کی بلندیوں سے آگاہ ہیں۔ لیکن حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کی ذات کو اگر اسوۂ کاملہ کے حوالے سے دیکھنا ہو تو ھم اس کی خوبصورت رہنمائی حضرت علامہ اقبال ؒ کے اس فارسی کلام سے لے سکتے ہیں۔ جس میں انھوں نے خاتون جنت سلام اللہ علیھا کی تین عظیم نسبتوں کے حوالے سے نہ صرف نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے بلکہ اپنی قوم کو ایک نمونہ فکر بھی دے گئے ہیں۔ علامہ صاحب "کلیات اقبال" میں فرماتے ہیں۔
مریم از یک نسبت عیسی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
نور چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین و آخرین
بانوی آن تاجدار ’’ہل اتے‘‘
مرتضی مشکل گشا شیر خدا
مادر آن مرکز پرگار عشق
مادر آن کاروان سالار عشق
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوۂ کامل بتول
رشتۂ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفی است
ورنہ گرد تربتش گردیدمی
سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمی
*ترجمہ:*
حضرت مریمؑ تو حضرت عیسٰیؑ سے ایک نسبت کی بنا پر عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمہ الزاھرہ سلام اللہ علیھا اس طرح کی تین نسبتوں سے عزیز ہیں۔ پہلی نسبت یہ کہ آپ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورِنظر ھیں، جو اولین اور آخرین کے امام ہیں۔ دوسری نسبت یہ کہ آپؓ " ہل اتیٰ " کے تاجدار کی حرم ھیں۔ جو مشکل کشا اور اللہ کے شیر ہیں ۔ تیسری نسبت یہ ہےکہ آپ اُن ہستیوں کی ماں ہیں جن میں سے ایک عشقِ حق کی پرکار کا مرکز ہیں اور دوسرے عشقِ حق کے قافلے کے سالار ہیں۔ حضرت فاطمہ تسلیم کی کھیتی کا حاصل ہیں اور آپ مسلمان ماوں کے لئے اسوہ کامل بن گئیں۔ ساتھ ہی حضرت اقبال جناب سیدہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی قانون کی ڈوری نے میرے پاوں باندھ رکھے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے پاس نےمجھے روک رکھا ہے، ورنہ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے مزار کا طواف کرتا اور اس مقام پر سجدہ ریز ہوتا۔
اللہ اکبر ! اپنی اس شاعری میں حضرت اقبال ؒ نے دختر رسول حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کی شان کی بلندی کو بیان کرتے ہوئے انھیں دنیا کی عظیم ترین خاتون کا درجہ دیا ہے۔ بیشک عالم اسلام میں اہم اور معزز خواتین گذری ہیں جن کی ذات کسی بھی ایک نسبت کی وجہ سے دنیا کے دوسری خواتین سے بلند ہیں لیکن جناب سیدہ کی ذات بیک وقت کئی نسبتوں کی وجہ سے دنیا و آخرت میں عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔
اسی طرح سے حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کے سارے کمالات صرف ان کی تین نسبتیں، کل متاع اور یہ ساری میراث نہیں ہے بلکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کے کچھ اور کمالات بھی ہیں اور یہ میراث ان کمالات کا نتیجہ ہے یعنی کچھ کمالات حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کے ایسے ہیں جنہوں نے حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کو اس قابل بنایا ہے کہ یہ تین نسبتیں ان سے منسلک ہوجائیں۔ یہاں جناب سیدہ کی اس طرح شان بیان کرنے کا مقصد کسی اور کی شان گھٹانا ہرگزنہیں ہے۔ بلکہ ان خصوصیات کا ذکر کرنا ہے جن سے خداوند عالمین نے خصوصی طور پرجناب سیدہ کو نوازا ہے۔ حضرت علامہ اقبال ؒ نے جناب سیدہ کی شان بیان کرتے ہوئے حضرت مریم کی بھی مثال دی ہے۔اور یہ نسبتیں بقول ان کےحضرت مریم کے تو کیا دیگر انبیا اور ہستیوں سے تعلق رکھنے والی عظیم خواتین یا امہات المومنین کو بھی بیک وقت میسر نہیں ہوئیں ۔اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ و آلہ وسلم کی بیان کی گئی احادیث ہی صرف نمونہ عمل نہیں ہیں بلکہ ان کی عملی زندگی بھی ہمارے لئے رول ماڈل ہے اسی طرح جناب سیدہ کا عظیم کردار بھی ہمارے سامنے ہے۔ جسے اپنا کر ہم اپنے کردار کو بلند کر سکتے ہیں۔ انسان ایک پتھر نہیں ہے جسے اٹھا کر ایک بلند مقام پر رکھ دیا جائے تو اس کا مقام بلند ہوجائے گا ۔ بلکہ انسان کو کردار کی بلندی کے لئے اپنے ارادے اور اختیار کواس پاک ہستی کے کردار کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ان کی شخصیت کا مطالعہ کرنا ہوگا۔اور اپنے قول و فعل سے اپنے رشتوں کے درمیاں خوبصورتی پیدا کرنا ہوگی۔ مرد و خواتین کے حقوق کو حقیقی معنوں میں جاننے اوراپنے معاشرے کو درست سمت میں آگہی دینے کے لئے ہمیں جناب سیدہ کے کردار اور فرامین کو اپنانا ہوگا۔ اس کے لئے سب سے بہترین عمل اور اقدام کے طور پر ہم ان کے یوم ولادت کو ملک عزیز پاکستان میں " یوم خواتین" کے طور پر منانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔تاکہ ان کی تعلیمات عام ہوسکیں اور صحیح معنوں میں ہم ان سے بہرہ مند ہوسکیں۔ اسلام کی راہ پر کامیابی اوررسول پاک کے اسوۃ حسنہ پر چلنے کے لئے ہفتہ وحدت اسلامی اور میلاد منا سکتے ہیں تو ایک خوبصورت اور مثالی معاشرے کے قیام کے لئے ان کی دختر پاک جناب سیدہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کی ذات کو مشعل راہ کیوں نہیں بنا سکتے۔تاکہ ہمارا معاشرہ ان پاک ہستی کی برکت سےرشتوں کے آدا ب اور احترام کے حوالے سے مثالی معاشرہ بن سکے۔


پروفیسر غلام حسین سلیم ملت کا عظیم سرمایہ تھے۔
تحریر: شبیر احمد شگری
مرحوم پروفیسر غلام حسین سلیم بلتستان کی معروف مذہبی، ادبی،سیاسی اور سماجی شخصیت تھے۔ انھوں نے اپنے تعلیمی کیریئر کا آغاز انیس سو ستتر سے ڈگری کالج سکردو سے کیا ۔انٹر کالج میں انہوں نے لائبریرین کا عہدہ لیا اور تھوڑے عرصے میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پرمقرر ہوئے۔ مرحوم اسلام آباد میں وزارتی پوسٹوں پر بھی اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔مرحوم 1994 میں ناردرن ایریاز کونسل کے ممبر بھی منتخب ہوئے. بطور کونسلر سکردو حلقہ نمبر ایک کی تعمیر و ترقی کیلئے انھوں نے ایک بڑا اور بنیادی انفراسٹرکچر تعمیر کرایا ۔ آج کے سکردو ٹاون کوایک دیہات نما قصبے سے ایک متمدن شہر بنانے میں بھی مرحوم کا بنیادی کردار ہے۔ ان میں گریٹر واٹر سپلائی اور 65 لنک روڈ سر فہرست ہیں۔ ان دو سکیموں نے سکردو شہر کے نقشے کے ساتھ تقدیر بھی بدل ڈالی ۔اس کے علاوہ انہوں نے مشیر صحت کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دیں ۔ 2009کی اصلاحات کے بعد گلگت بلتستان کونسل کے رکن بھی بنے اور وزیراعظم کے مشیر کے طور پر بھی کام کیا.
مرحوم بلتستان میں ایک نامور خطیب کے طور پر بھی معروف تھے ۔خطابت ان کو اپنےمرحوم نانا اخوند یوسف ہرداس سے وراثت میں ملی تھی۔ انہوں نے ابتدائی طالب علمی کے دور میں کراچی کے نشتر پارک میں منعقدہ آل پاکستان تقریری مقابلے میں پہلا انعام بھی حاصل کیا تھا۔
معروف عالم دین مولانا مرزا یوسف حسین صاحب کا کہنا ہے کہ جب 1968 میں وہ مدرسۃ الواعظین کراچی پڑھنے آئے تو سلیم صاحب وہاں کے فاضل طلباء میں شمار ہوتے تھے۔ وہ اور مولانا رضی جعفر صاحب ہم کلاس تھے۔اور مرحوم مولانا طالب جوہری صاحب پرنسپل تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں حضرات نے ایم اے کا امتحان ایک ساتھ پاس کیاتھا۔
مرحوم کی شاعری اور نثر نگاری میں بھی بڑی خدمات ہیں۔ بلتستان میں انہیں اردو خطابت کا بانی سمجھا جاتا ہے ان کی اردو بڑی صاف ستھری ،شائستہ اور ادبی ہوتی تھی۔ان کی خطابت کا انداز بڑا سلجھا ہوا شائستہ اور قابل فہم ہوتا تھا. ان کے رویے میں بڑی انکساری تھی. اور جو بات وہ کہنا چاہتے تھے اور سمجھانا چاہتے تھے وہ سامع کے دل میں اتر جاتی تھی۔اور ان کی تقریر سننے کے لیے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہوتی تھی۔ وہ اتنی شستہ اردو بولتے اور لکھتے تھے کہ کراچی کے اہل زبان کو بھی یقین نہیں آتا تھا کہ ان کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔
پروفیسر سلیم صاحب فہم و فراست اور بیان کے اعتبار سے بہت زیادہ آگے تھے ان کی فہم و فراست اور بصیرت واقعا بے مثال تھی ۔وہ جس وفد کے ساتھ بھی حکومت کے ساتھ ملاقات کرتے اور اپنے مطالبات پیش کرتے تو حکومت ان کے موقف کو نظرانداز نہیں کر سکتی تھی ۔انہوں نےقوم و ملت کی بہت خدمت کی ہے۔ گلگت بلتستان کے سرکاری حکام، تمام فرقوں کے علما اور شخصیات سب قوم و ملت کے باہمی تنازعات کے بارے میں آپ کی نمائندگی پر سو فیصد اعتماد کرتے تھے۔
وہ ایک مومن کی طرح سخت اصول پرست تھے ، اورہر اصول پرست کی طرح اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے ، نہ اپنے ذاتی اغراض کیلئے قومی امور میں کسی کو کوئی رعایت دیتے تھے۔وہ نہ صرف ایک زیرک سیاست دان، استاد، بے مثل خطیب اور ماہر ادیب تھے، بلکہ ایک عالم دین بھی تھے۔اس طرح علم و ادب سے ان کا ایک خاص رشتہ تھا۔
مرحوم پروفیسر غلام حسین سلیم کو شہید مرتضی مطہری کی کتاب "جاذبہ و دافعہ علیؑ" بہت پسند تھی، جس کا انہوں نے انیس سو پچاسی میں اردو ترجمہ بھی کیا ۔
پورے پاکستان کے علماء ان کی غیر معمولی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے تھے۔ اور مرحوم خود بھی علماء کو ہمیشہ ہمیشہ مقدم رکھتے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ وحدت کے علمبردار بھی تھے جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان کے امیر مولانا عطاء اللہ شہاب کہتے ہیں کہ پروفیسر غلام حسین سلیم ایک زیرک لیڈر اور باصلاحیت سیاسی قائد اور رہنما تھے ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ آسانی سے پر ہونے والا نہیں ہے۔
بلتستان کی معروف علمی سیاسی اور مذہبی شخصیت پروفیسر غلام حسین سلیم 73 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کرگئے۔مرحوم کی میت کو ہوائی جہاز کے ذریعے اسکردو لایا گیا تو ایئرپورٹ پر وزیر زراعت محمد کاظم میثم اورعلماء کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان کی نماز جنازہ انجمن امامیہ اسکردو کے صدر آغا باقر حسینی نے جامع مسجد سکردو میں پڑھائی جہاں کے منبر سے مرحوم لگ بھگ 40 سال تک محرم الحرام کے عشرے پڑھتے رہے ۔ جنازے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔مرحوم کو حسنین نگر قبرستان سکردو میں سپرد خاک کیا گیا۔
علمی ادبی اور مذہبی حلقوں نے ان کی وفات کو ملت کا ایک بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ مرحوم پروفیسر غلام حسین سلیم نے سیاست، خطابت، تعلیم، تدریس، ادب وثقافت، مذہب اور سماجیات پر نہ مٹنے والے نقوش چھوڑے ہیں۔مرحوم کی وفات سے صرف ان کا خاندان ہی نہیں بلکہ پوری قوم متاثر ہوئی ہے۔
مرحوم نے سوگواران میں بیوہ،6 بیٹے اور 5 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ان سب سے تعزیت کرتے ہوئے اللہ پاک سے دعاگو ہیں کہ ملک و ملت کی اس بے مثال شخصیت کواپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے ۔مرحوم کی عظیم خدمات کے صلے میں ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دے ۔ آمین یا رب العالمین۔

کرسی یا عہدہ آپ کے پاس امانت ھے۔
تحریر: شبیر احمد شگری
وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۔
سورۃ بقرہ میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ اس کی کرسی (علم و اقتدار) آسمان و زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔
اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل کرسی یا علم و اقتدار کا مالک وہی اللہ ہے ساری دنیا کی بادشاہی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔۔ جس کی کرسی ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔
بحیثیت انسان اگر ھمارے پاس کوئی عہدہ ہے یا کسی کرسی کی ذمہ داری ہے۔تو وہ ہمارے پاس ایک امانت ہے۔ حتٰی کہ یہ دنیا اور خود ھماری جان ہمارے پاس امانت کے طور پر ہیں۔ امانت ایک دن لوٹانی ہوتی ہے۔ پھر دیکھا جائے گا کہ ھم نے اس امانت کا کیسے استعمال کیا ہے۔اورروز سزا و جزا کے دن اس کے لئے ہمیں جواب دہ بھی ہونا ہے۔اگر ھم خیانت کریں گے توبے شک اللہ تعالی امانت میں خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔دیکھنا یہ ہے کہ امانت کسے کہتے ہیں امانت اس چیز کو کہتے ہیں جس کا کسی کو ذمہ دار بنایا جائے یا عہدہ داربنایا جائے یا جس کے سلسلے میں کسی پر اعتبار کیا جائے۔
عام طور پر امانت کے سلسلے میں لوگوں کا ذہن اس طرف جاتا ہے کی اگر کسی نے کچھ روپیہ یا کوئی شے کسی کے پاس رکھی ہے تو وہ اس کا امین ہے اور جب اس سے طلب کیا جائے تو کسی کمی و زیادتی کے بغیر مالک کو اس کی اصل حالت میں واپس کر دے۔ بیشک یہ بھی امانت ہے ۔اسے امانت دار ی کہتے ہیں۔ لیکن اسلام میں امانت داری کا تصور صرف روپیہ پیسہ یا کسی چیز تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں امانت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
امانت اصل میں وسیع مفہوم کے معنی میں آتا ہے مثال کے طوربندوں پر حقوق اللہ نماز، روزہ، حج، زکواۃ، کفارہ، نذر وغیرہ اور حقوق العباد کے طور پر بندوں کے آپس کے حقوق شامل ہیں جسے حقوق العباد کہا جاتا ہے اور ان حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا۔اور دیکھا جائے گا کہ یہ امانت ہم نے کس طرح ادا کی ہے۔
معلوم ہو اکہ امانت کے مفہوم تو بہت سےہیں لیکن میرااس وقت اصل موضوع کرسی یا عہدہ ہے ۔ کرسی یا عہدہ ایسی چیز ہے جس سے انسان بذات خوداور بالواسطہ یا بلاواسطہ ضرور جڑا ہوتا ہے۔انسان کے پاس کوئی بھی کرسی یا عہدہ امانت ہے جو اسے کسی ملک،حکومت یا کسی بھی چھوٹے بڑے ادارے سے ملتا ہے۔بادشاہ ہو ملک کا سربراہ ہو ،سرکاری یا غیر سرکاری اس کی کرسی سے لے کر کسی چھوٹے ادارے یا نظام کے کلرک تک جو بھی عہدہ ہے وہ ایک امانت ہےاور دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس امانت کو کس طرح استعمال کرتا ہے اور اپنے اس کرسی کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داری کوکتنی حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیتا ہے۔وہ عہدہ یا کرسی جو اللہ تعالی کی عطا کردہ ہے اس کی ذمہ داریوں پر کس طرح عمل پیرا ہوتا ہے۔
ہر وہ شخص جو کسی بھی عہدے یا کرسی پر بیٹھتا ہے چاہے کوئی استاد ہو، کلرک ، چھوٹا یا بڑا سرکاری یا غیر سرکاری آفیسرہویا کوئی عہدہ دار ہو توجس کرسی پروہ بیٹھا ہے اورحلف یا ذمہ داری لی ہے وہ اس کا ذمہ دار ہے۔جو اس کا عہدہ مقرر کیا گیاہے اور جو اس کی تنخواہ مقرر کی گئی ہے صرف اسی کا حقدار اور پابندہے۔ کیونکہ کرسی یا عہدے کے ساتھ بہت سےمسائل بھی پیش آسکتے ہیں کہ جو کرسی کے ناجائز استعمال کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اختیارات کے ناجائز استعمال کے بموجب رشوت بھی لی جاتی ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ کوئی بھی شخص جو کسی کرسی یا عہدے کا ذمہ دارہےاگر اس کاصحیح طرح استعمال نہیں کرتا اور اپنے حقوق سے تجاوز کرتا ہے تو وہ نہ بھولے کہ چاہے دنیا ہو یا آخرت اسے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ کسی دنیاوی عہدے پر ہو کسی بھی کرسی پر بیٹھا ہوں اسے نہ صرف رشوت بلکہ کسی تحفے کو بھی قبول کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ عموما تحفے تحائف اور رشوت کسی غلط مقصد کے لئے ہی دیئے جاتے ہیں جس سے کسی کی حق تلفی یا زیادتی ہو رہی ہوتی ہے یا ادارے کو نقصان پہنچتا ہے۔ اورصاحب کرسی نے جو اپنے ادارے سے عہد کیا ہوا ہے یا وہ ادارہ اس سے جس کام کی توقع رکھتا ہےاس ذمہ داری سے خیانت ہو رہی ہوتی ہے۔لہٰذااگر آپ کے پاس کوئی اختیار ہو اگر آپ کے پاس کوئی سائل آتا ہے تو آپ کو اپنے عہدے یا ذمہ داری کا ا پاس رکھنا ہے یہ نہیں سمجھنا کی آپ کوئی بڑے سورماہیں ۔اللہ پاک نے آپ کو کوئی عزت کوئی منصب عطا کی ہے تو اس کا شکر ادا کریں اور اس عہدے کا صحیح استعمال کریں اوراگر کوئی ضرورت کے تحت آپ کے پاس آتا ہے اور آپ اپنی ذاتی مرضی شامل کرتے ہیں اورغلط رویہ اختیار کرتے ہیں یا غلط قدم اٹھا تے ہیں تو نہ صرف آپ اس ادارے کے مفادات اورقوانین کے خلاف کام کررہے ہوتے ہیں بلکہ اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے امانت میں خیانت کررہے ہوتے ہیں۔ جس کا آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔یقین جانیں اس بارے میں آپ سے پورا پورا پوچھا جائے گااس لئے آپ انکساری کے ساتھ اگر اللہ کو خوش کرنے کے لئے اپنے عہدے کا اچھا استعمال کریں گےاپنی ڈیوٹی کو خدمت خلق سمجھ کرکریں گے تو اللہ پاک آپ بھی خوش ہو گا اور جس سے آپ کا واسطہ پڑاہے وہ بھی آپ سے خوش ہو گا اور دعائیں دے گاجو اللہ پاک کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ اجر کا سبب بنیں گی۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ جس کرسی پر بیٹھے ہیں آپ کا بڑا اختیار ہے تو یہ آپ کی بھول ہے اس طرح آپ کے اندر انسانیت کی بجائے فرعونیت جنم لے گی۔ کیونکہ اسی کرسی اورتخت کی وجہ سے وجہ سے فرعون اورنمرود بھی خدائی کا دعوی کر بیٹھے تھے ۔اس طرح یہ کرسی بڑا امتحان بھی ہے جس سے اگر آپ اچھے طریقے سےعہدہ برا ہوں گے تو دنیا قیامت دونوں میں عزت ہوگی لیکن اس کا ناجائز استعمال آخرت میں تو ہے ہی اکثر اوقات دنیا میں ہی ذلت کا سبب بن سکتا ہے۔
اس وقت بیشتر مسائل ہیں کرسی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے پیداہو رہے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ ہر محکمے میں ہر کوئی برا ہے بہت سارے محکموں میں بہت سارے اچھے افراد بھی ہیں یہ دنیا نیک لوگوں کی وجہ سے چل رہی ہے۔ اللہ پاک کے کرم سے ہمارا ملک عزیز پاکستان نیک لوگوں اور ان کی دعاؤں کی وجہ سے چل رہا ہے۔ اچھے اور برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن اختیارات کا ناجائز استعمال آپ کو جہنم کی طرف لے جائے گا اس لئے ایک اچھا انسان اور ایک اچھےمسلمان کی حیثیت سے اگر ہم اپنی کرسی اور عہدے کا بہتراستعمال کریں تو دنیا وآخرت دونوں میں خیر و برکت کا سبب ہوگا۔
جو عہدہ آپ کو دیا گیا ہے اورجس کرسی پر آپ کو بٹھایا گیا ہے انصاف یہ ہے کہ اس عہدے کے مطابق عمل انجام دیا جائے۔اور اس کے لئے آپ کی اپنی ذاتی سوچ ذاتی مرضی اور ذاتی مفادات سراسر عدل و انصاف کے برعکس ہوگی۔اگر آپ اپنی کرسی اپنے عہدے پر بہت ناز کر کے یہ سمجھیں میں اس کرسی پر بیٹھا ہوں تو میرا اختیار ہےجو مرضی کروں وہ کروں گا تو یقیناً یہ فرعونیت ہے اور یاد رکھیں کہ اوپر بھی کوئی ہےجس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔اس کی جب پکڑ ہوگی تو ساری چالاکیاں اور ہوشیاریاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کرسی نے کبھی کسی سے وفا نہیں کی ہے آپ کو کب آنی ہے۔آج آپ کے پاس ہے کل کسی کے پاس ہوگی۔ طاقت اور کرسی کے نشے میں چور خدائی کا دعویٰ کرنے والے تک نہ رہے۔ تخت بلقیس نے بھی اس سے وفا نہ کی نہ تخت سلیمان ہمیشہ حضرت سلیمان کے پاس رہا۔ بس کرسی یا اقتدار صرف اس ذات پاک کی تھی، ہے اورہمیشہ باقی ر ہے گی جو زمین و آسمان کا مالک و بادشاہ ہے۔
امید ہے کہ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ھم میں سے ہر شخص ایک دفعہ یہ جائزہ ضرور لے گا کہ ہم اپنی کرسی یا اختیارات کی ذمہ داری کا استعمال درست طریقے سے انجام دے رہے ہیں یانہیں۔ کیونکہ سب سےبہترین عدالت ضمیر کی ہوتی ہے بشرطیکہ زندہ ہو۔


یہ تحریر وزیراعظم عمران خان کی بلتستان میں موجود برفانی چیتے کے بارے میں شئیر کی گئی حالیہ ویڈیو کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔
پاکستان میں موجود دنیا کی نایاب نسل کے برفانی چیتے اور ان کا تحفظ
تحریر و تحقیق : شبیر احمد شگری
حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے گلگت بلتستان کے علاقے خپلو )ہوشے)میں موجود ایک چیتے کی ویڈیو شئیر کی جو کافی وائرل ہوئی۔ یہ ایک نایاب چیتا ہے۔اس ویڈیو میں برفانی چیتا برف سے ڈھکے پہاڑ پر موجود ایک بڑی چٹان کے سائے میں کچھ دیر کھڑا نظر آرہا ہے۔اورپھر وہاں سے چلا جاتا ہے۔پاکستان کے قراقرم کے پہاڑوں میں واقع وادی خپلو میں اس برفانی چیتے کی غیر معمولی فوٹیج برطانیہ کے عالمی جنگلی حیات کی فلاحی تنظیم نےجاری کی ہے۔ویڈیو کے ساتھ پریس ریلیز میں TWLF کے جان نائٹ کا کہنا ہےکہ برفانی چیتا یہ بتانے کے لیے کہ وہ اس علاقے میں ہے، اپنی آواز کا استعمال کر رہا ہے۔نائٹ نے اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے"انتہائی غیر معمولی" فوٹیج کے طور پر بیان کیا، ان کا کہنا تھا کہ برفانی چیتے فطرتاً مضحکہ خیز اور تنہا ہوتے ہیں، صرف اپنے بچوں کو جوڑنے اور ان کی پرورش کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔
حیوانات کے تحفظ کے پراجیکٹ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر، غلام محمد نے کہا کہ یہ نادر ویڈیو ہائی ٹیک فیلڈ کیمروں کے ساتھ ریکارڈ کی گئی تھی جو علاقے میں جنگلی برفانی چیتے کی آبادی کو ٹریک کرنے اور ان کی نگرانی کے لیے لگائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم نے مارچ میں تیندووں کو بھی دیکھا، جو کہ قدرتی خطے کی حیاتیاتی تنوع کے لیے "امید کی ناقابل یقین علامت" ہے۔
ان کا کہنا ہےکہ وہ امریکہ میں قائم غیر منافع بخش تنظیم، اقراء فنڈ کے ساتھ شراکت داری میں بھی کام کر رہے ہیں، تاکہ اونچائی والے دیہاتوں میں کمیونٹیز کو جنگلی حیات کے تحفظ اور تحفظ کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔لیکن امریکہ میں کورونا وائرس پھیلنے کے معاشی اثرات کی وجہ سے ان منصوبوں کے لیے مالی امداد میں خلل پڑا ہے، جو تحفظ کی مہم کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
برفانی چیتے کی نسل دنیا میں نایاب نسل ہے۔برفانی چیتے کو فی الحال IUCN نے خطرے سے دوچار کے طور پر درج کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں صرف چند سو ہی موجود ہیں، اس کے باوجود، برفانی چیتے کی آبادی اب بھی زیادہ تر رینج میں کم ہوتی جا رہی ہے۔تاہم، COVID-19 وبائی بیماری کا پھیلنا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی چیلنجز، غیر منافع بخش بلتستان وائلڈ لائف کنزرویشن اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن، یا BWCDO کی طرف سے امریکی خیراتی اداروں کے اشتراک سے چلائی جانے والی دو دہائیوں پرانی "کامیاب" مہم کو نقصان پہنچانے کا خطرہ ہے۔
برفانی چیتا ایشیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں کا سب سے بڑا شکاری ہے، جس کی تقسیم براعظم کےملین کلومیٹر ز تک پھیلی ہوئی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 8,000 برفانی چیتے جنگلی علاقوں میں رہ گئے ہیں، اور ان میں سے 400 سے کم پاکستان میں موجود ہیں، بشمول گلگت بلتستان کا علاقہ، جہاں BWCDO برفانی چیتے کے تحفظ میں مدد کے لیے مقامی گاؤں کی آبادی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔کیونکہ انہیں کھال کی تجارت سے لے کر مویشیوں کے چرواہوں کی طرف سے انتقامی طور پر مارنے تک کے خطرات کا سامنا ہے – کیونکہ بنیادی طور پر برفانی چیتےکا شکار جنگلی بھیڑ بکریاں، مارموٹ اور مارخور ہیں اور بعض اوقات یہ پہاڑوں سے آبادیوں میں اتر آتے ہیں اور خوراک کے واحد متبادل ذریعہ کے طور پر مویشیوں کی طرف جاتے ہیں۔ بعض اوقات برفانی چیتے مویشیوں کو نہیں مارتے ہیں، تب بھی انہیں اکثر نقصانات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور 'احتیاطی' اقدام کے طور پر ہی مار دیا جاتا ہے۔اس طرح یہ جانورمقامی افراد کی انتقامی کاروائی کا شکار بھی بنتے ہیں۔ کھالوں اور روایتی دواؤں کی تجارت کے لیے بھی، برفانی چیتے کا غیر قانونی شکار کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ عام خلل اور رہائش کا نقصان ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے کیونکہ لوگ برفانی چیتے کے رہائش والے مقامات میں مویشیوں کے ساتھ منتقل ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں قراقرم اور ہمالیہ کے سلسلوں میں مختلف ان چیتوں کی نسل بچانے کے لئے مختلف بین الاقوامی تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں جو نہ صرف شکاریوں اور مقامی افراد کو ان کے شکار اور انتقامی کاروائی سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ بعض مقامات پر اگر کسی کے مویشی کا نقصان ہو جائے تو انھیں معاوضہ بھی ادا کرتے ہیں۔اس مقصد کے لئے BWCDO نے دیہاتیوں کے لیے مویشیوں کی انشورنس اسکیموں کا آغاز کیا تاکہ کسانوں کو برفانی چیتے کے حملوں کے نتیجے میں مویشیوں کے نقصانات کی تلافی کی جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ شکاری اور انسان ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ رہیں۔
اس مقصد کے لئے آگاہی مہم کی ضرورت بھی زیادہ ہے۔کیونکہ برفانی چیتوں کی موجودگی والے علاقے کی مقامی کمیونٹیز اس جانورکی بین الاقوامی طورپر اہمیت اور نسل کی کمی کے خطرے سے آگاہ نہیں ہیں۔ اور مقامی حکومتیں بھی برفانی چیتے کے تیزی سے غائب ہونے اور محفوظ علاقوں کے اندر اور باہر بہتر نفاذ کی ضرورت سےزیادہ آگاہ نہیں ہیں۔ انتظامیہ کو مطلع کرنے کے لیے سائنسی معلومات اور آلات کی بہت کمی ہے۔
ڈبلیو سی ایس طویل عرصے سے برفانی چیتے کے تحفظ میں عالمی رہنما رہا ہے، جس کا آغاز 1970 کی دہائی میں پاکستان میں برفانی چیتے اور ان کے شکار کے بارے میں ڈاکٹر جارج شیلر کے جنگلی حیات کے سروے سے ہوا، جس کے نتیجے میں ان کی بنیادی کتابیں اثر انداز ہوئیں۔ اس طرح برفانی چیتے نے خطرات سے دوچار اپنی نسلوں کی طرف بین الاقوامی توجہ دلائی اور اسی وجہ سے پاکستان کا خنجراب نیشنل پارک بھی بنا۔
گلگت بلتستان میں برفانی چیتے کی آبادی کے بارے میں کوئی درست سروے ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ تاہم WCS کے تربیت یافتہ کمیونٹی رینجرز کے ذریعے غیر قانونی شکار کے خلاف عمل درآمد کے ساتھ ساتھ مارخور کی آبادی میں نمایاں اضافہ مثبت ہو رہا ہے۔
برفانی چیتے عام طور پر صبح اور شام کے وقت شکار کرتے ہیں۔ وہ چپکے سےشکار کرنے والے شکاری ہیں، جو اپنے وزن سے تین گنا تک شکار کو مار سکتے ہیں۔ برفانی چیتے کا پسندیدہ شکار سبزی خور جانور ہیں، جیسے نیلی بھیڑ، ارگالی بھیڑ اور مارخور وغیرہ۔ لیکن بہت سے علاقوں میں مویشیوں کا شکار بھی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ چرواہوں کی انتقامی کاروائی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اس جانور کی نسل کا تحفظ اپنی جگہ لیکن درحقیقت، برفانی چیتے کے رہائشی مقامات مقامی کمیونٹیز کے لیے اہم وسائل بھی فراہم کرتی ہیں - خوراک اور ادویات سے لے کر مویشیوں کے لیے چرنے تک، اور پناہ گاہ کے لیے لکڑی، گرمی اور ایندھن کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگ ان مقامات کا رخ کرتے ہیں۔
جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں برفانی چیتے کی بڑھتی ہوئی نسل نظر آنے سے اس بات کی امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ تحفظ کی جاری کوششوں کی وجہ سے اس علاقے میں دنیا کی سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ان میں سے ایک نسل کی آبادی بحال ہو رہی ہے۔
برفانی چیتے اونچائی (900-4000 میٹر) اور سرد درجہ حرارت پر زندگی کے ساتھ اچھی طرح ڈھل جاتے ہیں، ان کا جسم گہرے بھوری رنگ کے گلاب اور دھبوں کے کوٹ رنگ کے ساتھ جو پیٹ کے نیچے سفید ہو جاتے ہیں، ناک کا ایک بڑا گہا، چھوٹے اعضاء، سینے کے پٹھے، اور 1 میٹر لمبی دم پر مشتمل ہے۔ چٹان اور برف سے ڈھکے الپائن خطوں میں شاندار طور پر چھپے ہوتے ہیں۔ممالیہ جانوروں کی زیادہ تر نسلوں کی طرح، نر، 45-55 کلوگرام، مادہ سے تھوڑا بڑا، 35-40 کلوگرام کے ہوتے ہیں۔ برفانی چیتے اکثر تنہا ہوتے ہیں، جن کا ملن جنوری کے آخر اور مارچ کے وسط کے درمیان ہوتا ہے۔حمل کی مدت 93-110 دن ہے۔ مادہ عام طور پر جون یا جولائی میں ایک سے پانچ بچے پیدا کرتی ہے۔برفانی چیتے کے لیے تولیدی شرح کم ہے۔
ان کا ترجیحی مسکن بنجر اور نیم بنجر جھاڑی والی زمین ہے جو سرد، جھاڑی دار اور پتھریلی ہے ہوتی ہے۔وہ مخروطی جنگل یا فلیٹ سے لے کر گھومنے والے خطوں میں پائے جاسکتے ہیں، بشرطیکہ وہاں کافی احاطہ موجود ہو۔ الٹائی، تیان شان، کون لُن، پامیر، ہندو کش، قراقرم، اور ہمالیائی پہاڑوں وسطی ایشیا کے پہاڑوں تک ان کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔
دنیا کے کچھ مقامات پران چیتوں کا گوشت ،کھال اور اور ہڈیوں کےلئے شکار کیا جاتا ہے ۔ ان کی ہڈیاں شیر کی ہڈی کا متبادل ہیں،چینی ادویات بنانے والے انہیں قانونی یا غیر قانونی طریقوں سے حاصل کرتے ہیں۔ سنکیانگ انسٹی ٹیوٹ آف بائیولوجی اینڈ جیوگرافی کے مطابق، سنکیانگ اُرگور خود مختار علاقے میں ہر سال 20-30 برفانی چیتے شکار کیے جاتے ہیں۔سیچوان صوبے میں برفانی چیتے کا گوشت ایک غیر ملکی ڈش کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔چڑیا گھر اور سرکس میں بھی لوگوں کو راغب کرنے کے لیے برفانی چیتے استعمال ہوتے ہیں خاص طور پر بچے انھیں پسند کرتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ کافی عرصہ سکردو میں مقامی مویشیوں پر حملہ آور ہونے والے ایک چیتے کو قید کرلیا گیا تھا اور پھر اسے لاہور کے چڑیا گھر میں رکھا گیا تھا جہاں اس مادہ چیتے نے ایک بچے کو بھی جنم دیا تھا ۔ لیکن کہاں برفانی اور پہاڑی جانور اور کہاں لاہور کی گرمی ، بالآخراس چیتے کی نسل نہیں بڑھ سکی۔
پاکستان میں قومی اور مقامی دونوں سطحوں پر، پالیسی سازوں میں برفانی چیتے کے تحفظ کے بارے میں بیداری اور درست آگاہی کا فقدان ہے۔ ان افراد کو تحفظ کے اصولوں کا کم علم ہے، اور اس کے نتیجے میں وہ برفانی چیتے اور ان کے شکار کے تحفظ کے لیے غیر موثر پالیسیاں بناتے ہیں۔ حفاظتی اقدامات کا کوئی موثر نفاذ نہیں ہے، اگر رینجرز ہیں بھی تو مطلوبہ وسائل اور بنیادی آلات عملے کے لیے دستیاب نہیں ہیں جو عام طور پر کم تنخواہ پر ہیں۔حالانکہ ان افراد کو مقامی افراد کی مخالفتوں کا بھی سامنا رہتا ہے کیونکہ وہ مقامی افراد کو دنیا میں خطرات سے دوچار نسل والے جانوروں کے شکار سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(آئی پی سی سی) نے پیش گوئی کی ہے کہ 2080-2099 تک جنوبی ایشیا اور تبت میں اوسط سالانہ درجہ حرارت 3-4 ° C تک بڑھے گا، اور یہ کہ علاقے میں بارش میں اضافہ دیکھا جائے گاموسمیاتی تبدیلی سے بھی برفانی چیتے کے معمولی ترجیحی رہائش گاہ علاقوں میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے۔
ان جانوروں کے کامیاب تحفظ کے منصوبے کے لیے تمام ضروری تقاضوں میں سے بہتر علم، برفانی چیتے کی حیاتیات کی سمجھ اور ان کے شکار کے ساتھ ان کے تعلقات، اور قانونی معاملات سے آگاہی دینا ضروری ہے۔آس پاس کے مقامی لوگوں کا تعاون اور تعلیم اس نوع کے تحفظ کے لیے ضروری ہے تعلیم کے ساتھ ان کی سمجھ اور علم کو بہتر بنانا ان کے رویہ اور شمولیت پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ لوگ براہ راست متاثر ہوں گے اور بنائی گئی پالیسیوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ انہیں فیصلہ سازی میں شامل ہونا چاہیے ۔ ابتدائی تحقیق میں برفانی چیتے کے بارے میں بنیادی حیثیت کی معلومات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔اس شاندار جانور کا مستقبل بالآخر مقامی لوگوں کے ان کے ساتھ فوری رابطے اور مقامی حکومتی اہلکاروں کی مدد دونوں کے اعمال اور رویوں پر منحصر ہے۔
بہرحال یہ بات خوش آئند ہے کہوزیر اعظم پاکستان نے یہ ویڈیو اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ سے جاری کی ۔ جسے بہت پسند کیا گیا۔ اور بہت سے لوگوں کو اس جانور کے پاکستان کے شمالی علاقے میں موجود ہونے اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔اس کے ساتھ گلگت بلتستان وہ اہم خطہ ہے جہاں صرف اس برفانی چیتے کی ہی نہیں بلکہ دنیا میں ناپید ہونے والے بھورے ریچھ،مارخور اور اسی طرح دوسرے حیوانات کی نسلیں بھی موجود ہیں جن پر پوری دنیا کی توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی تو خوش قسمتی ہے کہ یہ جانور پاکستان میں موجود ہیں لیکن پوری دنیا کو ان اہم حیوانات کی نسل کی حفاظت کے لئے مدد کرنا چاہئے۔

"شب یلدا" پر پنجابی اخبار بھلیکا کی خصوصی اشاعت۔
تحریر: شبیر احمد شگری

"شب یلدا" کے موضوع پر آج کے روزنامہ پاکستان میں چھپنے والی میری خصوصی تحریرپڑھنا نہ بھولیں۔
20 دسمبر 2021

شب یلداقدیم ثقافتی تہوارکے ساتھ صلہ رحمی کے اسلامی حکم کی تعمیل بھی ہے۔
تحریرو تحقیق : شبیر احمد شگری
21 دسمبر کو سال کی طویل ترین رات ہوتی ہے۔ جسے شب یلدا کہا جاتا ہے۔ شب یدا کے ساتھ ہی ذہن میں طویل رات کی قصہ کہانی،دوستوں اور خاندان کے تعلق جوڑنے کا منظر ذہن میں آتا ہے۔ یلدہ کی رات یا چیلہ کی رات ایران کی قدیم ترین تقریبات میں سے ایک ہے ۔کئی اقوام شب یلدا مناتی ہیں۔ لیکن ایران میں اسے ایک خوبصورت ثقافتی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ رات طویل ترین راتوں میں سے ایک ہے اور اس رات کے بعد دن بڑھتا جائیگا اور راتیں چھوٹی ہوتی جائیں گی۔ شب یلدا جسے شب چلہ بھی کہا جاتا ہے ایران کے توسط سے رومیوں میں بھی رواج پا گیا اور رومی اسے جشن ساتورن کے نام سے مناتے ہیں۔
ایران اور اس کے قرب و جور کے ہم ثقافت ممالک میں موسم خزاں کی آخری رات اور موسم سرما کے شروع ہونے کو شب یلدا یا شب چلہ کہتےہیں ۔ اس رات ایران میں ثقافتی اور قدیم رسم و رواج کے مطابق خاندان کے چھوٹے افراد اپنےبڑوں اور بزرگوں کے گھر جاتے ہیں اور بزرگ حضرات حافظ کے شعرپڑھتے ہیں اور قصے کہانیاں سناتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضع خشک میووں، انار، تربوز اور دوسرے میووں سے کی جاتی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ نئی نویلی دلہن اور داماد کے رشتہ دار ایک دوسرے کو تحفے تحائف بھی دیتے ہیں۔اس طرح ایران میں اس تہوار کو خوبصورتی سے منایا جاتا ہے۔ایرانی عوام ہرسال موسم خزان کی آخری اور طویل تریں رات کو شب یلدا کا تہوار مناتے ہیں.یلدا تہوار کا سب سے اہم مقصد خاندانوں اور دوستی کو اہمیت دینا ہے.ایران میں رائج شمسی کیلینڈر کے مطابق 30 آذر یا 21 دسمبر کو ایرانی عوام سردیوں کی آمد پر یلدا نامی تہوار مناتے ہیں جس دن کو تاریکیوں کے مقابلے میں روشنی کی فتح کا تہوار قرار دیا جاتا ہے.
ایران کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک بشمول افغانستان، پاکستان، ازبکستان، ترکمانستان، آذربائیجان اور آرمینیا میں بسنے والے لوگ موسوم سرما کی سب سے لمبی رات 21 دسمبر کو مناتے ہیں. دنیا بھر میں بسنے والے ایرانی اور دوسری قومیں شب یلدا بہت جوش و جذبے سے مناتے ہیں جس کی جڑیں ہمیں فارسی تہذیب میں زیادہ نظر آتی ہیں.اس موقع پر خاندان کے سب ہی افراد، گھرانے کے سب سے بزرگ شخص جیسے دادا، دادی، یا نانا، نانی کے گھر جمع ہوتے ہیں اور رات کا بیشتر حصہ بات چیت، ماضی کی اچھی یادوں کے قصوں اور بیت بازی وغیرہ میں بسر کرتے ہیں۔ایران میں بزرگوں اور خاندانوں کے بڑوں کو بہت عزت دی جاتی ہیں کیونکہ ایرانی تہذیب میں عمر کو عقل کے ساتھ ملایا جاتا ہے.اس طرح صلہ رحمی کے اسلامی حکم کی بڑی خوبصورتی سے تعمیل بھی کی جاتی ہے۔یلدا تہوار پہ خاندانوں کے بڑے اور بزرگ میزبان کے فرائض انجام دیتے ہیں اسی لئے بچے اور نوجوان اس رات کو منانے اپنے بڑوں کے گھروں میں جاتے ہیں.اس موقع پر خاندان کے بزرگ گلستان سعدی، دیوان حافظ اور فردوسی کے شاہنامہ سے کہانیاں بھی پڑھ کر سناتے ہیں.ایرانی خاندان یلدا کی رات میں مزے دار کھانا، ہر قسم کے پھل اور زیادہ عام طور پر تربوز اور انار، خشک اور گری دار میوہ جات، پستہ، اخروٹ اور موسمی پھل کھاتے ہیں.
خراسانی ادب میں لفظ یلدہ بہت کم استعمال ہوتا ہے لیکن تمام تاریخی ادوار میں جہاں تک زبانی اور تحریری دستاویزات کا تعلق ہے، اس رات کو چراغانی چیلہ رات یا چراغ رات بھی کہا جاتا تھا۔ پرانے زمانے میں چونکہ ہر جماعت رات کے کھانے کے لیے چراغ لے کر جاتی تھی اور روشنیوں کی کثرت کی وجہ سے چالیس چراغوں کا محاورہ بھی استعمال ہوتا تھا جو کثرت کی علامت ہے۔
ایک مٹھائی "کف یا کفبیخ" کی تیاری جغرافیائی علاقے غوثستان اور قدیم خراسان میں شب چیلہ کے ضروری اور واجب عکسوں میں سے ہے۔ یہ ایک روایتی پیسٹری یا شربت ہے۔ خراسان رضوی اور جنوبی خراسان صوبوں میں شب چہلم کی خصوصی رسومات میں سے ایک "تالیاں بجانے" کی تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس تقریب میں "چوبک" نامی پودے کی جڑ جو اس زمین میں ’’بیخ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، کو پانی میں بھگو کر کئی بار ابالنے کے بعد مٹی کے ایک بڑے برتن میں ڈالا جاتا ہے جسے ’’تغار‘‘ کہا جاتا ہے۔ خاندان کے مرد اور نوجوان انار کی پتلی چھڑیوں کے ایک گچھے کے ساتھ مائع کو گھنٹہ گھنٹہ تک ملا کر سخت جھاگ بناتے ہیں اوراسےٹھنڈے میں کرنا چاہیے تاکہ مائع جھاگ بن جائے اور پھر سخت ہو جائے۔ آخر میں تیار شدہ جھاگ کو جوس یا چینی میں ملایا جاتا ہے اور اخروٹ اور پستے کی گٹھلی سے گارنش کرنے کے بعد اسے مہمانوں کی تفریح کے لیے لیا جاتا ہے۔ دریں اثنا، نوجوانوں کے ایک گروپ کو جھاگ میٹھا کرنے سے پہلے ایک دوسرے پر پھینکنے اور جھاگ کو ایک دوسرے کے سروں اور چہروں پر رگڑ کر مہمانوں کی خوشی اور مسرت میں اضافہ کرنے کی اجازت ہے۔
چیلہ کی تقریبات کے دوران شادیوں کے انعقاد کی سب سے اہم روایت، تین دن تک جاری رہتی تھی، جس میں مردوں کے عوامی حمام میں دولہا اور خواتین کے حمام میں دلہن کو ایک شاندار تقریب کے دوران نہانے کے لیے لے جایا جاتا تھا اور اور نئے لباس کے آخر میں دولہا اور دلہن اور ان کے قریبی رشتہ داروں کو پہنایا جاتا یہ تقریب بعض اوقات فجر تک جاری رہتی ہے۔
(خونچہ)خراسان میں شب چیلہ کی روایات میں سے ایک ہے۔ ایک بڑی ٹرے کو خونچہ کہا جاتا تھا جس میں دولہا اور دلہن کے تحائف لے جاتے تھے۔ دولہے کے رشتہ دار عموماً تحفے اور نذرانے جیسے سردیوں کے کپڑے اور جوتے اور دیگر تحائف دلہن کے والد کے گھر لاتے ہیں اور رات کے کھانے میں ان کے مہمان ہوتے ہیں۔ وہ بدلے میں دولہا کو تحائف بھی دیتے ہیں۔
ایک اور ایرانی تہوار چیلہ تموز ہے، جو کہ موسم سرما میں چیلہ کی تصویر ہے، اور یہ سال کا طویل ترین دن ہے، جو اب بھی جنوبی خراسان میں منایا جاتا ہے۔
اصفہان کے شہر دہاقان میں ایران کے دیگر علاقوں کی طرح خاندان اور رشتہ دار اپنے دادا دادی کے گھر جاتے ہیں اور ایک کرسی کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ بزرگ بھی مہمانوں کی تواضع گری دار میوے اور میوہ جات سے کرتا ہے اور وہ رات گئے تک بیٹھتے ہیں اور کبھی صبح تک شاہنامہ اور دیوان حافظ بھی پڑھتے ہیں۔ بڑی عمر کے لوگ کہانیاں یا یادیں سناتے ہیں۔
آذربائیجان کے شمالی علاقے میں، اس رات نوبیاہتا جوڑے یا منگیتر کے گھر سجایا ہوا سامان بھیجنے کا رواج ہے۔ آذربائیجان کے لوگ اپنی ٹرے پر تربوز سجاتے ہیں اور ان کے گرد سرخ اسکارف ڈالتے ہیں۔ جبکہ شمال کے لوگ ایک بڑی مچھلی کو سجا کر دلہن کے گھر لے جاتے ہیں۔
ایران کے دیگر پہاڑی علاقوں کی طرح کردستان میں بھی اس رسم کی ایک قدیم تاریخ ہے جسے اس کے پرانے نام سے "شو چلہ" کہا جاتا ہے اور صوبہ کردستان کے دارالحکومت سنندج میں اکثر گھروں میں طویل عرصے سے میٹھا کھانا اور سنگک روٹی تیار کی جاتی ہے۔
بوشہر صوبے کے لوگ بھی دوسرے ایرانیوں کی طرح اپنے بزرگوں کے گھر جا کر اس قدیم رسم کو ادا کرتے ہیں۔ بوشہر میں یلدہ کی رات کو تربوز بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔
صوبہ گلستان میں یلدہ کی رات بہت اہم اور پسندیدہ ہے۔ اس رات تمام لوگ دادا دادی کے گھر جاتے ہیں اور کرسی پر بیٹھ کر حافظ اور فردوسی پڑھتے ہیں اور ناشتہ اور پھل کھاتے ہیں، خصوصاً باغیچے اور جنگل کے پھل جیسے تربوز، انار، لیمن گراس۔ لیموں۔ وہ مٹھائیاں بناتے ہیں اور کھاتے پیتے اور بزرگوں کی گفتگو اور کہانیاں سن کر رات کو صبح کر دیتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ یلدہ کے بعد کی صبح اندھیرے پرسورج کی فتح کا دن ہے۔
اہل شیراز کا دسترخوان نوروز کے دسترخوان کی طرح رنگین ہے۔ لیموں اور تربوز ٹھنڈے مزاج کے لیے دستیاب ہیں اور کھجور اور تربوز گرم مزاج کے لیے دستیاب ہیں۔ حافظ پڑھنا شیرازیوں کے لیے اس رات کی تقریب کا ایک لازمی حصہ ہے۔
ہمدان کے لوگ اسےخوش قسمتی کہتے ہیں گلپائیگان میں یہ رات منائی جاتی ہے۔ ہر کوئی کمرے کے ارد گرد بیٹھا ہے اور ایک بوڑھی عورت بار بار شعر پڑھ رہی ہے۔ ہر نظم کے اختتام کے بعد چھوٹی بچیاں سوئی کو ایک ہی ٹکڑا میں کاٹ دیتی ہیں اور مہمان بوڑھی عورت کی نظموں کواپناشگون سمجھتے ہیں۔ دولہا کے گھر والوں کی طرف سے منگنی کرنے والی لڑکی کو پھل اور ناشتہ بھی لے جایا جاتا ہے اور یہ ایک پرانی روایت ہے۔
اردبیل میں اہل خانہ یلدہ کی رات اکٹھے ہوتے ہیں اور رات گئے تک اکٹھے رات گزارتے ہیں۔ تربوز، انار، نارنگی، بیج، مچھلی کا پیلاف کھانوں میں شامل ہیں جو صوبہ اردبیل میں مقبول ہیں۔ یلدا کی رات، نوبیاہتا جوڑے کے لیے خربوزے سجائے جاتے ہیں اور دولہے کے خاندان کی طرف سے دیگر تحائف کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں۔
گیلان میں تربوز ضرور فراہم کیا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ جو بھی رات کو تربوز کھائے گا اسے گرمیوں میں پیاس نہیں لگے گی اور سردیوں میں سردی نہیں لگے گی۔ ایک اور کھانا"آوکونوس" ہے جو اس خطے میں یلدہ کی رات کو مقبول ہے اور اسے ایک خاص طریقے سے تیار کیا جاتا ہے۔
قدیم مذہب کے مطابق خوزستان کے لوگ افسانوی قارون کے استقبال کے لیے صبح تک انتظار کرتے رہتے۔ کہ قارون غریب خاندانوں کے لیے لکڑی توڑنے والے کپڑوں میں لکڑی کے ٹکڑے لائے۔ یہ چھڑیاں سونے میں بدل جائیں گی اور خاندان کے لیے دولت، برکت اور برکت لائیں گی۔
صوبہ قزوین کے لوگ بھی بزرگوں کے گھر جا کر اس قدیم رسم کو مناتے ہیں۔ مختلف قسم کے خشک اور گیلے میوہ جات اور سرخ پھل اور دیگر کھانوں کو ساتھ لانا برکت ہے۔ خاص طور پر جب دادیوں کو ناشتہ لانے میں دیر ہوتی ہے، چھوٹے لوگ ایک خاص نظم کہتے ہیں۔ قزوین کے اکثر لوگ سبزیاں کھا کر، تمباکو نوشی والی مچھلی کے ساتھ پیلاف اور پھر تربوز، انار، مختلف ناشتے جیسے کشمش، اخروٹ، بیج، غذائیت سے بھرپور میوے اور خشک انجیر کھا کر اپنی رات کو سردیوں کی پہلی صبح سے جوڑتے ہیں۔ قزوینی دادی کے مطابق، اگر اس رات بارش ہوئی تو بارش ہو گی۔ اگر لحاف سےروئی نکل جائے تو برف پڑتی ہے۔ اور اگر اس کا موتی کا ہارٹوٹ جائے تو اولے پڑیں گے۔ ایک اور "یلدہ رات" کا رواج یہ ہے کہ دولہا دلہن کو موسم سرما کے تحفے کے طور پر "خنچے چیلے" بھیجتا ہے۔ اس گلدستے میں کپڑے، زیورات، گنے اور سات قسم کے پھل جیسے ناشپاتی، تربوز، خربوزہ، سیب خصوصی سجاوٹ کے ساتھ دلہن کو بھیجی جاتی ہے۔
شب چیلہ پر لرستان اور لکستان کے لوگوں میں خاص رسم و رواج ہے اور اسے شو چلہ کہا جاتا ہے۔ اکھٹے ہونا، رشتہ داروں کی عیادت کرنا، حافظ کی فال نکالنا، اس رات کے لیے خاص کھانا پکانا، اور گندم کو رس میں بھگو کر ہلدی اور نمک ملا کر ساگوان پر بھونا جاتا ہے اور اس میں بادام، اخروٹ، کشمش، کالے بیج ڈال کر کھایا جاتا ہے۔ لرستان اور لکستان میں، شب چیلہ پر، نوجوان اپنے پڑوسی کی چھت پر جاتے ہیں اور اپنی شالیں بچھا کراونچی آواز میں اشعار پڑھتے ہیں، اور پڑوسی گری دار میوے، مٹھائیاں، پھل، اور ان کی شالوں میں ڈالتے ہیں۔
لوگ گندم، تل اور اخروٹ کا استعمال کرتے ہوئے خصوصی اسنیکس بھی تیار کرتے ہیں اور جب گھر والے اکٹھے ہوتے ہیں تو ان کا استعمال کرتے ہیں۔ لورستان میں یلدا کو یال + دا سے مرکب سمجھا جاتا ہے۔ یال کا مطلب عظیم اور ہیرو اور دا کا مطلب ماں ہے۔
"یلدہ" سریانی لفظ "پیدائش" سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پیدائش۔ ابو ریحان البیرونی نے اس جشن کو "میلاد اکبر" کہا ہے۔ "یلدہ رات"، جسے قدیم ایران میں مقدس راتوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، سرکاری طور پر دارا اول کے زمانے میں 502 قبل مسیح سے قدیم ایرانیوں کے کیلنڈر میں سرکاری طور پر داخل ہوا۔ یہ ایک قدیم روایت ہے۔ قدیم زمانے کے لوگ، جن کی زندگی کی بنیاد زراعت تھی اور جو سال بھر موسموں اور قدرتی تضادات کے گزرنے کے عادی تھے، وہ سورج کی گردش اور موسموں کی تبدیلی کے ساتھ اپنے کام اور سرگرمیوں کا تجربہ کرتے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ بعض دنوں اور موسموں میں دن بہت لمبے ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان دنوں میں وہ زیادہ سورج کی روشنی کا استعمال کر سکتے تھے۔ یہ عقیدہ پیدا ہوا کہ سورج کی روشنی اور چمک نیکی اور معاہدے کی علامت ہے، اور یہ کہ وہ رات کی تاریکی سے لڑ رہے ہیں۔ قدیم لوگوں، بشمول آریائی، ہندوستان اور ایران سے تعلق رکھنے والے - ہند- یورپی باشندوں نے پایا کہ مختصر ترین دن خزاں کا آخری دن اور سردیوں کی پہلی رات ہے، اور اس کے فوراً بعد دن دھیرے دھیرے لمبے اور راتیں چھوٹی ہونے لگتی ہیں۔ سورج کی پیدائش کی رات کو سال کا آغاز کہا جاتا ہے۔عیسائی کرسمس بھی اسی عقیدے سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں لفظ "سرد" کا مطلب ہے "سال،" بذات خود "سرد" کا مطلب، یعنی شیطان پر اورمازد کی فتح اور تاریکی پر روشنی کی خوشخبری ہے۔ اس طرح قدیم روایت کے مطابق یہ شیطان پر فتح کی رات بھی ہے۔ تاریکی شیطان کی نمائندگی کرتی تھی، اور چونکہ سال کی طویل ترین رات میں شیطانی اندھیرا لمبا ہو جاتا ہے، اس لیے یہ رات ایرانیوں کے لیے بدقسمت تھی، اور جب وہ آئی تو انہوں نے اندھیرے کو ختم کرنے کے لیے آگ روشن کی اور شیطان اور بدکاروں کو بھگا دیا۔ ، لوگ اکٹھے ہوئے اور رات ساتھ گزاری، انہوں نے کھایا، پیا، خوشیاں منائیں، باتیں کیں اور قصے پڑھے، تازہ پکا ہوا پھل رکھا گیا، اور خشک میوے میز پر رکھے گئے ۔ یلدہ کے عشائیہ کو "میازد" کہا جاتا تھا اور اس میں تازہ اور خشک میوہ جات کے ساتھ ساتھ گری دار میوے یا نام نہاد زرتشتیوں کا "لورک" بھی شامل تھا جو اس جشن اور دعوت کے لوازمات میں سے ایک تھا، "اورمزد" کی خصوصیات کے احترام میں اور "مہر" یا سورج۔ قدیم ایران کی رسموں میں، آتش گیر، عطر، سیزن کے میوے مصالحہ جات اور کھانے پینے کی اشیاء اور مختلف کھانوں کے ساتھ مقدس کھانا بھی دسترخوان کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
یلدہ کی رات کو سورج دیوتا، انصاف، عہد اور جنگ کی پیدائش کی رات بھی کہا جاتا تھا۔ ان کے بارے میں دو بڑی روایتیں مشترک ہیں۔ سب سے پہلے، مہر کی اس رات، مترا، یا جیسا کہ "اویستا" اور ''اچیمنید' بادشاہوں کی تحریروں میں مذکور ہے، "متھرا" دنیا میں واپس آیا۔ وہ، جو ہندوستان اور ایران کے قدیم دیوتاؤں میں سے ایک ہے، دن کے اوقات کو طول دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں سورج کی بالادستی ظاہر ہوتی ہے.مہر کا فرقہ زرتشت سے پہلے کے دور میں متھراس کی عبادت پر مبنی ہے اور اسے یورپ میں میتھرازم بھی کہا جاتا ہے۔
یہ بھی عقیدہ ہے کہ یلدہ کی رات ایک نبی کی ولادت ہوتی ہے جسےدو ڈولفن پانی سے باہر نکالتی ہیں کیونکہ مہر کی رسم کے مطابق پانی کی خاص اہمیت تھی۔
دونوں روایتوں میں یلدہ کی رات مہر کی پیدائش کی رات ہے، اور یہ مہر کی رسومات کی باقیات ہیں جو مشرقی بحیرہ روم میں پھیلی ہوئی ہیں، اور اس کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں، بشمول پالمیرا (اردن) میں مہر کے باقی ماندہ مندروں میں موجو دہیں۔
البتہ دور حاضر میں ایران میں اس تہوار کوخالصتا ثقافتی طورپر منایا جاتا ہے جس میں اسلام کے صلہ رحمہ کے حکم کو ایک خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ جس میں تمام افراد اپنے خاندان کے بزرگوں کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ اور یہ بزرگ دعائیں پڑھتے ہیں، دیوان حافظ اور شاہنامہ فردوسی اور قصے کہانیاں پڑھ کرسناتے ہیں۔
آذربائیجان نے ایران کی قدیم اور قومی رسومات میں سے شب یلدا کو، جو 8000 سال پرانی ہے، کو اپنے نام سے رجسٹر کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ افغانستان کی وزارت اطلاعات و ثقافت نے یونیسکو کی جانب سے دنیا کے غیر محسوس ثقافتی ورثے کی فہرست میں افغانستان اور ایران کے درمیان مشترکہ طور پر یلدہ/ چیلہ کی رات کے اندراج کا اعلان کیا ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے 20 دسمبر 1997 کو یلدا کی رات ایرانی عوام کو مبارکباد دی اور اس موقع پر نظامی گنجوی کی نظم انگریزی میں شائع کی۔ جس میں فارسی کے شاعر نظامی گنجوی نے کہا ہے: "مایوسی میں بہت امیدیں ہیں، رات کا خاتمہ سیاہ اور سفید ہے۔"
2009 میں جاپانی صدراور ان کے ہمراہ آنے والے وفد کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا تھا، عشائیہ کی میز کو یلدا کی میز کے طور پر ترتیب دیا گیا اس موقع پر جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے یلدا پر ایرانی عوام کو مبارکباد دی اورکہا کہ جاپانی وفد ایرانی روایات کا احترام کرتا ہے اور اس سے قبل جاپان میں یلدا جیسا پروگرام ہو چکا ہےجسے "توجی" کہا جاتاہے اور لوگ یوزو پھل (سنگترےکی طرح) جو کہ ایک قسم کا کھٹا لیموں یا نارنجی ہے کو باتھ ٹب میں ڈالتے ہیں اور گھنٹوں پانی میں رہتے ہیں، یہ پھل پانی کو ایک خوشگوارخوشبودیتاہےاوران کا ماننا ہے۔ کہ لوگوں کو بیماریوں خصوصاً نزلہ زکام سے بچاتا ہے۔ بدلتے ہوئے طرز زندگی کی وجہ سے یہ رواج آج دھندلا ہوا ہے لیکن جاپان کے بیشتر علاقوں میں اب بھی مقبول ہے۔
برالدو گلگت بلتستان میں بجلی کے مسائل پر میری حالیہ تحریر مختلف اخبارات نے چھاپی۔ ان مسائل کے لئے جس نے بھی تعاون کیا ان کا شکر گزار ھوں۔



بئر العہن ، مدینہ منورہ کا یادگار تاریخی کنواں
مدینہ منورہ کے کنویں بھی اپنی ایک تاریخ اور شہرت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک’’بئر العھن ‘‘ہے۔ یہ نبی کریم ﷺکے دور کی یادگار ہے۔ اسے’’العھن‘‘ کے نام سے اسلئے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ اس زمانے میں العہن کے نام سے اس مقام پر ایک باغ ہوا کرتا تھا۔ اس کنویں کا پانی بے حد نمکین ہے۔ یہ پہاڑ کو تراش کر بنایا گیا ہے۔ اس کے پانی سے کھیتی باڑی اب بھی کی جارہی ہے۔ اس کا ایک اور نام ہے ۔ بہت سارے لوگ اسے’’الیسرۃ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺاس کنویں کے پاس تشریف لائے تھے اور آپﷺنے اس کے پانی سے وضو کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ الیسرۃانصاری قبیلے بنو امیہ کا کنواں تھا اور بئر العہن ان کے گھروں کے پاس ہوا کرتا تھا۔ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ بنو امیہ بن زید کے پاس تشریف لائے اور ان کے کنویں کے پاس کھڑے ہوکر دریافت کیا کہ: ’’اس کنویں کا نام کیا ہے؟ ۔‘‘
لوگوں نے بتایا اس کا نام عسرۃ ہے۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:
’’ نہیں اس کا نام یسرۃہے۔ ‘‘
راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اس کنویں میں اپنا لعاب ڈالا اور اس کیلئے برکت کی دعا کی۔
ابن سعد اپنی تصنیف طبقات میں عمر بن سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد کا جب انتقال ہوا تو انہیں الیسرۃ کنویں کے پانی سے غسل دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں جس کنویں کو بئر یسرۃ کہا جاتا تھا اسی کو ان دنوں بئر العھن کہا جاتا ہے۔
المطری لکھتے ہیں کہ 6 کنویں معروف ہیں جبکہ ساتواں کنواں ان دنوں لاپتہ ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بئر العھن اور بئر الیسرۃ ایک ہی ہیں۔
صحیفہ نگاروں نے تقریباً 20 کنوؤں کی فہرست تیار کی ہے تاہم تحقیقی عمل کے نتیجے میں یہی ثابت ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی حیات طیبہ سے تعلق رکھنے والے کنوؤں کی تعداد 7 سے ز یادہ نہیں۔ آپﷺ نے صرف 7 کنوؤں سے وضو اور غسل کیا اور ان کا پانی پیا۔
نبی ﷺنے اپنے مرض کے عالم میں فرمایا تھا:میرے اوپر مختلف کنوؤں کی 7 مشکوں کا پانی انڈیلو ۔‘
اہل مدینہ میں یہی مشہور ہے کہ ساتواں کنواں العھن ہی ہے۔
یہ تاریخی کنواں فی الوقت مدینہ منورہ کے العوالی محلے میں واقعہ ہے۔ اس کے اطراف کھجوروں کےباغات ہیں۔ کئی میٹھے پانی والے کنویں بھی ہیں۔ مسجد قباء سے ایک کلومیٹر دور ہے۔ جو لوگ اس تاریخی کنویں کو دیکھنا چاہتے ہوں تو اس تاریخی کنویں کا راستہ المناخہ سے شروع ہوتا ہے ۔ یہ العوالی محلے میں شارع قربان پر واقع ہے۔ مدینہ منورہ کا علاقہ کنوؤں ، قلعوں اور محلوں کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتا ہے۔
بہت سارے مؤرخین ، اسکالرز اور ماہرین نے اس کا دورہ کیا ہے۔ اس کا پانی پیا ہے۔
یہ تاریخی کنواں سیاہ پتھروں سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ اب بیکار پڑا ہوا ہے۔ العھن کنویں میں پانی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اسے استعمال نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کاشتکار کے پاس اس کے اخراجات مہیا نہیں ۔
معروف مؤرخ عزت فاروق کا کہنا ہے کہ یہ کنواں کئی برس پہلے پاٹ دیا گیا ہے۔ اب یہ غیرآباد ہے۔ یہ العوالی محلے میں آل البرزنجی کی ملکیت ہے۔ اس کے اوپر کباڑ پڑا ہوا ہے۔

مدینے کا وہ مقام جہان اسیاران کربلا کا قافلہ واپس آکر سب سے پہلے ٹہرا تھا۔
بیت السبایا - محل اسرا
یہ مقام سادات سے منسوب ہے اور 1400 سال سے اصلی حالت میں موجود ہے۔ یہاں سے گنبد روضہ رسول (ص) نظر آتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں 2ربیع الاول کو شام سے اہلبیت علیھم السلام اور اسیران کربلا کا قافلہ واپس آکر ٹہرا تھا۔ واپسی پر جب اس مقام پر قافلہ پہنچا۔اور شہر کے گنبد نظر آئے تو بی بی زینب سلام اللہ علیھا نے امام زین العابدین علیہ السلام سے پوچھا کہ بیٹا سجاد یہ گنبد کس جگہ کے ہیں تو امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا پھوپھی جان یہ گنبد نانا کے روضے کے ہیں تو بی بی پاک نے اس مقام پر خیمے لگانے کا حکم دیا۔ خیمے نصب ہونے کے بعد حضرت سجاد علیہ السلام نے بشیر بن حذلم سے فرمایا: شہر کے اندر جاؤ اور میرے والد گرامی کی شہادت کی خبر لوگوں تک پہنچاؤ۔
بشیر نےمسجد النبی (ص)کے پاس جا کر روتے ہوئے اس شعر کو پڑھا:
اے مدینہ کے رہنے والو! اب مدینہ رہنے کے قابل نہیں ہے
امام حسین علیہ السلام شھید کردیے گے اور میرے آنسو جاری ہیں
انکی لاش کربلا میں خاک و خون میں غلطاں ہے
اور ان کا سر نیزوں پر پھرایا گیا
اے اہل مدینہ، اہل بیت طاہرین کا لٹا ہوا قافلہ مدینہ آگيا ہے......اھل مدینہ نے دو مرتبہ بھت زیادہ گریہ وزاری کی ہے پہلی بار جب وصال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ھوا اور دوسری بار جب کربلا والوں کا لٹا ھوا قافلہ مدینہ پہنچا۔
مورخین نے لکھا ہے:" واقعہ کربلا کے بعد، بشیر بن حذلم نے مدینہ میں حضرت عباس علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت ام البنین سے ملاقات کی تاکہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔
بشیر بن حذلم نے کہا: خدا آپ کو صبر دے آپ کے بیٹے حضرت عباس قتل کئے گئے۔ ام البنین نے فرمایا:" مجھے حسین ( علیہ السلام) کی خبر بتادو۔
جب بشیر بن حذلم نے امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر دی تو حضرت ام البنین نے ایک آہ! بھری آواز میں فرمایااے بشیر! تونے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔" اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا مدینہ میں پہنچنے کے بعد، حضرت ام البنین کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان کے بیٹوں کی شہادت کے بارے میں تسلیت و تعزیت اداکی۔
یہی وہ گھر ہے جہاں چار دن کربلا کے لٹے ہوئے اور اسیر ہونے والے مظلوم سادات کے قافلے نے رہا ہونے کے بعد یہاں قیام کیا۔
یہ وہ مقام ہے جہاں پر جناب عبداللہ اور جناب حنفیہ وغیرہ نے سادات کے اس قافلے کا استقبال کیا اور اس قافلے کو مدینہ لے کر چلے۔کیونکہ یہ مقام اس وقت کے مدینے سے باہر موجود تھا۔
اسی جگہ پر مسجد بھی تھی۔ یہاں حضرت خضر علیہ السلام کا کنواں بھی موجود ہے۔


یکم محرم حرم امام رضا علیہ السلام میں پرچم تبدیلی کی تقریب میں شرکت کی سعادت
میری خوش نصیبی تھی کہ حرم امام رضا علیہ السلام میں یکم محرم کو پرچم تبدیلی کےموقع پر میں بھی وہاں موجود تھا۔ حرم امام رضا علیہ السلام کے صحن جمہوری اسلامی میں روح پرور ماحول، مرد و خواتین کا جم غفیر، قدیمی روایتی تعزیے، ذکر خدا، آستان قدس رضوی مشھد کےاس وقت کے سربراہ اورموجودہ صدرابراہیم رئیسی کا خطاب اور پھر ایران کے معروف مداح حاج احمد واعظی کی دلسوز مرثیہ خوانی اور پرچم کی تبدیلی کے روح پرور مناظر ۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کیا سماں ہوگا اوران مناظر کو کون بھلا سکتا ہے۔ میں اس صحن میں کھڑا تھا جس میں عزاداروں کے گریہ کی صدائیں حآج احمد واعظی کے مرثیہ کا بھرپور ساتھ دے رہی تھیں اور سقہ خانے پر آتے جاتے کبتروں کے پھڑپھڑاتے ہوئے پر زائرین امام رضا علیہ السلام اور عزادران پر جیسے خدا کی باد رحمت نچھاور کر رہے تھے۔ ایک طرف مریضوں کے لئے مخصوص جالی بھی جہاں لاعلاج مریضوں کو لا کر باندھ دیا جاتا ہے۔ ایک طرف نقارے والا مینار تھا جہاں سے مریضوں کو شفا ملنے پر مخصوص نقارے بجائے جاتے ہیں۔ ایک طرف قدیم روایتی تعذیوں کی ایک لائین تھی۔ جن کو بڑے بڑے خوبصورت پروں سے سجایا گیا تھا۔ مجھ جیسے ایک گناہگار بندے کی نگاہ سامنے موجود گنبد امام رضا علیہ السلام سے توسل کرنے لگتی تو ساتھ ہی مرثیے کی درد بھری آواز اور لوگوں کی گریہ وزاری اپنے بھی اس عبادت میں شامل ہوجاتی۔ اس دوران عشاق کبوتروں کے اڑتے ہوئےغول پر نگاہ ٹہر جاتی اور پھر مریضوں کے شفا پانے والی جالی پر کے ساتھ دلی رابطہ ہوجاتا تو بیماروں بھی کی یاد آجاتی۔ ایک روح پرور ماحول تھا کہ مولا کی زیارت بھی ہورہی تھی،عزاداری بھی ہورہی تھی رحمت بھی برس رہی تھی اور دعائیں بھی ہورہی تھیں۔غرض کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں کی کچھ یادگاری تصاویر بھی آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں۔ تاکہ میری وہاں موجودگی کا کچھ فائدہ آپ کو بھی ہو سکے۔ یاد رہے کہ محرم الحرام کی آمد پر ایران کے شہر مشہد مقدس میں واقع امام حضرت امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک کے سنہری گبند پر نصب سبز پرچم کی جگہ عزا کی علامت سیاہ پرچم نصب کیا جاتا ہے یہ پرچم 8 ربیع الاول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے دن تک نصب رہتا ہے۔ اور 9 ربیع الاول کو امام زمان (عج) کی امامت کے آغاز کے دن دوبارہ تبدیل کرکے اس کی جگہ سبز پرچم تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تحریر: شبیر احمد شگری
21 ستمبر 2017

مدینہ میں مسجد فاطمۃالزھراء (س) پارک میں تبدیل ■
وہ احاطہ جس میں کچھ عرصہ قبل مسجد فاطمۃالزھراء (س) واقع تھی اور (مساجد سبعہ) میں سے ایک تھی اور حجاج و زائرین وہاں جاکر مسجد کی زیارت اور دو رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے، جو اب مدینہ کی میونسپلٹی کے ہاتھوں سیر و تفریح کے مقام اور پارک میں تبدیل کی گئی ہے۔ اس پارک کو "حدیقة الفتح" (یا فتح پارک) کا نام دیا گیا ہے۔
مساجد سبعہ کا تعلق صدر اول سے ہے۔ یہ مساجد مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں واقع "سلع" نامی کوہستانی سلسلے میں واقع ہے۔ سنہ 5 ہجری کو اسی مقام پر تاریخی غزوہ خندق لڑا گیا تھا۔
مساجد سبعہ اور پارک
اس وقت مدینہ کی میونسپلٹی نے شرع، عقل، عرف اور عدل و تاریخ کو پامال کرتے ہوئے مسجد سیدہ فاطمہ (س) کو شہید کرکے اسے "فتح پارک" میں شامل کردیا ہے اور اس طرح سعودی حکمرانوں نے اسلامی آثار مٹانے اور اہل بیت علیہم السلام کا نام فراموش کروانے کے سلسلے میں ایک اور نہایت خطرناک قدم اٹھایا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مسجد سیدہ فاطمۃالزھراء کا دروازہ کنکریٹ کے ذریعے بند کرنے سے قبل اس مسجد کے ارد گرد غیرمعمولی انداز سے درخت اور پودے لگائے گئے تھے حتی کہ مسجد کی عمارت قریبی فاصلے سے بھی زائرین کی آنکھوں سے اوجھل رہتی تھی! بعد میں درختوں کی نشو و نما کے بعد سعودیوں نے اس کا دروازہ بھی بند کردیا۔
یہ وہ مسجد تھی جو تعمیر و مرمت اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے فرسودہ ہوگئی تھی اور رفتہ رفتہ ویران ہورہی تھی اسی حالت میں سعودی حکمران اس کے ارد گرد پارک بنانے میں مصروف تھے اور جب پارک بن گیا تو یہ مسجد مٹی کی ڈھیر میں تبدیل ہوگئی تھی اور آل سعود نے پارک کی خوبصورتی کے تحفظ کے بہانے اس خانۂ خدا میں ـ جو دختر نبی (ص) کی یادگار تھی ـ تصرف بے جا کرکے اسے شہید کردیا اور اسلامی تہذیب کے باقی ماندہ آثار میں سے ایک اور قابل قدر یادگار صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی ہے۔

سفر حج2019 کی یادیں ۔
مسجد نور اور حضرت علی علیہ السلام کے معجزے والا کنواں(بئیر الھجیم) اب بھی موجود ہے۔
مدینے میں جس جگہ یہ مسجد واقع ہے یہاں مشرکین آباد تھے یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مولا علی علیہ السلام تشریف لائےاور ان کے ساتھ جناب قنبر،جناب سلمان فارسی، جناب ابوذر غفاری اورجناب مالک اشتر بھی تھے۔
یہاں حضرت سلمان فارسی نے مشرکین سے جاکر کہاتھا کہ دو نُور آئے ہیں ۔ تو انھوں نے کہا کہ نُور کیوں ہیں؟ چراغ کیوں نہیں؟
تو حضور پاک صلی اللہ علی وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں جو چھڑیاں تھی وہ چراغ ہوگئیں۔ اسی وجہ سے یہاں پر جو مسجد موجود ہے اس کا نام بھی مسجد نور ہے۔
یہاں کےمشرکین ایمان لے آئے اور مسلمان ہوگئے تو انھوں نے عرض کی کہ یہاں پانی کی بہت قلت ہے۔اور اس وجہ سے ہم بہت تنگ دست ہیں۔تو آپ ہمارے لئے پانی کا کوئی بندوبست کردیں۔ جس پر حضور پاک (ص) نے مولا علی علیہ السلام سے کہا اور حضرت علی علیہ السلام نے پیر کی ٹھوکر لگائی تو یہاں کنواں بن گیا جسےبئیر الھجیم کہا جاتا ہے۔ اور یہ کنواں اب بھی اچھی حالت میں اور اس میں وافر پانی موجود ہے۔ اس کی چوڑائی اتنی ہی ہے جتنا مولا کی پیر کی ٹھوکر کی حد ہے۔ یہ تو عرب کی دھرتی ہے یہاں تو تیل کے کنویں اور تیل کی بو والا پانی ہونا چاہئیے لیکن جب ہم اس متبرک پانی سے سیراب ہوئے تو حیران ہوئے کہ صاف ستھرے فرحت بخش پانی سے محسوس ہوا کہ یہ واقعی معجزاتی مقام اور کنواں ہے۔
اس کنویں کے نزدیک ہی 1400 سال پہلے کی اصلی پتھروں پر مشتمل بغیرچھت کی مسجد نور بھی موجود ہے۔ جس کی چھوٹی دیواریں اب بھی موجود ہیں۔ ایک چیز نوٹ کرنے والی ہے کہ 1400 سال پہلی کی جو بھی عمارت میں نے دیکھی ان کے پتھر واقعی قدیم ہیں اور ان میں شباہت موجود ہے کہ ان میں چھوٹے چھوٹےسوراخ ہیں اب نہیں معلوم کہ یہ زمانے اور ادوار کے اثرات کی وجہ سے ہیں یا اس وقت کے پتھر ایسے ہی تھے۔
ہمیں بتایا گیا کہ بہت سے لوگوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہمیں اس مسجد کو بنانے دیا جائے لیکن اس وقت جو مالکان اس جگہ موجود ہیں انھوں نے انکار کردیا اور یہی کہتے ہیں کہ ہم نے اس مسجد کی برکت کی وجہ سے اسے ایسے ہی رہنے دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی کھجور کے درختوں کا ایک بڑا اور خوبصورت باغ بھی موجود ہے جو یقیناً مولاعلی علیہ السلام کے اس معجزے کا کرشمہ ہےجو کنویں کی شکل میں موجود ہے اور اسی سے یہ باغ سیراب ہوا ہے۔ کنویں اور مسجد کے درمیاں زیتون کا درخت بھی موجود ہے۔
جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ شبیر احمد شگری
گوگل میپ۔








آج کے پنجابی روزنامہ "بھلیکا" میں میری تحریر "سید ابراہیم رئیسی دی حیاتی" پر خصوصی ایڈیشن پڑھنا نہ بھولیں۔



سیاحت کے فروغ کے لئےسکردو اور شگر کے بارے میں پاکستان کے واحد پنجابی روزنامہ بھلیکا میں میری تحریر"جنت ارضی سکردو بلتستان" پر پنجابی زبان میں خصوصی ایڈیشن چھاپنے پر روزنامہ "بھلیکا" کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
شبیر احمد شگری۔
19/06/2021
اسی تحریر کی ویڈیو دیکھنے کے لئے کلک کریں۔

آنلائن پڑھنے ے لئے کلک کریں۔



پنجابی اخبار روزنامہ بھلیکا کا امام خمینی رہ کی برسی پر خصوصی ایڈیشن۔
موضوع:بانی انقلاب اسلامی ،سید روح اللہ الموسوی خمینی ؒ اک تاریخ سازشخصیت.
تحریر: شبیر احمد شگری

اوہناںمظلوم و محروم قوماں نوں سامراجی طاقتاں نال جہاد و مقابلے دا جذبہ تے حوصلہ عطا کیتا
امام خمینی )رح(دا ناں ذہن وچ آندے ای اک انج دے سیاسی تے انقلابی بندے دی تصویر اَکھاں وچ مجسم ہو جاندی اے جس نے کسے وی طاغوتی قوت دے اَگے سر جھکانا تے دور اسلام و قرآن دی الٰہی راہ توں انحراف رکھن والی کسے وی گل اُتے سمجھوتا کرنا کدی پسند نہ کیتا ہوئے جس دے انقلابی بیاناں تے آتشیں تقریراں توں ظلم و استبداد دے خرمن خاکسترد تے جبر و استحصال دے فرعونی ایوان و یران و تباہ ہو جاندے ہون جس دی حریت و بیداری دے نعریاں نے دنیا دیسبھے مظلوم و محروم قوماں نوں سامراجی طاقتاں نال جہاد و مقابلے دا جذبہ تے حوصلہ عطا کر دتا ہوئے جس نے مردہ دلاں تے دماغاں وچ آزادی و خودمختاری دی تڑپ تے ہمت بخشی ہوئے۔
اک انج دا اسلامی لیڈر جس نے خدا اُتے توکل نبی رحمت دی تعلیمات اُتے یقین تے اہلبیت عصمت و طہارت دے پیغامات اُتے اعتماد کردے ہوئے صفحہ ہستی دے سارے ڈکٹیٹراں دے کناں وچ موت دی گھنٹی وجا دتی۔ مرجع وقت، اعلم دوراں، فقیہ، مجاہد، فلسفی، سیاستداں، عارف، عاشق یا شاعر، خطیب تے مقرر جہے سارے کمالات امام خمینیؒ وچ بیک وقت جمع ہو گئے سن اوہ سب کجھ سن پر خود نوں کسے وی خطاب و القاب دا اسیر نہیں کیتا، اوہ ایس نورانی سفر نوں طے کردے ویلے کسے وی منزل وچ کدی نہیں ٹھٹکے تے کدی نہیں گھبرائے ہر میدان دے شہسوار ثابت ہوئے۔
امام خمینیؒ دی عمر دے آخری ورھیاں دے پیغامات تے خطابات سابقہ ادوار دے بیانات توں مختلف نیں جیہڑے اپنی تھاں امام ؒ دی دور اندیشی تے اپنے بعد وچ آن والے زمانے متعلق ذمہ داریاں دے احساس دی غمازی کردے نیں امامؒ نوں احساس ہو رہیا سی کہ اوہ ایس دنیا توں جان والے نیں، لہٰذا آخری دناں وچ آپ ؒ دی کوشش سی کہ اسلامی جمہوری نظام تے عالمی اسلامی انقلاب دی ترجیحات نوں ایہناں ای امنگاں، اغراض و مقاصد تے اقدار دے ڈھانچے اُتے استوار تے تشریح کرن جنہاں دے حصول لئی اسلامی تحریک دا مُڈھ بَنھیا گیا سی۔
امام خمینیؒ نے اپنے وصال توں کجھ ورہے پہلے ایہناں ای محرکات دے تحت تفصیل نال اپنا سیاسی وصیت نامہ لکھیا، حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے مشن، نصب العین، نظریات تے اوہ ساری گلاں جیہڑی لوکاں تیکر اپڑائیاں سن سب کجھ اپڑا دتا سی تے عملی میدان وچ وی اپنی ساری ہستی تے پورا وجود الٰہی اہداف و مقاصد دی تکمیل لئی وقف کر دتا سی۔
امام خمینی ؒ نے مرزا محمد ثقفی تہرانی دی صاحبزادی نال عقد کیتا ایہناں توں دو صاحبزادے آقائی حاج سید مصطفی تے حاج سید احمد پیدا ہوئے تے ایہناں دی تن صاحبزادیاں پیدا ہوئیاں۔ امام خمینی ؒ ہوراں متعدد علوم معقول و منقول ، فقہ و اصول، فلسفہ و عرفان وچ جیہڑا درجہ حاصل کیتا اوہ ایس دور دے علماء وچ بوہت گھٹ پایا جاندا اے۔ ایہو وجہ اے کہ امام خمینی ؒ نے کتب فلسفہ دی تدریس دا آغاز کیتا اوہ چاہندے سن جیہڑے لوک فلسفہ نوں سمجھنا چاہندے نیں اوہ ایس وچ ڈوب کے ابھرن کیوں جے فلسفہ دا علم جے عبوری سطح تیکر حاصل کیتا جائے تے بہک جان دا امکانات زیادہ ہو جاندے نیں جیہڑے لوک ایس وچ راسخ ہو جاندے نیں اوہ حقیقت پا لیندے نیں۔
امام خمینی ؒاپنے علم تے تقویٰ دی وجہ نال اینے مقبول سن کہ قم تے امام خمینیؒ دی شخصیت لازم و ملزوم ہو کے رہ گئی سی۔ اوہناں نے نوجوانی وچ صرف 27 سال دی عمر وچ اک کتاب اہل عرفان لئی لکھی جس دا ناں ’’مصباح الہدایہ ‘‘ رکھیا۔ فیر اوہناں نے ماہ رمضان المبارک دی نسبتنال ’’دعا سحر ماہ رمضان ‘‘ اُتے حاشیہ لکھیا جیہڑا اہل علم دی تشنگی نوں دور کردا اے۔
اہل ایران امام خمینیؒ دے علم و عرفان توں اینے متاثر سن کہ جیہڑا وی امام خمینی ؒ دے علم تے عرفان دی کسے محفل یا مجلس وچ شریک ہو جاندا اوہ ایہناں دا گرویدہ ہو جاندا۔ امام خمینی ؒ دے پیروکاراں وچ وادھا ہوندا رہیا ایتھوں تیکر کہ آپ دے شاگرداں دے علاوہ اک وڈی تعداد آپ دی عقیدت مند ہوندی چلی گئی۔
امام خمینی ؒدا اک رمضان المبارک وچ اٹھایا ہویا اک ہور وڈا تے مثالی قدم مظلومین دی حمایت اے۔ انقلاب اسلامی دے بانی تے رہبر امت مسلمہ آیت اللہ امام خمینیؒ صرف ایران دے ای لیڈر نہیں سن بلکہ اوہناں نے اپنی مدبرانہ تے مدلل سوچ تے دور اندیشی پاروں امت مسلمہ دے مسائل دے دیرپا حل لئی قابل عمل تجویزاں دتیاں تے انج دے اقدامات کیتے جیہڑے اج وی امت لئی مشعل راہ تے روشنی دی امید نیں۔ امام خمینیؒ دا اک تاریخ ساز تے ہمیشہ یاد رکھیا جان والا کارنامہ ’’عالمی یوم القدس‘‘ منان دا اعلان کرنا اے۔ اصل وچ امام خمینیؒ نے یوم القدس منان دا اعلان فلسطینی بھراواں دی غریب الوطنی، مظلومیت تے تکلیفاں نوں ویکھدے ہوئے استعماری طاقتاں دے خلاف عملاً قیام کرن دے احکامات جاری کرن اُتے کیتا۔ امام خمینیؒ نے اپنی دور اندیشی نال فلسطینیاں دے حقوق دی جنگ نوں جاری و ساری رکھن تے کامیابی نال ہمکنار کرن لئی رمضان المبارک دے آخری جمعہ جمعۃ الوداع نوں یوم القدس قرار دتا۔ رمضان المبارک وچ سارے مسلمان جہاد بالنفس دے عمل توں لنگھدے نیں انج جہاد بالعمل دی ترویج دینا، ایس اُتے خود وی عمل کرنا تے دوجیاں نوں وی کروانا امام خمینیؒ نوں عالمی سطح دا لیڈر بنا دیندا اے جس دا دل امت مسلمہ لئی دھڑکدا اے جیہڑا امت دے دائمی امن و سکون لئی ہمہ وقت کوشاں اے۔
4جون 1989 نوں اوہ اپنے آپ نوں اوس عزیز ہستی نال ملاقات دے وصال لئی تیار کر رہے سن کہ جس دی رضا و خوشنودی حاصل کرن لئی اپنی پوری عمر مبارک صرف کر دتی سی تے ایہناں دی ذات دی بلندی ایس عظیم ہستی دے حضور دے علاوہ کسے وی طاقت دے ساہمنے خم نہیں ہوئی تے ایہناں دی اکھاں نے ایس محبوب ذات دے سوا کسے ہور لئی اشک ریزی نہیں کیتی سی۔ آپ نے خود اپنے وصیت نامے وچ فرمایا اے، پرسکون دل، مطمئن قلب، شاد روح تے پرامید ضمیر دے نال خدا دے فضل و کرم نال بھیناں تے بھراواں دی خدمت نال رخصت ہونا واں تے ابدی منزل ول سفر کرنا واں تے آپ لوکاں دی مسلسل دعاواں دا محتاج واں تے خدائے رحمن و رحیم نال دعا کرنا واں کہ جے خدمت کرن وچ کوئی کمی رہ گئی ہوئے تے مینوں معاف کر دیوے تے قوم توں وی ایہو امید کرنا واں کہ اوہ ایس سلسلے وچ کوتاہی تے کمی نوں معاف کرے گی تے پوری قوت، تے عزم و ارادے دے نال اگے دی سمت قدم ودھائے گی۔
آخری ویلے وچ آپ دے ہونٹ مسلسل ذکر خدا وچ متحرک سن۔ زندگی دی آخری راتاں وچ تے ایس ویلے جدوں آپ دے کئی اپریشن ہو چکے سن تے عمر وی 87 ورہے دی سی ہتھاں وچ گلوکوز دیاں بوتلاں لگیاں ہوئیاں سن اودوں وی آپ نماز شب بجا لیاندے تے قرآن دی تلاوت کردے رہے۔ عمر دے آخری لمحات وچ آپ دے چہرے اُتے غیر معمولی تے روحانی و ملکوتی اطمینان و سکون سی تے انج معنوی حالات وچ آپ دی روح نے ملکوت اعلیٰ ول پرواز کیتی۔ جدوں رحلت جانگداز دی خبر نشر ہوئی۔ لوکاں وچ ضبط نہ رہیا تے پوری دنیا وچ اوہ لوک جیہڑے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نال محبت کردے سن سب رو پئے۔ ایرانی عوام تے انقلابی مسلمان غم و اندوہ دے ایس طرح دے جذباتی مناطر خلق کر رہے سن۔ اپنے رہبر و قائد نوں آخری رخصت تے ایہناں نوں الوداع کہن لئی سوگواراں دا امڈدا ہویا اینا وڈا سیلاب تاریخ نے اپنی اکھاں نال کدی وی نہیں ویکھیا سی۔ لوکاں دا محبوب قائد، مرجع تقلید تے حقیقی اسلام دا منادی ایہناں توں جدا ہو گیا سی۔ حقیقت وچ ایران دے عوام حضرت امام خمینیؒ دے عاشق سن۔
5جون 1989 دے دن رات تہران تے ایران دے دیگر شہراں تے قصبیاں تے پنڈاں توں آئے ہوئے لکھاں سوگواراں دا اک سیلاب سی جیہڑا تہران دے مصلائے بزرگ (عید گاہ) وچ ٹھاٹھاں مار رہیا سی۔ لوک ایس عظیم مرد مجاہد نوں جس نے اپنی تحریک تے انقلاب نال ظلم و ستم دے سیاہ دور وچ انسانی اقدار و شرافت دی خمیدہ کمر نوں استوار کر دتا سی تے دنیا وچ خدا پرستی تے انسانی فطرت ول واپسی دی تحریک دا آغاز کیتا سی الوداع کہن لئی آئے سن۔
یکم فروری 1979 نوں حضرت امام خمینی ؒ دی فاتحانہ وطن واپسی تے ایہناں دے استقبال وچ شاندار و عدیم المثال اجتماع تے فیر آپ دی آخری رسومات وچ سوگواراں دا ایس توں وی عظیم اجتماع تاریخ دے حیران کن واقعیاں وچوں نیں۔ خبر رساں ایجنسیاں نے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ دی وطن واپسی دے موقعے اُتے عاشقاں تے انقلابیاں دی تعداد 60 لکھ دسی سی تے آپ دے جنازے وچ شریک سوگواراں دی تعداد 90 لکھ دسی۔




نوروز کے بارے میں پنجابی اخبار "بھلیکا" میں چھپنے والا خصوصی ایڈیشن ضرور پڑھیں۔
تحریر: شبیر احمد شگری
ترجمہ و خصوصی ایڈیشن۔ بشکریہ روزنامہ بھلیکا لاہور
آنلائین پڑھنے کے لئے ۔ https://bhulekhatv.com/special-writings/16158


پاکستان ایران روابط پر روزنامہ جہان پاکستان میں چھپی تحریر
تحریر: شبیر احمد شگری


یوم القدس کے حوالے سے میری تحریر روزنامہ افلاک
04 May 2021






یوم القدس کی اہمیت
خصوصی اشاعت - روزنامہ پاکستان
06 مئی 2021





























یوم القدس کا دن
روزنامہ افلاک
5 مئی 2021






انقلاب اسلامی ایران توں پہلے تے بعد دا ایرانی سینما
رونامہ بھلیکا"پنجابی" 2 فروری 2021
فلم کسے وی ملک و قوم دی ثقافت وچ ریڑھ دی ہڈی دی صورت اختیار کر گئی اے
تحریر : شبیر احمد شگری
انسان گوشہ تنہائی یا فیر دوجیاں دے افکار توں آشنائی تے تبادلہ خیال توں دوری اختیار کر کے نہ تے نشوونما حاصل کر سکدا اے تے نہ ای اپنی ذات ’’خودی‘‘ توں بالا تر ہو سکدا اے۔ تے کوئی وی قوم تے قبیلہ دیگر اقوام تے معاشریاں نال رابطہ رکھے بغیر اپنی ترقی تے پیشرفت وچ ہر گز کامیابی حاصل نہیں کر سکدا۔ فرد واحد گروہ توں سبق حاصل کردا اے تے گروہ دوجے گروہواں تے معاشریاں توں، ایہہ اک سلسلہ اے جیہڑا جاری اے تے جاری رہوے گا۔.
مختلف اقوام دے وچکار ثقافتی رابطیاں دی تاریخ بوہت ای پرانی اے۔ دانشور، اہل ثقافت، فنکار، محققین تے دنیا دی مختلف اقوام ایہناں رابطیاں دے وچکار پُل دا کم دیندے نیں تے ایہناں ای لوکاں دی وجہ نال ثقافت نوں فروغ دین وچ ہمیشہ بڑی مدد ملی اے۔
مختلف اقوام جنہاں وچ اسلامی جمہوریہ ایران تے ایس دے گوانڈھی ملکاں دے عوام وی شامل نیں، دے وچکار باہمی تعلق دا فروغ تے اک دوجے دی ملت دی ثقافت نال واقفیت بوہت ضروری اے۔ ایس طرح اسیں اک دوجے دے ودھ توں ودھ نیڑے آ سکنے آں اک دوجے نوں جان سکنے آں تے پہچان سکنے آں۔ ایسے لئی اج دی ایس زیر نظر تحریر وچ مذکورہ حقیقت نوں واضح کرن دی خاطر ایس ہنر دے بارے وچ اسیں گل کرن دی کوشش کراں گے جیہڑا دونواں برادر اسلامی ملک پاکستان و ایران دی مشترکہ ثقافت دا جزو اے۔ دونواں ملکاں دے وچکار ثقافت دا اولین منبع سرچشمہ اسلام اے تے ایہہ اسلام ای اے جیہڑا ایہناں برادرانہ تعلقات نوں استحکام بخشن والا اے۔ ایہناں دونواں ملتاں دی زبان، ایہناں دے انداز فکر، دستکاریاں، رہن سہن دے آداب، رسوم تے روایات تے اخلاقی اقدار دا جائزہ لیے تے ایس قدر مشابہت نظر آئے گی کہ اسیں محسوس کرن لگاں گے کہ اسیں اک آں تے ساڈے دل اک ساتھ دھڑکدے نیں۔
فلم کسے وی ثقافت نوں اجاگر کرن وچ نہایت ای اہم محرک اے۔ فلم کسے وی ملک و قوم دی ثقافت وچ ریڑھ دی ہڈی دی صورت اختیار کر گئی اے۔ فلم سالہا سال توں مختلف موضوعات نوں پیش کرن دا بہترین ذریعہ اے چونکہ ایہہ ذریعہ اظہار زیادہ آزاد تے عام روزمرہ زندگی توں نزدیک تر اے۔ ایس لئی ایس دے اثر و نفوذ دا دائرہ وی وسیع تر تے ایس دے مخاطبین دی تعداد و دیگر تمام فنون توں ودھ کے اے۔ سینما نے اک صدی توں وی گھٹ عرصے وچ سماجی علوم، علوم انسانی، ادبیات، تاریخ، نفسیات تے فلسفہ حتیٰ کہ ریاضی تے طبعیات دے شعبیاں وچ وی نہ صرف اپنی تھاں بنا لئی اے بلکہ کجھ شعبیاں نوں اپنا خاص موضوع وی قرار دے دتا اے۔
متحرک تصویراں تے فنی مہارت دا جادو سر چڑھ کے بولدا اے تے انسانی نفسیات اُتے نہ صرف براہ راست اثر انداز ہوندا اے بلکہ بالواسطہ اثرات وی دیرپا ہوندے نیں۔ سینما اپنے ناظرین دے جذبا ت نال کھیڈ سکدا اے تے سیاسی، سماجی تے ثقافتی حملے دا نہایت موثر ذریعہ اے۔ پچھلے کئی ورھیاں وچ مغرب سیاسی و سماجی شعبیاں وچ سینما توں بھرپور کم لیندا رہیا اے۔
ایران دی فلمی دنیا اپنے اندر اک تاریخ سمیٹے ہوئے اے۔ 20 ویں صدی دے آغاز وچ ایرانی سینما دی عمر صرف پنج ورہے سی۔ پہلی فارسی فلم بنان والے مرزا ابراہیم خان سن۔ اوہناں نے جولائی 1900 وچ شاہ وقت دے حکم اُتے شاہ دے دورہ یورپ دی فلم بندی کیتی جس دا اج کوئی ریکارڈ موجود نہیں ۔ 1906 وچ مرزا ابراہیم خان نے تہران وچ پہلے مووی تھیٹر دا آغاز کیتا تے علی وکیلی نے وی تہران وچ مووی تھیٹر دا کم شروع کیتا۔ 1930ء تیکر تہران وچ 150 توں ودھ تے دوجے صوبیاں وچ 11 تھیٹرز کھل چکے سن۔ 1930 وچ پہلا فلم سکول ’’پرورش گاہ آرتستیای سینما‘‘( the cinema artist educational centre) دا آغاز کیتا گیا۔ 1930 وچ پروفیسر اوینس نے حاجی آغا دے ناں توں متحرک فلم بنائی جیہڑی کہ بغیر آواز (silent film ) دے سی۔1932 وچ عبدالحسین نے پہلی وار اواز دے نال فلم ((lor girlبنائی۔اس دے بعد 1935 وچ اوہناں نے معروف شاعر حکیم فردوسی، شیریں فرہاد تے (black eyes) بنائیاں۔ فارسی فلماں دے پرانے ڈائریکٹرز وچ عبدالحسین سپانتا تے اسماعیل کوشاں دا ناں سرفہرست اے۔ انقلاب اسلامی ایران توں پہلے تیکر فلمی سلسلہ ایسے طرح چلدا رہیا۔ تے فلماں بن دیاں رہیاں تے ایران وچ فلمی صنعت 50 سال تیکر مغرب دی تقلید وچ اپنا ویلا تے ساریاں توانائیاں صرف کردی رہی پر اسلامی انقلاب دی کامیابی دے بعد نوجوان نسل نے اپنی غیر معمولی استعداد تے حسن ذوق توں کم لیندے ہوئے اعلیٰ اسلامی و انسانی اقدار دی سربلندی نوں اپنا نصب العین قرار دتا حالانکہ آغاز وچ کافی مشکلات پیش آئیاں پر اوہناں نے ہر مشکل دا ڈٹ کے مقابلہ کیتا تے اج نتیجہ ساڈے ساہمنے اے کہ ایرانی فلماں پوری دنیا وچ اوہ واحد فلماں نیں جیہڑی پوری دنیا دے نظریات توں قطع نظر صرف معاشرے تے اسلام دی عکاسی کردیاں نیں پر عجب حقیقت ایہہ وے کہ اج پوری دنیا وچ فلماں وچ ایکشن، فضولیات تے فحاشی وغیرہ نوں فلم دی کامیابی دی ضمانت سمجھیا جاندا اے پر ایرانی فلماں نے ایس تصور نوں بالکل غلط ثابت کر وکھایا اے بلکہ ایرانی فلماں دا خاصہ ایہو اے کہ ایہناں فلماں وچ فضولیات دی بالکل گنجائش نہیں تے ایہناں فلماں وچ خاص طور اُتے اسلامی اقدار دا خاص خیال رکھیا جاندا اے۔ ایس لئی ایہہ فلماں گھر دے سارے بندے اکٹھے بہہ کے ویکھ سکدے نیں۔ایہہ فلماں اک چنگی تفریح دا ذریعہ وی نیں ۔ ایہو وجہ اے کہ اج پوری دنیا وچ ایرانی فلماں دے شائقین دی تعداد وچ دن بدن وادھا ای ہوندا چلا جا رہیا اے۔ زبان دی قید توں قطع نظر ایرانی فلماں پوری دنیا وچ شہرت دے اسمان اُتے جگمگا رہیاں نیں۔ ہر سال فرانس وچ بین الاقوامی فلمی میلہ لگدا اے ایس فلمی میلے دے ڈائریکٹر دا کہنا اے کہ ایس ویلے پوری دنیا وچ ایرانی فلماں صف اول وچ شمار کیتیاں جا رہیاں نیں۔ آئو ایس کامیابی دی وجہ نوں جانن دی کوشش کرنے آں کہ کس طرح ایران دی ناکام فلم انڈسٹری نے کامیابی دے زینے طے کیتے تے صف اول دی فلم انڈسٹری قرار پائی۔ ایہناں نکات اُتے غور کر کے دوجی زوال پذیر فلمی صنعتاں خاص طور تے ساڈی ملکی فلمی صنعت وچ وی تبدیلی آ سکدی اے تے ایہناں نوں کامیاب بنایا جا سکدا اے۔
اسلامی انقلاب توں پہلے دے ورھیاں وچ اک ہزار توں ودھ فلماں بنائیاں گئیاں جنہاں وچوں کجھ اک نوں چھڈ کے باقی ساریاں فلماں ثقافتی دیوالیہ، اخلاقی بے راہ روی، ذہنی بے حسی، سینما دے اقتصادی بحران تے فنی زوال دی نشاندہی کردی نظر آندیاں نیں۔ ایس عہد وچ فلم دی لاگت تے بوہت گھٹ سی جد کہ لاگت دا اک وڈا حصہ ایہناں مقبول تے معروف اداکاراں اُتے اُٹھ جاندا سی جنہاں نوں فلم دی کامیابی دی ضمانت سمجھیا جاندا سی، ایس دے علاوہ فلم دے فنی پہلوئواں اُتے وی خاص توجہ نہیں دتی جاندی سی۔ تے انج کم معیار دی فلماں وی زیادہ منافع بخش ثابت ہوندیاں سن۔ غیر ملکی فلماں دے مقابلے وچ ایرانی فلماں کم مقبول تے معاشی اعتبار توں غیر منافع بخش سن جد کہ ایس دے مقابلے وچ غیر ملکی فلماں صرف ڈب کے نمائش لئی پیش کر دتی جاندیاں سن تے ایس طرح فلماں دے تقسلیم کار تے پیش کار بھاری منافع کماندے سن۔
سینما تے فلم دے مطالعات وچ اک شعبہ فن و ہنر دی سماجیات دی بحث تے خاص طور اُتے معاشرے تے سینما دا باہمی رابطہ اے کیوں جے سینما تے فلم بندیاں دے ذہن نوں کجھ ایس طرح کنٹرول کر سکدے نیں کہ اوہ سینما دے پردے اُتے کہانی بیان کرن دے نال حتیٰ کہ لوکاں دی زندگی دے رستے نوں وی تبدیل کر سکدے نیں۔ مثال دے طور اُتے ہالی ووڈ وچ ایس دے ابتدائی ورھیاں دے دوران ای معاشرے تے سینما دے باہمی رابطے دا جائزہ لین دا اک مرکز موجود سی کہ جیہڑا سینما دے ذریعے اثر انداز ہون دے طریقیاں دا جائزہ لیندا سی معاشرے اُتے اک وسیع نظر نے دنیا دے سینما دی مدد کیتی کہ اوہ سماجی تربیت و ترقی وچ اک اہم عنصر دی حیثیت توں فائدہ چکے بلکہ سینما نوں معاشرے دے اک آئینے وچ تبدیل کر دیوے۔ ایران دا سماجی سینما ابتدا توں لے کے ہن تیکر غالبا انج دے ہدایت کاراں دے سہارے رہیا اے کہ جنہاں نے اپنے شخصی تے ذاتی مطالعات دی بنا اُتے فلماں بنانا شروع کیتیاں۔ ایس بنا اُتے ایران دے سماجی سینما تے فلماں وچ نشیب و فراز وی آندے رہے۔ ایرانی سینما دی تاریخ وچ سانوں انج دی فلماں وی نظر آندیاں نیں کہ جو معاشرے دے نال نال اگے آئیاں نیں تے کجھ دیگر نہ صرف معاشرے توں پچھے رہ گئیاں نیں بلکہ اوہناں نے معاشرے دی مکمل طور اُتے غلط تصویر پیش کیتی اے تے ایہناں دے ہدایت کار تے فلم ساز غلط رستے اُتے چلے نیں۔ ایہہ انج دے لوک نیں کہ جنہاں نوں معاشرے دی صحیح شناخت نہیں تے ایہناں دے تجربات ایہناں نوں معاشرے دے تجزیہ و تحلیل دی اجازت نہیں دیندے۔ ایہناں فلم سازاں تے ہدایت کاراں دے ذہن وچ صرف معاشرے دی ظاہری شکل اے کہ جس وچ معاشرے دی حقیقی روح موجود نہیں اے تے ایہناں دی فلماں نوں ایران دے سماجی سینما تے فلماں دا سچا نمائندہ نہیں سمجھیا جا سکدا۔ ایرانی سینما اسلامی انقلاب دی کامیابی دے ابتدائی ورھیاں وچ معاشرے دے ایس ویلے دے حالات تے سیاسی مسائل توں متاثر سی تے قدرتی طور اُتے اکثر فلماں انقلاب دے موضوع اُتے بنائیاں گئیاں پر ایران دے خلاف صدام دی مسلط کردہ جنگ نے ایس عمل نوں روک دتاتے میڈیا دے دوجے بندیاں دی مانند فلم سازاں نوں وی ایس سوچ وچ پا دتا کہ اوہ اپنے کیمریاں نوں ایس مسلط کردہ جنگ تے ملت ایران دے مقدس دفاع دے حقائق فلم بند کرن لئی استعمال کرن۔ ایس میدان وچ جیہڑے اداکار اپنے کم وچ مصروف سن اوہ جنگ دے حالات دے نال ہم آہنگ سن تے جس قسم دی فلم وی تیار کیتی جاندی سی اوہ ایسے نقطہ نظر تے حالات دے مطابق سی پر جنگ دے زمانے دے حالات دے پیش نظر ثقافتی سرگرمیاں لئی زیادہ بجٹ مختص نہیں کیتا جاندا سی۔ فلم ساز تے ثقافت دے دیگر شعبیاں وچ مصروف بندے کم ترین بجٹ نال اپنا کم تیار کر رہے سن۔ دلچسپ گل ایہہ وے کہ چنگی تے کامیاب فلماں ایسے زمانے وچ بنائیاں گئیاں حتی کہ فلماں دی فروخت وی موجود فلماں توں کدھرے زیادہ سی۔ ایس توں ظاہر ہوندا اے کہ ایس دور دے سماجی حالات منفرد سن تے ایہناں دا کسے وی معیار توں جائزہ نہیں لیا جا سکدا۔ بوہت سارے محققین دا خیال اے کہ ایران دی فلمی صنعت سنہ اسی دی دہائی وچ اپنے عروج اُتے اپڑ گئی تے ایران دی بوہت ساری یادگار فلماں ایسے زمانے وچ بنائیاں گئیاں۔







انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ۔ خصوصی اشاعت
11 فروری 2021










پاکستان تے دنیا دا اہم ترین علاقہ برالدو
پنجابی تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ بلیکا
15/11/2020














"مشکلات سے دوچار سیاحت کا اہم خطہ"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ مشرق
09/12/2020


''پاک ایران دوستی دے گہرے رشتے''
پنجابی روزنامہ بھلیکا میں پاک ایران دوستی کے حوالے سے میری تحریر۔
2020-06-24

کرونا وائرس اور ایران کی حکمت عملی
تحریر : شبیر احمد شگری
چین سے شروع ھونے والے کرونا وائرس کی اطلاع اور اس کے ساتھ دوسرے ممالک اور خود پاکستان میں اس کی موجودگی کی نشاندہی پر پوری قوم افواہوں کی زد میں ھے۔ میڈیا، سوشل میڈیا، اخبارات محافل غرض جہاں دیکھو کرونا وائرس موضوع بحٹ بنا ہوا ھے۔جس کے لئے ہر طرح کے حفاظتی اقدامات کو سوچا جا رہا ھے۔ کوئی ماسک کے مارکیٹ سے غائب ہوجانے پر اسے گھر میں ہی تیار کرنے پر لگا ھے، کوئی دعاوں، کوئی ٹوٹکوں پرعمل کررہا ھے۔ کبھی کچے پیاز کوحتٰی کہ اب نسوار کو بھی اس کا علاج قرار دیا جا رہا ھے۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں۔ اور خوفزدگی کا یہ عالم ھے کہ لوگ عام پبلک مقامات پر بھی جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس کا بڑا ذمہ دار ھمارا میڈیا بھی ھے جو کسی بھی خبر کو ملک میں ایسی سنسنی کے ساتھ پھلاتا ہے کہ ہر کوئی پریشان ھوجاتا ھے۔ کیونکہ عوام کہ صحیح راہنمائی ہی نہیں ھورہی ھوتی ھے۔ کوئی اصول اور صحیح طریقہ کار نہ اپنانے کی وجہ سے نہ تو عوام کو یہ آگاہی حاصل ھوسکی کہ کرونا نامی وائریس ھے کیا بلا، اور نہ ہی یہ معلوم ھوسکا ھے کہ اس کی احتیاطی تدابیر کیا ہیں۔ حالانکہ اس مرض کا اصل مرکز چین اس کے بعد جنوبی کوریا اور دوسرے ممالک ہیں۔ لیکن ایران سے آنے والے زائرین کو خاص ھدف بنایا گیا۔ دو دن پہلے تو یہ بھی کہا گیا کہ ایران سے واپس آنے والا ایک زائر اس مرض میں مبتلا ھے ۔ پھرکہا گیا کہ اس شخص کی رپورٹس منفی آئی ہیں۔اور ایران سے واپس آنے والے باقی افراد کے چیک اپ کے بعد انہیں صحیح قرار دیا گیا۔ ان پروپیگنڈوں کے کیا مقاصد ھوسکتے ہیں ۔ حالانکہ اس سے بہت زیادہ متاثرہ ملک چین، جنوبی کوریا اور پھر نہ جانے کون کون سے ممالک ہیں لیکن نہیں معلوم ایران کو ہی زیادہ کیوں موضوع بحث بنایا گیا ھے۔ بے شک ایران میں زائرین جاتے ہیں لیکن اس سے ایک بہت بڑی تعداد تو چین کا رخ کرتی ہے۔جبکہ کئی ممالک تو اسے ظاہر بھی نہیں کررہے۔
اصل بات تو یہ تھی کہ عوام کو خوفزدہ کرنے کی بجائے ایک درست اور منظم لائحہ عمل تیار کیا جاتا۔ لیکن افسوس اس بات کا ھے کہ بحیثیت مسلمان ھمارے اندر خدا خوفی ختم ھوچکی ھے۔ ورنہ دو تین سو روپے والے ماسک کی قیمت دو تین ھزار پر نہ پہنچتی بلکہ پھر بھی اسے مارکیٹ سے غائب کیا گیا ہے کہ شاید خدانخواستہ قیمت میں اضافے کے مزید بہتر مواقع دستیاب ھوجائیں۔ اور اب معلوم ھورہا ھے کہ اس وائرس سے بچاو کا ماسک ہی الگ ھے۔یعنی ایک عجیب اور سمت نامعلوم کی دوڑ لگی ھے۔ نتیجتاََ ھم افواہوں کی زد میں گھرے ہوئے ہیں۔
ھمیں ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے معتبر ، مستند اور سرکاری ذرائع سے خصوصی طور پر متعلقہ خبروں اور معلومات کو آگے بڑھانا چاہئےاور افواہوں اور من گھڑت خبروں کو پھیلانے سے باز رہنا چاہئے۔
کاش تعصب کی عینک اتار کر ھم یہ بھی دیکھتے کہ ایران میں کرونا وائرس کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ھے۔
ایران میں اس آفت سے نمٹنے کے لئے بہترین لائحہ عمل شروع سے ہی تیار کرلیا گیا تھا۔اور بہترین اقدامات کئے گئے۔ لوگوں میں مفت ماسک، دستانے اور دوائیاں تقسیم کی جارہی ہیں۔ موبائل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں حکومت اور اداروں کی جانب سے شہریوں کو بہترین طریقے سے آگاہی دی جارہی ھے۔ اور فری طبی امداد کی پیشکش کی جارہی ہے۔ الحمداللہ یہ خبریں بھی آئیں کہ اس پر قابو بھی پالیا گیا ھے۔ اور مریض صحت یاب بھی ہورہے ہیں۔
پاکستان میں موجود ایرانی سفارت خانے کی جانب سے پریس ریلیز آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں کہ جس طرح ھمارے نبی پاک اور آئمہ طاہرین کے فرمودات اور طریقہ کار ھے اسی طرح انقلاب اسلامی ایران کے بعد ایران میں صحیح معنوں میں اسلامی حکومت موجود ھے جو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے موثر اقدامات کررہی ہے۔ان کی نظر میں ماسک کی نہیں انسانیت کی قدر ھے۔ فرق صرف سوچ کا ھے۔ چالیس سال سے پوری دنیا کی دشمنی کے باوجود یہ قوم ثابت قدمی سے کھڑی ھے۔ جو بھی سازش ایران کے خلاف کی جاتی ہے۔ اسلام کے حقیقی پیروکار اسے ناکام بنا دیتے ہیں۔
کرونا وائرس پر ایران کے دانشمندانہ اور قابل تحسین اقدامات میں ھمیں یہ دکھائی دیتا ھے کہ نہ صرف ایران نےاندرون ملک عوام کے لئے بھرپور اقدامات کئے بلکہ صحت کے بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ھمسایہ اور دوسرے ممالک کا بھی خیال رکھا ھے اور اس پر کسی کو سیاست کرنے کا کوئی موقع بھی نہیں چھوڑا ہے۔
چین میں نئے کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے ایران نے اس وبا اور اس کے پھیلاؤ کی شدت کو دیکھتے ہوئے پہلے ہی اس سے نمٹنے کا منصوبہ بنا لیا تھا اور ضروری تیاری کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کچھ
متاثرہ ممالک سے اس وائرس کا جلد اعلان کیا جائے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جبکہ ایرانی حکومت نے اس وائرس کے پہلے کیس کی نشاندہی ہوتے ہی میڈیا اور عام لوگوں کو آگاہ کردیا یہ قابل تحسین اقدام عوامی صحت اور بین الاقوامی صحت کے ضوابط کی تعمیل بھی ہے۔ حالانکہ اس دوران ایران کے پارلیمانی انتخابات کا بھی انعقاد ھورہا تھا، اور ایران نے ایسی پالیسی اپنا کر نہ صرف دوسرے ممالک کو بروقت مطلع کیا بلکہ اس مسئلے کاغلط سیاسی استعمال ھونے سے بھی بچایا۔
چین میں کرونا کی نشاندہی کے بعد ایران میں وزیر صحت کے کہنے پر ، وزارت صحت میں کورونا کنٹرول سنٹر قائم کیا گیا جس میں 12 ذیلی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ جو بین المیعاد سرگرمیوں کی نگرانی کر رہی ہیں۔ اسی بنا پر ، ایرانی وزارت صحت میں روزانہ باقاعدگی سے اجلاس ہوتے ہیں اور اس مسئلے کی تازہ ترین صورتحال پر دن کے ایک خاص وقت میں سرعام اطلاع دی جاتی ہے۔ اگرچہ عالمی اعدادوشمار کے مقابلے ایران میں کورونا وائرس کے معاملات کم اور محدود ہیں ، لیکن شناخت ، علاج اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کا عمل تیز اور درست طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایران نے بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے تحت ذمہ داری کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کیا ہے ، اور دوسرے ممالک، خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے ، اپنی ذمہ داریوں اور بین الاقوامی کاروبار پر اس کے ناجائز اثر سے باز رکھنےکی کوشش کی ہے۔
ایران نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مینیجرز اور ماہرین کو دعوت دی کہ وہ ایران کی صحت ، طبی اور علاج معالجے کا نظام دیکھنے کے لئے ایران کا دورہ کریں اور اس وائرس کے خلاف جنگ میں دوسرے ممالک کو اضافی مشورے اور تجربہ فراہم کریں۔ اس طرح ایران نے عالمی ادارہ صحت کے معیار پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا ھے۔ یہی نہیں بلکہ ایران نے تمام ممالک کی وزارت صحت کے منتظمین اور ماہرین کو بھی دعوت دی ہے کہ وہ ایران کی طبی ، صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات اور صلاحیتوں کا دورہ کر کے جائزہ لیں ۔
تاکہ دنیا کو اس کا یقین دلایا جاسکے۔ اور ایران نے اس سلسلے میں کسی بھی بین الاقوامی تعاون کے لئے اپنی پوری آمادگی کا اظہار کیا۔ قابل تحسین بات یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے بھی اس مسئلے کو سنبھالنے کے لئے ایران کی "بنیادی صلاحیت" کی توثیق کی ہے۔
کرونا وائرس پر ایران کی کوششیں اور اقدامات نہ صرف ایرانی عوام کی صحت کے تحفظ کے لئے فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں بلکہ ایران نے پورے خطے کے لئے صحت کی حفاظت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔تاکہ خطے کے دوسرے ممالک کی صحت کو بھی کوئی خطرہ نہ ھو.
یہ بات بھی قابل ذکر ھے کہ ایران ھمیشہ اس بات پر زور دیتا رہا ھے کہ امریکی یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیاں بین الاقوامی صحت کی حفاظت کے لئے خطرہ ہیں۔ اور یہ پابندیاں ایرانی عوام کو صحت کی مناسب سہولیات ، ادویات اور مناسب طبی امداد تک رسائی سے محروم کرکے صحت کی حفاظت کو مزید خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ جسے علاقائی تعاون کے تسلسل سے روکا جاسکتا ھے۔
ایران کے کرونا وائرس کی نشاندہی کے بعد قابل رشک اقدامات پر بڑی خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ھے کہ برادر اسلامی ملک میں قبل از وقت اس سے تحفظ کےلئے اقدامات کئے گئے ۔ لوگوں میں افواہوں کا موقع دینے کی بجائے نہ صرف اس بیماری کے بارے میں شعور پیدا کیا گیا بلکہ اس سے نمٹنے کے لئے ان کی بھرپور مدد کی گئی اور مفت ماسک و دوائیاں فراھم کی گئیں۔مختلف سینٹرز اور موبائیل ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ اور یہ انتظامات اتنے قابل اطمینان بخش ھیں کہ ایران باقاعدہ نہ صرف عالمی ادارہ صحت بلکہ دنیاکے دوسرے ممالک کو بھی دعوت دے رہا ہے کہ ھمارے ملک میں آئیں اور صحت کے حوالے سے ھمارے اقدامات کو دیکھیں۔ یہ باتیں میں اس ملک کے بارے میں اس زندہ قوم کے بارے میں کر رہا ھوں جو چالیس سال سے انقلاب اسلامی کے بعد بین الاقوامی طور پر بہت زیادہ دشمنی، دباو اور پابندیوں کی زد میں ھے۔ لیکن اس کے باوجود اپنے ملک کے اندر وہ کتنی مستحکم ھے۔ بےشک اسلامی جمہوریہ ایران نے دنیا میں ایک عظیم اسلامی قوم کی حیثیت سےاپنا لوہا منوایا ھے۔
ساتھ ہی ان لوگوں سے بھی کہنا چاہوں گا جو بے جا افواہیں پھیلا رہے ہیں خدارا تعصب میں اس قدر آگے نہ بڑھ جائیں کہ خدا کی ناراضگی کا سبب بن جائے۔ یہ بیماری یا مصیبت تو کبھی بھی کسی پر بھی آسکتی ہے۔ اگر آپ اس سے بچے ہیں تو خدا کا شکر ادا کریں۔ اور بیماری پر بھی سیاست نہ کریں اور خاص ایران کے زائرین کو ہی بلاوجہ الزامات کا نشانہ نہ بنائیں ۔ اس کی بجائے استغفار کریں کہ اللہ پاک ہمیں اور عزیز ملک پاکستان کو مہلک بیماری اور وبا سے محفوظ رکھے ۔ اور جو ممالک ، خصوصاً برادراسلامی ملک ایران کے افراد ،جواس بیماری سے متاثر ہوئے ان کو بھی صحت کاملہ عطا فرمائے۔ اور یہ بیماری مزید پھیلنے سے رک جائے۔ آمین یا رب العالمین

مشہور فارسی شاعر شہریار کی مدح سرائی اور مولا علیؑ کی قبولیت کا معجزہ ۔
آج کے دن کی منسبت سے
آیت اللہ مرعشی کا نسب 33 واسطوں سے امام زین العابدین علیہ السلام تک جا پہنچتا ہے۔ مرعشی سادات حسینی ہیں اور ان کے جد اعلی کا نام سید علی مرعشی ہے جو شام اور ترکی کی سرحدوں کے قریب واقع شہر مرعش میں رہتے تھے؛ یہ شہر ترکی میں واقع ہوا ہے۔
سید شہاب الدین مرعشی نجفی، آیت اللہ بروجردی کے بعد شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں۔ وہ 27 سال کی عمر میں درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے۔
انھوں نے مشہور شاعر شہریار سے اپنی پہلی ملاقات میں ان سے ان کی کہی ہوئی ایک غزل کے بارے میں سوال کیا جس کا مطلع تھا:
علی ای ہمای رحمت تو چہ آیتی خدا را
که بہ ماسوا فکندی ہمہ سایہ ہما را
اے علی، اے ہمائے رحمت، تو خدا کی کیسی نشانی ہے کہ تو نے اپنے ہما کے سائے سے پوری کائنات کو ڈھکا ہوا ہے۔
شہریار نے مطلع سنا تو بہت حیرت زدہ ہوا اور کہا: یہ غزل میں نے تقریبا آدھی رات کو تین بجے کے قریب کہی ہے اور ابھی تک کسی کو نہیں سنائی چنانچہ آپ وضاحت کریں۔
آیت اللہ مرعشی نے کہا:
اس رات میں دیر تک جاگ رہا تھا، نوافل شب اور توسلات میں مصروف تھا۔ میں نے اللہ سے التجا کی کہ اپنے کسی ولی کو مجھے خواب میں دکھائے [میری دعا مستجاب ہوئی اور میں نے] خواب میں دیکھا کہ مسجد کوفہ کے گوشے میں بیٹھا ہوں اور حضرت علی(ع) بھی تشریف فرما ہیں اور بعض اصحاب آپ(ع) کے ارد گرد موجود ہیں۔ تھوڑی دیر بعد بعض عرب اور فارسی گو شعراء داخل ہوئے۔
امیرالمؤمنین(ع) نے ان میں سے ہر فرد پر لطف و محبت بھری نگاہ دوڑائی؛ گویا آپ(ع) ان کے درمیان کسی خاص شخص کو تلاش کررہے تھے لیکن وہ شخص نظر نہيں آرہا تھا چنانچہ آپ(ع) نے دربان سے فرمایا: "شہریار کو لے آؤ"۔ بعد ازاں آپ داخل ہوئے اور آپ(ع) کے روبرو کھڑے ہوئے اور اسی مطلع سے ایک غزل پڑھ کر سنائی جس کا حوالہ میں نے دیا۔
فارسی ادب کے اس عظیم شاعر محمد حسین شہریار کے یہ اشعار اردو ترجمہ کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔
علی اے ہمائے رحمت تو چہ آیتی خدا را
کہ بہ ماسوا فکندی ہمہ سایۂ ہما را
(اے علی، اے ہمائے رحمت، تو خدا کی کیسی نشانی ہے کہ تیرے ہما کے سائے نے پوری کائنات کو ڈھکا ہوا ہے۔)
دل اگر خدا شناسی ہمہ در رخِ علی بیں
بہ علی شناختم من بہ خدا قسم خدا را
(اے دل! اگر تو خدا شناس ہے تو ہر چیز کا رخِ علی میں مشاہدہ کر، کیونکہ خدا کی قسم میں نے خدا کو بھی علی سے ہی پہچانا ہے۔)
بہ خدا کہ در دو عالم اثر از فنا نمانَد
چو علی گرفتہ باشد سرچشمۂ بقا را
(خدا کی قسم! اگر علی سرچشمۂ بقا کو ہاتھوں میں تھام لے تو دونوں جہانوں میں فنا کا ذرہ بھی باقی نہ رہے۔)
مگر اے سحابِ رحمت تو بباری ارنہ دوزخ
بہ شرارِ قہر سوزد ہمہ جانِ ماسوا را
(اے سحاب رحمت! امید ہے کہ تو اپنی رحمت کو ہم پر برساتا رہے گا کیونکہ اگر تو نے ایسا نہ کیا تو دوزخ اپنے قہر کی چنگاری سے ماسوا کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔)
برو اے گدائے مسکیں درِ خانۂ علی زن
کہ نگینِ پادشاہی دہد از کرم گدا را
(اے گدائے مسکیں! جاؤ اور علی کا گھر کا دروازہ کھٹکٹاؤ، کیونکہ وہ اپنے کرم سے گدا کو بادشاہی انگوٹھی سونپ دیتا ہے۔ یہاں شاید اس روایت کی طرف تلمیح ہے جس میں حضرت علی نے رکوع کے بیچ اپنی انگوٹھی اتار کر سائل کو سونپ دی تھی۔)
بجز از علی کہ گوید بہ پسر کہ قاتلِ من
چو اسیرِ تست اکنوں، بہ اسیر کن مدارا
(اس عالم میں علی کے سوا ایسا کون گزرا ہے کہ جو اپنے بیٹے کو یہ کہے کہ چونکہ میرا قاتل اب تمہارا اسیر ہے، اُس سے نیک برتاؤ کرو۔ حضرت علی نے امام حسن کو اپنے آخری وقت وصیت کی تھی کہ ابنِ ملجم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔)
بجز از علی کہ آرد پسرے ابوالعجائب
کہ عَلَم کند بہ عالم شہدائے کربلا را
(علی کے علاوہ کس نے ایسا عجیب بیٹا جنا ہے کہ جو دنیا کے سامنے شہدائے کربلا جیسوں کا نام درخشاں کرے؟)
چو بہ دوست عہد بندد زِ میانِ پاکبازاں
چو علی کہ می تواند کہ بسر بُرَد وفا را
(جملہ پاکبازوں میں ایسا کون علی کی طرح ہے کہ جب اپنے دوست سے وہ عہد باندھے تو اُس کو انتہا تک لے جا کر وفا کرے؟ یہ شبِ ہجرت کی طرف تلمیح ہے جب رسول اللہ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا تھا۔ بہ سر بُردن کا محاورتاً مطلب تو وعدہ پورا کرنا، انتہا تک لے جانا ہے، لیکن اس کے لفظی مطلب یعنی سر تک لے جانا سے بھی ایک لطیف اشارہ ملتا ہے، کیونکہ حضرت علی کو ابنِ ملجم نے پیشانی پر ضرب ماری تھی۔)
نہ خدا توانمش خواند، نہ بشر توانمش گفت
متحیرم چہ نامم شہِ ملکِ لافتیٰ را
(نہ انہیں خدا پکار سکتا ہوں، نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں؛ میں حیراں ہوں کہ پھر میں ملکِ لافتیٰ کے بادشاہ (حضرت علی) کو کیا نام دوں؟
بدو چشمِ خوں فشانم، ہلہ اے نسیمِ رحمت
کہ زِ کوئے او غبارے بہ من آر توتیا را
(ہاں اے نسیم رحمت! میری دو خوں فشاں آنکھوں کی جانب توجہ کرو، اور اُس کی گلی کی خاک سے میری اِن آنکھوں کے لیے بھی سرما لے آؤ۔)
بہ امیدِ آں کہ شاید برسد بہ خاکِ پایت
چہ پیامہا سپردم ہمہ سوزِ دل صبا را
(میں نے کتنے ہی اپنے جلتے دل سے کہے پیغامات صرف اس امید پر صبا کے سپرد کر دیے ہیں کہ شاید وہ کسی روز آپ کے قدموں کی خاک پر پہنچ کر پذیرائی کا شرف پا جائیں۔)
چو توئی قضاے گرداں، بہ دعائے مستمنداں
کہ زِ جانِ ما بگرداں رہِ آفتِ قضا را
(اے علی! چونکہ تو ہی قضا کو پلٹانے والا ہے اس لیے تجھے دردمندوں کی دعا کا واسطہ دیتا ہوں کہ ٖ میری جان پر سے بھی قضا کی آفت کو پلٹا دے۔)
چہ زنم چو نائے ہر دم زِ نوائے شوقِ او دم
کہ لسانِ غیب خوشتر بنوازد ایں نوا را
(میں ہر وقت بجنے والی بانسری کی طرح کیسے اُس کے اشتیاق میں حرف زنی کروں؟ کہ لسان الغیب حافظ شیرازی اس نغمہ سرائی میں مجھے سے بڑھ کر قادر ہے۔ یعنی اس طرح کے مطالب کی حافظ شیرازی زیادہ بہتر ادائیگی کر سکتے ہیں۔)
"ہمہ شب در ایں امیدم کہ نسیمِ صبحگاہی
بہ پیامِ آشناے بنوازد آشنا را"
(میں پوری رات اسی امید میں گزارتا ہوں کہ شاید صبح کی ہوا مجھ آشنا (شاعر) کو محبوب (حضرت علی) کے پیام سے نواز دے۔ یہ شعر حافظ شیرازی کا ہے۔)
زِ نوائے مرغِ یا حق بشنو کہ در دلِ شب
غمِ دل بہ دوست گفتن چہ خوشست شہریارا
(اے شہریار! خدا کا ذکر کرنے والے مرغ کی نوا سنو اور توجہ کرو کہ محبوبِ ازلی کو رات کی تاریکی میں غمِ دل سنانا کتنا مسرور کن ہوتا ہے۔)
اللہ پاک استاد شہریار کو اپنے خاص جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین



میری تحریر "مسجد شیعی یا سنی کی نہیں"
تحریر: شبیر احمد شگری

مسجد شیعہ یا سنی کی نہیں۔ مسجد اللہ کا گھر ہوتی ہے۔
تحریر: شبیر احمد شگری
انقلاب اسلامی ایران کے دوران حضرت امام خمینی ؒ نے کیا خوبصورت جملہ کہا۔"مسجد' مورچہ ہے ، ان مورچوں کی حفاظت کیجئے ۔''
گذشتہ دنوں کسی معروف صحافی کی تحریر پڑھی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ تہران میں ایک بھی سنی مسجد نہیں ہے۔ پڑھ کر بہت دکھ ھوا۔ کہ اپنی کم علمی کے باعث انھوں نے ایسی بات کی۔کاش کہ پہلے وہ تحقیق کرتے اور پھر اس بارے میں بات کرتے۔ اس سے پہلے بھی کچھ لوگوں سے یہ بات سن چکا تھا۔ مجھے اندازہ ھوا کہ اس افواہ کی شکل میں ایک غلط پروپیگنڈا ایران کے خلاف پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ اور ایران کے خلاف یہ پروپیگنڈا صرف اسی مسئلے پر یا آج سے نہیں بلکہ جب سے انقلاب اسلامی ایران آیا ہے اس وقت سے پھیلایا جا رہا ہے۔اس لئے میں اپنی پیاری عوام خصوصاً صحافی دوستوں سے گزارش کروں گا کہ خدارا کسی بھی صورت کسی سازش کا شکار ہوتے ہوئے اس طرح کے کسی بھی پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ آپ حمایت میں یا مخالفت میں لکھیں کیونکہ یہ ایک صحافی کا حق ہے لیکن یہ ضرور گزارش کروں گا کہ تحقیق ضرور کریں کیونکہ اچھی تحقیق آپ کو حقائق کی طرف لے جاتی ہے۔ اور حقیقت جو بھی ہو اسے آپ بیان کر سکتے ہیں ۔ میری اس تحریر کو پڑھ کر آپ کو سو فیصد اس موضوع کے بارے میں معلومات مل جائیں گی۔ بلکہ اگر کسی کے دل میں یہ ابہام ہو کہ ایران میں سنی مساجد نہیں ہیں۔ تو وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ اس جھوٹے پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ جب سے ایران میں انقلاب اسلامی آیا ہے اس وقت سے دشمن خوفزدہ ہے کہ کہیں یہ مسلمان ایک نہ ہوجائیں ورنہ ہماری دال روٹی کیسے چلے گی۔
کچھ شرپسندعناصرایران کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ایران میں اہلسنت مساجد نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر تہران میں اہلسنت مسجد نہیں ہے۔ جو کہ شر انگیزی پھیلانے والی باتیں ہیں ۔ میں ان سے یہ کہوں گا گہ ایران کے آئینی اور عوام کے خیال میں مسجد شیعہ یا سنی کی نہیں بلکہ مسجد ہوتی ہے اور اللہ کا گھر ہوتی ہے۔میری اس تحریر میں آپ یہ بھی جان سکیں گے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی میں مساجد کا ایک بڑا اور خوبصورت اسلامی کردار ہے۔ ایران میں ایسا سسٹم نہیں ہے کہ کسی دوسرے مسلک کی مسجد میں جائیں تو اٹھا کر آپ کو باہر پھینک دیں گے۔ اور مسجد کو پاک کرنا شروع کردیں گے۔ نہیں یہ تو دور کی بات ہے بلکہ اگر آپ ایران میں کہیں کھڑے ہوکر کسی کو شیعہ مسجد یاسنی مسجد کا پتہ پوچھیں گے تو سب سے پہلےوہ آپ کو اوپر سے نیچےتک اتنےغور سے دیکھے گا کہ شاید یہ کوئی خلا سے آئی ہوئی مخلوق ہے۔ پھر اندازہ کرتے ہوئے وہ آپ سے یہ سوال ضرور کرےگا کہ آپ ایران سے بار سے تشریف لائے ہیں۔ بیشک ایران میں اہل تشیع افراد کی تعداد زیادہ ہے جس طرح ہمارے ملک میں اہلسنت زیادہ۔ لیکن وہاں کا قانون اسلامی انقلاب کا مرہون منت ہے جو کہ تمام مسلمانوں کیا غیر مسلموں کے حقوق کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ اور بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کی خواہش اور کوششیں جو اسلامی وحدت کے حوالے سے تھیں وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ن کی کوششیں اس معاملے میں بے مثال ہیں۔ مثال کے طور پر ایک موقع پر امام خمینی ؒ نے امت مسلمہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا "تم ہاتھ باندھ کر اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے پر جھگڑ رہے ہو جبکہ دشمن تمھارے ہاتھ ہی کاٹ دینے کی فکر میں ہے"اسی طرح ایک اور موقع پر انھوں نے فرمایا" جو کوئی شیعہ یا سنی کے درمیان جھگڑے کی بات کرتا ہے وہ نہ تو شیعہ ہے اور نہ ہی سنی بلکہ استعمار کاایجنٹ ہے" یہ باتیں یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اچھی طرح سے جان لیں کہ جس انقلا ب اور سسٹم کا بانی اس طرح کی باتیں کر رہا ہو کیا اس کے اور اسلامی قوانین میں اس طرح کی اختلافی باتوں کی اہمیت رہ جاتی ہے۔ ایران کے آئینی اور اسلامی قانون کے مطابق ایران میں مسجد تو ہر جگہ ہوتی ہے لیکن مسجد شیعہ یا سنی کی نہیں ہوتی بلکہ علاقے کی اکثریت کے حساب سے شیعہ یا سنی اس مسجد کا امام ہوتا ہے اور اس کے پیچھےتمام شیعہ اور سنی مسلمان اکھٹے نماز پڑھتے ہیں۔ یعنی جس علاقے میں شیعہ اکثریت ہوگی وہاں ایک ہی مسجد ہی ہوگی اور امام مسجدشیعہ ہوگا۔ لیکن شیعہ سنی سب مسلمان اسی کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ اور اسی طرح سنی اکثریتی علاقے میں بھی اسی طرح کاسسٹم رائج ہوگا ۔ کہ ایک ہی مسجد میں سنی امام مسجد ہوگا اور تمام مسلمان اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ ذرا آپ تصور کریں کہ اگر پورا معاشرہ ایسا ہوجائے کہ کوئی ہاتھ باندھے اور کوئی ہاتھ چھوڑ کر سب اکھٹے نماز پڑھ رہیں ہوں تو کیا وحدت اور بھائی چارے کا سماں ہوگا۔ ایک دوسرے کے ساتھ کتنی محبت پیدا ہوجائے گی۔ نمازی چاہے کسی مسلک سے ہو ایک دوسرے کے ذاتی اور علاقے کے مسائل و مشکلات سب سے ہر کوئی آگاہ ہوگا اور معاشرے میں خود بخود خوبصورتی پیدا ہوجائے گی۔ مسجد کا ایک اصل اسلامی پہلو یہ بھی تھا لیکن مسالک اور فرقوں میں بٹنے کی وجہ سے ھم ایک دوسرے سے بہت دور ہوتے گئے۔ جس کی وجہ سے بے شمار مسائل اور مشکلات نے جنم لیا۔ تاریخی نقطۂ نظر سے مذہب انسانوں کی معاشرتی زندگی کے ساتھ بالکل ملا ہوا رہا ہے ۔ایک سماجی فطرت ہونے کی حیثیت سے مذہب قدرت کا ایسا مظہر ہے جو زندگی کو مفہوم و معنیٰ بخشتا ہے ۔ علاوہ ازیں مذہب تمام معاشروں میں فرض منصبی اور قانونی بنیاد رکھتا ہے اس تعریف کے ساتھ مذہب الگ سے کوئی وجود نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی وہ اپنے وجود کو دوام دے سکتا ہے مگر یہ کہ زندگی کے دوسرے شعبوں سے اس کا تعلق رہے اور یہ معاشرہ کے سماجی روابط کی شکل میں معاشرے کے ساتھ ملحق رہے ۔
اگر ہم اسلامی جمہوری ایران کے آئین کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ حقوق کے علاوہ تمام اسلامی مذاہب کے پیرووں کے لئے کچھ مزید امتیازات کی بھی رعایت کی گئی ہے جو حسب ذیل ہیں:
الف۔ آئین کی دفعہ نمبر 20 کے مطابق، سیاسی جماعتیں ، جمعیتیں ، سیاسی انجمنیں اور صنفی اور اسلامی انجمنیں تشکیل دینے کی آزادی-
ب۔ آئین کی دفعہ نمبر 64 کے مطابق اسلامی شوریٰ ( پارلیمنٹ) کا نمایندہ بننے کا حق -
ج۔ آئین کی دفعہ نمبر 19 اور 20 کے مطابق اسلامی تعلیمات کی رعایت کرتے ہوئے تمام انسانی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق میں ملک کے سب باشندوں کا مساوی ہونا-
ایران میں بیشک اہل تشیع مسلک کی تعداد زیادہ ہے لیکن ایران میں اہل سنت مسلک کے لوگ اکثر صوبہ سیستان و بلوچیستان، صوبہ کردستان ، صوبہ مغربی آذر بائیجان، صوبہ خراسان رضوی، صوبہ شمالی خراسان، صوبہ جنوبی خراسان، صوبہ بوشہر، صوبہ فارس کے جنوب میں اور صوبہ گلستان کے مشرق میں رہائش ہذیر ہیں- اس کے علاوہ ان کی ایک قلیل تعداد صوبہ گیلان اور بعض دوسرے صوبوں میں پھیلی ہوئی ہے- ملک کے مشرقی صوبہ سیستان و بلوچستان میں ہمارے اکثر سنی بھائی حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں-صوبہ سیستان و بلوچستان کے زاہدان، چابہار، ایرانشہر،خاش، سراوان، سرباز اور کنارک نامی شہروں میں اکثر اہل سنت رہتے ہیں- آبادی کے لحاظ سے اہل سنت کی آبادی والا دوسرے نمبر کا حامل صوبہ ایران کے مغرب میں عراق کی سرحد سے ملحق صوبہ کردستان ہے – اس صوبہ میں رہنے والے اکثر اہل سنت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں- اس صوبہ کے سندج، سردشت، مریوان، بانہ اور نقدہ نامی شہروں میں ہمارے اکثر سنی بھائی رہتے ہیں- ایران کی مغربی سرحد پر عراق اور ترکیہ سے ملحق مغربی آذر بائیجان کے صوبہ کے شہر مہاباد اور اشنویہ میں بھی بعض اہل سنت بھائی زندگی بسر کرتے ہیں- ایران کے ترکمن اہل سنت ایران کے شمال مشرقی صوبہ گلستان کے بندر ترکمن نامی شہر میں رہتے ہیں- اس صوبہ میں اکثر اہل سنت ترکمن ہیں-
ایران میں ستر ھزار سے زائد مساجد ہیں۔ جس میں سے دس ہزار سے زائد اہلسنت اکثریتی علاقوں کی مساجد ہیں ۔ایک اور مزے کی بات آپ کو بتاوں جو شاید آپ کے علم میں اضافے کا سبب بنے کہ ایران کے مذہبی شہر قم میں پوری دنیا سے تمام مسالک کے لوگ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں کیونکہ قم بہت بڑا علمی مرکز ہے۔ اور یہاں پر مسلمانوں کی چاروں فقہ پڑھائی جاتی ہیں۔اور یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ ایران میں صحیح اسلامی طرز کا قانون اور ماحول ہے۔ اور کھلے دل سے تمام مسلاک کا احترام کیا جاتا ہے۔
جس طرح کے ایران اور اسلام کے دشمن افراد ایران کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔اور اس پروپیگنڈے کا جواب میں ہم انقلاب اسلامی کے بانی حضرت امام خمینی ؒ جو کہ مسلک کے لحاظ سے ایک شیعہ عالم تھے لیکن ہم ان کے اس فرمان کو سامنے رکھ سکتے ہیں ۔ ” "ا سلام میں شیعوں اور اہل سنت کے درمیان بالکل کوئی فرق نہیں ہے،اور شیعوں اور اہل سنت کے درمیان فرق ہونا بھی نہیں چاہئے ، ہمیں اتحاد و یکجہتی کا تحفظ کر نا چاہئے – ہم ان کے بھائی ہیں اور وہ ہمارے بھائی ہیں – "
اب بتائیں اس کے بعد کیا کسر رہ جاتی ہے۔ایران کی اب تک کی کامیابی کا راز ہی یہی ہے اوروہ پوری دنیا کی مخالفت کے باوجوداسی لئے سینہ سپر ہوکر کھڑا ہے کہ اس نے صحیح معنوں میں اسلامی اقدار کو اپنا لیا ہے ۔ اور وہ دشمن کی سازشوں کا شکار نہیں ہوتے۔وہ شیعہ، سنی، وہابی اور فرقوں اور گروہوں میں بانٹنے والی سازش کا شکار نہیں ہوتے اور ایک بن کر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اسی لئے دشمن سب سے زیادہ ایران سے ہی ڈرتا ہے۔ کیونکہ نہ وہ بکتا ہے نہ جھکتا ہے۔کیونکہ اللہ کا حکم ہمارے لئے واضح ہے کہ
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا۔اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔کا ش کہ تمام امت مسلمہ اسی طرح ایک لڑی میں پرو جائے اور مسلمانوں کے تمام مسائل حل ہوجائیں۔
بات انقلاب اسلامی کی ہورہی ہے تو آپ کو اس حوالے سے بھی بتائیں کہ انقلاب اسلامی کے لئے مساجد کا کیا کردار رہا ہے تو آپ کو نہ صرف اسلام کے اس انقلاب بلکہ مساجد کی بھی ایک خوبصورت شکل نظر آئے گی۔کیونکہ عین ممکن ہے آج تمام دنیا کے مسلمانوں نے اسلامی جمہوری ایران کے سسٹم کو اس نظر سے دیکھنے کی کوشش نہ کی ہو۔
ایران کے اسلامی انقلاب میں مسجدوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مذہب کا دوسرے سماجی شعبوں سے رابطہ قائم کریں اور مذہب کو معاشرہ کے سماجی روابطہ میں رائج کریں۔ دوسری طرف مسجدیں سیاست کا مذہب کے ساتھ رابطہ قائم کرنے اور اس رابطہ کا جواز پیش کرنے میں بھی کوشاں ہیں، کیوں کہ سیاست بھی انسان کی معاشرتی زندگی کا ایک حصہ ہے اور یہ مظہر خود بخود وجود میں نہیں آسکتا اور نہ ہی اپنے وجود کو قائم رکھ سکتا ہے ۔ لیکن مذہب سے ان کا رابطہ برقرار کرکے سیاست کے وجود کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے کیوں کہ سیاسی امور کو مذہبی رنگ ملنے سے قانونی و معنوی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ سیاسی مقاصد کو اخلاقی اصولوں پر پورا اترنا چاہیے ٔ۔ انقلاب کے بعد ایران میں مذہب اور سیاست ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں اور اس میدان میں مسجدوں کا کردار بڑا واضح ہے ۔صرف یہی کہنا کافی ہے کہ پہلوی حکومت کے زوال کے نتیجہ میں ملک کے نظم و نسق میں جو خلا پیدا ہوگیا تھا اسے مسجدوں میں قائم کردہ کمییٹیوں نے پر کردیا اور بھی کمیٹیاں بعد میں انقلابی تنظیموں کی شکل اختیار کرگئیں اور مسجدیں آزادی ملنے کے سبب فوجی، سیاسی و نظریاتی سرگرمیوں کا مرکز بن گئیں اور عوام کی ضروریات پوری کرنے لگیں۔
انقلاب کے دوران بانی انقلاب اسلامی نے کیا خوبصورت جملہ کہا۔"مسجد' مورچہ ہے ، ان مورچوں کی حفاظت کیجئے ۔''
اسلامی انقلاب سے پیشتر ایران میں مسجدوں کا کام نماز کی ادائیگی کے علاوہ وعظ کرنا، کتابیں جاری کرنا اور بلا سود قرضے فراہم کرنے سے متعلق تھا اور عورتیں اور مرد مختلف اوقات میں ان سے استفادہ کرتے تھے ۔ لیکن انقلاب کے وقت اور انقلاب کے بعد مساجد نے روز بروز نئی نئی ذمہ داریاں اور سرگرمیاں اپنے ذمہ لے لیں۔ مثلاً مسجدوں نے عوام سے مالی امداد جمع کرکے شہیدوں کے خاندانوں اور غریب و مستحق لوگوں میں تقسیم کی۔ بلا سود قرضے دینے والے بنکوں کی روایتی شکل تبدیل کردی گئی اور مالی امداد کو انقلاب کی ضروریات کے لئے مختص کردیا گیا۔ اس طرح انقلاب کے نتیجہ میں عوام کو پیش آنے والی اقتصادی مشکلات کو مسجدوں نے براہ راست حل کیا۔ مسجدوں نے موسم سرما میں ہر محلہ کے مکینوں میں براہ راست مٹی کا تیل تقسیم کیا اور ان کو تیل کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ مسجدیں اسلامی محافظ و مجاہد اور فوجی ساز و سامان جمع کرنے والی چھاونیاں بن گئیں مسجدوں میں ہی محافظوں کے لئے خورد و نوش اور دیگر سہولیات کا اہتمام کیا گیا اورآہستہ آہستہ انقلابی کمیٹیوں ے مسجدوں میں جگہ پالی۔انقلاب کے وقت طاقت کے فقدان نے جو کچھ مٹا دیا تھا اس نے انقلابی معاشرہ کے لئے امن و امان کے تحفظ کا مسئلہ پیدا کردیا۔ مسجدوں میں قائم کمیٹیوں نے اپنی انقلابی توانائیاں یکجا کرکے انقلاب دشمن عناصر سے عملی طور پر نمٹنے کا انتظام کرلیا۔مسجدیں فن حرب اور اسلحہ کی تربیت گاہ بن گئیں۔
مختلف مسجدوں میں کتابوں، کیسٹوں، پٹینگز، تصویروں اور سلائیڈوں کی نمائشیں منعقد کی گئیں۔شاہی حکومت کے خلاف انقلابی تقریریں، آزاد بحث، جلسے اور حالات حاضرہ کا تجزیہ مسجدوں ہی میں پیش کیا گیا۔ مسجدیں مسلمانوں کی مشکلات کی عقدہ کشائی کی آماجگاہ بن گئیں۔
انقلاب کی کامیابی سے پیشتر کوڑا کرکٹ جمع کرنے کا کام جو بلدیہ کے ذریعے انجام پاتا تھا، بلدیہ کے کارکنوں کی ہڑتال کے باعث مسجدوں پر پڑا اور ہر محلہ میں عوام نے مسجدوں کی وساطت سے اس ضرورت کو پورا کیا۔
مسجدوں نے عوام کے خاندانی اختلافات اور قانونی مسائل کو حل کیا۔ انقلاب کے دوران میں مسجدوں نے دوائیں،روئی، ڈاکٹری اور دوا سازی کے آلات جمع کئے اور ان کو ہسپتالوں کے حوالے کیا۔
مختصر یہ کہ مسجدوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کے دوران میں حکومت کے فرض منصبی کے مانند کام انجام دیئے لیکن مسجد کے کام کا طریقہ مرکزیت کے نظام سے ہٹ کر تھا۔ اگرچہ مسجدوں کو سرکاری اداروں کی سی سہولتیں حاصل نہ تھیں لیکن کسی حد تک ایک مسجد میں انجام پانے والے کام دوسری مسجدوں سے ہم آہنگ تھے اور اپنے علاقہ سے رابطہ رکھ کر ہر مسجد کام کی شکل، نوعیت اور سہولتوں کے اعتبار سے خود کفیل تھی اور تقریباً آزاد و خود مختار ہوکر کام کرتی تھی اور محلہ کے مکینوں کی مدد سے عوام کی ضروریات پوری کرتی اور مشکلات دور کرتی تھی۔
تہران کے مشرق علاقہ میں کام کاج کے مرکز کی حیثیت سے جو مسجد خوب کام کررہی تھی وہ مسجد مسلم بن عقیل تھی۔ زیادہ تر کوشش یہ ہوتی تھی کہ اچھے قسم کے علما، مبلغین اور واعظین کو دعوت دی جائے۔ چنانچہ وہ آتے اور عوام کے مسائل کو بڑی وضاحت کے ساتھ زیر غور لاتے اور امام خمینیؒ کے پیغامات کو بڑے واضح انداز میں عوام کے سامنے پیش کرتے تھے ۔ ایسے اشخاص کو مسجد میں تقریر کی دعوت دی جاتی تھی جو منبر پر بیٹھ کر امام خمینیؒ کے بیانات کو شروع سے لے کر آخر تک ایک لفظ بھی کم کئے بغیر بیان کرتے تھے ۔ اس وقت کے حالات میں یہ بڑا خطرناک کام تھا اور شاہ کی پولیس مسجد کو ہمیشہ گھیرے رکھتی تھی۔ خفیہ پولیس ساواک کی بھی اس مسجد پر کڑی نظری تھی اور مقررین جن کو دعوت دی جاتی تھی ان کی بھی سخت نگرانی کی جاتی تھی۔
بہرحال مسجد کی سرگرمی اور اس کے فعالانہ عمل میں ان چیزوں سے کوئی خلل نہ پڑا۔ فضائیہ کے باایمان جوانوں نے مسجد اور گھروں سے برابر اپنا رابطہ قائم رکھا اور خفیہ طور پر ملاقاتیں بھی کیں۔
لائبریری، عربی درس کا کلاسوں، قرآن مجید کی تفسیر، اخلاق و اصول عقائد کے پروگرام مسجد میں اس وقت سے جاری تھے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی دین مقدس اسلام کی تبلیغ ترویج کے پروگرام اسی طرح جاری ہیں۔ اس مسجد کے علاوہ علاقہ کا مرکزی دفتر بھی ایسی ہی سرگرمی کا مرکز تھا اور انقلاب اسلامی اور عوامی املاک کی حفاظت کے سلسلے میں پاسداران انقلاب (انقلابی محافظین) بڑے سرگرم عمل تھے ، انقلاب کے شروع میں علاقہ میں پاسداراوں کی تعداد سولہ سو کے قریب تھی۔
مسلط شدہ جنگ کے بعد مسجد کا بھی ایک کام عوام سے چندہ اکٹھا کرنا رہا ۔ مختلف علاقوں کے لوگ کمبل لیمپ، لباس جیسی اشیا سے جو مدد کرتے وہ مسجدوں میں جمع ہوجاتی ہیں اور وہاں سے ان چیزوں کو جنگی علاقوں میں بھیج دیا جاتا اور جن اشیا کو بھیجنے کے لئے مسجد کے پاس معقول انتظام نہیں ہوتا وہ امام کی امدادی کمیٹی کو بھیج دی جاتی ہیں تاکہ کمیٹی ان کو جنگی علاقوں میں پہنچانے کا انتظام کرے ۔
کم آمدنی والے افراد کی ضرورت پوری کرنے کے لئے مسجد کے بالمقابل ایک عمارت میں بلا سود قرضہ جاری کرنے کا دفتر قائم کیا گیا۔ ابتدا میں شادی کے اخراجات، گھروں کی مرمت، بیماری، وغیرہ اور کام شروع کرنے کے لئے قرضہ دیا جاتا تھا۔مسجد میں فوجی اور اسلامی تعلیمات کی کلاسوں کا بھی اہتمام تھا ۔ آٹھ سے چودہ سال کے بچوں اور نوجوانوں کو دعوت دی گئی کہ مذکورہ کلاسوں سے استفادہ کریں۔مسجد کی انجمن اسلامی، مومن اور مکتبی مقررین کو دعوت دیتی تاکہ وہ عوام کو اسلام اور دین سے آشنا کریں۔
اس لحاظ سے تمام مسجدیں ایک ہوکر عوام کے اجتماع، بحث و گفتگو اور تبادلہ خیالات اور جنگ آزما توانائیوں کی ہم آہنگی کا مرکز بن گئیں اور اپنی اولین صورت اختیار کرگئیں اور حسینیہ اور مہدیہ جسے امام باڑے بھی مسجدوں کی طرح فعال ہوگئے۔
شاہی حکومت کے خاتمہ کے بعد مسجدوں میں عوامی اور انقلابی قوتوں کے اکٹھا ہوجانے کی وجہ سے ان کو حکومت کی مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی اور اسلامی جمہوریہ کی اولین بنیاد کے طور پر کام کرنے لگیں۔ اکثر مسجدوں کو انقلابی کمیٹیوں اور مسلح انقلابی افراد نے اپنا مورچہ بنالیا اور وہاں سے انقلاب دشمن افراد کا مقابلہ اور امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول کرنے لگے ۔
استصواب رائے کے انعقاد کے دنوں میں ایران کے اکثر علاقوں میں مسجدوں ہی میں رائے دہی کے صندوق رکھے گئے ۔ انقلاب اور اسلام سے متعلق فلم اور سلائیڈ اور کتابوں وغیرہ کی نمائش، اور ایسی ہی ثقافتی سرگرمیاں تھیں جن کا اہتمام مسجدوں میں کیا گیا۔ سکاوٹس کی سرگرمیوں کی آماجگاہ بھی مسجدیں تھیں اور یہیں سے سکاوٹس کے مختلف دستوں کو دینی، اخلاقی، فنی تربیت اور مہارت کے پروگرام مرتب کرنے میں مدد ملی۔ اسلام میں موجود ایک اہم ترین روایت یعنی عدل کی روایت آخری دور میں مسجدوں میں زندہ ہوگئی ۔
ایران پر عراق کی مسلط جنگ میں بھی مسجدیں جنگ زدہ شہروں کے عوام کی پناہ گاہ اور اشیائے خوردنی کے جمع کرنے کامرکز بن گئیں۔ صدام کی حکومت نے انسانیت کے برخلاف ایران کی مسجدوں اور ہسپتالوں پر بھی بمباری کی لیکن آخری اور مضبوط ترین جگہ جو جارح فوجوں کے ہاتھ آئی یہی مسجدیں تھیں کیوں کہ یہ معنوی اور مادی رشتہ قائم رکھے ہوئے تھیں اور زندگی کے نئے دور کا نمونہ تھیں۔ ایران میں مسجدیں، مذہبی، سیاسی، امدادی، تربیتی، فوجی اور عدلیہ جیسی گوناگوں سرگرمیوں کا مرکز ہیں اور یہ خود ایسی علامت ہے کہ مسجد ایک سماجی و ثقافتی ادارہ کی حیثیت سے معاشرہ سے گہرے روابطہ اور عوام سے اتحاد و ارتباط کی صلاحیت رکھتی ہے اور آج کی دنیا ایران اور اسلام میں اپنی موجودگی کا ثبوت دے سکتی ہے ۔ اس لحاظ سے اہل فکر و نظر کے خیال کے مطابق بہتر ہے کہ اسلامی مسائل کو چوٹی کے مسائل قرار دے کر انہیں مسجدوں میں آزادانہ تقریر، تبادلۂ خیالات اور بحث و مباحثے کے ذریعے حل کیا جائے ۔ حتی کہ اسلام کے مخالفین کو بھی ان میں شریک ہونے کی اجازت ہونی چاہیے ٔ۔
ایران میں انقلاب اسلامی کے دوران اور بعد میں مساجد کے کردار کو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ مسجدوں نے عوام کو دینی و مکتبی آگہی دینے کی کوشش کی ہے تاکہ تمام اقتصادی، سیاسی اور معاشتی سرگرمیوں کے ساتھ خدائی معاشرہ کے حقیقی فروغ کا راستہ ہموار کرسکیں اور اس طریقے سے اسلامی انقلاب کی حفاظت کریں۔
مسجدوں کے ذریعے سے بہت سے کام انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ ان میں ثقافتی ، سیاسی، معاشرتی و ہنری، امدادی اور دینی سرگرمیاں شامل ہیں۔ لیکن اصول طور پر مسجد عبادت کی جگہ ہے ۔ عبادت کبھی انفرادی ہوتی ہے جیسے انفرادی نماز اور رات کی نمازیں، اور کبھی اجتماعی ہوتی ہے جیسے پانچ وقت کی نماز باجماعت اور نماز جمعہ جو اپنے خصوصی ضوابط کے مطابق عبادت کا پہلو بھی رکھتی ہے اور ایک سیاسی نماز بھی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے کاموں کی اصلاح ہے اور ان میں اتحاد کو برقرار کرنا ہے ۔
بہرحال اسلامی مسائل پر ماہرین کی رائے کے مطابق مسجدوں کی جو تمام سرگرمیاں خدا کی راہ میں ہر قسم کی خدمت اور اسلامی انقلاب کی حفاظت کے لئے مرتب ہوں اور ان پر عمل ہونا چاہیے ٔ۔ اس لئے لازم ہے کہ مسجدیں معاشرہ میں اخلاقی و فکری تبدیلی لاکر جو تمام معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی تبدیلیوں کی اساس ہے ، مذکورہ مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کرتی رہیں ۔اسلامی انقلاب کی حفاظت کے لئے مسجدوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑائی جانی چاہیے۔ اور ان کی سرگرمیوں میں وسعت اور عوام کے لئے دلچسپ اور موثر جدت پیدا کرنی چاہیے ٔ۔ مسجدوں میں نماز باجماعت ادا کرنے کو اہمیت دی جانی چاہیے ٔ۔ اسلامی انقلاب میں مسجدیں دوبارہ زندہ ہوگئی ہیں وہ ایسی چھاونیاں ہیں جن کی تائید و حمایت ہونی چاہیے ٔ۔ کیوں کہ یہ اسلام کی حقیقت کے فروغ کے مراکز ہیں۔ مسجدیں اسلامی انقلاب کی حفاظت کے لئے مورچہ ہیں انہیں بھرا رہنا چاہیے۔ اور روشن خیال و بیدار مغز مقررین سے جو عوام کو ان کے معاشرتی فرائض سے آگاہ کرسکیں استفادہ کرنا چاہیے ٔ۔ اسلام سب لوگوں کو وحدت اور توحید کی طرف بلاتا ہے ۔ مسجدوں میں جاکر لوگ ایک دوسرے کی مشکلات سے واقف ہوکر ان کو دور کرنے کی تدابیر کرسکتے ہیں ایک دوسرے سے بات چیت کے ذریعے اپنے عقیدہ کے اختلافات کو کم کرسکتے ہیں اور وحدت و توحید کے نظریےکو زیادہ سے زیادہ عمل میں لاسکتے ہیں۔ اس طرح خدائی کام اور ایمان و اتحاد کا تحفظ کرسکتے ہیں اور سارے کام خدا کے لئے اور اسلام کی حفاظت پر مرکوز کرسکتے ہیں۔


8 شوال یوم انہدام جنت البقیع کا دن
تحریر: شبیر احمد شگری
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اس کو غضبناک کیا تو اس نے مجھے غضبناک کیا ہے۔: حدیث پاک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
8 شوال یوم انہدام جنت البقیع کا دن ہے۔ یہاں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر کا ٹکڑا دفن ہے جس کی تعظیم میں خودحضور پاک کھڑے ہوجاتے تھے۔لیکن نام نہاد مسلمانوں نے جو خود تو بڑی بڑی عالیشان پرتعیش محلات میں زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن بدعت کی آڑ میں بغض کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی بی پاک اور آل رسول امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے مزارات کو منہدم کروادیا۔
اکیس اپریل انیس سو چھبیس مطابق آٹھ شوال کو آل سعود حکومت نے مدینہ منورہ میں واقع تاریخی قبرستان جنت البقیع میں اہلبیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کے روضوں کو منہدم کر دیا تھا۔ جسے تاریخ میں "یوم انہدام" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یہ کام انہوں نے مدینہ کے 15 مفتیوں کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے انجام دیا جس میں قبور پر بارگاہیں بنانے کو بدعت قرار دیتے ہوئے ان کی تخریب کو واجب قرار دیا تھا۔ ان کے اس مکروہ فعل سے اہل بیت علیھم السلام سے محبت رکھنے والے تما م شیعہ سنی مسلمانوں کے جذبات کو شدیدٹھیس پہنچی۔ تمام محبان اہلبیت ہر سال 8 شوال کو یوم انہدام جنۃ البقیع مناتے ہوئے اس کام کی پر زور مذمت اور سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے اس قبرستان کی فی الفور تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس تخریب کے بعد جنت البقیع ایک مسطح زمین میں تبدیل ہو گئی ہے لیکن شیعوں کے چار اماموں کے قبور کی جگہ اب بھی قابل تشخیص ہیں۔ شیعہ علماء اور ایرانی حکومت کی جانب سے ائمہ بقیع پر باگاہوں کی تعمیر اور جنت البقیع کے قبرستان کے ارد گرد چاردیواری کا مطالبہ سعودی عرب کی جانب سے تسلیم کرنے کے باوجود اب تک عملی نہیں ہو پایا۔
بقیع کے لفظی معنی درختوں کا باغ ہے اور تقدس کی خاطر اس کو جنت البقیع کہا جاتا ہے یہ مدینہ میں ایک قبرستان ہے جس کی ابتدا ٣ شعبان ٣ھ کو عثمان بن مزون کے دفن سے ہوئی، اس کے بعد یہاں آنحضرت کے فرزند حضرت ابراہیم کی تدفین ہوئی ۔ آنحضرت(ص) کے دوسرے رشتہ دار صفیہ ،عاتکہ اور فاطمہ بنت اسد (ع)( والد امیر المومنین (ع) بھی یہاں دفن ہیں تیسرے خلیفہ عثمان جنت البقیع سے ملحق باہر دفن ہوئے تھے لیکن بعد میں اس کی توسیع میں ان کی قبر بھی بقیع کا حصہ بن گئی۔ بقیع میں دفن ہونے والوں کو آنحضرت خصوصی دعا میں یاد کرتے تھے اس طرح بقیع کا قبرستان مسلمانوں کے لئے ایک تاریخی امتیاز و تقدس کا مقام بن گیا۔
اس طرح گزشتہ ١٢ سو سال کے دوران جنت البقیع کا قبرستان ایک قابل احترام جگہ رہی جو وقتاً فوقتاً تعمیر اور مرمت کے مرحلوں سے گزرتی رہی۔
قرآن کے سورہ حج کی ٣٢ ویں آیت میں شعائر اﷲ کی تعظیم سے متعلق صریح احکام موجود ہیں ۔ یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ زیارت قبور کے جواز کے ضمن میں حدیث رسول (ص) اور توسل صحاب کی ٢٦ روایات موجود ہیں، مذاہب اربعہ کے ٤٠ علما نے زیارت قبر نبی(ص) کے آداب اور زیارتیں نقل کی ہیں۔ سارے عالم اسلام میں ابنیاء صحابہ، تابعین ، علماء اور اولیا کی قبریں مختلف جگہ موجود ہیں اور مرجع خلائق ہیں۔
اکتوبر ١٩٢٤ء کو مولانا محمد علی جوہر کی سربراہی میں تحریک خلافت کمیٹی کی جانب سے سلطان عبدالعزیز ابن سعود کو ایک تار بھیجا گیا جس میں اس بات پر زور دیاگیا تھا کہ چونکہ حجاز دنیائے اسلام کا مرجع ہے وہاں کوئی انفرادی شاہی قائم نہیں ہوسکتی بلکہ ایسی جمہوریت قائم ہو جو غیر مسلم اغیار کے اثر سے پاک ہو۔ اس کے جواب میں سلطان ابن سعود نے لکھا کہ حجاز کی حکومت حجازیوں کا حق ہے لیکن عالم اسلام کے جو حقوق حجاز سے متعلق ہیں ان کے لحاظ سے حجاز عالم اسلامی کا ہے اور اس ضمن میں یقین دلایا کہ آخر ی فیصلہ دنیائے اسلام کے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ اس وعدہ میں کتنی صداقت تھی۔
سعودی حملہ آور جب مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے جنت البقیع اور ہروہ مسجد جوان کے راستہ میں آئی منہدم کردی اور سوائے روضہ نبوی کے کسی قبر پر قبہ باقی نہ رہا۔آثار ڈھائے گئے اکثر قبروں کی تعویز اور سب کی لوحیں توڑ دی گئیں ۔انہدام جنت البقیع کی خبر سے عالم اسلام میں رنج و غم کی ایک لہر پھیل گئی ساری دنیا کے مسلمانوں نے احتجاجی جلسے کئے اور قرار دا دیں پاس کیں جس میں سعودی جرائم کی تفصیل دی گئی۔ آنے والے سالوں میں عراق، شام اور مصر سے حج اور دیگر امور کے لئے آنے والوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ہزاروں مسلماں ان کے مظالم سے تنگ آکر مکہ اور مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ مسلمانوں کے مسلسل احتجاج پر سعودی حکمرانوں نے مزارات کی مرمت کی یقین دہانی کی مگر یہ وعدہ آج تک پورا نہ ہوا۔ اس ضمن میں تحریک خلافت کمیٹی کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔
آج جنت البقیع اور عالم اسلام کے حوالے سے ہمیں ایک منظم مہم چلانی ہوگی۔ دنیائے عرب میں مراکش سے عراق تک اور عجم میں ترکی سے انڈونیشیا تک کونسی مملکت ہے جہاں بزرگان دین، سیاستدان اور عامتہ المسلمین کے مزارات مرجع خلائق نہیں ہیں۔ بقیع کوئی عام قبرستان نہیں ہے بلکہ یہاں بلا اختلاف فرقہ ہر مسلمان کے لئے قابل احترام شخصیتیں دفن ہیں۔
انہدام جنت البقیع کے واقعہ کے باوجود، حضرت سرور کائنات ؑ کے روضہ کا وجود خود ایک معجزہ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت البقیع کا انہدام کوئی فقہی مسئلہ نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی تھی جس کی بنیاد خانوادہ اہلیبت (ع) سے دیرینہ عداوت تھی۔
دنیا میں تمام متمدن اقوام اپنے آبا و اجداد کے آثار کی حفاظت کے انتظامات کرتے ہیں۔ مصر میں اسوان ڈیم بنایا گیا تو اس سے متاثر ہونے والے آثار قدیمہ کے کھنڈرات کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے یونیسکو نے کثیر رقم خرچ کی۔ افغانستان کے شہر بامیان میں گو تم بدھ کے مجسموں کی توڑ پھوڑ پر ساری دنیا بشمول توحید پرستوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہا رکیا ۔لیکن افسوس ہے کہ ہمارے آزاد میڈیا کے لئے انہدام جنت البقیع کوئی قابل توجہ مسئلہ نہیں ہے۔آثار قدیمہ کی حفاظت حقوق انسانی کے زمرہ میں آتی ہے ہمیں سر نامہ کلام کی آیت: ''ااُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ ''کے رہنما اصول پر عمل کرتے ہوئے جذبات سے بالاتر ہو کر جنت البقیع کی بحالی کے لئے قابلِ عمل پالیسی اختیار کرنا ہوگی ۔اس معاملے میں بین القوامی تنظیم مثلاً یونیسکو ، عرب لیگ، موتمر عالم اسلامی ، تنظیم اسلامی کانفرنس (OIC ) اور عالمی انسانیحقوق کمیشن کو متوجہ کیا جائے۔اخبارات میں آئے دن اسلام کے حوالے سے جدیدیت کشادہ دلی اور صبر و تحمل کی پالسی اپنانے کی تلقین کی جاتی ہے اس پرعمل بھی کیا جائے۔
ماضی کے سیاسی سماجی اور جنگی جرائم پر مواخذہ اعتراف اور معافی اب ایک بین الاقوامی'' طریقہ تلافی'' کے طور پرقابل قبول اصول بن گیا ہے اس اصول کا اطلاق انہدام جنت البقیع کے مرتکبین پر بھی کیا جائے۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمراں اپنے پیشرؤں کے بر خلاف خود کو ایک روشن خیال رہنما ظاہر کر رہے ہیں۔ بہت سی غلطیوں کا اعتراف بھی کر چکے ہیں ۔ اورخود کواتحاد عالم اسلام کے پر جوش حامی بھی ظاہر کررہے ہیں تو کیوں نہ وہ یہ جرات مندانہ فیصلہ کریں اور عالم اسلامی کی ایک بہت بڑی خواہش کو عملی جامہ پہنائیں۔ خادمین حرمین شریفین کا دعوٰی کرنے والوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ حرمین شریفین، مکہ مدینہ جیسے مقدس شہر پر صرف ان کا نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا حق ہے۔ اور صرف ایک مسلک یا فرقے کی مرضی یا تعلیمات کو زبردستی عالم اسلام کے دوسرے فرقوں پرنہ تھوپا جائے۔ بلکہ عالم اسلام کے دوسرے فرقےجو اکثریت میں ہیں ان سب کا بھی احترام کیا جائے۔ ورنہ آپ خادمین حرمین شریفین نہیں کہلا سکتے۔ آپ کو حرمین شریفین کا لقب حاصل کرنے کے لئےتمام مسلمانوں کے حق رکھنے والے مقامات کی حقیقی خدمت کرنا ہوگی۔جس سے تمام عالم کے مسلمان مطمئن ہوں۔ کیونکہ دیکھا جائے تواس پر تمام عالم اسلام کے مسلمانوں کا حق ہے۔
ہم وزیر اعظم عمران خان صاحب سےگزارش کرتے ہیں کہ چونکہ آپ کے تعلقات سعودی حکمرانوں کے ساتھ اچھے ہیں اور سعودی حکمران اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔جس طرح پاکستانی قیدیوں کی آذادی جیسے مسئلے پر ان کو آپ نے راضی کیا۔ اسی طرح تمام محبان اہلبیت اور تمام عقیدہ کے سنجیدہ اور انصاف پسند مسلمانوںکی گزارش پر سعودی حکمرانوں سے درخواست کی جائے کہ شیعہ سنی اور ایک بڑی تعداد کے مسلمانوں کے دیرینہ مطالبے کا احترام کرتے ہوئےوہ ان مزارات کو خود بنا دیں یا پھر عالم اسلام کو اس کی اجازت دیدیں۔ اس معاملے میں بھی آپ کو خاطر خواہ کامیابی مل سکتی ہے۔اور بہت سارے مسلمانوں کی دعائیں آپ کا مقدر بنیں گی۔مسلمانوں اللہ پاک سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو اس کار خیر میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔


فلسطین کی بے بسی اور عالم اسلام کی بے حسی
تحریر: شبیر احمد شگری

قدس، قبلہ اول اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا دوسرا حرم ہے یہ فلسطین کے ان دسیوں لاکھ مسلمانوں کی اصل سرزمین ہے جنہیں عالمی استکبار نے غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں آج سے 60 سال قبل سنہ 1948 میں اپنے وطن سے جلاوطن کرکے قدس کی غاصب ، صہیونیوں کے تصرف میں دے دیا تھا ۔
اس سامراجی سازش کے خلاف فلسطینی مسلمانوں نے شروع سے ہی مخالفت کی اور ان مظلوموں کی قربانی اور صبر و استقامت کے سلسلے میں پوری دنیا کے حریت نواز ، بیدار دل انسانوں نے حمایت کی اور اسی وقت سے فلسطین کا مسئلہ ایک سیاسی اور فوجی جد وجہد کے عنوان سے عالم اسلام کے سب سے اہم اور تقدیرساز مسئلے کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے ۔
خدا نے وعدہ کیا ہے " اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثبات قدم عطا کردے گا ۔" اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کے مسلمان ایک ہوجائیں مذہب اور اعتقادات کے اختلافات کو الگ رکھ کر حریم اسلام کے دفاع و تحفظ کے لئے اسلام و قرآن اور کعبہ ؤ قدس کے تحفظ کے لئے ، جو پورے عالم اسلام میں مشترک ہیں وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک اور ایک ہوجائیں اور کفار و منافقین کو اسلامی مقدسات کی پامالی کی اجازت نہ دیں تو کیا مجال ہے کہ دو ارب سے زائد مسلمانوں کے قبلۂ اول پر چند لاکھ صہیونیوں کا تصرف ، قتل عام اور غارتگری کا سلسلہ باقی رہ سکے ۔
مگر جوبات امت مسلمہ کو خون کے آنسو رلاتی ہے وہ علاقے کے عرب ممالک کے حکمرانوں کا منافقانہ رویہ ہے ۔ عرب ممالک کے سربراہ یوں تو اپنے ہر مسئلے کو عربوں کا مسئلہ قرار دے کر اسکے لئے شب و روز کوششیں کرتے ہیں اور پورے عالم اسلام کو اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر مدد مانگتے ہیں۔ لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا رویہ ہمیشہ منافقانہ رہا ہے ۔
جیسا کہ سعودی شہزادے کی جانب سے اسرائیل کے بارے میں صاف بیان سامنے آیا کہ فلسطین کے ساتھ جنگ کی صورت میں وہ یہودیوں اور اسرائیلی جمہوری خواہشات کا ساتھ دیں گے ۔ شہزادے کا کہنا تھا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی صورت میں عرب ممالک کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کی مخالفت کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو روکنے کی بھرپور کوشش کروں گا ۔
ایک جانب سعودی حکام خود کو اسلام، قرآن اور سرزمین نبوت اور حرمین شریفین کا خادم اورنمائندہ کہلاتے ہیں اور دوسری جانب اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو یہ کسی مذہبی اور سماجی سانحے سے کم شمارنہیں کیا جاسکتا ۔اسرائیل سے سعودی عرب کے تعلقات نہ صرف مسلم امہ بلکہ خود سعودی بادشاہت کیلئے بھی بہت نقصان دہ ثابت ہونگے اور اس سے سعودی بادشاہت ملک کے اندر بھی تنہائی کا شکار ہو جائیگی۔مسلم امہ کبھی بھی اس چیز کو قبول نہیں کریگی اور سعودی عوام بھی اس بات کو قبول نہیں کریگی کہ سعودی بادشاہت چوری چھپے یا اعلانیہ اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلقات قائم رکھے ۔
عالمی اداروں کی خاموشی ، عرب حکمرانوں کا منافقانہ رویہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے میدان عمل میں آجائے ۔
تل ابیب اور واشنگٹن کے تعلقات ہمیشہ وسیع پہلوؤں کے حامل رہے ہیں- کیوں کہ جو بھی صدر امریکہ میں برسر اقتدار آتا ہے اس کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں دوسرے پر سبقت لے جائے - اسی سبب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات سے پہلے بھی اور وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے بعد بھی کھل کراسرائیلی حکومت کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کیا - ٹرمپ نے امریکہ کی سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کے برخلاف قدم اٹھاتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ فلسطین منتقل کردے گا-
ٹرمپ حکومت، اسرائیل کے لئے بلا عوض امداد میں اضافے کا بھی ارادہ رکھتی ہے -امریکہ کی طرف سے اسرائیلی حکومت کو سالانہ تین ارب ڈالر بلاعوض امداد دی جاتی ہے جس کا بڑا حصہ فوجی ساز وسامان پرخرچ ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ امریکہ سالانہ اربوں ڈالر آسان شرائط پراسرائیل کو قرض دیتا ہے جن سے اسرائیلی حکومت مغربی ملکوں کے جدیدترین اسلحے خریدتی ہے -
امریکہ اسرائیل کی حمایت کر کے فلسطینیوں کیلئے مسائل پیدا کر رہا ہے فلسطین پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے لیکن حیرت کا مقام ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے غیر مسلم یہ حقیقت مانتے ہیں کہ فلسطین میں ظلم ہورہا ہے مگر پھر بھی اسلامی دنیا خاموش ہے ۔اسرائیلی جارحیت کی کسی بھی عرب ملک نے اب تک مذمت نہیں کی ہے ۔ ،کیونکہ اب ان بادشاہتوں اور اسرائیل میں ان کی دوستی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اسرائیل ان کی بادشاہت کے تسلسل کا گرانٹربن چکا ہے ۔
اسرائیل کی جارحانہ اور دہشت گردانہ پالیسیوں اور عزائم سے واضح طور پر ایسا لگتا ہے کہ غاصب اسرائیل صرف فلسطین پر غاصبانہ تسلط تک محدود نہیں رہنا چاہتا بلکہ وہ پوری دنیا کو اپنا غلام بنا کر اس پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج مشرق وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے ، جنوبی ایشیائ کا حال بھی اسی طرح ہے ، اور اگر ان تمام معاملات کی تحقیق کی جائے تو تمام تر سازشوں کے تانے بانے اسرائیل تک جا ملتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی سمجھدار اور با شعور ریاستیں مل کر بیٹھ جائیں اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے امن کے لیے خطرہ ، غاصب اسرائیلی ریاست کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور اسرائیلی ہٹ دھرمی کو خاطر میںنہ لاتے ہوئے اسرائیل کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کو بین الاقوامی کنٹرول میں لیا جائے اور دنیا کے امن کو یقینی بنایا جائے ۔
متعدد مرتبہ خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ اس بات کا انکشاف کر چکے ہیں کہ اسرائیل مہلک اور خطرناک ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ دو سو سے زائد ایٹم بم رکھتا ہے ، آخر اسرائیل کو 200ایٹم بم رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے یہ اسرائیل ہی ہے کہ جس نے سر زمین فلسطین پر غاصبانہ تسلط کے بعد سے متعدد مرتبہ فلسطینیوں کو نہ صرف کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بنایا ہے بلکہ آج کے دن تک خطرناک اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف عمل ہے ،جب کہ دنیا کی مقتدر قوتیں جو بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے تو نظر آتی ہیں لیکن در اصل اسرائیلی سفاک ریاست کے سامنے بے بس ہیں جو اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگانے تو کیا اس کے ہتھیاروں کے بارے میں تذکرہ کرنا بھی گوارہ نہیں کرتی ہیں۔کہ کہیں خطرے کا رخ ان ہی کی طرف نہ ہوجائے ۔
اسرائیل ہی وہ ناجائز ریاست ہے جو فلسطینی زمین پر غیر قانونی بستیاں تعمیر کررہی ہے ۔ اسرائیل کی ناجائز رژیم نے تقریباً 7 ہزار فلسطینیوں کو قید ،فلسطینی پناہ گزینوں کو واپسی کے حق سے محروم ،اپنے ہی شہروں میں فلسطینیوں کی نقل وحرکت کو محدود کردیا ہے اوریہاں تک فلسطینی عوام کو یروشلم انکے اپنے دارالحکومت میں جانے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے ۔اسرائیلی ناجائز حکومت کے اہم وزرائ یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ مستقبل میں فلسطینی نام کی کوئی بھی ریاست نہیں ہوگی اوریروشلم کو تقسیم نہیں کیاجائے گا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست امن وامان کی سب سے بڑی دشمن ہے ۔
امریکہ اور برطانیہ غزہ میں مظلوم فلسطینی بچوّں کے قتل عام کی باضابطہ طور سے حمایت کررہے ہیں۔اگر دنیا کے کسی گوشے میں ایک جانور کو مار دیاجائے تو اس کا دنیا بھر میں پر چار کرتے ہیں لیکن غزہ پر غاصب صہیونی حکومت کے حالیہ حملوں اور خاص طور سے فلسطینی معصوم بچوں کا قتل عام ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
اقوام عالم غزہ میں درد ناک واقعات کا مشاہدہ کررہی ہیں کہ نام نہاد انسانی حقوق کے دعویدار ممالک اور تنظیموں کو، مغرب خاص طور سے امریکہ اور برطانیہ کے حامی قصّابوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کا منظر گویا نہیں دکھائی دے رہاہے ۔غزہ میں غاصب صہیونی حکومت کے جرائم پر عالمی برادری کی معنی خیز خاموشی، دنیا کی تلخ حقیقت کی ہولناک تصویر ہے ۔ غزہ میں صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملوں پر اسرائیل کے حامی مغربی ذرائع ابلاغ ایسی حالت میں چپ سادھے ہوئے ہیں جب کہ صہیونی معاشرے میں ہر قسم کی اخلاقی برائیاں اور بدعنوانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق سب سے زیادہ جرائم مقبوضہ فلسطین میں انجام پارہے ہیں۔اس کے باوجود صہیونیوں کو ہرحالت میں مغرب کی حقوق انسانی کی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے حتیٰ مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی نوجوان کو زندہ جلادینے پر مبنی صہیونی آبادکاروں کا وحشیانہ اقدام بھی مغربی ممالک کے نام نہاد انسانی حقوق کے حامیوں کے ضمیر کو بیدار نہ کرسکا۔اور صہیونزم کے حامی ذرائع ابلاغ نے توگویااس جارحیت کو دیکھاہی نہیں۔ بلا شبہ غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں فلسطینی عورتوں اوربچوں کا قتل عام، مغرب میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے دم توڑنے کا غماز ہے اور غزہ میں انجام دی جانے والی وحشیانہ کاروائیوں میں اسرائیل کے حامی خاص طور سے امریکہ اور برطانیہ بھی شریک ہیں ۔غزہ ایسی حالت میں صہیونی فوجیوں کے حملوں کا نشانہ بن رہا ہے جبکہ 2006 سے اسرائیل نے اس علاقے کا محاصرہ کررکھاہے اور اسے دنیا کے سب سے بڑے جیل میں تبدیل کردیاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ پر غاصب صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملے ، جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حقیقی مصداق ہیں اور مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی غزہ کی حالیہ صورت حال کے مقابلے میں خاموشی نے مغرب میں انسانی حقوق پر خط تنسیخ کھینچ دیاہے اور یہ تنظیمیں صرف استکباری طاقتوں کے ناجائز مفادات کو پوراکرنے میں مصروف ہیں۔
اسرائیل کا مفاد اسی میں ہے کہ عرب ملکوں پر طاغوتوں اور ڈکٹیٹروں کی حکومت قائم رہے ۔ یہ ڈکٹیٹر بڑی شدت سے جمہوریت اور آزادی کے مخالف ہیں اور اسرائیل کے مفادات کا تقاضہ ہے کہ عرب ملکوں میں اسی طرح کے حکمران برسر اقتدار رہیں۔ واضح رہے کہ عرب ملکوں اور قدس کی غاصب حکومت کے درمیان کئی برسوں سے خفیہ تعلقات ہیں جو اب دنیا پر ٓشکار ہوچکے ہیں۔ستاون ممالک کی اسلا می ا تحادی افواج کی ٹھیکیدارسعودی عرب کی حکومت جو خود کو خادمین حرمین شریف کہتی ہے فلسطین کے موقف پر خاموشی اختیار کئے بیٹھی ہے جو کہ بلاشبہ امریکہ اور صیہونی حکومت کے مفاد میں ہے ۔
جیسا کہ سعودی شہزادے کی جانب سے اسرائیل کے بارے میں صاف بیان سامنے آیا کہ فلسطین کے ساتھ جنگ کی صورت میں وہ یہودیوں اور اسرائیلی جمہوری خواہشات کا ساتھ دیں گے ۔ شہزادے کا کہنا تھا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی صورت میں عرب ممالک کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کی مخالفت کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو روکنے کی بھرپور کوشش کروں گا ۔
اگر تیسری دنیا کے کسی ملک اور خصوصاً کسی اسلامی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو ساری دنیا بہت شور مچاتی ہے لیکن اگر خود ان سپر پاورز اور ترقی یافتہ ممالک کے ہاں ایسا کچھ ہو جائے تو ایسا سنّاٹا چھا جاتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے ۔ انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم میں امریکہ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس میں سیاہ فاموں اور مسلمانوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے ،ان ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی کو کیوں نظر نہیں آتیں؟افغانستان، یمن، شام، مصر، لیبیا، فلسطین اور کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں اور ان میں موجود سپر پاورز کے کردار پر کوئی واویلا کیوں نہیں مچایا جاتا؟ دنیا میں بسنے والے وہ انسان جن کا خون انتہائی سستا سمجھا جاتا ہے ان میں مسلمان سب سے زیادہ ہیں ،فلسطین میں پوری پوری جیتی جاگتی ہنستی بستی آبادی کو سیکنڈز میں خون میں نہلا دیا جاتا ہے ،شہر کے شہر بمباری کر کے ہموار کر دیئے جاتے ہیں لیکن کسی انسانی حقوق کی تنظیم کے پیٹ میں درد تک نہیں ہوتا، کوئی سپر پاور دیگر معاملات کی طرح خدائی فوجدار بن کے میدان میں نہیں کودتی بلکہ بعض اوقات ظالم کے ہاتھ مزید مضبوط کرتے دکھائی دیتی ہے ۔ابھی تک تو متواتر اسرائیلی حکومتیں کسی نہ کسی طرح یورپ کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہیں کہ ان کی جانب سے کسی بھی قسم کا سیاسی دباؤ اسرائیل کو امن مذاکرات کے عمل سے باہر کردے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امن مذاکرات کا یہ عمل بہت عرصہ پہلے ہی اپنا برائے نام وجود بھی کھو چکا ہے ،اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کی حد کردی شیرخوار بچوں کو بھی نہیں بخشا کمسن لڑکے لڑکیوں کو موت کی نیند سلادیا ۔اس کی جیلوں میں جہاں درجنوں فلسطینی مرد و خواتین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں وہیں دوسو سے زائد کمسن بچے بھی اپنے ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کاقصور یہ ہے کہ انھیں اپنی اراضی مقدس سے پیار ہے ۔ بیت المقدس ،مسجد اقصیٰ کیلئے وہ اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اسرائیلی پولیس اور سکیورٹی فورسس کی ظلم و بربریت بڑھ جاتی ہے تو یہ معصوم اپنے ہاتھوں میں پتھر لئے یا پھر غلیلوں سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ویسے بھی اسرائیلی فورسس کے عصری اسلحہ کے سامنے ان پتھروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی پھر بھی کمسن فلسطینیوں کی جانب سے برسائے جانے والے سنگ اسرائیلی فورسس کا غرور و تکبر خاک میں ملادیتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی سنگدلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فلسطینی کمسنوں کو اغواکرتے ہوئے انھیں جیلوں میں بند کردیتی ہے ۔
ان بچوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ یہودی آبادیوں پر دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنارہے تھے یا اس منصوبہ کاحصہ تھے جو یہودیوں کی تباہی و بربادی اور ہلاکتوں کیلئے بنایا گیا تھا ۔
حقوق انسان کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والا امریکہ فلسطینی بچوں کو جیلوں میں ڈالے جانے سے متعلق اسرائیلی مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ اس میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کے استحصال کے خلاف آواز اُٹھانے کی جرأت ہی نہیں ہے اس جرم میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی شامل ہے اور اس کا ثبوت امریکی حکومت کی خاموشی ہے ۔ اس اسوسی ایشن کا یہ بھی الزام ہے کہ امریکہ اسرائیل کی بربریت پر تنقید کرنے سے گریز کرتا ہے لیکن اس کے برعکس اسرائیل کے تشدد اور ظلم و جبر کی جب فلسطینی مزاحمت کرتے ہیں تو ان کی مذمت کرنے میں وہ کسی قسم کی تاخیر نہیں کرتا ۔ یہ دراصل امریکی حکومت کا ڈوغلا پن ہے ۔
ایک طرف تو مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف درد اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب کی سرپرستی والے عرب ممالک مسلمانوں کے ابدی اور دائمی دشمن اسرائیل کے ساتھ گہری دوستی اور تعلقات قائم کر رہے ہیں اور اسرائیل کے شوم منصوبوں کو عرب ممالک میں نافذ کرکے اسرائیل اور امریکہ سے شاباش حاصل کررہے ہیں ۔کیا اسرائیل نے کسی عرب سرزمین پر غاصبانہ قبضہ نہیں کیا؟ ۔ اسلامی مقدسات کی توہین نہیں کی فلسطینی بچوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل نہیں کیا؟۔ مسلمانوں کے ساتھ عرب حکمرانوں کی خیانت طشت از بام ہوگئی ہے واضح ہوگیا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے حامی عرب ممالک پر امریکہ اور اسرائیلی مزدوروں کا قبضہ ہے جو امریکہ اور اسرائیل کی نیابت میں اسلامی ممالک پر جنگ مسلط کررہے ہیں اور علاقہ میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں ۔
خصوصی انٹرویو برائی روزنامہ حکومت لاہور
21 مارچ 2020


نوروز کے بارے میں پنجابی روزنامہ "بھلیکا" میں چپنے والا مضمون


آج کے روزنامہ پاکستان میں پڑھیں
"بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینیؒ کی جدوجہد سے بھرپور زندگی"
تحریر: شبیر احمد شگری
تاریخ: 14 جون 2019


8 شوال انہدام بقیع
تحریر: شبیر احمد شگری
12 جون 2019
روزنامہ لندن نیوز


8 شوال یوم انہدام جنت البقیع کا دن
تحریر: شبیر احمد شگری
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اس کو غضبناک کیا تو اس نے مجھے غضبناک کیا ہے۔: حدیث پاک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
8 شوال یوم انہدام جنت البقیع کا دن ہے۔ یہاں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر کا ٹکڑا دفن ہے جس کی تعظیم میں خودحضور پاک کھڑے ہوجاتے تھے۔لیکن نام نہاد مسلمانوں نے جو خود تو بڑی بڑی عالیشان پرتعیش محلات میں زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن بدعت کی آڑ میں بغض کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی بی پاک اور آل رسول امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے مزارات کو منہدم کروادیا۔
اکیس اپریل انیس سو چھبیس مطابق آٹھ شوال کو آل سعود حکومت نے مدینہ منورہ میں واقع تاریخی قبرستان جنت البقیع میں اہلبیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کے روضوں کو منہدم کر دیا تھا۔ جسے تاریخ میں "یوم انہدام" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یہ کام انہوں نے مدینہ کے 15 مفتیوں کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے انجام دیا جس میں قبور پر بارگاہیں بنانے کو بدعت قرار دیتے ہوئے ان کی تخریب کو واجب قرار دیا تھا۔ ان کے اس مکروہ فعل سے اہل بیت علیھم السلام سے محبت رکھنے والے تما م شیعہ سنی مسلمانوں کے جذبات کو شدیدٹھیس پہنچی۔ تمام محبان اہلبیت ہر سال 8 شوال کو یوم انہدام جنۃ البقیع مناتے ہوئے اس کام کی پر زور مذمت اور سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے اس قبرستان کی فی الفور تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس تخریب کے بعد جنت البقیع ایک مسطح زمین میں تبدیل ہو گئی ہے لیکن شیعوں کے چار اماموں کے قبور کی جگہ اب بھی قابل تشخیص ہیں۔ شیعہ علماء اور ایرانی حکومت کی جانب سے ائمہ بقیع پر باگاہوں کی تعمیر اور جنت البقیع کے قبرستان کے ارد گرد چاردیواری کا مطالبہ سعودی عرب کی جانب سے تسلیم کرنے کے باوجود اب تک عملی نہیں ہو پایا۔
بقیع کے لفظی معنی درختوں کا باغ ہے اور تقدس کی خاطر اس کو جنت البقیع کہا جاتا ہے یہ مدینہ میں ایک قبرستان ہے جس کی ابتدا ٣ شعبان ٣ھ کو عثمان بن مزون کے دفن سے ہوئی، اس کے بعد یہاں آنحضرت کے فرزند حضرت ابراہیم کی تدفین ہوئی ۔ آنحضرت(ص) کے دوسرے رشتہ دار صفیہ ،عاتکہ اور فاطمہ بنت اسد (ع)( والد امیر المومنین (ع) بھی یہاں دفن ہیں تیسرے خلیفہ عثمان جنت البقیع سے ملحق باہر دفن ہوئے تھے لیکن بعد میں اس کی توسیع میں ان کی قبر بھی بقیع کا حصہ بن گئی۔ بقیع میں دفن ہونے والوں کو آنحضرت خصوصی دعا میں یاد کرتے تھے اس طرح بقیع کا قبرستان مسلمانوں کے لئے ایک تاریخی امتیاز و تقدس کا مقام بن گیا۔
اس طرح گزشتہ ١٢ سو سال کے دوران جنت البقیع کا قبرستان ایک قابل احترام جگہ رہی جو وقتاً فوقتاً تعمیر اور مرمت کے مرحلوں سے گزرتی رہی۔
قرآن کے سورہ حج کی ٣٢ ویں آیت میں شعائر اﷲ کی تعظیم سے متعلق صریح احکام موجود ہیں ۔ یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ زیارت قبور کے جواز کے ضمن میں حدیث رسول (ص) اور توسل صحاب کی ٢٦ روایات موجود ہیں، مذاہب اربعہ کے ٤٠ علما نے زیارت قبر نبی(ص) کے آداب اور زیارتیں نقل کی ہیں۔ سارے عالم اسلام میں ابنیاء صحابہ، تابعین ، علماء اور اولیا کی قبریں مختلف جگہ موجود ہیں اور مرجع خلائق ہیں۔
اکتوبر ١٩٢٤ء کو مولانا محمد علی جوہر کی سربراہی میں تحریک خلافت کمیٹی کی جانب سے سلطان عبدالعزیز ابن سعود کو ایک تار بھیجا گیا جس میں اس بات پر زور دیاگیا تھا کہ چونکہ حجاز دنیائے اسلام کا مرجع ہے وہاں کوئی انفرادی شاہی قائم نہیں ہوسکتی بلکہ ایسی جمہوریت قائم ہو جو غیر مسلم اغیار کے اثر سے پاک ہو۔ اس کے جواب میں سلطان ابن سعود نے لکھا کہ حجاز کی حکومت حجازیوں کا حق ہے لیکن عالم اسلام کے جو حقوق حجاز سے متعلق ہیں ان کے لحاظ سے حجاز عالم اسلامی کا ہے اور اس ضمن میں یقین دلایا کہ آخر ی فیصلہ دنیائے اسلام کے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ اس وعدہ میں کتنی صداقت تھی۔
سعودی حملہ آور جب مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے جنت البقیع اور ہروہ مسجد جوان کے راستہ میں آئی منہدم کردی اور سوائے روضہ نبوی کے کسی قبر پر قبہ باقی نہ رہا۔آثار ڈھائے گئے اکثر قبروں کی تعویز اور سب کی لوحیں توڑ دی گئیں ۔انہدام جنت البقیع کی خبر سے عالم اسلام میں رنج و غم کی ایک لہر پھیل گئی ساری دنیا کے مسلمانوں نے احتجاجی جلسے کئے اور قرار دا دیں پاس کیں جس میں سعودی جرائم کی تفصیل دی گئی۔ آنے والے سالوں میں عراق، شام اور مصر سے حج اور دیگر امور کے لئے آنے والوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ہزاروں مسلماں ان کے مظالم سے تنگ آکر مکہ اور مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ مسلمانوں کے مسلسل احتجاج پر سعودی حکمرانوں نے مزارات کی مرمت کی یقین دہانی کی مگر یہ وعدہ آج تک پورا نہ ہوا۔ اس ضمن میں تحریک خلافت کمیٹی کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔
آج جنت البقیع اور عالم اسلام کے حوالے سے ہمیں ایک منظم مہم چلانی ہوگی۔ دنیائے عرب میں مراکش سے عراق تک اور عجم میں ترکی سے انڈونیشیا تک کونسی مملکت ہے جہاں بزرگان دین، سیاستدان اور عامتہ المسلمین کے مزارات مرجع خلائق نہیں ہیں۔ بقیع کوئی عام قبرستان نہیں ہے بلکہ یہاں بلا اختلاف فرقہ ہر مسلمان کے لئے قابل احترام شخصیتیں دفن ہیں۔
انہدام جنت البقیع کے واقعہ کے باوجود، حضرت سرور کائنات ؑ کے روضہ کا وجود خود ایک معجزہ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت البقیع کا انہدام کوئی فقہی مسئلہ نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی تھی جس کی بنیاد خانوادہ اہلیبت (ع) سے دیرینہ عداوت تھی۔
دنیا میں تمام متمدن اقوام اپنے آبا و اجداد کے آثار کی حفاظت کے انتظامات کرتے ہیں۔ مصر میں اسوان ڈیم بنایا گیا تو اس سے متاثر ہونے والے آثار قدیمہ کے کھنڈرات کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے یونیسکو نے کثیر رقم خرچ کی۔ افغانستان کے شہر بامیان میں گو تم بدھ کے مجسموں کی توڑ پھوڑ پر ساری دنیا بشمول توحید پرستوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہا رکیا ۔لیکن افسوس ہے کہ ہمارے آزاد میڈیا کے لئے انہدام جنت البقیع کوئی قابل توجہ مسئلہ نہیں ہے۔آثار قدیمہ کی حفاظت حقوق انسانی کے زمرہ میں آتی ہے ہمیں سر نامہ کلام کی آیت: ''ااُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ ''کے رہنما اصول پر عمل کرتے ہوئے جذبات سے بالاتر ہو کر جنت البقیع کی بحالی کے لئے قابلِ عمل پالیسی اختیار کرنا ہوگی ۔اس معاملے میں بین القوامی تنظیم مثلاً یونیسکو ، عرب لیگ، موتمر عالم اسلامی ، تنظیم اسلامی کانفرنس (OIC ) اور عالمی انسانیحقوق کمیشن کو متوجہ کیا جائے۔اخبارات میں آئے دن اسلام کے حوالے سے جدیدیت کشادہ دلی اور صبر و تحمل کی پالسی اپنانے کی تلقین کی جاتی ہے اس پرعمل بھی کیا جائے۔
ماضی کے سیاسی سماجی اور جنگی جرائم پر مواخذہ اعتراف اور معافی اب ایک بین الاقوامی'' طریقہ تلافی'' کے طور پرقابل قبول اصول بن گیا ہے اس اصول کا اطلاق انہدام جنت البقیع کے مرتکبین پر بھی کیا جائے۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمراں اپنے پیشرؤں کے بر خلاف خود کو ایک روشن خیال رہنما ظاہر کر رہے ہیں۔ بہت سی غلطیوں کا اعتراف بھی کر چکے ہیں ۔ اورخود کواتحاد عالم اسلام کے پر جوش حامی بھی ظاہر کررہے ہیں تو کیوں نہ وہ یہ جرات مندانہ فیصلہ کریں اور عالم اسلامی کی ایک بہت بڑی خواہش کو عملی جامہ پہنائیں۔ خادمین حرمین شریفین کا دعوٰی کرنے والوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ حرمین شریفین، مکہ مدینہ جیسے مقدس شہر پر صرف ان کا نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا حق ہے۔ اور صرف ایک مسلک یا فرقے کی مرضی یا تعلیمات کو زبردستی عالم اسلام کے دوسرے فرقوں پرنہ تھوپا جائے۔ بلکہ عالم اسلام کے دوسرے فرقےجو اکثریت میں ہیں ان سب کا بھی احترام کیا جائے۔ ورنہ آپ خادمین حرمین شریفین نہیں کہلا سکتے۔ آپ کو حرمین شریفین کا لقب حاصل کرنے کے لئےتمام مسلمانوں کے حق رکھنے والے مقامات کی حقیقی خدمت کرنا ہوگی۔جس سے تمام عالم کے مسلمان مطمئن ہوں۔ کیونکہ دیکھا جائے تواس پر تمام عالم اسلام کے مسلمانوں کا حق ہے۔
ہم وزیر اعظم عمران خان صاحب سےگزارش کرتے ہیں کہ چونکہ آپ کے تعلقات سعودی حکمرانوں کے ساتھ اچھے ہیں اور سعودی حکمران اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔جس طرح پاکستانی قیدیوں کی آذادی جیسے مسئلے پر ان کو آپ نے راضی کیا۔ اسی طرح تمام محبان اہلبیت اور تمام عقیدہ کے سنجیدہ اور انصاف پسند مسلمانوںکی گزارش پر سعودی حکمرانوں سے درخواست کی جائے کہ شیعہ سنی اور ایک بڑی تعداد کے مسلمانوں کے دیرینہ مطالبے کا احترام کرتے ہوئےوہ ان مزارات کو خود بنا دیں یا پھر عالم اسلام کو اس کی اجازت دیدیں۔ اس معاملے میں بھی آپ کو خاطر خواہ کامیابی مل سکتی ہے۔اور بہت سارے مسلمانوں کی دعائیں آپ کا مقدر بنیں گی۔مسلمانوں اللہ پاک سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو اس کار خیر میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔



بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کی زندگی پر مضمون آج کے روزنامہ افلاک میں
تحریر: شبیر احمد شگری
9 جون 2019


گذشتہ دنوں مساجد کے بارے میں ایک مختصر تحریر لکھی مگر پرزور فرمائش تھی کہ اس بارے میں تفصیلی مضمون ہو۔ شکریے کے ساتھ پیش خدمت ہے۔

مسجد شیعہ یا سنی کی نہیں۔ مسجد اللہ کا گھر ہوتی ہے۔
تحریر: شبیر احمد شگری
انقلاب اسلامی ایران کے دوران حضرت امام خمینی ؒ نے کیا خوبصورت جملہ کہا۔"مسجد' مورچہ ہے ، ان مورچوں کی حفاظت کیجئے ۔''
گذشتہ دنوں کسی معروف صحافی کی تحریر پڑھی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ تہران میں ایک بھی سنی مسجد نہیں ہے۔ پڑھ کر بہت دکھ ھوا۔ کہ اپنی کم علمی کے باعث انھوں نے ایسی بات کی۔کاش کہ پہلے وہ تحقیق کرتے اور پھر اس بارے میں بات کرتے۔ اس سے پہلے بھی کچھ لوگوں سے یہ بات سن چکا تھا۔ مجھے اندازہ ھوا کہ اس افواہ کی شکل میں ایک غلط پروپیگنڈا ایران کے خلاف پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ اور ایران کے خلاف یہ پروپیگنڈا صرف اسی مسئلے پر یا آج سے نہیں بلکہ جب سے انقلاب اسلامی ایران آیا ہے اس وقت سے پھیلایا جا رہا ہے۔اس لئے میں اپنی پیاری عوام خصوصاً صحافی دوستوں سے گزارش کروں گا کہ خدارا کسی بھی صورت کسی سازش کا شکار ہوتے ہوئے اس طرح کے کسی بھی پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ آپ حمایت میں یا مخالفت میں لکھیں کیونکہ یہ ایک صحافی کا حق ہے لیکن یہ ضرور گزارش کروں گا کہ تحقیق ضرور کریں کیونکہ اچھی تحقیق آپ کو حقائق کی طرف لے جاتی ہے۔ اور حقیقت جو بھی ہو اسے آپ بیان کر سکتے ہیں ۔ میری اس تحریر کو پڑھ کر آپ کو سو فیصد اس موضوع کے بارے میں معلومات مل جائیں گی۔ بلکہ اگر کسی کے دل میں یہ ابہام ہو کہ ایران میں سنی مساجد نہیں ہیں۔ تو وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ اس جھوٹے پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ جب سے ایران میں انقلاب اسلامی آیا ہے اس وقت سے دشمن خوفزدہ ہے کہ کہیں یہ مسلمان ایک نہ ہوجائیں ورنہ ہماری دال روٹی کیسے چلے گی۔
کچھ شرپسندعناصرایران کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ایران میں اہلسنت مساجد نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر تہران میں اہلسنت مسجد نہیں ہے۔ جو کہ شر انگیزی پھیلانے والی باتیں ہیں ۔ میں ان سے یہ کہوں گا گہ ایران کے آئینی اور عوام کے خیال میں مسجد شیعہ یا سنی کی نہیں بلکہ مسجد ہوتی ہے اور اللہ کا گھر ہوتی ہے۔میری اس تحریر میں آپ یہ بھی جان سکیں گے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی میں مساجد کا ایک بڑا اور خوبصورت اسلامی کردار ہے۔ ایران میں ایسا سسٹم نہیں ہے کہ کسی دوسرے مسلک کی مسجد میں جائیں تو اٹھا کر آپ کو باہر پھینک دیں گے۔ اور مسجد کو پاک کرنا شروع کردیں گے۔ نہیں یہ تو دور کی بات ہے بلکہ اگر آپ ایران میں کہیں کھڑے ہوکر کسی کو شیعہ مسجد یاسنی مسجد کا پتہ پوچھیں گے تو سب سے پہلےوہ آپ کو اوپر سے نیچےتک اتنےغور سے دیکھے گا کہ شاید یہ کوئی خلا سے آئی ہوئی مخلوق ہے۔ پھر اندازہ کرتے ہوئے وہ آپ سے یہ سوال ضرور کرےگا کہ آپ ایران سے بار سے تشریف لائے ہیں۔ بیشک ایران میں اہل تشیع افراد کی تعداد زیادہ ہے جس طرح ہمارے ملک میں اہلسنت زیادہ۔ لیکن وہاں کا قانون اسلامی انقلاب کا مرہون منت ہے جو کہ تمام مسلمانوں کیا غیر مسلموں کے حقوق کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ اور بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کی خواہش اور کوششیں جو اسلامی وحدت کے حوالے سے تھیں وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ن کی کوششیں اس معاملے میں بے مثال ہیں۔ مثال کے طور پر ایک موقع پر امام خمینی ؒ نے امت مسلمہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا "تم ہاتھ باندھ کر اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے پر جھگڑ رہے ہو جبکہ دشمن تمھارے ہاتھ ہی کاٹ دینے کی فکر میں ہے"اسی طرح ایک اور موقع پر انھوں نے فرمایا" جو کوئی شیعہ یا سنی کے درمیان جھگڑے کی بات کرتا ہے وہ نہ تو شیعہ ہے اور نہ ہی سنی بلکہ استعمار کاایجنٹ ہے" یہ باتیں یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اچھی طرح سے جان لیں کہ جس انقلا ب اور سسٹم کا بانی اس طرح کی باتیں کر رہا ہو کیا اس کے اور اسلامی قوانین میں اس طرح کی اختلافی باتوں کی اہمیت رہ جاتی ہے۔ ایران کے آئینی اور اسلامی قانون کے مطابق ایران میں مسجد تو ہر جگہ ہوتی ہے لیکن مسجد شیعہ یا سنی کی نہیں ہوتی بلکہ علاقے کی اکثریت کے حساب سے شیعہ یا سنی اس مسجد کا امام ہوتا ہے اور اس کے پیچھےتمام شیعہ اور سنی مسلمان اکھٹے نماز پڑھتے ہیں۔ یعنی جس علاقے میں شیعہ اکثریت ہوگی وہاں ایک ہی مسجد ہی ہوگی اور امام مسجدشیعہ ہوگا۔ لیکن شیعہ سنی سب مسلمان اسی کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ اور اسی طرح سنی اکثریتی علاقے میں بھی اسی طرح کاسسٹم رائج ہوگا ۔ کہ ایک ہی مسجد میں سنی امام مسجد ہوگا اور تمام مسلمان اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ ذرا آپ تصور کریں کہ اگر پورا معاشرہ ایسا ہوجائے کہ کوئی ہاتھ باندھے اور کوئی ہاتھ چھوڑ کر سب اکھٹے نماز پڑھ رہیں ہوں تو کیا وحدت اور بھائی چارے کا سماں ہوگا۔ ایک دوسرے کے ساتھ کتنی محبت پیدا ہوجائے گی۔ نمازی چاہے کسی مسلک سے ہو ایک دوسرے کے ذاتی اور علاقے کے مسائل و مشکلات سب سے ہر کوئی آگاہ ہوگا اور معاشرے میں خود بخود خوبصورتی پیدا ہوجائے گی۔ مسجد کا ایک اصل اسلامی پہلو یہ بھی تھا لیکن مسالک اور فرقوں میں بٹنے کی وجہ سے ھم ایک دوسرے سے بہت دور ہوتے گئے۔ جس کی وجہ سے بے شمار مسائل اور مشکلات نے جنم لیا۔ تاریخی نقطۂ نظر سے مذہب انسانوں کی معاشرتی زندگی کے ساتھ بالکل ملا ہوا رہا ہے ۔ایک سماجی فطرت ہونے کی حیثیت سے مذہب قدرت کا ایسا مظہر ہے جو زندگی کو مفہوم و معنیٰ بخشتا ہے ۔ علاوہ ازیں مذہب تمام معاشروں میں فرض منصبی اور قانونی بنیاد رکھتا ہے اس تعریف کے ساتھ مذہب الگ سے کوئی وجود نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی وہ اپنے وجود کو دوام دے سکتا ہے مگر یہ کہ زندگی کے دوسرے شعبوں سے اس کا تعلق رہے اور یہ معاشرہ کے سماجی روابط کی شکل میں معاشرے کے ساتھ ملحق رہے ۔
اگر ہم اسلامی جمہوری ایران کے آئین کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ حقوق کے علاوہ تمام اسلامی مذاہب کے پیرووں کے لئے کچھ مزید امتیازات کی بھی رعایت کی گئی ہے جو حسب ذیل ہیں:
الف۔ آئین کی دفعہ نمبر 20 کے مطابق، سیاسی جماعتیں ، جمعیتیں ، سیاسی انجمنیں اور صنفی اور اسلامی انجمنیں تشکیل دینے کی آزادی-
ب۔ آئین کی دفعہ نمبر 64 کے مطابق اسلامی شوریٰ ( پارلیمنٹ) کا نمایندہ بننے کا حق -
ج۔ آئین کی دفعہ نمبر 19 اور 20 کے مطابق اسلامی تعلیمات کی رعایت کرتے ہوئے تمام انسانی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق میں ملک کے سب باشندوں کا مساوی ہونا-
ایران میں بیشک اہل تشیع مسلک کی تعداد زیادہ ہے لیکن ایران میں اہل سنت مسلک کے لوگ اکثر صوبہ سیستان و بلوچیستان، صوبہ کردستان ، صوبہ مغربی آذر بائیجان، صوبہ خراسان رضوی، صوبہ شمالی خراسان، صوبہ جنوبی خراسان، صوبہ بوشہر، صوبہ فارس کے جنوب میں اور صوبہ گلستان کے مشرق میں رہائش ہذیر ہیں- اس کے علاوہ ان کی ایک قلیل تعداد صوبہ گیلان اور بعض دوسرے صوبوں میں پھیلی ہوئی ہے- ملک کے مشرقی صوبہ سیستان و بلوچستان میں ہمارے اکثر سنی بھائی حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں-صوبہ سیستان و بلوچستان کے زاہدان، چابہار، ایرانشہر،خاش، سراوان، سرباز اور کنارک نامی شہروں میں اکثر اہل سنت رہتے ہیں- آبادی کے لحاظ سے اہل سنت کی آبادی والا دوسرے نمبر کا حامل صوبہ ایران کے مغرب میں عراق کی سرحد سے ملحق صوبہ کردستان ہے – اس صوبہ میں رہنے والے اکثر اہل سنت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں- اس صوبہ کے سندج، سردشت، مریوان، بانہ اور نقدہ نامی شہروں میں ہمارے اکثر سنی بھائی رہتے ہیں- ایران کی مغربی سرحد پر عراق اور ترکیہ سے ملحق مغربی آذر بائیجان کے صوبہ کے شہر مہاباد اور اشنویہ میں بھی بعض اہل سنت بھائی زندگی بسر کرتے ہیں- ایران کے ترکمن اہل سنت ایران کے شمال مشرقی صوبہ گلستان کے بندر ترکمن نامی شہر میں رہتے ہیں- اس صوبہ میں اکثر اہل سنت ترکمن ہیں-
ایران میں ستر ھزار سے زائد مساجد ہیں۔ جس میں سے دس ہزار سے زائد اہلسنت اکثریتی علاقوں کی مساجد ہیں ۔ایک اور مزے کی بات آپ کو بتاوں جو شاید آپ کے علم میں اضافے کا سبب بنے کہ ایران کے مذہبی شہر قم میں پوری دنیا سے تمام مسالک کے لوگ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں کیونکہ قم بہت بڑا علمی مرکز ہے۔ اور یہاں پر مسلمانوں کی چاروں فقہ پڑھائی جاتی ہیں۔اور یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ ایران میں صحیح اسلامی طرز کا قانون اور ماحول ہے۔ اور کھلے دل سے تمام مسلاک کا احترام کیا جاتا ہے۔
جس طرح کے ایران اور اسلام کے دشمن افراد ایران کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔اور اس پروپیگنڈے کا جواب میں ہم انقلاب اسلامی کے بانی حضرت امام خمینی ؒ جو کہ مسلک کے لحاظ سے ایک شیعہ عالم تھے لیکن ہم ان کے اس فرمان کو سامنے رکھ سکتے ہیں ۔ ” "ا سلام میں شیعوں اور اہل سنت کے درمیان بالکل کوئی فرق نہیں ہے،اور شیعوں اور اہل سنت کے درمیان فرق ہونا بھی نہیں چاہئے ، ہمیں اتحاد و یکجہتی کا تحفظ کر نا چاہئے – ہم ان کے بھائی ہیں اور وہ ہمارے بھائی ہیں – "
اب بتائیں اس کے بعد کیا کسر رہ جاتی ہے۔ایران کی اب تک کی کامیابی کا راز ہی یہی ہے اوروہ پوری دنیا کی مخالفت کے باوجوداسی لئے سینہ سپر ہوکر کھڑا ہے کہ اس نے صحیح معنوں میں اسلامی اقدار کو اپنا لیا ہے ۔ اور وہ دشمن کی سازشوں کا شکار نہیں ہوتے۔وہ شیعہ، سنی، وہابی اور فرقوں اور گروہوں میں بانٹنے والی سازش کا شکار نہیں ہوتے اور ایک بن کر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اسی لئے دشمن سب سے زیادہ ایران سے ہی ڈرتا ہے۔ کیونکہ نہ وہ بکتا ہے نہ جھکتا ہے۔کیونکہ اللہ کا حکم ہمارے لئے واضح ہے کہ
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا۔اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔کا ش کہ تمام امت مسلمہ اسی طرح ایک لڑی میں پرو جائے اور مسلمانوں کے تمام مسائل حل ہوجائیں۔
بات انقلاب اسلامی کی ہورہی ہے تو آپ کو اس حوالے سے بھی بتائیں کہ انقلاب اسلامی کے لئے مساجد کا کیا کردار رہا ہے تو آپ کو نہ صرف اسلام کے اس انقلاب بلکہ مساجد کی بھی ایک خوبصورت شکل نظر آئے گی۔کیونکہ عین ممکن ہے آج تمام دنیا کے مسلمانوں نے اسلامی جمہوری ایران کے سسٹم کو اس نظر سے دیکھنے کی کوشش نہ کی ہو۔
ایران کے اسلامی انقلاب میں مسجدوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مذہب کا دوسرے سماجی شعبوں سے رابطہ قائم کریں اور مذہب کو معاشرہ کے سماجی روابطہ میں رائج کریں۔ دوسری طرف مسجدیں سیاست کا مذہب کے ساتھ رابطہ قائم کرنے اور اس رابطہ کا جواز پیش کرنے میں بھی کوشاں ہیں، کیوں کہ سیاست بھی انسان کی معاشرتی زندگی کا ایک حصہ ہے اور یہ مظہر خود بخود وجود میں نہیں آسکتا اور نہ ہی اپنے وجود کو قائم رکھ سکتا ہے ۔ لیکن مذہب سے ان کا رابطہ برقرار کرکے سیاست کے وجود کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے کیوں کہ سیاسی امور کو مذہبی رنگ ملنے سے قانونی و معنوی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ سیاسی مقاصد کو اخلاقی اصولوں پر پورا اترنا چاہیے ٔ۔ انقلاب کے بعد ایران میں مذہب اور سیاست ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں اور اس میدان میں مسجدوں کا کردار بڑا واضح ہے ۔صرف یہی کہنا کافی ہے کہ پہلوی حکومت کے زوال کے نتیجہ میں ملک کے نظم و نسق میں جو خلا پیدا ہوگیا تھا اسے مسجدوں میں قائم کردہ کمییٹیوں نے پر کردیا اور بھی کمیٹیاں بعد میں انقلابی تنظیموں کی شکل اختیار کرگئیں اور مسجدیں آزادی ملنے کے سبب فوجی، سیاسی و نظریاتی سرگرمیوں کا مرکز بن گئیں اور عوام کی ضروریات پوری کرنے لگیں۔
انقلاب کے دوران بانی انقلاب اسلامی نے کیا خوبصورت جملہ کہا۔"مسجد' مورچہ ہے ، ان مورچوں کی حفاظت کیجئے ۔''
اسلامی انقلاب سے پیشتر ایران میں مسجدوں کا کام نماز کی ادائیگی کے علاوہ وعظ کرنا، کتابیں جاری کرنا اور بلا سود قرضے فراہم کرنے سے متعلق تھا اور عورتیں اور مرد مختلف اوقات میں ان سے استفادہ کرتے تھے ۔ لیکن انقلاب کے وقت اور انقلاب کے بعد مساجد نے روز بروز نئی نئی ذمہ داریاں اور سرگرمیاں اپنے ذمہ لے لیں۔ مثلاً مسجدوں نے عوام سے مالی امداد جمع کرکے شہیدوں کے خاندانوں اور غریب و مستحق لوگوں میں تقسیم کی۔ بلا سود قرضے دینے والے بنکوں کی روایتی شکل تبدیل کردی گئی اور مالی امداد کو انقلاب کی ضروریات کے لئے مختص کردیا گیا۔ اس طرح انقلاب کے نتیجہ میں عوام کو پیش آنے والی اقتصادی مشکلات کو مسجدوں نے براہ راست حل کیا۔ مسجدوں نے موسم سرما میں ہر محلہ کے مکینوں میں براہ راست مٹی کا تیل تقسیم کیا اور ان کو تیل کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ مسجدیں اسلامی محافظ و مجاہد اور فوجی ساز و سامان جمع کرنے والی چھاونیاں بن گئیں مسجدوں میں ہی محافظوں کے لئے خورد و نوش اور دیگر سہولیات کا اہتمام کیا گیا اورآہستہ آہستہ انقلابی کمیٹیوں ے مسجدوں میں جگہ پالی۔انقلاب کے وقت طاقت کے فقدان نے جو کچھ مٹا دیا تھا اس نے انقلابی معاشرہ کے لئے امن و امان کے تحفظ کا مسئلہ پیدا کردیا۔ مسجدوں میں قائم کمیٹیوں نے اپنی انقلابی توانائیاں یکجا کرکے انقلاب دشمن عناصر سے عملی طور پر نمٹنے کا انتظام کرلیا۔مسجدیں فن حرب اور اسلحہ کی تربیت گاہ بن گئیں۔
مختلف مسجدوں میں کتابوں، کیسٹوں، پٹینگز، تصویروں اور سلائیڈوں کی نمائشیں منعقد کی گئیں۔شاہی حکومت کے خلاف انقلابی تقریریں، آزاد بحث، جلسے اور حالات حاضرہ کا تجزیہ مسجدوں ہی میں پیش کیا گیا۔ مسجدیں مسلمانوں کی مشکلات کی عقدہ کشائی کی آماجگاہ بن گئیں۔
انقلاب کی کامیابی سے پیشتر کوڑا کرکٹ جمع کرنے کا کام جو بلدیہ کے ذریعے انجام پاتا تھا، بلدیہ کے کارکنوں کی ہڑتال کے باعث مسجدوں پر پڑا اور ہر محلہ میں عوام نے مسجدوں کی وساطت سے اس ضرورت کو پورا کیا۔
مسجدوں نے عوام کے خاندانی اختلافات اور قانونی مسائل کو حل کیا۔ انقلاب کے دوران میں مسجدوں نے دوائیں،روئی، ڈاکٹری اور دوا سازی کے آلات جمع کئے اور ان کو ہسپتالوں کے حوالے کیا۔
مختصر یہ کہ مسجدوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کے دوران میں حکومت کے فرض منصبی کے مانند کام انجام دیئے لیکن مسجد کے کام کا طریقہ مرکزیت کے نظام سے ہٹ کر تھا۔ اگرچہ مسجدوں کو سرکاری اداروں کی سی سہولتیں حاصل نہ تھیں لیکن کسی حد تک ایک مسجد میں انجام پانے والے کام دوسری مسجدوں سے ہم آہنگ تھے اور اپنے علاقہ سے رابطہ رکھ کر ہر مسجد کام کی شکل، نوعیت اور سہولتوں کے اعتبار سے خود کفیل تھی اور تقریباً آزاد و خود مختار ہوکر کام کرتی تھی اور محلہ کے مکینوں کی مدد سے عوام کی ضروریات پوری کرتی اور مشکلات دور کرتی تھی۔
تہران کے مشرق علاقہ میں کام کاج کے مرکز کی حیثیت سے جو مسجد خوب کام کررہی تھی وہ مسجد مسلم بن عقیل تھی۔ زیادہ تر کوشش یہ ہوتی تھی کہ اچھے قسم کے علما، مبلغین اور واعظین کو دعوت دی جائے۔ چنانچہ وہ آتے اور عوام کے مسائل کو بڑی وضاحت کے ساتھ زیر غور لاتے اور امام خمینیؒ کے پیغامات کو بڑے واضح انداز میں عوام کے سامنے پیش کرتے تھے ۔ ایسے اشخاص کو مسجد میں تقریر کی دعوت دی جاتی تھی جو منبر پر بیٹھ کر امام خمینیؒ کے بیانات کو شروع سے لے کر آخر تک ایک لفظ بھی کم کئے بغیر بیان کرتے تھے ۔ اس وقت کے حالات میں یہ بڑا خطرناک کام تھا اور شاہ کی پولیس مسجد کو ہمیشہ گھیرے رکھتی تھی۔ خفیہ پولیس ساواک کی بھی اس مسجد پر کڑی نظری تھی اور مقررین جن کو دعوت دی جاتی تھی ان کی بھی سخت نگرانی کی جاتی تھی۔
بہرحال مسجد کی سرگرمی اور اس کے فعالانہ عمل میں ان چیزوں سے کوئی خلل نہ پڑا۔ فضائیہ کے باایمان جوانوں نے مسجد اور گھروں سے برابر اپنا رابطہ قائم رکھا اور خفیہ طور پر ملاقاتیں بھی کیں۔
لائبریری، عربی درس کا کلاسوں، قرآن مجید کی تفسیر، اخلاق و اصول عقائد کے پروگرام مسجد میں اس وقت سے جاری تھے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی دین مقدس اسلام کی تبلیغ ترویج کے پروگرام اسی طرح جاری ہیں۔ اس مسجد کے علاوہ علاقہ کا مرکزی دفتر بھی ایسی ہی سرگرمی کا مرکز تھا اور انقلاب اسلامی اور عوامی املاک کی حفاظت کے سلسلے میں پاسداران انقلاب (انقلابی محافظین) بڑے سرگرم عمل تھے ، انقلاب کے شروع میں علاقہ میں پاسداراوں کی تعداد سولہ سو کے قریب تھی۔
مسلط شدہ جنگ کے بعد مسجد کا بھی ایک کام عوام سے چندہ اکٹھا کرنا رہا ۔ مختلف علاقوں کے لوگ کمبل لیمپ، لباس جیسی اشیا سے جو مدد کرتے وہ مسجدوں میں جمع ہوجاتی ہیں اور وہاں سے ان چیزوں کو جنگی علاقوں میں بھیج دیا جاتا اور جن اشیا کو بھیجنے کے لئے مسجد کے پاس معقول انتظام نہیں ہوتا وہ امام کی امدادی کمیٹی کو بھیج دی جاتی ہیں تاکہ کمیٹی ان کو جنگی علاقوں میں پہنچانے کا انتظام کرے ۔
کم آمدنی والے افراد کی ضرورت پوری کرنے کے لئے مسجد کے بالمقابل ایک عمارت میں بلا سود قرضہ جاری کرنے کا دفتر قائم کیا گیا۔ ابتدا میں شادی کے اخراجات، گھروں کی مرمت، بیماری، وغیرہ اور کام شروع کرنے کے لئے قرضہ دیا جاتا تھا۔مسجد میں فوجی اور اسلامی تعلیمات کی کلاسوں کا بھی اہتمام تھا ۔ آٹھ سے چودہ سال کے بچوں اور نوجوانوں کو دعوت دی گئی کہ مذکورہ کلاسوں سے استفادہ کریں۔مسجد کی انجمن اسلامی، مومن اور مکتبی مقررین کو دعوت دیتی تاکہ وہ عوام کو اسلام اور دین سے آشنا کریں۔
اس لحاظ سے تمام مسجدیں ایک ہوکر عوام کے اجتماع، بحث و گفتگو اور تبادلہ خیالات اور جنگ آزما توانائیوں کی ہم آہنگی کا مرکز بن گئیں اور اپنی اولین صورت اختیار کرگئیں اور حسینیہ اور مہدیہ جسے امام باڑے بھی مسجدوں کی طرح فعال ہوگئے۔
شاہی حکومت کے خاتمہ کے بعد مسجدوں میں عوامی اور انقلابی قوتوں کے اکٹھا ہوجانے کی وجہ سے ان کو حکومت کی مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی اور اسلامی جمہوریہ کی اولین بنیاد کے طور پر کام کرنے لگیں۔ اکثر مسجدوں کو انقلابی کمیٹیوں اور مسلح انقلابی افراد نے اپنا مورچہ بنالیا اور وہاں سے انقلاب دشمن افراد کا مقابلہ اور امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول کرنے لگے ۔
استصواب رائے کے انعقاد کے دنوں میں ایران کے اکثر علاقوں میں مسجدوں ہی میں رائے دہی کے صندوق رکھے گئے ۔ انقلاب اور اسلام سے متعلق فلم اور سلائیڈ اور کتابوں وغیرہ کی نمائش، اور ایسی ہی ثقافتی سرگرمیاں تھیں جن کا اہتمام مسجدوں میں کیا گیا۔ سکاوٹس کی سرگرمیوں کی آماجگاہ بھی مسجدیں تھیں اور یہیں سے سکاوٹس کے مختلف دستوں کو دینی، اخلاقی، فنی تربیت اور مہارت کے پروگرام مرتب کرنے میں مدد ملی۔ اسلام میں موجود ایک اہم ترین روایت یعنی عدل کی روایت آخری دور میں مسجدوں میں زندہ ہوگئی ۔
ایران پر عراق کی مسلط جنگ میں بھی مسجدیں جنگ زدہ شہروں کے عوام کی پناہ گاہ اور اشیائے خوردنی کے جمع کرنے کامرکز بن گئیں۔ صدام کی حکومت نے انسانیت کے برخلاف ایران کی مسجدوں اور ہسپتالوں پر بھی بمباری کی لیکن آخری اور مضبوط ترین جگہ جو جارح فوجوں کے ہاتھ آئی یہی مسجدیں تھیں کیوں کہ یہ معنوی اور مادی رشتہ قائم رکھے ہوئے تھیں اور زندگی کے نئے دور کا نمونہ تھیں۔ ایران میں مسجدیں، مذہبی، سیاسی، امدادی، تربیتی، فوجی اور عدلیہ جیسی گوناگوں سرگرمیوں کا مرکز ہیں اور یہ خود ایسی علامت ہے کہ مسجد ایک سماجی و ثقافتی ادارہ کی حیثیت سے معاشرہ سے گہرے روابطہ اور عوام سے اتحاد و ارتباط کی صلاحیت رکھتی ہے اور آج کی دنیا ایران اور اسلام میں اپنی موجودگی کا ثبوت دے سکتی ہے ۔ اس لحاظ سے اہل فکر و نظر کے خیال کے مطابق بہتر ہے کہ اسلامی مسائل کو چوٹی کے مسائل قرار دے کر انہیں مسجدوں میں آزادانہ تقریر، تبادلۂ خیالات اور بحث و مباحثے کے ذریعے حل کیا جائے ۔ حتی کہ اسلام کے مخالفین کو بھی ان میں شریک ہونے کی اجازت ہونی چاہیے ٔ۔
ایران میں انقلاب اسلامی کے دوران اور بعد میں مساجد کے کردار کو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ مسجدوں نے عوام کو دینی و مکتبی آگہی دینے کی کوشش کی ہے تاکہ تمام اقتصادی، سیاسی اور معاشتی سرگرمیوں کے ساتھ خدائی معاشرہ کے حقیقی فروغ کا راستہ ہموار کرسکیں اور اس طریقے سے اسلامی انقلاب کی حفاظت کریں۔
مسجدوں کے ذریعے سے بہت سے کام انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ ان میں ثقافتی ، سیاسی، معاشرتی و ہنری، امدادی اور دینی سرگرمیاں شامل ہیں۔ لیکن اصول طور پر مسجد عبادت کی جگہ ہے ۔ عبادت کبھی انفرادی ہوتی ہے جیسے انفرادی نماز اور رات کی نمازیں، اور کبھی اجتماعی ہوتی ہے جیسے پانچ وقت کی نماز باجماعت اور نماز جمعہ جو اپنے خصوصی ضوابط کے مطابق عبادت کا پہلو بھی رکھتی ہے اور ایک سیاسی نماز بھی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے کاموں کی اصلاح ہے اور ان میں اتحاد کو برقرار کرنا ہے ۔
بہرحال اسلامی مسائل پر ماہرین کی رائے کے مطابق مسجدوں کی جو تمام سرگرمیاں خدا کی راہ میں ہر قسم کی خدمت اور اسلامی انقلاب کی حفاظت کے لئے مرتب ہوں اور ان پر عمل ہونا چاہیے ٔ۔ اس لئے لازم ہے کہ مسجدیں معاشرہ میں اخلاقی و فکری تبدیلی لاکر جو تمام معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی تبدیلیوں کی اساس ہے ، مذکورہ مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کرتی رہیں ۔اسلامی انقلاب کی حفاظت کے لئے مسجدوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑائی جانی چاہیے۔ اور ان کی سرگرمیوں میں وسعت اور عوام کے لئے دلچسپ اور موثر جدت پیدا کرنی چاہیے ٔ۔ مسجدوں میں نماز باجماعت ادا کرنے کو اہمیت دی جانی چاہیے ٔ۔ اسلامی انقلاب میں مسجدیں دوبارہ زندہ ہوگئی ہیں وہ ایسی چھاونیاں ہیں جن کی تائید و حمایت ہونی چاہیے ٔ۔ کیوں کہ یہ اسلام کی حقیقت کے فروغ کے مراکز ہیں۔ مسجدیں اسلامی انقلاب کی حفاظت کے لئے مورچہ ہیں انہیں بھرا رہنا چاہیے۔ اور روشن خیال و بیدار مغز مقررین سے جو عوام کو ان کے معاشرتی فرائض سے آگاہ کرسکیں استفادہ کرنا چاہیے ٔ۔ اسلام سب لوگوں کو وحدت اور توحید کی طرف بلاتا ہے ۔ مسجدوں میں جاکر لوگ ایک دوسرے کی مشکلات سے واقف ہوکر ان کو دور کرنے کی تدابیر کرسکتے ہیں ایک دوسرے سے بات چیت کے ذریعے اپنے عقیدہ کے اختلافات کو کم کرسکتے ہیں اور وحدت و توحید کے نظریےکو زیادہ سے زیادہ عمل میں لاسکتے ہیں۔ اس طرح خدائی کام اور ایمان و اتحاد کا تحفظ کرسکتے ہیں اور سارے کام خدا کے لئے اور اسلام کی حفاظت پر مرکوز کرسکتے ہیں


حضرت امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پرآج کے روزنامہ 92 میں
حضرت امام خمینی ؒ کے حالات زندگی پر چھپنے والا آرٹیکل
"حضرت امام خمینی ؒ کی انقلابی جدوجہد"
تحریر: شبیر احمد شگری
4 جون 2019
آنلائن پڑھنے کے لئے کلک کریں۔


حضرت امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر آج کے روزنامہ افلاک کی خصوصی اشاعت
تحریر: شبیر احمد شگری
ہم روزنامہ افلاک کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ ہر سال امام خمینیؒ کے بارے میں خصوصی اشاعت کااہتمام کرتے ہیں۔
4 جون 2019
آنلائن پڑھنے کے لئے کلک کریں۔


آج کے روزنامہ لندن نیوز میں حضرت امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر
حضرت امام خمینی ؒ کے حالات زندگی پر چھپنے والا آرٹیکل
تحریر: شبیر احمد شگری
4 جون 2019








یوم القدس کی اہمیت
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک
28 مئی 2019


"فلسطین کی بے بسی اور عالم اسلام کی بے حسی"
تحریر: شبیر احمد شگری
30 مئی 2019


سب سے بڑا دہشت گرد کون؟
تحریر: شبیر احمد شگری
لندن نیوز
28 مئی 2019




آج کے روزنامہ لندن نیوز میں چھپنے والی میری تحریر
"فزت و رب الکعبہ"
27/05/2019


پاک ایران گیس پائپ لائین کے بارے میں روزنامہ افلاک میں چھپنے والا کالم
15 مئی 2019


پاک ایران گیس پائپ لائین کے بارے میں لندن نیوز میں چھپنے والا کالم
15 مئی 2019 


سب سے بڑا دہشت گرد
تحریر: شبیر احمد شگری
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر کیے گئے حملوں میں ہلاک ہونے والے 34 سالہ پاکستانی سید جہانداد علی کی اہلیہ آمنہ جہانداد جب نیوزی لینڈ کے لئےایئر پورٹ کی جانب روانہ ہوئیں تو ان کی چار سالہ بیٹی میشا شاہ نے اپنی والدہ سے سوال کیا: 'مما ہم کیوں جارہے ہیں، ڈیڈی نے تو کہا تھا کہ اس دفعہ وہ ہم لوگوں کو لینے آئیں گے۔اپنے تین کم عمر بچوں کے ہمراہ نیوزی لینڈ کے لیے روانہ ہونے والی آمنہ کے پاس اپنی بیٹی کے اس معصومانہ اور دردناک سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کیونکہ نیوزی لینڈ میں ایسا درناک واقعہ پیش آچکا تھا کہ جس میں سید جہانداد علی اور 50 دیگر مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ان شہدا میں پاکستان کے 6 شہید بھی شامل ہیں۔ جس میں پاکستانی شہری نعیم راشدنے بہادری کی مثال قائم کرتے ہوئے حملہ آور کوسامنے سے روکنے کی کوشش کی اور جام شہادت نوش کرگئے۔ فائرنگ کی زد میں آکر نعیم راشد کے بڑے بیٹے طلحہ راشد بھی شہید ہوگئے۔ نعیم راشدایبٹ آباد سے نیوزی لینڈ منتقل ہوئے تھے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ کرائسٹ چرچ مساجد پر حملہ کر کے 51 نمازیوں کو شہید اور 40 سے زائد کو زخمی کرنے والے سفید فام انتہا پسند آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرینٹ پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت دفعات عائد کردی گئی ہیں۔ اورنیوزی لینڈ میں پہلی مرتبہ کسی ملزم پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلے گا۔ نیوزی لینڈ پولیس نے مساجد حملے میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کے سامنے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ برینٹن ٹیرینٹ پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمے کی سماعت جون میں ہوگئی اور یہ سماعت دہشت گردی ایکٹ کے تحت ہوگی جب کہ ملزم کو 50 قتل اور 40 اقدام قتل کے مقدمات کا سامنا بھی ہوگا۔اس سے پہلے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اس واقعے کے بعد متعدد بار مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کر چکی ہیں اب ان کا یہ اقدام اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ اپنے اس موفق میں سنجیدہ ہیں۔
بہر حال اصل مقصد تو یہی ہے کہ نہ صرف اس سفاک قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے بلکہ اس کے محرکات بھی دیکھیے جائیں کہ کیوں اس نے ایسا کیا اور اس کے پیچھے کون تھا۔اس کا ٹارگٹ صرف مسلمان ہی کیوں تھے؟ اس لیے کہ عالمی یہودی میڈیا تسلسل کے ساتھ مسلم مخالف مہم چلاتا رہا ہے جس کا توڑ مسلم ملک کے نام نہاد ٹیلی ویژن دانشور نہ کرسکے۔
یہ بتایا جارہا ہے کہ نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ آور ہونے والے اس دہشت گردنے کچھ عرصہ قبل اسرائیل بھی گیا تھا۔ اور صیہونیوں کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں صرف فلسطین پر ہی اس کے مظالم نہیں ہورہے دوسرے اسلامی ممالک اور عالم اسلام کے خلاف ان کی نفرت کوئی نئی طات نہیں ہے۔ امریکہ کی پشت پناہی میں اسرائیل مسلمانوں پر بے انتہا ظلم کی تاریخ رقم کر رہا ہے۔اس لئے کچھ بعید نہیں کہ اس میں اسرائیل کا ہاتھ ہو ۔ فلسطین میں چھوٹے سے ٹکڑے سے بڑھتے بڑھتے آج اسرائیل کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھتے ہیں۔ان کا بس نہیں چلتا کہ کب مسلمانوں کو کس طرح دنیا میں بدنام کیا جائے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جائیں۔ کیوں کہ کچھ عرصہ قبل ان کے لئے بہت خطرہ پیدا ہوگا تھا کہ اسلام دنیا میں امن پسند مذہب کے طور پر ابھرنے لگا تھا۔ اور بہت زیادہ تعداد میں دنیا کے غیر مسلم مسلماں ہونا شروع ہوگئے تھے۔ تو اس کا خطرہ اسرائیل اور امریکہ سے زیادہ کس کو ہو سکتا ہے۔
دیکھیں نائن الیون کے بعد دنیا میں مسلمانوں کے خلاف پھیلنے والی نفرت ہی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ اور کئی دیگر مغربی سیاست دان اقتدار تک پہنچے ہیں۔ ان انتہا پسند نظریات استعمال کرتے ہوئے سیکولر مغربی ممالک کی کئی سیاسی پارٹیاں اپنا ووٹ بینک بڑھا رہی ہیں۔
اس نفرت کی تاریخ دلچسپ ہے۔ سنہ ساٹھ کی دہائی سے امریکہ اور اس کے اتحادی مسلم ممالک نوجوانوں کو انتہا پسند جنگجو بنانے کی پالیسی پر گامزن تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سرمایہ دار مغربی ممالک کے لئے سب سے بڑا خطرہ سوویت یونین کا کمیونسٹ بلاک ہے۔
”مشتعل مسلمان“ کے نام پر نیویارک کے ٹوین ٹاورز پر حملہ کیا جاتا ہےاور اس حملے کے بعد مغربی شہریوں کا طرز زندگی بدلنے لگتا ہے اور انھیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کے مصائب کا سبب مسلمان ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کرنے والے چند مسلمانوں کو ہی تمام مسلمانوں کا حقیقی چہرہ قرار دینا شروع کر دیا۔ پھر جب امریکہ اور پھر یورپ میں بھی پے در پے دہشت گرد حملے ہونے لگے تو مغربی عوام میں اس خوف نے شدت پکڑ لی جسے اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔ اور پھر ان طاقتوں نے اپنے کئے ہوئے ناپاک کرتوتوں کو مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال کر اسی بات کا بہانہ بناتے ہوئے سارے عالم اسلام پر چڑھائی کردی۔اب مغرب کے عام نوجوان بھی القاعدہ اور داعش کی دہشت گردی سے متاثر ہو کر عام مسلمانوں سے نفرت کرنے کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔خدشہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ نفرت بڑھتی جارہی ہے ۔ تو شاید ان اسلام دشمنوں کا مقصد ہی یہی ہو کہ ساری دنیا کے اقوام کی توجہ اس طرف دلائی جاسکے کہ اسلام ایک شدت پسند مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد ہیں۔ وہ دوسرے مذاہب سے نفرت کرتے ہیں۔ اور اس کا سب سےزیادہ فائدہ کس کو ہوگا جو اسلام دشمنی میں سب سے آگے ہیں۔وہ امریکا یا اسرائیل کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔
داعش کے سرغنہ کو بھی شروع ہی سے اسرائیل سے منسوب کیا گیا ہے اسی طرح نیوزی لینڈ کی مسجد میں حملہ آور کا بھی کچھ عرصہ قبل اسرائیل کا بھی وزٹ کرنا کچھ عجب نہیں ہے اور اس کی کڑیاں ملتی نظر آتی ہیں۔ اس میں ان کے ایک کے ناپاک عزائم یہی تھے کہ پوری دنیا میں لوگ اس طرح ہتھیار ہاتھوں میں لے کر مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ جیسا کہ نیوزی لینڈ میں حملے کی خبر آتے ہی لندن کی ایک مسجد کے باہر چند انتہا پسند برطانوی افراد نے ایک نمازی کی گاڑی پر ہتھوڑوں سے حملہ کیا۔ وہ بمشکل جان بچا کر بھاگا ۔
مقصد دشمنان اسلام کا یہی ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنا جرم چھپا سکیں دوسری طرف مسلمانوں کو شدت پسند ظاہر کیا جاسکے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان کو اپنے اس مذموم مقاصد میں زیادہ کامیابی نہیں ہوسکی۔اور اس حملہ آور کی مساجد پر حملہ کرتے وقت کی ویڈیو کو براہ راست سوشل میڈیا پر دکھانا کیا ظاہر کرتا ہے۔یقین کریں جب یہ ویڈیو ہم دیکھیں تو کافی دیر تک تو یہی احساس ہوتا ہے کہ ہم کوئی ویڈیو گیم کھیل رہے ہیں۔ اس سے میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہمارے بچے جو اغیار کی بنائی ہوئی ویڈیو گیمز اکثر کھیل رہے ہوتے ہیں ان میں اکثر شدت پسندی ہوتی ہے۔ تو کیا یہ بھی نئی نسل کو شدت پسند بنانے کی سازش نہیں ہے۔
اس لئے پوری دنیا کو جان لینا چاہئے کہ آج مسلمانوں پر حملہ کرنے والے اور ان کے ساتھی اصل دہشت گرد ہیں ، اسرائیل دہشت گرد ہے جو نہتے مسلمان فلسطینیوں حتیٰ کہ کم سن بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ لیکن دنیا کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں اوراقوام عالم کو یہ نظر نہیں آتا کہ مجبوری اور بے بسی میں ہاتھوں میں پتھر کو ہتھیار کے طور پر لئے ہوئے یہ کم سن مسلمان بچے دہشت گرد نہیں بلکہ ان پر ظلم کرنے والے دہشت گرد ہیں۔
اس لئے ہمی انھیں یہ بتانا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اسلام امن کا گہوارہ ہے۔ اسلام میں دہشت گردی تو کی کسی پر ذرا سی بھی زیادتی کی اجازت نہیں ہے۔ اس لئے چند کرائے کے ٹٹووں سے اوچھی حرکتیں کروا کر اور معصوم لوگوں کے خون بہا کر وہ اسلام کو بدنام نہیں کرسکتے۔ یہ صرف ہم مسلمانوں کی بدبختی ہے کہ ہم ایک نہیں ہیں کاش کہ آج ہم می سے کچھ شرپسند تمھارے ہاتھوں میں نہ کھیلتے، کاش آج سارے دنیا کے مسلمان ایک ہوتے۔ تو ہم آج دیکھتے کہ تم اس طرح کی جرات کیسے کرتے۔مسلمانو جاگ جائے آج ہماری بقا صرف اتحاد و یگانیت میں ہے۔ اپنے دوسرے ساتھی مسلمانوں پر ہونے والی زیادتی پر خاموش رہنا اور کبوتر کی طرح آنکھیں میچ کر بیٹھ جانے سے نہیں بچوگے ۔ ان ظالموں نے سب کے نمبر لگائے ہوئے ہیں یہ نہ سوچنا کہ ہماری باری نہیں آئے گی۔ اس لئے جاگ جاو ایک ہو جاو اور اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھا م لو اور یہی ایک حل ہےآج کی مسلم امہ کا مسائل سے نجات کا۔ باقی رہے نام اللہ کا
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں 


آج ملا صدرا کا دن ھے۔
ایران کی تاریخ میں ابن سینا ، سہروردی اور خواجہ طوسی جیسے مایہ ناز فلسفی گزرے ہیں جنھیں دنیا خوب پہچانتی ہے اور ملا صدرا نے بھی 400 سال پہلے اصفہان اور قم میں تعلیم اور تربیت اور تالیف میں نمایاں کارنامے انجام دیئے اور ایک بے مثال اور عظیم فلسفی نظریے کی داغ بیل ڈالی اس عظیم فلسفی کو جیسا پہچاننا چاہیے تھا ویسا نہیں پہچانا گیا۔
ﻣﻼ ﺻﺪﺭﺍ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯﺳﺎﺕ ﺑﺎﺭ ﭘﯿﺪﻝ ﻣﮑﮧ ﻣﻌﻈﻤﮧ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﮐﯿﺎ۔ ﺁﺝ ﺳﮯ ﭼﺎﺭ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﺳﻔﺮ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﯾﺎﺍﻭﻧﭧ ﭘﺮ ﻃﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﮧ ﭘﮩﻮﻧﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺣﺠﺎﺯ ﮐﮯ ﺧﺸﮏ ﺻﺤﺮﺍ ﺳﮯ ﮔﺬﺭﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﻔﺮ ﺣﺞ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺭﯾﺎﺿﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻧﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﻋﺎﻟﻢ ﺷﯿﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﺎﯾﮧ ﻧﺎﺯ ﺣﮑﯿﻢ ‏( ﻓﯿﻠﺴﻮﻑ ‏) ، ﻋﺎﺭﻑ، ﻣﺤﺪﺙ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﺴﺮ ﺻﺪﺭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﯿﺮﺍﺯﯼ ، ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺻﺪﺭﺍﻟﻤﺘﺄﻟﮩﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﻼ ﺻﺪﺭﺍ ۹ ﺟﻤﺎﺩﯼ ﺍﻻﻭﻝ ﺳﻨﮧ۹۷۹ﯾﺎ ۹۸۰ﮨﺠﺮﯼ ﮐﻮ ﺷﯿﺮﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ۔۔
ﻭﻗﻮﻉ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﮐﮯ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻭ ﻋﻠﻞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺻﺤﺎﻓﯽ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻤﯿﻨﯽؒ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﺠﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ؛ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡﷺ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺘﺄﺛﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﭖ ﭘﺮ ﺍﺛﺮ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ؟۔
ﺟﻮﺍﺏ : ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﻓﯽ ﺍﻟﻔﻮﺭ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺳﮑﮯ ﮐﮧ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﻼ ﺻﺪﺭﺍ ‏( ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ‏) ، ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ، ﻓﻘﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﮨﺮ۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻋﻠﻮﻡ ﻏﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﻓﯽ ﺍﻟﻮﻗﺖ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ‏( ﺻﺤﯿﻔﮧٔ ﺍﻣﺎﻡ، ﺝ۵، ﺹ۲۷۱۔ ﻭﻗﻮﻉ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﮐﮯ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻭ ﻋﻠﻞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﻨﯿﻦ ﮨﯿﮑﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ‏) ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻤﯿﻨﯽؒ ﻧﮯ ﺷﺮﺡ ﭼﮩﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﻣﻼ ﺻﺪﺭﺍ ﮐﻮ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﮐﺎ ﻓﺨﺮ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺍﻟﻘﺎﺏ ﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ :
’’ ﺟﻨﺎﺏ ﻣﺤﻘﻖ ﻓﻼﺳﻔﮧ ﻭ ﻓﺨﺮ ﻃﺎﯾﻔﮧ ﺣﻘﮧ، ﺻﺪﺭ ﺍﻟﻤﺘﺄﻟﮩﯿﻦ، ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮧ


دنیا کی نظروں میں کھٹکتا ہوا پاک ایران گیس منصوبہ
تحریر: شبیر احمد شگری

پاک ایران گیس پائپ لائن ایک اہم نوعیت کا منصوبہ ہے پاکستان اور ایران دونوں ممالک نے اس منصوبے پر دستخظ کر رکھے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں اس منصوبے پر لگی ہیں۔پاکستان اور ایران نے 16 مارچ، 2010 کو انقرہ میں پاک ایران گیس معاہدے پر حتمی دستخط کیے تھے۔ دو طرفہ معاہدے کی رو سے یہ طے کیا گیا کہ اگر پاکستان اس منصوبے کو 2014 کے آخر تک مکمل نہیں کرتا تو اس پر یومیہ 10 لاکھ ڈالر جرمانہ عائد ہو جائے گا جو تب تک لاگو رہے گا جب تک پاکستان اس منصوبے کو مکمل نہیں کر دیتا۔
ایران نے اپنے حصے کا کام وقت پر مکمل کر دیا تھا لیکن ہمارے سابقہ حکمرانوں کی جانب سے سستی دکھائی گئی اور کہا گیا کہ نجی کاروباری لوگ اس منصوبے میں دلچسپی نہیں لے رہے اور پاکستان کے پاس اتنے فنڈزنہیں ہیں۔ بعد میں امریکہ کی جانب سے ایران سے برآمدات اور درآمدات پر پابندیاں لگنے کی وجہ سے پاکستان نے مزید ہاتھ روک لیے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت پاکستان کو 750 ملین مکعب کیوبک فٹ یومیہ گیس ایران سے برآمد کی جائے گی۔ 1931 کلو میٹر طویل اس گیس پائپ لائن کا منصوبہ 1.5 ارب ڈالر لاگت کا ہے۔اس گیس پائپ لائن کا 1150ء کلو میٹر حصہ ایران میں بچھایا جا چکا ہے جب کہ پاکستان میں 781 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھائے جانے کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔اورپاکستانی علاقے میں یہ منصوبہ ابھی تک زیر تکمیل ہے۔ منصوبے کے مطابق یہ گیس پائپ لائن بندر عسلویہ، صوبہ بوشہر، بندر عباس،ایرانشہر، خضدار،سوئی سے ہوتی ہوئی ملتان سے پنجاب میں پہنچے گی۔شروع میں اس منصوبے میں پاکستان، ایران اور بہارت شامل تھے لیکن پھر بہارت اس سے نکل گیا۔اس منصوبے میں ایرانین نیشنل آئل کمپنی،گیس پروم جے ایس سی،سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈاور سوئی ساودرن گیس پائپ لائینزکمپنیاں شراکت دار ہیں۔ یہ ایک قدرتی گیس منصوبہ ہے جس کے آمیزے میں بنیادی طور پر میتھین شامل ہے، پاکستان میں صنعت، ٹرانسپورٹ اور گھریلو ضرورت کے لیے بجلی اور گیس دونوں استعمال ہوتے ہیں، جو کہ پاکستان میں ناکافی ہونے کی وجہ سے انتہائی مہنگے ہیں۔اور عوام کو مہنگے بل ادا کرنے پڑتے ہیں۔کمی کی وجہ سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ ہوتی ہے جس کا سب سے بڑا نقصان صنعتوں کو پہنچتا ہے۔ ان کی کارکردگی متاثر ہونے سے پاکستان کی معیشت پر اثر پڑ رہا ہے۔
بجلی اور گیس میں کمی کی وجہ سے برآمدات میں بھی اضافہ نہیں ہوتا جس کا خمیازہ ہمیں قرضوں کی شکل میں بھگتنا پڑ تا ہے اور آئی ایم ایف سے رجوع کرنا اور اس کی شرائط بھی مانا پڑتی ہیں،اور جب سعودی عرب اور چین سے قرضہ لینا پڑ تا ہے تو پھر ظاہر ہے قرضہ دینے والے کی مرضی اور شرائط بھی ماننا پڑتی ہیں۔
اس گیس پائپ لائین منصوبے کی رو سے پاکستان کسی طرح سے اس منصوبے کو انجام تک پہنچانے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اسے جنوری 2015 سے یومیہ 10 لاکھ ڈالر دینے ہوں گے۔ایرانی قوم تو پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی گزارا کرنے والی قوم ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کب تک اس طرح کے رحم و کرم پر رہیں گے ہم اس حد تک قرضوں اور مجبوریوں میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ اپنے ملکی مفاد میں فیصلے بھی نہیں کر سکتے۔ حالانکہ ہمارے ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہ تھی بلکہ کسی چیز کی کمی نہ تھی ۔
گذشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران کے دوران ایرانی صدر سے ملاقات میں پاکستان تک گیس پائپ لائن کے منصوبہ پر دوبارہ کام شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔
اوریہ بات خوش آئند تھی کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک عرصے سے التوا کے شکار پاک ایران گیس پائپ منصوبے کے سلسلے میں اجلاس بلایا۔اور اس اجلاس میں وزیر اعظم نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے ضروری احکامات بھی جاری کئے۔ ساتھ ہی انہوں نے اقوام متحدہ، امریکہ، یورپین کونسل سمیت دیگر فورمز کو قانونی یادداشت بھیجنے کی ہدایت بھی کی اور کہا کہ عالمی اداروں سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر واضح پوزیشن لی جائے۔دوسری جانب وزیر اعظم کی جانب سے وزارت خارجہ کو ایران کے ساتھ تناؤ ختم کرنے کے لیے اقدامات کی ہدایت بھی کی گئی ہے ، یہ بھی کہا گیاہے کہ ایران کے ساتھ آئی پی گیس منصوبے کے لیے مفاہمتی طریقہ اختیار کیا جائے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی حکم دیا کہ کہ ایران کے ساتھ مل کرمنصوبے پر عمل درآمد کے امکانات تلاش کئے جائیں، جبکہ ایران سے گیس کی قیمت خرید پر بھی نظرثانی کا عمل شروع کیا جائے ۔
کیونکہ پاکستان اور ایران اس معاہدے کی وجہ سے پابند ہیں کہ اس کو مکمل کیا جائے ۔ ایران کی جانب سے کئی سال پہلے ہی ایران کی حدود کے اندر اور پاکستانی سرحد تک اس پائپ لائین کو بچھانے کاکام مکمل کرلیا گیا ہے۔ اور اب تک وہ پاکستان کی طرف سے اس منصوبے کی تکمیل کے انتظارمیں ہے۔ لیکن کچھ سابقہ حکومتوں کی سستیوں اور بیرونی دباو کی وجہ سے پاکستان اب تک اسے مکمل نہیں کر پایا۔ معاہدے کی رو سے منصوبہ مکمل نہ کرنے پر پاکستان کو اس کا ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا لیکن برادر اسلامی ملک ایران نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ رویہ ہی رکھا ہے۔ بلکہ ایران نے برادر ملک میں بجلی کی کمی کو دیکھتے ہوئے پاکستانی عوام سے ہمدردی کرتے ہوئے اس کی بھی پیشکش کی کہ وہ پاکستان میں گیس سمیت بجلی کی کمی کو بھی پورا کر سکتا ہے۔ اور اسکا اظہار پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔
لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی اور بے باک ہو کر حل کرنے کی کوشش میں ہے۔ کیونکہ یہ نہ صرف ایک معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داری ہے بلکہ عوام کو گیس کی کمی اور بلوں کی زیادتی کی وجہ سے بھی بہت پریشانی کا سامنا ہے اور شاید اسی لئے عمران خان اس پر ضروری توجہ بھی دیں گے ۔اور انھیں سینہ سپر ہوکر اس منصوبے کی تکمیل پر زور لگانا ہوگا۔
عمران خان صاحب سے ایک امید اس لئے بنتی ہے کہ یہ نڈر اور بیباک لیڈر ہے۔ اور بین الاقوامی طور پر اس مسئلے کا شاید حل نکل آئے ۔ جہاں بھی ہو یہ بات کی جاسکتی ہے کہ یہ صرف ایران اور پابندیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ گیس ہماری بنیادی ضرورت ہے اور اس وقت ہمیں اس کی اشد ضرورت ہے۔ اور بیرونی پابندیوں کی وجہ سے جرمانہ بھی ہم ادا کریں؟۔اگر عمران خان اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ پاکستانی قوم پر ایک بڑا احسان ہوگا۔ کم ازکم گیس جیسی توانائی میں عوام کو کافی ریلیف ملے گا ۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران سے آنے والی گیس کم قیمت اور وافر مقدار میں ہوگی۔ جس سے ایک طرف عوام پر بوجھ کم پڑے گا اور دوسری طرف گیس کمی کی پریشانی سے بھی عوام نجات پاسکیں گے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ برادر ملک ایران کے ساتھ برادرانہ تعلق میں مزید استحکام آئے گا۔
ایران 28 فروری 2019 کو اس سلسلے میں حکومت ِ پاکستان کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کے لئے نوٹس بھجواچکا ہے، اور اس کا جواب پاکستان کی وزارت پیٹرولیم کی جانب سے دیا گیا ہے۔پاکستانی وزارتِ پٹرولیم نے موقف اختیار کیا ہے کہ ایران پرعالمی پابندیاں منصوبہ کی تکمیل میں رکاوٹ ہیں۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں رہے ہیں، کیوں کہ ہماری خارجہ پالیسی کمزور ہےجس پر امریکہ اور سعودی عرب کا دباؤ ہے۔حالانکہ ایران کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔پاکستان کو نہ صرف وافر مقدار میں 30 سال کے لیے قدرتی گیس مل جاتی، جس سے پاکستان، افغانستان اور بھارت میں ڈیڑھ ارب لوگ مستفید ہوتے، بلکہ ایران میں تیل کے بہت بڑے ذخائر سے بھی فائدہ مل جاتا۔ایران تو یہ تک کہہ چکا کہ وہ سرحد پر آباد علاقوں کو مفت بجلی بھی دے گا۔ اور اس کی لائنیں بچھانے میں بھی مدد کرے گا۔
کچھ دن پہلے ایک دوست نے ایک پوسٹ بھیجی جو ضمیر کو جھنجوڑنے والی ہے۔ کہتے ہیں پرانے زمانے میں کسی جگہ پہاڑی کے دامن میں ایک گاؤں آباد تھا۔جب بھی کوئی مسافر گاڑی حادثے کا شکار ہوکر پہاڑ سے گر جاتی یہ لوگ جاکر ان کا سامان لوٹتے۔یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ان کا امام مسجد میں نماز کے بعد کچھ یوں دعا پڑھتا ۔
"اے پروردگار بہت عرصہ ہوا ہے کوئی گاڑی نہیں گری۔۔۔۔ کوئی باراتیوں سے بھری بس گرادے جن کی عورتیں سونے سے لدی ہوئی ہوں۔رب کریم کوئی برطانیہ پلٹ کی گاڑی گرادے جس کا بیگ سامان سے اور جیب پاونڈ سے بھرا ہو۔ہم تیرے نادان بندے ہیں اگر ہم سے کوئی بھول ہوئی ہو تو رحم کا معاملہ کر ورنہ ہمارے بچے بھوکے مرجائے گے۔"
پیچھے سے مقتدی امین ثمہ امین کی صدا لگاتے۔
قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہم نے دوسروں کے شر میں اپنی خیر منائی ہے۔ہم نے خود سے کچھ زیادہ نہیں کیا نہ اپنے ادارے مضبوط کئے نہ انڈسٹریز بنائیں نہ برآمدات بڑھائیں۔تعلیم صحت اور انصاف غرض کسی شعبے پر سنجیدگی سےمحنت نہیں کی۔
پچاس کی دہائی میں ہم نے "سیٹو" اور "سینٹو" کے مزے اڑائے۔ساٹھ کی دہائی میں سرد جنگ میں یوٹو طیاروں کو اڈے دیکر ڈالر بٹورے۔ستر کی دہائی میں ہم نے عرب اسرائیل جنگوں میں مفت تیل کے مزے اڑائے۔اسی کی دہائی میں روس افغانستان والے کھاتے میں ہم نے خوب "ریمبو تھری" بنا کر باکس آفس پر پیسے بنوائے۔نوے کی دہائی میں کسی کا شر ہمارے ہاتھ نہیں آیا اور ہماری حالت بہت پتلی ہوگئی۔دو ہزار کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا۔اس شر کا جام لیکر ہم خوب جھومے، اسلحے اور ڈالروں کی برسات ہوئی۔
اس کے بعد کئی سالوں سے ہمارے اردگرد کوئی شر نہیں ہورہا۔ کیا ہم کسی شر کے انتظار میں ہیں۔ حالت بہت خراب ہے ڈالر تگڑاہوتا جارہا ہے۔لوگوں کا معیار زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے آئیں دعا کریں کہ عمران خان صاحب کو ہمت دے کہ وہ ملک کو ان مشکلات سے نکال سکیں کیوں کہ قوم نے بڑی امیدوں سے ان کو ووٹ دیا اور کامیاب کروایا۔ اب ذرا ان کو کوشش کرنے دیں ہماری سیاست کا خاصہ رہا ہے کہ ابھی حکومت شروع نہیں ہوتی اور مخالفتیں شروع ہوجاتی ہیں ہر پچھلی حکومت ایسے شریف بن جاتی ہے جیسے ان کے دور میں پتہ نہیں کیا کچھ معاشی انقلابات رونما ہورہےتھے۔ خدارا اپنی سیاست چمکانے کی بجائے حکومت کا ساتھ دیں۔اور اس حکومت کو بھی کچھ وقت دیں۔
آخر میں عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے پر مثبت حکمت عملی اپنائیں اور دوسروں کے دباو میں آکرکسی طرح بھی اس منصوبے کو ناکام نہ ہونے دیں۔ یہ سب سے بڑھ کر ہمارے ملک ہماری معیشت کے لئے بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی ہم نے اپنی پیداوار چھوڑ کر دوسروں پر بھروسہ کیا جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ باقی پارٹیوں کو ہم آزما چکے اب آپ پر نظریں ہیں۔اللہ پاک آپ کو اس کام میں سرخرو فرمائے۔ آمین



ایران میں سیلاب کی تباہ کاریاں اور بحیثیت مسلمان ہمارے فرائض
تحریر: شبیر احمد شگری
حالیہ دنوں میں شدید بارشوں کے بعد ایران کے جنوبی، شمالی اور مشرقی صوبوں میں شدید سیلابی صورت حال سے بڑا جانی و مالی نقصان ہوا ہے ۔ کئی شہروں، قصبوں اور دیہات میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس دوران جاں بحق افراد کی تعداد سینکڑوں ہوگئی ہے جس میں زیادہ نقصان جنوبی صوبے فارس میں ہوا ہے ۔ ایران کے 31 میں سے 11 صوبوں میں سیلاب کے باعث جانی نقصان ہوا ہے ۔ بارشوں کے باعث شہروں کو ملانے والی 78 سڑکیں، دوردرازعلاقوں کی 2 ہزار 199 سڑکیں اور 84 پل سیلاب کا نشانہ بن گئے ہیں۔ 15صوبوں میں 141 دریاوں میں طغیانی آئی جس سے 400 مقامات پر لینڈ سلائیڈ ہوئی ہیں۔اورایرانی حکومت کے مطابق سیلاب سے 12 ہزار کلومیٹر سڑک یا ملک کے 36 فیصد رابطہ سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے ۔
اگر ہم کچھ سال پہلے پاکستان میں ہونے والے سیلاب جیسی اس دردناک ناگہانی آفت کو دیکھیں تو ایران نے ہمیشہ کی طرح اس مشکل میں بھی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔
اس موقع پررہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے امت مسلمہ کے نام اپنے عالمی پیغام میں پاکستان میں وسیع پیمانے پر سیلاب کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ ہمیں اس سنگین اورحساس موقع پر اسلامی برادری اور اخوت کی بنیاد پر اپنے وظیفہ اورذمہ داری پر عمل کرتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لئے آگے بڑھنا چاہیے ۔
انھوں نے فرمایا کہ سیلاب کے المناک حادثے نے پاکستان کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو عظیم اور دردناک مشکلات سے دوچار کردیا ہے سیلاب کی وسعت میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے اس تباہ کن سیلاب میں پاکستان کے شمال سے لیکر جنوب تک بہت سے علاقہ زیر آب اور کئی ملین افراد متاثر اور بے گھر ہوئے ہیں یہ المناک حادثہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں امداد رسانی کے کاموں میں بھی خلل پیدا ہورہا ہے ۔
پاکستان کی مسلمان قوم ایک طرف اس عظیم اور دردناک حادثہ کا سامنا کررہی ہے اور دوسری طرف امریکہ کی غاصب فوجیں مختلف بہانوں سے اس اسلامی ممالک کی سرزمین کو اپنے ظلم وستم اور اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
امت مسلمہ پاکستان میں سیلاب کی تباہی اتنی وسیع اور تباہ کن ہے کہ ہمارے لاکھوں پاکستانی بہنوں اور بھائیوں کو فوری طور پر غذائی اشیا اورادویات کےعلاوہ لباس اوررہائش کی سخت ضرورت ہے۔ پاکستان کا وسیع بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوگیا ہے افسوس کا مقام ہے کہ اس موقع پر بین الاقوامی امداد رسانی کے اداروں نے مشکلات میں گرفتار پاکستانیوں تک امداد رسانی کے کام کو حسن و خوبی کے ساتھ انجام نہیں دیا اور یہ ایسا امر ہے کہ جس پر توجہ دینے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
مسلمان بھائیو اور بہنوہماری امداد کا حجم جتنا بھی زیادہ ہو وہ پاکستانی عوام کی عظیم نیاز اور ضرورت کے پیش نظر بہت ہی کم ہے لیکن ان دشوار اور مشکل حالات میں ہمیں چاہیے کہ ہم اسلامی اخوت و برادری کی بنیاد پر اپنی ذمہ داری پر عمل کرتے ہوئے اپنے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ۔ اسلامی ممالک اور بین الاقوامی اداروں کو اس اہم نکتہ پر توجہ مبذول کرنی چاہیے کہ وہ پاکستانی حکومت کو امداد رسانی اور اس عظیم مشکل کے طویل المدت اثرات پر قابو پانے کے سلسلے میں اپنا تعاون پیش کریں یقینی طور پر ہنگامی حالات میں ایسی مشکل پر قابو پانے کے لئے ہر حکومت مکمل طور پر اور ہر لحاظ سے امداد رسانی کے کام میں مشکلات سے دوچار ہوجاتی ہے ۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے اس بیان سے ان کی پاکستانی عوام کی مشکل گھڑی میں ان کے لئے محسوس کرنے والا درد اور تکلیف صاف ظاہر ہے اور کسی حقیقی اور اسلامی لیڈر سے ایسی ہی توقع کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ مسلمان اور عالم اسلام ایک جسم کی مانند ہیں جسم کے کسی بھی حصے میں تکلیف ہوتو پورے جسم کو بخار چڑھ جاتا ہے۔ اور پھر رہبر معظم کا یہ پیغام صرف پیغام کی حد تک نہ تھا بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا گیا ۔ اور ایران سے ایک ٹیم خصوصی طور پرپاکستان آئی اس 5 رکنی ٹیم کا نام "بنیاد مسکن" تھا۔ جسے پاکستان میں "ہاوسنگ فاونڈیشن آف ایران" کا نام دیا گیا۔اس فاونڈیشن نے ہنگامی بنیادوں پر پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے پاکستانی قوم اس کو کبھی بھی فروموش نہیں کرسکتی ۔ ان میں سے کچھ سکیمیں درج ذیل ہیں۔
1۔ چوک منڈے، مظفرگڑھ میں17کروڑکی لاگت سے 50 بستروں پر مشتمل مکمل آلات کی سہولیات کے ساتھ اسپتال کی تعمیرجو کہ اب کام کر رہا ہے۔
2۔ حاجی پور، ضلع راجن پور میں10 کروڑ کی لاگت سے 20 بستروں پرمکمل آلات پر مشتمل اسپتال جو اس وقت کام کر رہا ہے۔
3۔ چکوال میں 25کروڑ کی لاگت سے بنائے جانے والے 1سکول اور 20بستروں پر مشتمل مکمل آلات کے ساتھ2اسپتالوں کی تعمیر جو اب عوام کے زیر استعمال ہیں۔
4۔ ضلع خوشاب کے علاقے راجڑمیں 13کروڑ کی لاگت سے بہت بڑا سکول بنایا گیا جس میں طلبا ئ زیر تعلیم ہیں۔
5۔ اسی طرح سندھ میں خیرپور،لاڑکانہ، نواب شاہ، متھیالی وغیرہ میں بھی اسپتالوں کی تعمیر کی گئی جو کہ اب عوام کے زیر استعمال ہے۔
6۔ اس کے علاوہ جھنگ میں80 کروڑ کی لاگت کے اسپتال کا 60 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ40 فی صد کام ابھی تک ایرانی دوستوں کوپاکستانی ویزے کے حصول میں مشکلات کی وجہ سے طوالت کا شکار ہے۔
ایران کی کسی ایک تنظیم کی جانب سے ان تمام منصوبوں کو دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ سیلاب جیسے ناگہانی آفت کے موقع پرایران نے پاکستان کا کس طرح ساتھ دیا ۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ مسلمان ہمسایہ ملک ایران جہاں اس وقت 31 میں سے 25 صوبے سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں،کا بھرپور ساتھ دیں ۔ اور مشکل کی اس گھڑی میں چاہے پاکستان کی حکومت ہو یا عوام ایران کی متاثرہ عوام کی بھرپور مدد کی جائے۔اس سلسلے میں ہر ممکن قدم اٹھایا جائے تاکہ ایک طرف تو حق ہمسائیگی ادا ہو اور دوسری جانب پاکستان کی ہمیشہ کی دوست اور خیرخواہ ایرانی عوام پاکستانی عوام کودکھ درد کی اس گھڑی میں اپنے شانہ بشا نہ د یکھ سکیں۔
اس صورت حال میں المیہ یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے گزشتہ برس عائد اقتصادی پابندیوں کے باعث ملک میں تباہی پھیلانے والے سیلاب سے نمٹنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔اورایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی امریکی پالیسی کی وجہ سے ایرانی ہلال احمر کو متاثرہ علاقوں اور خاندانوں کے لیے امداد فراہم کرنے میں شدید مشکلات ہیں۔ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ ان حالات میں ریلیف ہیلی کاپٹر سمیت تہران کو درکار انتہائی اہم سامان کی فراہمی روک دی گئی۔ایرانی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ یہ صرف اقتصادی جنگ نہیں بلکہ اقتصادی دہشت گردی ہے ۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کیا دنیا سے انسانیت ختم ہوگئی ہے؟ اس وقت انسانی حقوق کی دعویدارحکومتیں اور تنظیمیں کہاں ہیں۔ اوراب کیوں خاموش ہیں۔ اسلامی ممالک کو اس وقت نہ صرف ایران کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے بلکہ دنیا کے ظالم اور جابر حکمرانوں پر بھی دباو ڈالنا چاہئے کہ فوری طور پر اس اقتصادی دہشت گردی کو ختم کیا جائے ۔ تاکہ ایران میں ہر ممکن امدادی کاروائیاں کی جاسکیں۔
ہم رہبر معظم، دیگر حکومتی اراکین اور ایرانی عوام سے اس مشکلات کے موقع پراور قیمتی جانوں کے ضیاع پر تعزیت پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک مشکل کی اس گھڑی میں ایرانی عوام کو ہمت و استقامت عطا فرمائے۔ اورتمام عالم اسلام کے شعور میں بیداری پیدا ہو اورمصیبت کی اس گھڑی میں ایرانی عوام اور حکومت کے ساتھ بھرورتعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

 روزنامہ پاکستان کے سنڈے میگزین 





بندر کے ہاتھ میں استرا
تحریر شبیر احمد شگری
25/01/2019
بندر کے ہاتھ میں استرا آنے کی ایک مشہور مثال ہے جو کہ اس وقت امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے اقتدار پر بالکل صادق آتی ہے ۔ جس کی مضحکہ خیز حرکتیں دنیا کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔اورجس کے شر سے نہ صرف عالم اسلام بلکہ تمام دنیا اور خود امریکہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ویسے تو امریکہ کو یہ ناقابل تعریف صلاحیت حاصل ہے کہ جو بھی امریکی سربراہ بنتا ہے وہ خود کو دنیا کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے۔ اس کو یہی خارش شروع ہوجاتی ہے کہ اسلامی ممالک کے ساتھ کس طرح پنگا لینا ہے ۔ٹرمپ نے بھی خود سے پہلے شیطانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کے خلاف اقدامات کرنے شروع کردئیے بلکہ اس کو تو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس نے حکومت میں آنے سے پہلے ہی دنیا کے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا تھا اور اس کا حکومت میں آنے کا بڑا ایجنڈا ہی یہی تھا۔کہ مسلمانوں کو سکون سے بیٹھنے نہیں دینا۔اور پھر چاہے شام ہو ، یمن ،ایران ،پاکستان ہو یا فلسطین ہر جگہ اس کی مسلمانوں سے نفرت آشکار ہو تی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ فلسطین میں اسرائیلی سفارتخانے کے قیام کا مسئلہ ہو اس نے کہیں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔حتیٰ کہ جس سعودی عرب کے ٹکڑوں پر پلتا ہے اسے بھی نہیں چھوڑا اور اس کے خلاف بیانات دینے سے بھی باز نہیں آیا۔لیکن یہ ہماری ہی غلطی ہوگی اگر ہم خونخوار جانور کو ہڈی یا گوشت کھلاتے رہیں یہ بھول کر کہ ایک دن وہ ہمیں بھی کاٹ سکتا ہے۔اور آستین کے سانپ والی مثال سے تو ہر کئی واقف ہے۔
یہاں پھر وہی شیخ سعدی والی بات ہو گئی ہے جسے فیض احمد فیضؔ نے یوں منظوم کیا ہوا ہے کہ
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست وکشاد
کہ سنگ وخشت مقید ہیں اور ’’سگ آزاد‘‘
اور ’’سگ‘‘ بھی کچھ ایسا ویسا نہیں کہ صرف اپنی گلی میں بھونکے بلکہ لوگوں کے گھروں میں جا جا کر گھستا ہے، بھونکتا ہے اورلوگوں لباس تار تار کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اوریہ خطرناک اور مضحکہ خیز سگ آزاد ہے۔
یہ ہر کسی پر بھونکتا ہے چاہے وہ اس کی بات نہ ماننے والے اسلامی ممالک ہوں یا اس کو ہڈیاں ڈالنے والے عرب ممالک ہی ہوں وہ انھی پر ہی بھونکتا ہے۔ حالانکہ سگ کی ایک اچھی عادت یہ ہوتی ہے کہ جو اسے ہڈی یا روٹی کا ٹکڑا ڈال دے اس کا وفادار ہوجاتا ہے اور اس پر نہیں بھونکتا۔
پہلی مرتبہ ہم نے موجودہ حکومت کے دور میں دیکھا کہ امریکہ کو کس طرح آنکھیں دکھائی گئیں اور اسے غرانے سے زیادہ اجازت نہیں دی گئی۔اور ڈو مور کے جواب میں نو مور کا جواب دے کر حکومت نے پاکستانی عوام کے دل جیت لئے ۔یہ ایک بڑا تحسین آمیز قدم ہے۔اس کے لئے ہم عمران خان صاحب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک گزارش یہ بھی کرتے ہیں کہ صرف ہم پر بھونکنے والے کتوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے پالنے والوں سے بھی ہوشیار رہیں۔ کینکہ ان کتوں سے زیادہ ان کے مالک خطرناک ہیں جو ان کی پرورش کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔اور اس کے لئے حکومت پاکستان اور اہل پاکستان کو بھی صبر اور دانشمندی کے ساتھ گزارنا ہو گا۔ اور یہ بات ہمہ وقت ذہن میں رکھنا ہو گی کہ بندر کے ہاتھ میں استرا آ گیا ہے اور دنیا کے ساتھ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ کی حرکتوں کی وجہ سےاس کیبہت قریبی اور پرانی ساتھی ’ہوپ‘ سمیت نو ساتھی برطرف یا مستعفی ہو گئے ہیں۔
ٹرمپ کو ذینی مریض کہلوانے کا یہ اعزاز بھی حاصل ہے اس بات سے قطع نظر کہ کوئی بھی نارمل شخص اس طرح کی حرکتیں نہیں کر سکتا۔ تو جب کسی ذہنی مرض کے ہاتھ میں اقتدار آجائے تو بندر کے ہاتھ میں استرا والی مثال یہاں بالکل صادق آتی ہے۔ یہاں تک کہ واشنگٹن:وائٹ ہاؤس کو کہنا پڑا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ذہنی بیماری 'ڈیمینشیا' لاحق نہیں اور وہ ثابت کریں گے کہ وہ کسی ذہنی بیماری کاشکار نہیں۔ یاد رہے کہ مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق خطاب میں ٹرمپ یونائٹڈ اسٹیٹس کو ’یونائٹڈ اشٹیٹس‘ کہہ دیا تھا۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری سارا سینڈرز نے صحافیوں کو بتایا کہ اس حوالے سے بہت سے مضحکہ خیز سوالات کیے گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صدر کا گلا خشک تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جی بالکل بیت المقدس کے خلاف بیان دینے سے گلا خشک تو ہوگا ہی اللہ کرے اس گلے سے آواز ہی نہ نکلے۔
پریس سیکریٹری نے مزید بتایا کہ ٹرمپ کا طبی معائنہ والٹر ریڈ (نیشنل ملٹری میڈیکل سینٹر) میں ہو گا اور اس کی رپورٹس ڈاکٹر جاری کریں گے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل حال ہی میں ٹرمپ برطانوی وزیراعظم تھریسامے سمجھ کر ان کی ہم نام خاتون کو ٹوئیٹ کر کے خود کو مشکل میں ڈال چکے ہیں۔ کیا صدر امریکہ کو ملا ہے جو امریکہ کے لئے جگ ہنسائی کا باعث ہے۔اس وقت کیا حالت امریکا کی ہوچکی ہے کہ امریکا میں حکومتی شٹ ڈاؤن 36ویں روز میں داخل ہو گیا ہے، واضح رہے کہ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں ملازمین تنخواہوں سے محروم ہو گئے ہیں اور حکومتی نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔
اور اب تازہ خبر کہ امریکی صدر نے اپوزیشن کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تند و تیز بیان دینے اور دھمکی آمیز رویہ اختیار کرنے کے بعد امریکہ میں شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے لیے میکسیکو دیوار کی فنڈنگ کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے اور کہا کہ حکومتی شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے لیے بڑا قدم اٹھاوں گا۔
اس سے پہلے شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے لیے سینیٹ میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کے بل منظور نہ ہوسکے۔


"سید روح اللہ الموسوی خمینیؒ کی زندگی" کے موضوع پر روزنامہ آفتاب میں میرے سلسلہ وار کالم کا پہلا حصہ
7 جون 2018 


"سید روح اللہ الموسوی خمینیؒ کی زندگی" کے موضوع پر روزنامہ آفتاب میں میرے سلسلہ وار کالم کا دوسرا حصہ
8 جون 2018 


"سید روح اللہ الموسوی خمینیؒ کی زندگی" کے موضوع پر روزنامہ آفتاب میں میرے سلسلہ وار کالم کا تیسرا اور آخری حصہ
9 جون 2018 


آج کےروزنامہ افلاک نے حضرت امام خمینی ؒ کی 29 ویں برسی کے حوالے سے میری تحریر کو خصوصی ایڈیشن کے طور پر چھاپا۔
5 جون 2018 


آج کے روزنامہ ریپیڈ نیوزمیں" رمضان میں امام خمینیؒ کے معنوی اور عبادی حالات" کے مووع پر کالم
4 جون 2018 


انقلاب اسلامی ایران کے بارے میں 9 فروری کو روزنامہ ریپیڈ نیوز میں چھپنے والا میرا کالم
9 فروری 2018 


آج کے daily Rapid news میں حضرت امام خمینی ؒ کی زندگی پر چھپی میری تحریر
3 جو ن 2018 

سفر عشق. زیارات مقدسہ پر مشتمل میرا سلسلہ وار سفرنامہ
تحریر: شبیراحمد شگری
7 نومبر 2017 روزنامہ ریپڈ نیوز
امام رضاعلیہ السلام کی قدسی اور ملکوتی بارگاہ میں جو لوگ ذوق و شوق کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں انہیں بہت سارے مختلف فائدے حاصل ہوتے ہیں کیونکہ پاکیزہ حرم اور دلوں کو اپنی جانب کھینچنے والا وہ مقام معنویت سے سرشار ہے اور اس کا جلوہ اس قدر زائر کو اپنی جانب متوجہ کرتا چلا جاتا ہے کہ ہر زائر اپنی بساط بھر اس سے فیضیاب ضرور ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں زائر کا غم و اندوہ کافور اور خوشی و نشاط کی محفلیں زائر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں، پیغمبر اعظم - صلی اللَّہ وعلیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
میرے جسم کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن کیا جائے گا، غم و اندوہ میں مبتلا ہر وہ شخص جو اس کی زیارت کرے خدائے عز و جل اسکے غموں کو دور کردیگا، اور ہر گنہگار جو اسکی زیارت کو جائے خدا اسکے گناہوں کو بخش دیگا۔
اس مرتبہ جب امام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا تو بے قراری اور شوق ملاقات کا یہ عالم تھا کہ مشھد کی فضاوں میں ہوائی جہاز میں ہی امام رضا علیہ السلام کے ساتھ راز و نیاز شروع ہو چکا تھا۔اس موقع پر چند احساسات اشعار کی صورت بھی اختیار کی جو آپ کو بھی شئیر کرتا چلوںکہ۔
احساس معطر سے روح کا وضو کرکے
تصور میں حرم پاک کے خود کو روبرو کرکے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔۔
بے چین روح تھی میری جب سے حرم سے آیا
دیدارکی خواہش لئے پھر جستجو کر کے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔۔
مولا سے یہ کہوں گا میں مولا سے وہ کہوں گا
کچھ اس طرح خود سے ہی گفتگو کرکے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔۔
دل بے قرار سے اجازت طلب کرتا ھوں
فضا سے ہی مشھد کی طرف منہ کرکے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔
کتنا نوازا مولا نے اب اور نوازیں گے
اپنے ہی خیالوں میں خود کو سرخرو کر کے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔۔
شگری تیری شفقت کے مرہم کامتمنی ھے
دل کے ہر ایک چاک زخموں کا رفو کر کے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔
مشھد مقدس کے مقدس ترین مقام حضرت امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام کے روضہ مبارک کے احاطے میں جب ہم داخل ہوتے ہیں تو اس وسیع و عریض روضے کے چاہے کسی بھی بلند قامت دروازے سے داخل ہوں یا کسی بھی صحن سے گذریں تو آپ آسانی سے ضریح مقدس امام رضاعلیہ السلام تک پہنچ سکتے ہیں۔ مجھے چوں کہ ہر دفعہ بازار رضا کی طرف سے آنا ہوتا تھا تو باب رضا کی طرف سے صحن جامع رضوی میں داخل ہونا ہوتا تھا ۔ جہاں اکثر اوقات کوئی نہ کوئی پروگرام منعقد ہورہا ہوتا ہے ۔ اگر اس صحن سے گذر کر ضریح مقدس امام رضا علیہ السلام کی طرف جانا ہو تو رواق امام خمینی ؒ یا کسی اور طرف سے بھی جا سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ سارے صحن اور دروازے اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ کسی بھی طرف سے ضریح مقدس تک آپ پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن صحن سے ہی آپ کو اذن دخول لینا پڑتا ہے یعنی ایک دعا پڑھنی ہوتی ہے اور مولا سے حرم میں داخل ہونے کی اجازت لینا ہوتی ہے ۔
دن یا رات کے کسی بھی وقت جب ہم ضریح مقدس سے متعلقہ حصے میں پہنچتے ہیں۔ تو لوگوں کا ایک جم غفیر ہمیں نظر آتا ہے۔ اور لوگ ضریح مقدس کے مقدس نگینے سے چمٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زائرین کے اس ہجوم کو دیکھ کر دل میں یہی خیا ل آتا ہے کہ ہم شاید اس مقدس اور متبرک ضریح کو چھو بھی نہیں پائیں گے اور اس تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ لیکن میرا تجربہ ہے کہ میں ہر دفعہ آسانی سے ضریح مبارک کی جالی تک پہنچ جاتا ہوں۔اسے آپ مولا کا خاص کرم کہہ سکتے ہیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ قبر اطہر کے پاوں کی بجائے سر اطہر کی طرف ضریح مقدس کی جالی تک پہنچنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے ۔
یہاں سکون ہی سکون ہے ایسا لگتا ہے سب یہاں روحانی طور پر امام کے ساتھ رابطے میں مصروف ہیں اور کبھی کبھی جب کسی صلوات کی درخواست پر بلند آواز میں درود بھیجا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم جسمانی طور پر بھی یہاں موجود ہیں۔ایک دفعہ ضریح مبارک کی جالی ہاتھ میں آجائے پھر کس کا دل کرتا ہے اسے چھوڑنے کو۔
جب بھی اور جتنی دفعہ بھی ہم یہاں پر حاضری دیں۔ یہاں سے جانے کا دل ہی نہیں کرتا۔ دعا ،زیارات اور نماز کے بعد بندہ گھنٹوں بس وہاں بیٹھا رہے ۔ پھر دنیا کا ہوش کب رہتا ہے کہ یہاں سے باہر بھی کوئی دنیا ہے۔ یہ کوئی معمولی جگہ نہیں ہے، ہم رسول پاک ö کی اہلبیت ؑ کے نزدیک بیٹھنے کا شرف حاصل کر رہے ہیں ۔ جہاں کی روحانی فضا دل کو منور اور جہاں حاضری کا احساس روح کو معطر کر رہا ہے۔
آپ یہاں بیٹھیں امام سے راز و نیاز کرین حتیٰ امام علیہ السلام سے باتیں کریں ۔ آپ جس زبان میں بھی مولا سے باتیں کریں گے مولا سن لیں گے کیونکہ امام رضا علیہ السلام کے حوالے سے یہ بات خاص طورپر کہی جاتی ہے کہ ٓپ کے پاس جو بھی حاضر ہوتا چاہے وہ جس سرزمین کا ہو،عربی ہو،عجمی ہو،ہندی ہو، یو کوئی بھی زبان بولتا ہو امام علیہ السلام اس سے اسی زبان میں کلام فرماتے تھے۔ تو فکر کس بات کی ہے پیش کریں سلام و درود اما م کی بارگاہ میں، کہہ ڈالئے امام سے اپنے دل کا حال، بیان کردیں اپنی خواہشیں،سب کچھ کہہ دیں ،اپنے درد غم سب کچھ آنکھوں سے نکلے عطر سے معطر کر کے عقیدت کے پھولوں کے ساتھ امام کی خدمت میں پیش کردیجئے۔ میں آپ کو دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر آپ نے نیک نیتی ، پاک خیالات کے ساتھ یہ کچھ کیا ہے تو آپ کو اسی وقت امام کا جواب بھی مل جائے گا۔ کیوں کہ آپ ایک عظیم ہستی کی بارگاہ میں ہیں۔ہاں اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے امام کو راضی کرنا اور خود کو بخشوانا نہ بھولئے گا کیونکہ امام رضا علیہ السلام کا وعدہ ہے اور یہ کسی عام نہیں بلکہ اہلبیت کرام ؑ کی بابرکت ہستی کا وعدہ ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا کہ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص غریب الوطنی کے عالم میں میری زیارت کے لیے آئے گا میں روزقیامت تین مقامات پر اس کی فریادرسی کے لئے آؤں گا اور اس کو قیامت کی وحشت سے خلاصی دونگا، اعمال نامے دائیں بائیں منتشر ہونے کے وقت، پل صراط سے گذرتے وقت، اور میزان میں اعمال کو جانچ پرکھنے کے وقت۔ تو پھر بتایئے کہ اورآپ کو اس سے بڑھ کر کیا چاہئے ۔
لیکن اس کے لئے آپ کو مومن بننا ہوگا۔ امام کو کوش کرنا ہوگا۔ان کے فرامیں پر عمل کرنا ہوگا۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ہم سے نہیں ہے وہ جو کسی مسلمان کے کام میں ملاوٹ اور دھوکے سے کام لے ، اس کو نقصان پہنچائے اور اس کے ساتھ مکر و فریب پر مبنی رویہ اپنا کر اس کے خلاف سازش کرے ‘‘۔ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیںکہ ’’جو شخص کوئی کام انجام دینے کے لئے صحیح روش اپنائے وہ کبھی غلطی نہیں کرتا اور نہیں پھسلتا، اور اگر پھسل بھی جائے اور غلطی بھی کرے تو علاج کے راستے بند نہیں ہوتے ‘‘۔
تو کس چیز کے انتظار میں ہیں کرا لیجئے علاج اپنی ظاہری اور باطنی بیماریوں کا ، اپنے نفس کا ۔ کیوں کہ ابھی موقعہ ہے۔ علاج ممکن ہے۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ جو ان ہستی کی بارگاہ میں حاضری دے رہے ہیں جہاں حاضر ہونے کے لئے جانے کتنے لوگ تڑپتے اوراپنی نمازوں اور دعاوں میں فریاد کرتے ہیں کہہ مولا ہمیں اپنی ملکوتی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت دیجئے اور جب ہم یہاں پہنچ گئے ہیں توبہت بد قسمتی ہوگی کہ یہاں کہ فیوض و برکات سے محروم رہتے ہوئے واپس لوٹ جائیں۔ جو یہاں کا فیض حاصل کر لئتا ہے وہ یہاں سے واپسد ہی کب جاتا ہے وہ تو ہمیشہ بس یہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کی لاش، اس کا جسم ہی یہاں سے واپس جاتا ہے روح تو اب یہیں رہے گی۔
جی ہاں یہ امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی بارگاہ ہے ۔ امام ضامن علیہ السلام کی بارگاہ ہے ۔ جہاںہم دنیا کے ہر فکر ہر غم سے ٓزاد ہیں۔ چونکہ ہم امامن ضامن کی ضمانت میں ہیں وہ امام ضامن کہ جب کبھی کسی کو کسی مہم یاکسی سفر پر جانا ہوتا ہے توان کی ضمانت کے طور پر سکہ بازو پر باندھا جاتا ہے۔ جسے امام ضامن کہا جاتا ہے یعنی اب یہ بندہ امام کی ضمانت میں ہے۔امام رضا علیہ السلام کو امام ضامن کہنے کی وجہ ایک مشہور واقعہ ہے جس میں امام علیہ السلام نے ایک شکاری کو ہرنی کے اپنے بھوکے بچوں کودودھ پلا کرواپس آنے کی ضمانت دی تھی۔ اس دلچسپ واقعے کو بھی میں نے ویڈیو فلم کی شکل میں پروڈیوس کیا ہے جو کہ آپ نور پروڈکشن کی سائیٹ ، ےوٹیوب یا گوگل پر ’’ضامن ٓہو‘‘ لکھ کر سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔
جتنی دیر بھی ہم امام علیہ السلام کی بارگاہ میں موجود ہوتے ہیں۔ سوائے اس بارگاہ کی برکتوں کے احساس کے ہمیں کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔ میرا
تجربہ ہے کہ جب بھی میں کافی دیر حرم میں گزاروں اور جیسے ہی حرم سے باہر نکلوں تو ایک دم بھوک کا احساس یہ یاد دلاتا ہے کہ میں نے جانے صبح سے کچھ نہیں کھایا ۔ یعنی حرم میں جب تک ہیں ہمیں بھوک تک کا احساس نہیں ہوتا۔اس قدر نفس کی پاکیزگی آئمہ طاہرین علیھم السلام کی نزدیکی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
ضریح مقدس قبر اطہر کے صندوق کو گھیرے ہوئے ایک جالی ہے ۔ تاریخی شواہدکی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی قبر مطہر پر ضریح مقدس کا لگایا جانا صفویہ دَور سے شروع ہوا اس دَور سے پہلے ضریح مبارک لگائے جانے کے بارے میں معلومات موجود نہیں ہیں۔بہر حال صفویہ دَور سے اب تک حضرت امام ہشتم علیہ السلام کے مرقد مطہر پر پانچ عدد مقدس ضریحیں لگائی جا چکی ہیں کہ جو سنگِ مرقد اور صندوق پر محیط تھیں:
پہلی ضریح مبارک جو کہ سونے اور چاندی سے مزین تھی، دسویں ہجری کے درمیانی عرصے سے متعلق تھی۔
یہ ضریح مبارک صفویہ دَور میں ۹۵۷ ھ۔ ق میں بنائی گئی اور مرقد مطہر کے صندوق پر نصب کی گئی۔
اس ضریح مبارک کے اطراف والے کتیبے پر خطِ ثُلث میں’’سورۂ ھَل اَتٰی‘‘âسورہ دھر/انسانáلکھی گئی تھی ۔
دوسری ضریح مبارک؛ نادری دَور کی نگین نشان ضریح مبارک تھی۔
فولاد سے بنی ہوئی یہ ضریح مبارک جس پر جواہرات جڑے گئے تھے اور نگین نشان کے نام سے معروف ہوئی،۱۱۶۰ ھ۔ ق میں آستان قدس رضوی کو تقدیم کی گئی اور نصب کی گئی یہ ضریح مبارک نادر شاہ افشار کے نواسے شاہرخ میرزا ابن رضاقُلی میرزا نے وقف کی۔
نگین نشان ضریح مبارک جو کہ اس وقت سردابِ مقدس میں موجود ہے ، فولاد سے بنائی گئی تھی اور اسے دو ہزار سے زیادہ قُبہ نما یاقوت اور زمرد سے مزین کیا گیا تھا۔دوسری ضریح مبارک کو مرقدِ امام علیہ السلام پر لگے ہوئے دو سو ساٹھ سال کا عرصہ گذر گیا اور وہ اس طرح سے کہ یہ ضریح مبارک ابتدا میں امام ہشتم علیہ السلام کی آرامگاہِ مقدس پر لگی،پھر جب تیسری ضریح مبارک لگائی گئی اور اسی طرح جب چوتھی ضریح مبارک لگائی گئی تو بالترتیب تیسری اور چوتھی مبارک ضریحوں کے نیچے وہ دوسری ضریح مبارک برقرار رکھی گئی،یہاں تک کہ جب پانچویں ضریح مبارک نصب کی جانے لگی تو اُس وقت ۱۳۷۹ ہجری شمسی میں وہ ضریح مبارک سرداب میں منتقل کردی گئی اور وہاں مرقدِ منور پر لگادی گئی اور اس طرح سے وقف کرنے والے کی نیتِ خیر کا تقاضا پورا کردیا گیا۔
آج کے ریپیڈ نیوز میں چھپنے والا میرا کالم "مسئلہ فلسطین" (حصہ اول)
ریپیڈ نیوز یکم جون 2018 

آج کے ریپیڈ نیوز میں چھپنے والا میرا کالم "مسئلہ فلسطین" (حصہ دوم)
ریپیڈ نیوز 2 جون 2018 



روزنامہ افلاک میں چھپنے والا میرا سلسلہ وار کالم " السلامی جمہوریہ ایران میں ماہ رمضان" (حصہ سوم)


آج کے روزنامہ افلاک میں چھپنے والا میرا سلسلہ وار کالم " السلامی جمہوریہ ایران میں ماہ رمضان" (حصہ دوم)


آج کے روزنامہ افلاک میں چھپنے والا میرا سلسلہ وار کالم " السلامی جمہوریہ ایران میں ماہ رمضان" حصہ اول


آج کے روزنامہ ریپڈ میں چھپنے والا میرا کالم 
" انقلاب اسلامی ایران میں مساجد کا کردار" 


سفر عشق. زیارات مقدسہ پر مشتمل میرا سلسلہ وار سفرنامہ
تحریر: شبیراحمد شگری
8 نومبر 2017 روزنامہ ریپڈ نیوز
نگین نشان ضریح مبارک جو کہ اس وقت سردابِ مقدس میں موجود ہے ، فولاد سے بنائی گئی تھی اور اسے دو ہزار سے زیادہ قُبہ نما یاقوت اور زمرد سے مزین کیا گیا تھا۔دوسری ضریح مبارک کو مرقدِ امام علیہ السلام پر لگے ہوئے دو سو ساٹھ سال کا عرصہ گذر گیا اور وہ اس طرح سے کہ یہ ضریح مبارک ابتدا میں امام ہشتم علیہ السلام کی آرامگاہِ مقدس پر لگی،پھر جب تیسری ضریح مبارک لگائی گئی اور اسی طرح جب چوتھی ضریح مبارک لگائی گئی تو بالترتیب تیسری اور چوتھی مبارک ضریحوں کے نیچے وہ دوسری ضریح مبارک برقرار رکھی گئی،یہاں تک کہ جب پانچویں ضریح مبارک نصب کی جانے لگی تو اُس وقت ۱۳۷۹ ہجری شمسی میں وہ ضریح مبارک سرداب میں منتقل کردی گئی اور وہاں مرقدِ منور پر لگادی گئی اور اس طرح سے وقف کرنے والے کی نیتِ خیر کا تقاضا پورا کردیا گیا۔
تیسری ضریح مبارک فولاد سے بنائی گئی سادہ سی ضریح ہے جس کا سائز ۴٭۳میٹر اور بلندی تقریباً ۲ میٹر ہے یہ ضریح مبارک قاجاریہ دَور سے متعلق ہے اور فتح علی شاہ قاجار کی سلطنت کے زمانے میں ۱۲۳۸ھ۔ق میں حرم مطہر میں نگین نشان ضریح کے اوپر نصب کی گئی۔یہ ضریح مبارک بھی جواہرات سے مزیّن کی گئی اور پائینتی کی جانب فتح علی شاہ قاجار کی طرف سے تقدیم ہونے والا مرصّع و مزیّن دروازہ نصب کیا گیا۔یہ ممتاز اور گرانقدر دروازہ اب حرم مطہر کے غربی صُفّہ کے اوپر مخصوص فریم میں محفوظ کرلیا گیا ہے ۔
تیسری مبارک ضریح ستونوں کے کہنہ اور کمزور ہوجانے کی وجہ سے ۱۳۳۸ ہجری شمسی میں ہٹادی گئی اور میوزیم میں منتقل کردی گئی اور پھر اس کی جگہ پر نگین نشان(دوسری ضریح) کے اوپر لگادی گئی۔
چوتھی ضریح مبارک سونے اور چاندی کی ضریح کے نام سے اور ’’شیر و شکر‘‘سے معروف ہے جو کہ۱۳۳۸ ہجری شمسی میں تیسری ضریح مبارک اُٹھالیے جانے اور میوزیم میں منتقل کیے جانے کے بعد نگین نشان ضریح کے اُوپر نصب کی گئی۔ یہ ضریح مبارک جناب مرحوم سید ابو الحسن حافظیان کے زیرِاہتمام اور زیر ِنگرانی ،ہنرمند استاد مرحوم حاج محمد تقی ذوفن اور اصفہان کے ماہر اور قلمزن ہنرمندوں کے ایک گروہ کے تعاون سے ڈیزائن کی گئی اور بنائی گئی ۔
پانچویں ضریح چوتھی ضریح کو لگے ہوئے ۴۲ سال کا عرصہ گذرنے کے بعد اس کے کہنہ ہوجانے ،جالیوں کے بوسیدہ ہو جانے ، سونے اور چاندی کی ملمع کاری کمزور پڑجانے اور اس کے ستونوں کے ضعیف ہو جانے کی وجہ سے ضروری و ناگزیر ہوگیا تھا، لہٰذا آستان قدس رضوی نے نئی ضریح مبارک کی ڈیزائننگ ، ساخت اور نصب کرنے کا اقدام کیا۔ اس ضریح مبارک کی ڈیزائننگ کی توفیق ملک کے نمایاں ہنر مند جناب اُستاد فرشچیان کو نصیب ہوئی۔
پانچویں ضریح مبارک کی تشکیل کی کیفیت لوہے ،فولاد اور اخروٹ کی لکڑی کی ترکیبات سے انجام پائی تاکہ اس کو سونے اور چاندی کی تزئینات سے ڈاھانپ دیا جائے ۔ڈیزائننگ میں موجود ہنری زاویوں اور بنیادوں کی مناسبت سے قلمکاری اور ہنری امور انجام دیے گئے اور بدیع نگارستانی کے انداز میں، ہنری معماری کی علامات و نموداروں کے ساتھ آستان قدس رضوی کی قدیمی عمارات سے ہم آھنگی کا خیال رکھتے ہوئے یہ کام ہوئے ۔
آخر کار سات سال مسلسل کوشش و محنت سے بہترین و عمدہ ترین کیفیت کے ہمراہ ،پائیدار اور انتہائی محکم طور پر ۱۲ ٹن وزن کے ساتھ، ۴/۷۸٭۳/۷۳میٹر کے ابعاد اور ۳/۹۶ میٹر بلندی میں بنائی گئی ۔
چوتھی ضریح مبارک کو اُٹھائے جانے اور نئی ضریح مبارک کے لگائے جانے کا کام ۱۳۷۹/۱۰/۲۱ہجری شمسی کی تاریخ سے گرد و غبار صاف کرنے کے مراسم کے بعد آغاز ہوا اور پچاس روز کے دن رات مسلسل کام اور کاوشوں کے بعد مکمل ہوا،آخر کار ۱۳۷۹/۱۲/۱۶ ھ۔ ش بروز منگل بمطابق روز عید سعید قربان انقلاب اسلامی کے عظیم الشان رہبر آیت اللہ خامنہ ای اور خراسان میں معظم لہ کے نمائندے و آستان قدس رضوی کے متولی آیت اللہ واعظ طبسی کی موجودگی میں منور و مقدس رضوی روضہ کا پانچویں ضریح مبارک کے ساتھ حضرت غریب الغربائ علیہ السلام کے ارادتمندوں اور زائرین و مجاورین کی بصارت کی پیاس بُجھانے اور بصیرت کو معراج کی بلندیاں عطا کرنے کیلیے افتتاح ہوا۔
الحمداللہ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس ضریح مبارک کی تعمیر اور نصب ہونے کی لمحہ بہ لمحہ فیلمبندی پر مشتمل ڈاکومنٹڑی ’’ضریح نور‘‘ کے نام سے میں نے اس وقت بنائی تھی جو اب تک مقبول ہے اور لاتعداد موقع پر ٹی وی چینلز بھی اسے دکھا چکے ہیں۔ اس میں قبر اطہر کے تعویذ مبارک کی زیارت بھی کی جاسکتی ہے۔ 



سفر عشق. زیارات مقدسہ پر مشتمل میرا سلسلہ وار سفرنامہ
تحریر: شبیراحمد شگری
7 نومبر 2017 روزنامہ ریپڈ نیوز

امام رضاعلیہ السلام کی قدسی اور ملکوتی بارگاہ میں جو لوگ ذوق و شوق کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں انہیں بہت سارے مختلف فائدے حاصل ہوتے ہیں کیونکہ پاکیزہ حرم اور دلوں کو اپنی جانب کھینچنے والا وہ مقام معنویت سے سرشار ہے اور اس کا جلوہ اس قدر زائر کو اپنی جانب متوجہ کرتا چلا جاتا ہے کہ ہر زائر اپنی بساط بھر اس سے فیضیاب ضرور ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں زائر کا غم و اندوہ کافور اور خوشی و نشاط کی محفلیں زائر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں، پیغمبر اعظم - صلی اللَّہ وعلیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
میرے جسم کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن کیا جائے گا، غم و اندوہ میں مبتلا ہر وہ شخص جو اس کی زیارت کرے خدائے عز و جل اسکے غموں کو دور کردیگا، اور ہر گنہگار جو اسکی زیارت کو جائے خدا اسکے گناہوں کو بخش دیگا۔
اس مرتبہ جب امام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا تو بے قراری اور شوق ملاقات کا یہ عالم تھا کہ مشھد کی فضاوں میں ہوائی جہاز میں ہی امام رضا علیہ السلام کے ساتھ راز و نیاز شروع ہو چکا تھا۔اس موقع پر چند احساسات اشعار کی صورت بھی اختیار کی جو آپ کو بھی شئیر کرتا چلوںکہ۔
احساس معطر سے روح کا وضو کرکے
تصور میں حرم پاک کے خود کو روبرو کرکے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔۔
بے چین روح تھی میری جب سے حرم سے آیا
دیدارکی خواہش لئے پھر جستجو کر کے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔۔
مولا سے یہ کہوں گا میں مولا سے وہ کہوں گا
کچھ اس طرح خود سے ہی گفتگو کرکے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔۔
دل بے قرار سے اجازت طلب کرتا ھوں
فضا سے ہی مشھد کی طرف منہ کرکے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔
کتنا نوازا مولا نے اب اور نوازیں گے
اپنے ہی خیالوں میں خود کو سرخرو کر کے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔۔
شگری تیری شفقت کے مرہم کامتمنی ھے
دل کے ہر ایک چاک زخموں کا رفو کر کے
مولا میں آرہا ھوں مولا میں آرہا ھوں۔۔۔
مشھد مقدس کے مقدس ترین مقام حضرت امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام کے روضہ مبارک کے احاطے میں جب ہم داخل ہوتے ہیں تو اس وسیع و عریض روضے کے چاہے کسی بھی بلند قامت دروازے سے داخل ہوں یا کسی بھی صحن سے گذریں تو آپ آسانی سے ضریح مقدس امام رضاعلیہ السلام تک پہنچ سکتے ہیں۔ مجھے چوں کہ ہر دفعہ بازار رضا کی طرف سے آنا ہوتا تھا تو باب رضا کی طرف سے صحن جامع رضوی میں داخل ہونا ہوتا تھا ۔ جہاں اکثر اوقات کوئی نہ کوئی پروگرام منعقد ہورہا ہوتا ہے ۔ اگر اس صحن سے گذر کر ضریح مقدس امام رضا علیہ السلام کی طرف جانا ہو تو رواق امام خمینی ؒ یا کسی اور طرف سے بھی جا سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ سارے صحن اور دروازے اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ کسی بھی طرف سے ضریح مقدس تک آپ پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن صحن سے ہی آپ کو اذن دخول لینا پڑتا ہے یعنی ایک دعا پڑھنی ہوتی ہے اور مولا سے حرم میں داخل ہونے کی اجازت لینا ہوتی ہے ۔
دن یا رات کے کسی بھی وقت جب ہم ضریح مقدس سے متعلقہ حصے میں پہنچتے ہیں۔ تو لوگوں کا ایک جم غفیر ہمیں نظر آتا ہے۔ اور لوگ ضریح مقدس کے مقدس نگینے سے چمٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زائرین کے اس ہجوم کو دیکھ کر دل میں یہی خیا ل آتا ہے کہ ہم شاید اس مقدس اور متبرک ضریح کو چھو بھی نہیں پائیں گے اور اس تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ لیکن میرا تجربہ ہے کہ میں ہر دفعہ آسانی سے ضریح مبارک کی جالی تک پہنچ جاتا ہوں۔اسے آپ مولا کا خاص کرم کہہ سکتے ہیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ قبر اطہر کے پاوں کی بجائے سر اطہر کی طرف ضریح مقدس کی جالی تک پہنچنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے ۔
یہاں سکون ہی سکون ہے ایسا لگتا ہے سب یہاں روحانی طور پر امام کے ساتھ رابطے میں مصروف ہیں اور کبھی کبھی جب کسی صلوات کی درخواست پر بلند آواز میں درود بھیجا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم جسمانی طور پر بھی یہاں موجود ہیں۔ایک دفعہ ضریح مبارک کی جالی ہاتھ میں آجائے پھر کس کا دل کرتا ہے اسے چھوڑنے کو۔
جب بھی اور جتنی دفعہ بھی ہم یہاں پر حاضری دیں۔ یہاں سے جانے کا دل ہی نہیں کرتا۔ دعا ،زیارات اور نماز کے بعد بندہ گھنٹوں بس وہاں بیٹھا رہے ۔ پھر دنیا کا ہوش کب رہتا ہے کہ یہاں سے باہر بھی کوئی دنیا ہے۔ یہ کوئی معمولی جگہ نہیں ہے، ہم رسول پاک ö کی اہلبیت ؑ کے نزدیک بیٹھنے کا شرف حاصل کر رہے ہیں ۔ جہاں کی روحانی فضا دل کو منور اور جہاں حاضری کا احساس روح کو معطر کر رہا ہے۔
آپ یہاں بیٹھیں امام سے راز و نیاز کرین حتیٰ امام علیہ السلام سے باتیں کریں ۔ آپ جس زبان میں بھی مولا سے باتیں کریں گے مولا سن لیں گے کیونکہ امام رضا علیہ السلام کے حوالے سے یہ بات خاص طورپر کہی جاتی ہے کہ ٓپ کے پاس جو بھی حاضر ہوتا چاہے وہ جس سرزمین کا ہو،عربی ہو،عجمی ہو،ہندی ہو، یو کوئی بھی زبان بولتا ہو امام علیہ السلام اس سے اسی زبان میں کلام فرماتے تھے۔ تو فکر کس بات کی ہے پیش کریں سلام و درود اما م کی بارگاہ میں، کہہ ڈالئے امام سے اپنے دل کا حال، بیان کردیں اپنی خواہشیں،سب کچھ کہہ دیں ،اپنے درد غم سب کچھ آنکھوں سے نکلے عطر سے معطر کر کے عقیدت کے پھولوں کے ساتھ امام کی خدمت میں پیش کردیجئے۔ میں آپ کو دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر آپ نے نیک نیتی ، پاک خیالات کے ساتھ یہ کچھ کیا ہے تو آپ کو اسی وقت امام کا جواب بھی مل جائے گا۔ کیوں کہ آپ ایک عظیم ہستی کی بارگاہ میں ہیں۔ہاں اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے امام کو راضی کرنا اور خود کو بخشوانا نہ بھولئے گا کیونکہ امام رضا علیہ السلام کا وعدہ ہے اور یہ کسی عام نہیں بلکہ اہلبیت کرام ؑ کی بابرکت ہستی کا وعدہ ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا کہ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص غریب الوطنی کے عالم میں میری زیارت کے لیے آئے گا میں روزقیامت تین مقامات پر اس کی فریادرسی کے لئے آؤں گا اور اس کو قیامت کی وحشت سے خلاصی دونگا، اعمال نامے دائیں بائیں منتشر ہونے کے وقت، پل صراط سے گذرتے وقت، اور میزان میں اعمال کو جانچ پرکھنے کے وقت۔ تو پھر بتایئے کہ اورآپ کو اس سے بڑھ کر کیا چاہئے ۔
لیکن اس کے لئے آپ کو مومن بننا ہوگا۔ امام کو کوش کرنا ہوگا۔ان کے فرامیں پر عمل کرنا ہوگا۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ہم سے نہیں ہے وہ جو کسی مسلمان کے کام میں ملاوٹ اور دھوکے سے کام لے ، اس کو نقصان پہنچائے اور اس کے ساتھ مکر و فریب پر مبنی رویہ اپنا کر اس کے خلاف سازش کرے ‘‘۔ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیںکہ ’’جو شخص کوئی کام انجام دینے کے لئے صحیح روش اپنائے وہ کبھی غلطی نہیں کرتا اور نہیں پھسلتا، اور اگر پھسل بھی جائے اور غلطی بھی کرے تو علاج کے راستے بند نہیں ہوتے ‘‘۔
تو کس چیز کے انتظار میں ہیں کرا لیجئے علاج اپنی ظاہری اور باطنی بیماریوں کا ، اپنے نفس کا ۔ کیوں کہ ابھی موقعہ ہے۔ علاج ممکن ہے۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ جو ان ہستی کی بارگاہ میں حاضری دے رہے ہیں جہاں حاضر ہونے کے لئے جانے کتنے لوگ تڑپتے اوراپنی نمازوں اور دعاوں میں فریاد کرتے ہیں کہہ مولا ہمیں اپنی ملکوتی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت دیجئے اور جب ہم یہاں پہنچ گئے ہیں توبہت بد قسمتی ہوگی کہ یہاں کہ فیوض و برکات سے محروم رہتے ہوئے واپس لوٹ جائیں۔ جو یہاں کا فیض حاصل کر لئتا ہے وہ یہاں سے واپسد ہی کب جاتا ہے وہ تو ہمیشہ بس یہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کی لاش، اس کا جسم ہی یہاں سے واپس جاتا ہے روح تو اب یہیں رہے گی۔
جی ہاں یہ امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی بارگاہ ہے ۔ امام ضامن علیہ السلام کی بارگاہ ہے ۔ جہاںہم دنیا کے ہر فکر ہر غم سے ٓزاد ہیں۔ چونکہ ہم امامن ضامن کی ضمانت میں ہیں وہ امام ضامن کہ جب کبھی کسی کو کسی مہم یاکسی سفر پر جانا ہوتا ہے توان کی ضمانت کے طور پر سکہ بازو پر باندھا جاتا ہے۔ جسے امام ضامن کہا جاتا ہے یعنی اب یہ بندہ امام کی ضمانت میں ہے۔امام رضا علیہ السلام کو امام ضامن کہنے کی وجہ ایک مشہور واقعہ ہے جس میں امام علیہ السلام نے ایک شکاری کو ہرنی کے اپنے بھوکے بچوں کودودھ پلا کرواپس آنے کی ضمانت دی تھی۔ اس دلچسپ واقعے کو بھی میں نے ویڈیو فلم کی شکل میں پروڈیوس کیا ہے جو کہ آپ نور پروڈکشن کی سائیٹ ، ےوٹیوب یا گوگل پر ’’ضامن ٓہو‘‘ لکھ کر سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔
جتنی دیر بھی ہم امام علیہ السلام کی بارگاہ میں موجود ہوتے ہیں۔ سوائے اس بارگاہ کی برکتوں کے احساس کے ہمیں کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔ میرا
تجربہ ہے کہ جب بھی میں کافی دیر حرم میں گزاروں اور جیسے ہی حرم سے باہر نکلوں تو ایک دم بھوک کا احساس یہ یاد دلاتا ہے کہ میں نے جانے صبح سے کچھ نہیں کھایا ۔ یعنی حرم میں جب تک ہیں ہمیں بھوک تک کا احساس نہیں ہوتا۔اس قدر نفس کی پاکیزگی آئمہ طاہرین علیھم السلام کی نزدیکی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
ضریح مقدس قبر اطہر کے صندوق کو گھیرے ہوئے ایک جالی ہے ۔ تاریخی شواہدکی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی قبر مطہر پر ضریح مقدس کا لگایا جانا صفویہ دَور سے شروع ہوا اس دَور سے پہلے ضریح مبارک لگائے جانے کے بارے میں معلومات موجود نہیں ہیں۔بہر حال صفویہ دَور سے اب تک حضرت امام ہشتم علیہ السلام کے مرقد مطہر پر پانچ عدد مقدس ضریحیں لگائی جا چکی ہیں کہ جو سنگِ مرقد اور صندوق پر محیط تھیں:
پہلی ضریح مبارک جو کہ سونے اور چاندی سے مزین تھی، دسویں ہجری کے درمیانی عرصے سے متعلق تھی۔
یہ ضریح مبارک صفویہ دَور میں ۹۵۷ ھ۔ ق میں بنائی گئی اور مرقد مطہر کے صندوق پر نصب کی گئی۔
اس ضریح مبارک کے اطراف والے کتیبے پر خطِ ثُلث میں’’سورۂ ھَل اَتٰی‘‘âسورہ دھر/انسانáلکھی گئی تھی ۔
دوسری ضریح مبارک؛ نادری دَور کی نگین نشان ضریح مبارک تھی۔
فولاد سے بنی ہوئی یہ ضریح مبارک جس پر جواہرات جڑے گئے تھے اور نگین نشان کے نام سے معروف ہوئی،۱۱۶۰ ھ۔ ق میں آستان قدس رضوی کو تقدیم کی گئی اور نصب کی گئی یہ ضریح مبارک نادر شاہ افشار کے نواسے شاہرخ میرزا ابن رضاقُلی میرزا نے وقف کی۔
نگین نشان ضریح مبارک جو کہ اس وقت سردابِ مقدس میں موجود ہے ، فولاد سے بنائی گئی تھی اور اسے دو ہزار سے زیادہ قُبہ نما یاقوت اور زمرد سے مزین کیا گیا تھا۔دوسری ضریح مبارک کو مرقدِ امام علیہ السلام پر لگے ہوئے دو سو ساٹھ سال کا عرصہ گذر گیا اور وہ اس طرح سے کہ یہ ضریح مبارک ابتدا میں امام ہشتم علیہ السلام کی آرامگاہِ مقدس پر لگی،پھر جب تیسری ضریح مبارک لگائی گئی اور اسی طرح جب چوتھی ضریح مبارک لگائی گئی تو بالترتیب تیسری اور چوتھی مبارک ضریحوں کے نیچے وہ دوسری ضریح مبارک برقرار رکھی گئی،یہاں تک کہ جب پانچویں ضریح مبارک نصب کی جانے لگی تو اُس وقت ۱۳۷۹ ہجری شمسی میں وہ ضریح مبارک سرداب میں منتقل کردی گئی اور وہاں مرقدِ منور پر لگادی گئی اور اس طرح سے وقف کرنے والے کی نیتِ خیر کا تقاضا پورا کردیا گیا۔ 



ایران کے میوزیم (حصہ دوم)
تحریر:شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ نیوز یکم نومبر 2017
ایران کا خوفناک ترین میوزیم
یہ عبرت نامی میوزیم پہلوی حکومت کے دور میں عورتوں کی جیل اور بعد میں فاسدین کے خلاف مشترک کمیٹی کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ یہ جیل باغ ملی ایران کے احاطے میں واقع ہے اور سن 1381 ہجری شمسی کو اسے عبرت میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ۔
یہ ایران کی پہلی ماڈرن جیل ہے جسے رضا شاہ کے دورمیں جرمن انجینئروں نے مکمل کیا ۔ اس جیل کو سن 1311 ہجری شمسی میں بنایا گیا اور یوں اس جیل کو ایران میں قیدیوں کے لیۓ استعمال کیا جانے لگا ۔ اس جیل کو بعد میں عورتوں کی جیل کے لیۓ مخصوص کر دیا گیا ۔ رضا شاہ پہلوی کے دور حکومت میں اس جیل کو ساواک نے سیاسی قیدیوں کے لیۓ استعمال کرنا شروع کر دیا ۔
رضا شاہ پہلوی نے طاقت کے زور پر ایرانیوں پر حکومت کی اور حکومت مخالف افراد کو دبانے کے لیۓ ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیۓ گۓ ۔ اس جیل میں سیاسی قیدیوں کو رکھا جانے لگا اور ان پر ہر طرح کے مظالم ڈھاۓ جاتے ۔
اس جیل میں کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ جیل میں قیدیوں پر جب ظلم کیا جاتا تو ان کی آوازیں دور دور تک سنائی دیتیں ، یہ حالات کسی بھی عام انسان کے لیۓ ناقابل برداشت تھے ۔ وہاں کے ایک سابق ملازم کا کہنا تھا کہ مجھ سے وہاں رہنا برداشت نہ ہوا اور میں نے اعلی حکام سے درخواست کرکے اپنا تبادلہ دوسری جگہ کروا لیا ۔
اس میوزیم کے مندرجہ ذیل حصّے ہیں :
1۔ لباس رکھنے کی جگہ
اس جگہ پر داخل ہوتے ہی قیدیوں کے لباس اور دوسری اشیاء کو تحویل میں لے لیا جاتا تھا ۔
2۔ اصلی صحن
یہ دائرہ نما حصّہ ہے جہاں پر تینوں اطراف کے راستے کھلتے ہیں ۔
3۔ جکڑنے والا کمرہ
قیدیوں کو تفتیش اور جکڑنے کے لیۓ اس کمرے میں لایا جاتا تھا اور مختلف طرح کی مشینوں اور آلات سے قیدیوں کو اذیت دی جاتی تھی ۔
زیر 8 :
اس کمرے میں قیدیوں کو کرنٹ لگایا جاتا تھا ۔
قیدیوں کی ملاقات کی جگہ :
اس جگہ پر قیدیوں کو ان کے گھر والوں کے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت ہوتی تھی اور عام طور پر ان کے ساتھ ایک محافظ بھی ہوا کرتا تھا ۔

قديم ھنر پر مبني ميوزيم

اس ميوزيم کي عمارت کا افتتاح 1356 کے خرداد ماہ ميں ہوا - اس ميوزيم کي عمارت جديد و قديم طرز کي معياري کا عمدہ نمونہ پيش کرتي ہے - اس ميوزيم ميں ايران اور دنيا کي اہم فني و ہنري اشياء رکھي گئي ہيں جو ايک بيش بہا دولت کي مانند ہيں - اب بھي وقتا فوقتا اس ميوزيم ميں نمائشوں کا اہتمام کيا جاتا ہے تاکہ ان اشياء کے بارے ميں معلومات کے تشنہ لوگ اپني معلومات ميں بہ آساني اضافہ کر سکيں - يہي وجہ ہے کہ سال کے مختلف اوقات ميں يہاں پر طالب علموں اور دوسرے شوقين لوگوں کي ايک بڑي تعداد آتي رہتي ہے -
يہ ميوزيم خيابان گارگر شمالي ميں پارک لالہ کے قريب واقع ہے - اس ميوزيم کے علاوہ خود پارک لالہ بھي اپني خوبصورتي اور قدرتي حسن کي بدولت پورا سال عام لوگوں کي توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے اور دن کے اکثر اوقات ميں يہاں پر لوگوں کا رش لگا رہتا ہے جو تفريح کي غرض سے اس پارک کا رخ کرتے ہيں - پارک لالہ کي وسعت تقريبا 25 ہيکٹر ہے اور اس کا افتتاح سن 1345 ہجري شمسي ميں ہوا تھا -
فرش ميوزيم

يہ تھران کا ايک معروف اور اہم ميوزيم ہے جو پارک لالہ کے شمال ميں واقع ہے - اس عمارت کو بہت اعلي معيار کے مطابق تعمير کيا گيا ہے اور يہ فن تعمير کا ايک عمدہ نمونہ ہے - اس ميوزيم ميں ايران کے مختلف حصوں ميں تيار شدہ فرش رکھے گۓ ہيں جو ايراني ہنرمندوں کي اعلي ہنري اور فني صلاحيتوں کا عمدہ نمونہ پيش کرتے ہيں - اس ميوزيم کو ديکھنے کے ليۓ ايران کے مختلف حصوں اور غير ممالک سے سياح يہاں آتے رہتے ہيں -
رضا عباسي ميوزيم

يہ ميوزيم پانچ ہالوں پر مشتمل ہے جہاں تاريخ کے اعتبار سے مختلف اشياء رکھي گئي ہيں - ايک قبل از اسلام ، اسلامي ايک ، اسلامي دو ، نگار گري ہال اور خوشنويسي ہال وغيرہ وغيرہ شامل ہيں - اس ميوزيم کي عمارت کي تيسري منزل پر لائبريري ہے جہاں بہت مفيد کتب کا مجموعہ دستياب ہے اور عمارت کے تہہ خانے کو نمائش گاہ کے ليے مخصوص کيا گيا ہے - يہ ميوزيم پل سيد خندان کے نزديک خيابان شريعتي ميں واقع ہے -
نارنجستان میوزیم
اس میوزیم کی عمارت " نارنجستان قوام " کے نام سے مشہور ہے جو قوام کمپلکس کا حصہ ہے ۔ اس حصے کو بیرونی حصے کے طور پر بنایا گیا تھا جس میں مہمان بیٹھا کرتے تھے ۔ قاجار دور حکومت میں یہ عمارت گورنر کی عدالت بھی رہی ہے ۔ اس عمارت میں ایک حصہ " زینت الملوک " بھی ہے جو اندرونی حصے کے طور پر بنایا گیا تھا ۔ یہ وہ حصہ تھا جہاں پر گھر اور قریبی خاندان کے افراد بیٹھا کرتے تھے ۔ عمارت کا دوسرا حصہ ذاتی غسل خانے ، عوامی غسل خانے ، امام بارگاہ وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ عمارت کے اندرونی اور بیرونی حصوں کو زیر زمین ایک گزرگاہ آپس میں ملاتی ہے ۔ یہ عمارت قاجار دور حکومت میں رائج ایرانی فن تعمیر کو ظاہر کرتی ہے ۔ نارنجستان اور زینت الملوک عمارات ایران میں رائج روایتی ثقافت کی نمائندہ ہیں ۔
اس کو 1879 سے 1886 ء کے درمیان باغ نارنجستان کے شمالی حصے میں بنایا گیا ۔ اس کی تعمیر کا سہرا مرزا ابراھیم خان کے سر جاتا ہے جو بڑے قوام کا بڑا پوتا اور قوام الملک کا دادا تھا ۔ 1965 ء میں نارنجستان کو ایشین انسٹیٹیوٹ اور شیراز یونیورسٹی کے حوالے کر دیا گیا ۔ اس کے ایک ھال کو بعد میں میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا 
ایران کے میوزیم (تیسرا حصہ)
تحریر: شبیر احمد شگری
2 نومبر 2017، ریپڈ نیوز لاہور

آذربائیجان میوزیم ( تبریز میوزیم )
اس میوزیم کا sq 3000 کا حصّہ اس وقت زیر تعمیر ہے ۔ میوزیم کے اندر رکھی ہوئی مختلف اشیاء کی تعداد تقریبا 4600 ہے ۔ اس کے علاوہ 100 ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں اور 2500 کے قریب پرنٹ کتابیں بھی اس کی لائبریری میں پڑی ہوئی ہیں ۔ یہاں پر موجود کتابیں ایران کی تاریخ و تمدن میں دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کے لیۓ باعث کشش ہیں ۔ میوزیم کے تینوں ھال ،تہہ خانہ، فسٹ فلور اور سیکنڈ فلور نمائشوں کے لیۓ استعمال ہوتے ہیں جہاں پر آرٹ ، آثآر قدیم کے نمونے اور قدیم دور کے انسان کی بہت سی چیزیں موجود ہیں ۔ پہلا اور دوسرا فلور جو کہ میوزیم کے نمایاں حصے ہیں ، مٹی کے برتنوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ یہ برتن پانچویں میلینیم بی سی کے ہیں .

بینک سپہ میوزیم

بینک میوزیم کی عمارت ایران میں موجود قدیم ترین عمارات میں سے ایک عمارت ہے جسے شاہی بینک کے طور پر 1267 شمسی میں تعمیر کیا گیا ۔ اس شاہی بینک کو اپنے ابتدائی دور میں بہت سی مشکلات سے دچار ہونا پڑا جن میں کچھ اہم ایران کے صرافوں کے درمیان پیدا ہونے والی رقابت ، روسی بینک سے رقابت ، چاندی کی قیمت میں کمی اور جنگ جہانی اوّل کے برے اثرات جو ایران پر پڑے وغیرہ شامل ہیں ۔
جنگ جہانی اوّل کے بعد ابتدائی سالوں میں اس بینک کے پاس " حق نشر اسکناس " موجود تھا جس کی وجہ سے اس بینک کو ایران کی اقتصاد میں پہلا درجہ حاصل تھا مگر 1309 شمسی میں اس بینک سے یہ حق واپس لے کر ایران کے قومی بینک کو دے دیا گیا ۔
ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے اس عمارت میں جو بینک کام کر رہا تھا وہ ایران کا ایک تجارتی بینک تھا اور آخرکار 1358 میں " بینک تجارت " کا قیام عمل میں آیا ۔
اس میوزیم کی عمارت ایک سال پرانی ہے اور یہ مٹی کی اینٹوں سے بنی ہوئی ہے ۔ اس کا رقبہ تقریبا 1535 مربع میٹر ہے اور یہ تین منزلوں پر مشتمل ہے ۔ اس بینک میں بہت سی چیزیں موجود ہیں جنہیں یادگار کے طور پر رکھا گیا ہے جن میں 1976 ء میں ہونے والے کینیڈین اولمپیک کے البم ، ایران کے ملی بینک کے افتتاح کے موقع پر جاری ہونے والے طلا‏‏ئی سکے ، پہلوی سلطنت کی پچاس سالہ سالگرہ کے موقع پر جاری ہونے والے سکے اور ایسی بہت سی چیزیں جو سیاحوں اور تاریخ دانوں کی توجہ کا مرکز ہیں ۔
گلستان محل

مجموعہ محل گلستان ، ایران کے دارلحکومت " تہران " میں تقریبا 200 سال پرانی ایک بہت ہی خوبصورت یادگار عمارت ہے جہاں ایک زمانے میں قاجاری سلسلے کے بادشاہ رہا کرتے تھے ۔ 200 سال گزر جانے کے بعد بھی یہ عمارت بہت خوبصورت دکھائی دیتی ہے جو قدیم زمانے کے معماروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ شاہ طھماست اول صفوی ( 984۔ 930 ) وہ پہلے بادشاہ تھے کہ جب وہ تہران کے قریب واقع " حضرت شاہ عبدالعظیم " کی زیارت کے لیۓ آۓ تو انہوں نے اس عمارت کی جگہ کے گرد ایک دیوار بنانے کا حکم دیا ۔ بعد میں آنے والے بادشاہوں نے اس علامتی دیوار کو بلند کیا اور اس میں باغ کا اضافہ کیا ۔ صفوی دور حکومت کے آخری ادوار میں اس جگہ پر بعض اوقات ان کا دربار منعقد ہوا کرتا تھا اور انہوں نے اس میں بعض داخلی عمارات کا اضافہ بھی کیا مگر صفوی دور میں بننے والی ان عمارات کا آج نام و نشان باقی نہیں رہا ہے ۔

مجموعہ گلستان میں موجود قدیم ترین عمارتیں (ایوان تخت مرمر و خلوت کریمخانی ) کریم خان زند کے دور کی ہیں ۔ انہوں نے محمد حسن خان قاجار کے خلاف ہونے والے معرکوں کے دوران اس مقام کو لشکرگاہ کے طور پر استعمال کیا ۔
کریم خان زند کی وفات کے بعد 1200 میں محمد خان قاجار نے تہران کو اپنا دارلحکومت بنایا لیکن وہ ہمیشہ لشکر کشی میں مصروف رہتا جس کی وجہ سے بہت ہی کم اس مکان میں رہا اور اس عمارت کو مزید بہتر بنانے کا اسے کوئی خاص موقع نہ ملا ۔ رضا شاہ پہلوی کے دور حکومت میں اس عمارت کو توسیع دی گئی ۔ بعد میں شاہ نے اپنی رہائشگاہ سعد آباد اور پھر رضا شاہ پہلوی کے دور سے نیاوران میں منتقل ہو گۓ ۔ اس طرح مجموعہ گلستان بیرونی ممالک سے آۓ ہوۓ مہمانوں کی قیام گاہ کے طور پر استعمال ہونے لگا ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے آنے کے بعد اس عمارت کو میوزیم میں تبیدیل کر دیا گیا تاکہ قدیم زمانے کے ایرانی معماروں اور ہنرمندوں کے شاہکاروں سے بیرونی دنیا آسانی سے آگاہی حاصل کر سکے
وہ محل جو جيل بن گيا
قصر جيل تھران کي وہ پہلي جيل تھي کہ جس کي عمارت کو قاجار دور حکومت کے عہدہ داروں نے بنوايا تھا ليکن جب رضا شاہ پہلوي نے عوام کو قيد و بند کي مصيبتوں ميں ڈالنا شروع کيا تو اس نے اس محل کو جيل ميں تبديل کروا ديا کيونکہ قيديوں کي تعداد ميں بےحد زيادہ اضافہ ہو گيا تھا - اس سے قبل تہران ميں واحد جيل بنام " نظميہ " ہوا کرتي تھي جس ميں قيديوں کے رہنے کے ليۓ جگہ محدود تھي - اس جيل کے انچارج نے ايک بڑي جيل بنانے کے ليۓ درخواست دي - اس درخواست کے جواب ميں قصر قاجار کہ جس کي عمارت قديم اور بڑي تھي ، کو جيل ميں تبديل کر ديا گيا - اس قاجاري محل کو سن 1168 ہجري شمسي ميں تعمير کروايا گيا تھا اور اس کے نزديک ترين راستے پل سيد خندان ، خيابان شريعتي اور خيابان پليس ہيں - رضا شاہ نے اس نئي جيل کا آذر کے مہينے ميں سن 1308 ہجري شمسي کو افتتاح کيا - ابتدائي طور پر اس ميں 800 قيديوں کے ليۓ جگہ کا انتظام کيا گيا جنہيں 192 کمروں ميں رکھا گيا - چند سالوں کے بعد قصر جيل کو بھي وسعت دي گئي اور ملک کي معروف شخصيات کو اسي جيل ميں قيد کيا جاتا تھا -

قصر جيل کي تاريخ
اس جيل ميں اس دور کے بہت سے اعلي حکومتي عہدہ داروں کو قيد کيا گيا حتي کہ پہلوي دور حکومت ميں سن 32 ميں 28 مرداد کے واقعہ کے بعد عزت اللہ انتظامي اور احمد شاملو بھي اپني بعض فعال سرگرميوں کي وجہ سے اس جيل کے قيدي بنے -
اس جيل کا نقشہ نيکلاي مارکوف نے تيار کيا - وہ ايران کے بہت معروف معماروں ميں شامل تھا - اس کے ديگر کاموں ميں دارالمعلمين ، دبيرستان البرز، کارخانه قند ورامين و غيره شامل ہيں - سياسي قيديوں کي جيل پہلوي دور کے دوسرے حصے ميں تعمير ہوئي اور دور حاضر کي بہت سي معروف شخصيات اس جيل ميں قيد رہيں -
انقلاب اسلامي

قصر جيل وہ پہلي جيل تھي جس ميں انقلاب اسلامي کے حصول کے ليۓ جدوجہد کرنے والے بےشمار مجاہدوں کو قيد کيا گيا - ان دنوں اس جيل ميں بےشمار مذھبي اور سياسي رہنماۆں کو قيد کيا گيا - اس جيل کو جب لوگوں نے آزاد کروايا تو اس سے بہت سے انقلابي کارکنوں اور رہنماۆں کي رہائي ممکن ہوئي جو انقلاب اسلامي کي جدوجہد ميں ايک بڑي خوش خبري تھي - 1357 ہجري شمسي کے موسم سرما ميں يہ ايک اچھا واقعہ تھا جو يہاں رونما ہوا - انقلاب اسلامي ايران کي کاميابي کے بعد بہت سے ظالموں کو اس جيل ميں لايا گيا جو ايران کے لوگوں پر ظلم ڈھانے کے مرتکب ہوۓ تھے-
قصر جيل کا باغ ميوزيم
قصر جيل کو سن 1386 ہجري شمسي ميں ثقافتي ماحول کي ترقي کے ليۓ کام کرنے والي ايک کمپني کے حوالے کر ديا گيا جسے بعد ميں سن 1386 ميں ہي تھران شہر کي انتظاميہ کے حوالے کر ديا گيا - اب اس جيل کے باغ نما ميوزيم کا افتتاح کر ديا گيا ہے اور لوگوں کے ديکھنے کے ليۓ يہ کھلا رہتا ہے - يہ باغ تھران شہر کي 214 سالہ دارالخلافہ تاريخ کي منہ بولتي تصوير ہے - 



ایران کے میوزیم
تحریر:شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ نیوز 29 اکتوبر 2017

تھران میں ایرانی میوزیم :
ایران کی تاریخ اور ثقافت کو دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے اور تاریخ کے بارے میں جانکاری کو محفوظ کرنے اور اسے آئندہ آنے والے انسانوں تک پہنچانے کے لیئے میوزیم اہم کردار ادا کرتے ہیں - ایران میں بھی بے شمار میوزیم ہیں جو اس علاقے کی تاریخی عظمت کی نشاندھی کرتے ہیں لیکن تھران کو اس بارے میں خاص اہمیت حاصل ہے جہاں سب سے زیادہ میوزیم موجود ہیں جو تفریحی اور معلوماتی لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں اور بے شمار سیاحوں اور تاریخ دانوں کو ان سے بہرہ مند ہونے کا موقع ملتا ہے - ہم اپنی اس تحریر میں تھران کے چند میوزموں پر روشنی ڈالتے ہیں -
موزہ ملک :
یہ میوزیم تھران کے شمالی حصے میں نیشنل باغ کے کنارے واقع ہے - اس میوزیم میں قدیم کتب کے علاوہ قدیم اشیائ
رکھی گئی ہیں - ان اشیائ
کو ملک التجار نے خریدا تھا - اس میوزیم میں اگر آپ کا جانا ہو تو آپ کو یہاں قدیم سکے ، نفیس کتب ، مصوری کے نمونے جس میں کمال الملک کے آثار وغیرہ وغیرہ دیکھنے کو ملیں گے -
سکہ میوزیم میں موجود قدیم سکوں کے مجموعے :
یہ میوزیم بہت پرانا نہیں ہے بلکہ اسے سن 1341 ہجری شمسی میں امام خمینی (رح ) اسکوائر میں واقع سپہ بینک کی عمارت کے ایک حصے میں بنایا گیا - اس جگہ تقریبا 20 ہزار سکے موجود ہیں اور یہ سکے تقریبا 2700 سال سے لے کر موجودہ دور کے سکوں پر مشتمل ہیں - اگر آپ کبھی 2700 سال پرانے سکوں سے لے کر حال حاضر تک کے سکوں کو ایک جگہ دیکھنا پسند کریں تو اس میوزیم کا رخ کریں جہاں آپ کو یہ سب سکے ایک جگہ مل جائیں گے -
شھدا میوزیم :
ایران ایک ایسا ملک جہان کے باسیوں نے اپنے وطن کے دفاع کے لیئے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمیشہ بہادری کا مظاہر کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے ہیں - ان بہادری کی داستانوں اور قربانی کے جذبہ کو ہنر مندوں نے اپنے رنگ میں پیش کیا ہے -
اگر آپ چاہتے ہیں کہ قدیم فنکاروں کے ہنر کو ایثار اور شہادت کے زاویے سے دیکھیں تو اس میوزیم کا ضرور رخ کریں - یہ میوزیم تھران میں خیابان طالقانی میں واقع ہے -
میر عماد میوزیم کا تعارف :
یہ میوزیم سعد آباد کے تاریخی اور ثقافتی مجموعے کی ایک قدیم عمارت میں واقع ہے ۔ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ اس میوزیم کی عمارت 13 ویں صدی کے آخری یا پھر 14 ویں صدی قمری کے ابتدائی دور کی ہے ۔
یہ عمارت قاجار دورہ حکومت کے آخری حصے میں بننے والی عمارات سے مشابہت رکھتی ہے جس میں عمارتوں کو بنانے کی طرز دورہ انتقال کی معماری سے مشابہہ ہے ۔ اس طرز معماری نے قاجار دور حکومت کے اواخر اور پھلوی دور حکومت کے اوائل میں رواج پایا ۔
دور قدیم میں اس میوزیم کی عمارت میں پھلوی دوم کے دو فرزند بنام فرحناز اور علی رضا رہتے تھے ۔ یہ عمارت ساختمان لیلا ( آبکار میوزیم ) اور محل ولی عہد ( بھزاد میوزیم ) کے ساتھ واقع ہے اور اس کی دو منزلیں ہیں ۔ اس عمارت کی ساخت کے متعلق کوئی ٹھوس تاریخی شواھد موجود نہیں ہیں مگر خیال یہی کیا جاتا ہے کہ یہ پھلوی دور حکومت کے اوائل میں ہی بنائی گئی ۔ یہ عمارت رضا پھلوی کی رہائشگاہ رہی بعد میں خالی پڑی رہی اور پھر اس کو ایک مخصوص دفتر میں تبدیل کر دیا گیا ۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد فرحناز کے محل کی اشیائ بھی دوسری جگہ منتقل کر دی گئیں اور 1357 ہجری شمسی میں اسے چمڑے کا میوزیم بنا دیا گیا ۔ بعد میں ایک خاص مدت کے لیئے اس عمارت سے کوئی خاطر خواہ کام نہیں لیا گیا اور پھر 1371 اور 1372 کے نزدیک اس عمارت پر دوبارہ کام شروع ہوا ۔
میوزیم کی عمارت دو منزلوں پر مشتمل ہے جسے ایرانی اور یورپی طرز فن تعمیر کے ملاپ سے تعمیر کیا گیا ہے ۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایک خاص مدت کے لیئے یہ جگہ بیکار تھی مگر بعد میں اسے سازمان میراث فرھنگی کے حوالے کر دیا گیا ۔ اس ادارے نے اس جگہ کو خطوں کی نمائشگاہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ اس عمارت کو حسب ضرورت ایک خاص حد تک تبدیل اور مرمت کیا گیا ۔
اس عمارت کے اندرونی حصے کو انجینیر محترمہ فیروزہ اطھاری اور بیرونی حصے کو انجینیر جناب ھومن صدر نے ڈیزائن کیا ۔ اس عمارت کی اضافی دیواروں کو ختم کر دیا گیا اور یوں یہ عمارت ایک بڑی فضا میں تبدیل ہو گئی جسے خط و کتابت کے میوزیم کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ۔ ۔سن 1376 ہجری شمسی میں 11 ویں قمری صدی کے خوشخطی کے اعلی ترین استاد جناب میر عمادالحسنی سیفی قزوینی کے نام سے اس عمارت کا افتتاح کر دیا گیا ۔
اس میوزیم کی عمارت ایک طرح سے گھریلو عمارت یا حویلی ہے جو چاروں اطراف سے کھل جاتی ہے ۔ عمارت کا بیرونی حصہ اینٹوں سے آراستہ کیا گیا ہے جنہیں ہندسوں کی شکل میں تنظیم کیا گیا ہے ۔ اس عمارت کی خوبصورتی دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ۔ اس عمارت کے اندرونی حصے کو انجینیر محترمہ فیروزہ اطھاری اور بیرونی حصے کو انجینیر جناب ھومن صدر نے ڈیزائن کیا ۔ اس عمارت کی اضافی دیواروں کو ختم کر دیا گیا اور یوں یہ عمارت ایک بڑی فضا میں تبدیل ہو گئی جسے خط و کتابت کے میوزیم کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ۔ ۔سن 1376 ہجری شمسی میں 11 ویں قمری صدی کے خوشخطی کے اعلی ترین استاد جناب میر عمادالحسنی سیفی قزوینی کے نام سے اس عمارت کا افتتاح کر دیا گیا ۔
میر عماد میوزیم کے مختلف حصے :
1۔ اسلام سے قبل کے خطوط
2۔ اسلامی خطوط
3۔ تصوراتی خطوط
4۔ مختلف کام کی چیزیں
5۔ نسخ خطی
بینک سپہ میوزیم
بینک میوزیم کی عمارت ایران میں موجود قدیم ترین عمارات میں سے ایک عمارت ہے جسے شاہی بینک کے طور پر 1267 شمسی میں تعمیر کیا گیا ۔ اس شاہی بینک کو اپنے ابتدائی دور میں بہت سی مشکلات سے دچار ہونا پڑا جن میں کچھ اہم ایران کے صرافوں کے درمیان پیدا ہونے والی رقابت ، روسی بینک سے رقابت ، چاندی کی قیمت میں کمی اور جنگ جہانی اوّل کے برے اثرات جو ایران پر پڑے وغیرہ شامل ہیں ۔
جنگ جہانی اوّل کے بعد ابتدائی سالوں میں اس بینک کے پاس " حق نشر اسکناس " موجود تھا جس کی وجہ سے اس بینک کو ایران کی اقتصاد میں پہلا درجہ حاصل تھا مگر 1309 شمسی میں اس بینک سے یہ حق واپس لے کر ایران کے قومی بینک کو دے دیا گیا ۔
ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے اس عمارت میں جو بینک کام کر رہا تھا وہ ایران کا ایک تجارتی بینک تھا اور آخرکار 1358 میں " بینک تجارت " کا قیام عمل میں آیا ۔
اس میوزیم کی عمارت ایک سال پرانی ہے اور یہ مٹی کی اینٹوں سے بنی ہوئی ہے ۔ اس کا رقبہ تقریبا 1535 مربع میٹر ہے اور یہ تین منزلوں پر مشتمل ہے ۔ اس بینک میں بہت سی چیزیں موجود ہیں جنہیں یادگار کے طور پر رکھا گیا ہے جن میں 1976 ئ میں ہونے والے کینیڈین اولمپیک کے البم ، ایران کے ملی بینک کے افتتاح کے موقع پر جاری ہونے والے طلا??ئی سکے ، پہلوی سلطنت کی پچاس سالہ سالگرہ کے موقع پر جاری ہونے والے سکے اور ایسی بہت سی چیزیں جو سیاحوں اور تاریخ دانوں کی توجہ کا مرکز ہیں ۔
پست میوزیم:
یہ میوزیم بھی امام خمینی (رح ) اسکوائر میں واقع ہے - اس میوزیم کو سن 1313 ہجری شمسی میں تاسیس کیا گیا - یہ میوزیم مرکزی پوسٹ آفس کی عمارت کی دوسری منزل پر واقع ہے - اس میوزیم میں وہ قدیم اشیائ
رکھی گئی ہیں جن کا تعلق ڈاک کے نظام سے ہے - یہاں پر رکھی گئی اشیائ
میں ترازو ، مہریں ، ڈاک کے لیئے مخصوص صندوق ، تحریر کے لیئے اشیائ
، اسناد ، سرٹیفکیٹ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں - اس میوزیم سے قدیم ڈاک کے نظام کے بارے میں اچھی خاصی معلومات حاصل ہوتی ہے -
قومی جواھرات کا میوزیم:
سن 1361 ہجری شمسی میں ایک قانون نافذ ہوا جس کی رو سے ملک کے شاہی محلوں میں موجود جواہرات کو مرکزی بینک کی تحویل میں دے دیا گیا اور پھر سن 1322 ہجری شمسی میں جواہرات کے اس مجموعے کو عام لوگوں کی نمائش کے لیئے کھول دیا گیا - پہلے پہل یہ جگہ تنگ تھی اس لیئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس جگہ کو جدید تعمیرات کے ذریعے وسعت دی جائے - اب یہ جگہ قدرے وسیع ہے اور جرمن سفارت خانے کے بالمقابل خیابان فردوسی میں واقع ہے - جواہرات میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اس جگہ کا رخ کرتی ہے اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتی ہے -
سیزدہ آبان میوزیم :
یہ میوزیم سن 1325 ہجری شمسی کو تاسیس ہوا اور اس کی تعمیر و ترقی میں ھلال احمر اور استاد علی اکبر صنعتی کا بہت ہی اہم کردار ہے - علمی ، ادبی اور دوسری اہم معروف شخصیات کے مجسمے اور مصوری کے نمونے اس میوزیم میں سجائے گئے ہیں - یہ میوزیم بھی امام خمینی (رح ) اسکوائر سے کچھ ہی فاصلے پر ہے اس لیئے جب کبھی اس علاقے میں دوسرے تفریحی مقامات کا دورہ کریں تو میوزیم سیزدہ آبان کو دیکھنا مت بھولیئے -
شیشہ کے پیچھے مصوری والا میوزیم:
یہ میوزیم خیابان ھدایت میں واقع ہے جہاں مصوری کے بے شمار اور خوبصورت نمونے فریموں میں سجا کر رکھے گئے ہیں - قدرتی مناظر کی مصوری اور قرآنی نسخوں کو فریموں میں یہاں دیکھا جا سکتا ہے -


ایران کے سیاحتی و زیارتی مقامات
قدیم ترین شیراز کی تاریخ قبل از اسلام کی ہے
تحریر: شبیر احمد شگری
ریپڈ نیوز: 19 اکتوبر 2017


امام خمینی ؒ اور اتحاد بین المسلمین
تحریر: شبیر احمد شگری


شیخ سعدی ؒ۔ خصوصی ایڈیشن ۔ نوائے وقت فیملی فیگزین 16 اکتوبر 2016 25 مھر 1395


ایران کا صوبہ ھمدان(دوسرا حصہ)
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ 6 اکتوبر 2017


ایران کا صوبہ ھمدان
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ 5 اکتوبر 2017


حافظ شمس الدین شیرازی
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ نیوز 2 اکتوبر 2017


محرم الحرام معیشت میں ترقی کااہم سبب
تحقیق وتحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ نیوز یکم اکتوبر بروز عاشورہ 2017

اللہ کا ذکر زنگ آلود دلوں کی صفائی کے لئے آب رحمت ہے، ذکرِ اللہ بے چین دلوں کا چین ہے، جس طرح کسی مسافر کو اپنے وطن میں آکر سکون حاسل ہوتا ہے اسی طرح اللہ کے ذکر سے دل و روح کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔اسی طرح ہر مصیبت و تکلیف میں رب کو یاد کرنے کا حکم ہے۔
بعض روایتوں کے مطابق افضل ذکر’’ تسبیح فاطمہâسá‘ اللہ اکبر، الحمدللہ اور سبحان اللہ ہے، جو کہ جگر گوشہ بتول ؑ ، زوجہ حضرت علی ؑ ، مادرِ امام حسن ؑو امام حسین ؑ سے منسوب ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے محبوب ترین ہستی حضرت محمد ؐاور ان کی آل پاک کا ذکر بھی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا سبب ہے بلکہ ہمارے روح کی غذا ،اندھیروں میں روشنی ہے بلکہ ہمارے اعمال خیر اوررزق میں اضافے کے علاوہ آخرت میں نجات کا بھی ضامن ہے۔ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی ذکر و محافل کا سلسلہ شروع ہے۔کثرت سے لو گ اللہ کے محبوب ترین ہستیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی یاد محرم کے مہینے کے شروع ہوتے ہی تجدید عہد کے ساتھ دوبارہ تازہ کر لیتے ہیں اگرچہ یہ یاد ان کے دلوں میں سدا زندہ رہتی ہے۔ جسے وہ پورا سال فراموش نہیں کرسکتے۔ حتیٰ کہ گور کے دامن میں جا سوتے ہیں لیکن اس زندہ یاد، محبت ،ذکر اور توشہ کے ساتھ محشور کئے جائےں گے۔جہاں انھیں اس ذکر کا اصل صلہ ملنے والا ہے۔
عام سوچ کے برعکس یہ ذکر اور مجالس کی محفلیں صرف چند افراد سے تعلق نہیں رکھتی ہیںبلکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کا تعلق پورے معاشرے پورے ملک سے ہے۔ جو کہ معیشت پر ایک بہت گہرا اثر بھی رکھتی ہیں۔اور اس کی ترقی میں ایک اہم کردار صدیوں سے ادا کر رہی ہیں۔
کم ازکم اعداد و شمار کے مطابق جو میں آگے بیان کروں گا اس ملک کے بجٹ کا ایک چوتھائی حصہ محرم الحرام کا مرہون منت ہے۔ کسی بھی موقع پر جب کاروبار بند ہوتا ہے تو ملک کی معیشت کو شدید دھچکا لگتا ہے ۔ لیکن محرم الحرام کے دوران جب کاروبار بند رہتا ہے تو معجزانہ طور پر معیشت نہ صرف چلتی رہتی ہے بلکہ اس میںمزید اضافہ بھی ہوتا ہے ۔
اور یہ کس طرح ہوتا ہے یہ جاننے کے لئے محرم الحرام میں ہونے والے اخراجات پر نظر ڈالتے ہیں یاد رہے کہ ان اعداد و شمار میں کم سے کم اندازہ شمار کیا گیا ہے ۔در حقیقت محرم الحرام میں ہونے والے اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں جس کے اندازے کی کوئی حد نہیں ہے۔
تبرکات کے لئے ملک میں اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں ۔کچھ افراد تعزیوں پر سالانہ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، تعزیہ سازی ایک بہت بڑی صنعت ہے۔دنیا میں بہت سی اقسام کے اور چھوٹے بڑے تعزیے خوبصورت شکلوں میں تیار کئے جاتے ہیں۔
تعزیہ سازی کا ذکرآیا ہے تو ایک بات آپ سے مثال کے طور پر شئیر کرتا چلوں جس سے آپ کو مومنین کی آئمہ طاہرین علیھم السلام اور واقعہ کربلا سے عقیدت اور وابستگی کا اندازہ ہوجائے گا۔ گذشتہ سال مجھے معلوم ہوا کہ لاہور سے کچھ لوگ تعزیہ بنوانے کے لئے کراچی گئے جن کے پاس گئے وہ نسل در نسل تازیہ سازی کا کام مہارت سے کر رہے ہیں۔ لیکن مجھے یہ جان کر حیرانگی ہوئی کہ اس پارٹی کو انھوں نے 70سال بعد کا ٹائم دیا یعنی ان کا آرڈر کیا ہوا تعذیہ انھیں 70 سال بعد ملے گا۔کیوں کہ باری کے حساب سے ان کا ٹائم یہی بنتا ہے ۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا ضمانت ہے کہ 70 سال بعد آپ موجود ہوں گے ۔تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم نسل در نسل یہی کام انجام دے رہے ہیں اگر ہم نہیں تو ہماری اولاد آپ کو یہ تعذیہ دے دے گی۔ ایک ضمانت یہ بھی تھی کہ وہ یہ تعذیہ قیمتاً نہیں بلکہ بلا معاوضہ بنا کر دے رہے ہیں ۔اس بات سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ واقعہ کربلا ،امام حسین علیہالسلام اور ان کے رفقائے کار کی قربانیاں تا قیامت یاد رکھی جائیں گی اورچاہے کوئی جتنا مرضی کوشش کر لے اسے نہیں مٹا سکتا۔
? چنیوٹ شہر جو اپنے تازیوں کی وجہ سے مشہور ہے اوروہاں زیادہ تر تعزیہ بنانے والے اور نکالنے والے شیعہ نہیں بلکہ اہلسنت بھائی ہیں –
اسی طرح لاہور میں اہلسنت بھائیوں کے تازیوں کے جلوس صدیوں پرانے ہیں۔اس کے علاوہ محرم کے مختلف رسوم جیسے سبیل لگانا ، تعزیہ نکالنا ، مجلس کا انعقاد نیاز و تبرک تیار کرنا اور بانٹنا – ان سے نا صرف معاشی فایدہ ہوتا ہے بلکہ اس سے شیعہ سنی مسلمانوں کے درمیان آپسی بھائی چارے کو بھی فروغ ملتا ہے۔ جو ملک کے استحکام کے لئے انتہائی ضروری ہے – یہ اتحاد یقینی طور پر اسلام دشمن عناصر کے لئے ایک بری خبر ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں تقریباً 2 لاکھ تعزیے تیار کئے جاتے ہیں ۔جن کی قیمت کئی ہزار سے لے کر لاکھوں روپے تک ہوتی ہے۔اور اگر ہم ایک تعزیے کی قیمت کم از کم 5000 روپے بھی رکھ لیں تو ایک ارب سے زائد رقم صرف تعزیہ سازی کی صنعت سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔جو کہ نہ صرف ان کے بنانے والوں بلکہ اس سے واسطہ رکھنے والے دیگر افراد کی آمدنی اور رزق میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے۔
روز عاشور کے دن نیاز اور متعدد قسم کے شربت تیار کئے جاتے ہیں ۔اگر ملک کی 50% آبادی کو نکال کر باقی 50% افراد میں پانچ افراد فی خاندان،انفرادی نیاز کے اندازے کے لئے فی گھر صرف 300 روپے فی گھر بھی حساب کیا جائے تو ساڑھے پانچ ارب روپے صرف
عاشورہ کے دن انفرادی نیاز کی مد میں خرچ کئے جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق محرم اور چالیسویں کے لئے امام بارگاہوں ،مزاروں ،محلوں ،گلیوں اور دیگر مقامات پر حلیم کی دیگیں بنائی جاتی ہیں۔اکثرمقامات پر یہ دیگیں 100 تک کی تعداد مین بھی ہوتی ہیں۔اگر ان دیگوں کی مالیت کے اندازے کے لئے ملک کی 50% آبادی نکال کر باقی کی آبادی کے فی گھر پانچ افراد کی تعداد لی جائے تو یہ ایک کروڑ اسی لاکھ فیملیز نکلیں گی۔ ان فیملیز میں سے صرف10فیملیز کے ہاں صرف ایک دیغ کی حلیم بننے کا بھی حساب رکھ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں 10 ارب روپے کی تو صرف حلیم تیار کی جاتی ہے۔
پاکستان کی آبادی کے 12% محفوظ آبادی کی جانب دیکھا جائے جن کی جانب سے مجالس کے سلسلے کثرت سے جاری رہتے ہیں ۔ 12%آبادی جو تقریباً دو کروڑ بنتی ہے تو اگر پانچ افراد فی گھر کے حساب سے اندازہ لگایا جائے تو 40 لاکھ خاندان بنیں گے۔ اور 40 لاکھ خاندان ایسے ہیں جو اپنے گھروں میں کم از کم ایک مجلس کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔
اگر خواتین کی صرف ایک بڑی مجلس کا اندازہ صرف 25000 روپے بھی لگایا جائے تو ان چالیس لاکھ خاندانوں کی جانب سے مجالس پر کیا جانے والا کل خرچہ 100 ارب نکلے گا ۔
امام بارگاہوںکی تزئین،اور ان میں سونے چاندی کے استعمال، مجالس کے لئے لائیٹنگ اور قناعتوں کے اخراجات ،مجالس کے لئے اشتہارات اور بینر ز کے اخراجات،سبیلون کے اخراجات،یکم سے دس محرم تک شربت اور دودھ کی سبیلوں کے اخراجات،کالے لباس کی خرید اور سلائی کے اخراجات،اور مجالس میں آنے اور جانے کے لئے پٹرول اور سی این جی کے اخراجات کسی صورت کم از کم دسیوں ارب روپے ہی ہوں گے۔
لیکن اگر ا سے 10ارب روپے سمجھ کر بھی دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ محرم کے دوران 126 ارب روپے کی پیداوار ہوتی ہے۔تو گویا محرم الحرام میں 126 ارب روپے کے اخراجات مجموعی قومی شرح نمو کا کم از کم ایک چوتھائی حصہ ہے۔
یہ اعداد و شمار تو صرف پاکستان کے لئے ہیں اور کم سے کم رکھے گئے ہیں ابھی ذاکرین اور خطیب کو دئیے جانے والے ہدیوں کا یہں ذکر نہیں کیا گیا ہے اگر وہ بھی شامل کئیے جائیں تو نامعلوم کتنے گنا زیادہ حساب بن جائے گا جس کا حساب کرنا بھی مشکل ہوگا۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ درحقیقت یہ ساری دنیا محمد ؐ و آلِ ؑمحمد ؐکے صدقے میں ہی کھا اور پی رہی ہے


ایران کے سیاحتی اورزیارتی مقامات
تحریر : شبیر احمد شگری
26 ستمبر 2017 روزنامہ ریپڈ


ایران کے سیاحتی اورزیارتی مقامات
تحریر : شبیر احمد شگری
23 ستمبر 2017 رازنامہ ریپڈ


ایران کے سیاحتی اورزیارتی مقامات
تحریر : شبیر احمد شگری
21 ستمبر 2017 رازنامہ ریپڈ

ایران کے سیاحتی اورزیارتی مقامات
تحریر : شبیر احمد شگری
20 ستمبر 2017 رازنامہ ریپڈ


ایران کے سیاحتی اورزیارتی مقامات
تحریر : شبیر احمد شگری
19 ستمبر 2017 روزنامہ ریپڈ


ایران کے سیاحتی اورزیارتی مقامات
تحریر : شبیر احمد شگری
17 ستمبر 2017 رازنامہ ریپڈ


ایران کے سیاحتی اورزیارتی مقامات
تحریر : شبیر احمد شگری
16 ستمبر 2017 رازنامہ ریپڈ


ایران کے سیاحتی اورزیارتی مقامات
تحریر : شبیر احمد شگری
14 ستمبر 2017 رازنامہ ریپڈ
اسلامی رشتوں میں سرحدیں نہیں ہوا کرتیں۔جغرافیائی تقسیم اور فاصلوں کے باوجودیہ رشتے مظبوط ہوتے ہیں۔ ایران و پاکستان دونوں ممالک نقشے پر ایک سرحدی لکیر کے دونوں طرف واقع ہیں ۔اسلامی جمہوریہ ایرا ن کرہ ارض پر وہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا ۔اور سیاسی تعلقات قائم کئے اور دونوں ملک آر سی ڈی اور دیگر علاقائی معاہدوں میں منسلک ہوئے ۔
اس اہمیت کے حامل رشتے کوابھی کچھ زیادہ عرصہ تو نہیں ہوا لیکن مذہبی ثقافتی اورتاریخی طور پریہ خطہ صدیوں سے مظبوط اور گہرے رشتوں میں جڑا ہوا ہے۔اس سر زمین پر داتا گنج بخش حضرت علی عثمان ہجویری،حضرت میر سید علی ہمدانی،حضرت شمس تبریزی اور میاں حسین زنجانی جیسے بزرگ ایران تشریف لائے اور انھوں نے نہ صرف دین اسلام کی تبلیغ کی بلکہ دونوں ملتوں کے درمیان ثقافتی رشتوں کی مظبوطی کا بھی سبب بنے ہیں۔
زبان فارسی اہل پاکستان کے آبائ و اجداد کی زبان ہے اور لاہور کو فارسی ادب کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔اور شعرائے کرام کی جو تعداد یہاں رہی ہے وہ دارالحکومت ایران کے شعرا کی تعداد سے کم نہیں ہے۔اور سعد سلمان،عرفی شیرازی اور حکیم الامت علامہ اقبال جیسے شعرائے کرام کے وجود فارسی زبان کے لئے باعث فخر ہیں۔
مرحوم جاوید اقبال نے کہا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو علامہ اقبالؒ سے عشق ہے اوروہ ان کے بہت بڑے معتقد ہیں ۔اور انھوں نے خود فرمایاکہ مجھے حضرت علامہ اقبال کے 2000 اشعار حفظ ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کے کلام کا بیشتر حصہ فارسی زبان میں ہے۔ایرانی قوم حضرت علامہ اقبال ؒ کو بہت عزت کا مقام دیتی ہے۔ ایرانیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کی پیشگوئی بھی علامہ اقبال ؒ نے پہلے ہی کردی تھی۔
حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں فرمایا تھا کہ می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما
یعنی وہ مردآنے والا ہے جو غلاموں کی زنجیریں توڑ کر اُنہیں آزادی دلائے گا۔ میں نے تمہارے زندان کی دیوار کے روشن دان سے اُسے دیکھا ہے ۔ایرانیوں کے بقول حضرت علامہ اقبالؒ نے اس شعرمیں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒکے بارے میں پیشگوئی کی تھی۔ایران میں حضرت علامہ اقبالؒ کو اقبال لاہوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ان دونوں ممالک کے درمیان بے پناہ مشترکہ اقداربھی ہیں۔جس میں زبان کی بہت اہمیت ہے۔ ایرانی اردو کو فارسی کی خوبصورت بیٹی کہتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ارود میںبیشتر الفاظ فارسی زبان کے ہیں ۔ مثال کے طور پر پاکستان کے قومی ترانے میں ’’پاک سر زمین کا نظام‘‘ میں صرف ’’کا ‘‘ کا لفظ اردو کا ہے باقی پورا قومی ترانہ فارسی زبان کے الفاظ پر مشتمل ہے۔
گزشتہ برسوں میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں اور واقعات کی روشنی میں دو طرفہ تعلقات خاص اہمیت کے حامل بنے اور یوں باہمی تعلقات کے فروغ میں مثبت اور قابل ذکر پیشرفت ہوئی۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بالخصوص او آئی سی، )ایکو( اور جی ایٹ جیسے اداروں میں ایک دوسرے سے مکمل ہم آہنگی، اتفاق اور تعاون رہا۔ اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے ، علاقائی اور بین الاقوامی اجلاسوں کے موقع پر ملاقاتیں مطلوبہ باہمی تعلقات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ دونوں ملک کوشاں ہیں کہ مشترکہ سیاسی، اقتصادی، سرحدی اور سیکورٹی کمیشن قائم کرکے مستقبل میں درپیش مشکلات و مسائل پر قابو پاتے ہوئے دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے بنیادیں فراہم کریں۔


قلعہ کھرپوچو
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ 13 ستمبر 2017

گلگت بلتستان کی سرزمین خوبصورت جھیلوں،میدانوں، برف پوش پہاڑوں،آبشاروں،اور خوبصورت مناظر کی منابت سے دنیا کی سب سے خوبصورت ترین جگہ ہے۔تاریخی مساجد اور دیگرتاریخی مقامات بھی یہاں موجود ہیں۔چونکہ یہاں راجاوں کی حکومت ہوا کرتی تھی تو یہاں بہت سے تاریخی قلعے اب تک موجود ہیں۔ جن میں سے ایک قلعہ کھرپوچو بلتستان کے صدر مقام سکردو کے درمیان موجود پہاڑی پر بنا ہوا ہے جو کہ صوبائی حکومت کی بے حسی اور عدم توجہی کامنہ چڑا رہا ہے ۔آج ہم صرف اسی قلعے کا ذکر کریں گے۔
کھرپوچو قلعہ سکردو قلعہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔یہ بلتستان کے صدر مقام سکردو شہر میں موجود پہاڑی کے مشرقی حصے پر تعمیر کیا گیا ہے ۔ چونکہ یہ پہاڑی سکردو شہر کے وسط میں قائم ہے ، اس لئے کھرپوچو قلعہ سے پوری وادی، دریائے سندھ اور شہر کے اطراف میں موجود پہاڑوں کا خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہے ۔
قلعہ کھرپوچو کو گلگت بلتستان کے علاقے کے قلعوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے - یہ قلعہ قدیم فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے - اس قلعے میں ایک قدیم مسجد بھی موجود ہے - چودھویں صدی میں تبت خورد کے عظیم فرماں روا علی شیر خان انچن کے دور حکومت میں سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے 8 ہزار فٹ سے زائد بلندی پر چٹانوں کے اُوپر دیوہیکل پتھروں سے تعمیر کیا جانے والا پر شکوہ قلعہ “کھرپوچو” حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے شکست و ریخت سے دو چار ہے ۔ سکردو سے چترال تک فتوحات کے جھنڈے گاڑنے والے عظیم بادشاہ علی شیر خان انچن نے دفاعی اور جغرافیائی لحاظ سے شہر کے عین اوپر موجود ایک پہاڑی پر ایک ایسے قلعے کی بنیاد رکھی جہاں سے وہ نہ صرف باآسانی سکردو میں داخل ہونے والے راستوں کی نگرانی کر سکتے تھے بلکہ اسے حالت جنگ میں ایک مضبوط پناہ گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اس قلعے تک پہنچنے کے لئے بیرونی طور پر کوئی باقاعدہ راستہ نہیں ہے تاہم قلعے کے رہائشیوں کے لئے اندرونی طور پر ایک سرنگ تھی جسکے بارے میں سوائے راجہ کی فیملی کے کسی اور کو علم نہیں تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ علی شیر خان انچن جب فتوحات کے سلسلے میں گلگت سے ہوتا ہوا چترال گیا تھا تو اس دوران اُن کی ملکہ نے قلعے کے قریب ایک نہر بنائی جو آبپاشی اور آبنوشی کے کام آتی تھی اور ساتھ ہی قلعے تک رسائی کے لئے بیرونی راستہ بھی بنایا۔ جب علی شیر خان انچن چترال کی مہم کامیابی سے سر کرنے کے بعد واپس لوٹے تو قلعے تک راستہ بنانے پر ملکہ سے ناراض ہوئے ۔ جبکہ نہر بنانے پر خوشی کا اظہار کیا۔قلعہ کھرپوچو مختلف ادوار سے گزرتا ہوا جب 14 اگست 1948 کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے مرحلے میں پہنچا تو مجاہدین سے بچنے کے لئے سکھ فوج اسی قلعے میں بند ہو گئی جنہیں باہر نکالنے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لئے مجاہدین نے سینکڑوں کلو میٹر دور بونجی سے کاندھوں پر اُٹھا کر لائی گئی توپ سے قلعے پر گولہ باری کی، اس طرح جنگ آزادی میں بھی اس قلعے کا تاریخی رول بھی رہا تاہم مجاہدین کی گولہ باری سے قلعے کی اندرونی اور بیرونی دیواروں کو شدید نقصان پہنچا۔ قلعہ کھرپوچو اپنی طرز تعمیر کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور اس قلعے کی تعمیر میں بیک وقت تبتی، ایرانی اور مشرقی ادوار اور تہذیب و ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے ، قلعے کی دیواروں میں روایتی انداز میں لکڑی کی چنائی کی گئی ہے تاکہ زلزلے کی صورت میں قلعے کو کم سے کم نقصان ہو۔ قلعے کے اندر جنگی قیدیوں اور باغیوں ک لئے ایک زندان بھی موجود ہے جسکی گہرائی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ تین سے چار سو فٹ ہے ۔ محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی سے قلعہ کھرپوچو زمانے کے نشیب و فراز سے گھائل ہوتا جارہا ہے ، قلعے کی حفاظتی برجیاں، دیواریں اور اکثر کمروں کی چھتیں گر گئی ہیں جبکہ نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ کچرا اور گندگی سے یہ عظیم اور تاریخی عمارت آسیب زدہ نظر آرہی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت اس خستہ حال عظیم ثقافتی ورثے کو تاریخ کے اوراق میں دفن ہونے سے محفوظ کرے ۔ایک قیاس یہ کیا جاتا ہے کہ مقپون بُگھا، سکردو کا ایک بہت مشہور بادشاہ، نے شہر کی بنیاد رکھی، جسے اس نے اپنا دارالحکومت بنایا، اور 1490ئ سے 1515ئ کے درمیانی عرصے میں کھرپوچو قلعہ تعمیر کیا۔ تاہم، مغل مؤرخین اس کی تعمیر کو علی شیر خان انچن، مقپون بُگھا کا پڑپوتا، سے منسوب کرتے ہیں۔


کیا جمشید دنیا کا پہلا بادشاہ تھا ؟
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ نیوز 11 ستمبر 2017

بچپن میں جب ہم کہانیاں پڑھتے یا سنتے تھے تو اس میں سے بیشتر کہانیاں اسی طرح شروع ہوتی تھیں کہ ملک فارس پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کا نام۔۔۔۔ ایرانی تہذیب انتہائی قدیم ہے یہاں پر ایک بادشاہ جمشید نے بھی حکومت کی۔
ایرانی علم الاساطیر ماہرین کے مطابق دنیا کا پہلا بادشاہ جمشید یا جم ہے جس نے ایک ہزار سال تک حکومت کی - اس بادشاہ کے زمانے میں عوام کو ہر طرح کی نعمتیں میسر ہوا کرتی تھیں - بڑھاپے اور ناتوانی کی لوگوں کو کوئی فکر نہیں ہوا کرتی تھی کیونکہ بارشیں کثرت سے ہونے کی وجہ سے اناج کی فراوانی تھی اور ہر طرح سے لوگ غذائی اجناس میں خود کفیل تھے - سب سے اہم بات یہ تھی کہ بادشاہ جمشید اپنی عوام کے لیئے ایسی حکمت لے کر آیا جو معاشرے میں سچائی اور دانائی کا باعث بنی -
جمشید دو قدیم الفاظ کا مرکب ہے ۔ جم اور شید ۔ جم سنسکرت کا ’’یم ‘‘ ہے یعنی پاتال کا مالک اور ’’شید‘‘ کے معنی روشن ہیں۔ مشہور آریائی بادشاہ ہے ۔
جمشید کا اوستا میں نام یہنہ آیا ہے اور اس کے باپ کا نام دیوہونت۔ اوستا میں یمنہ کے معنی جڑواں اور ہمزاد کے ہیں۔ یہ نام رگ وید میں بھی آیاہے ۔ برہمنی کتابوں میں یم اور اس کی بہن ہمنی بمنزلہ آدم و حوا کے ہیں۔ شید اوستامیں اس کے نام کا جز نہیں ہے ، لیکن دوسرے خطعات میں خشت اس کے نام کا جزو ہے ۔ مسلمان مورخوں نے جمشید کی تفصیل لکھی ہے ۔ ابوالفدا لکھتا ہے جم بمعنی چاند شید بمعنی شعائیں، یعنی شعاع قمر۔ ابن اثیر، ابن مسکویہ اور صاحب مجمل اس بادشاہ کی نیکی کے متعرف ہیں، مجمل ہے کہ وہ اپنی نیکی اور اچھائی کی وجہ سے جمشید کہلاتا تھا۔ دوسری جگہ لکھاہے کہ جم شید بمعنی سورج کے ہے ۔ شاید خشت اوتائی لفظ مرور زماننہ سے شید بن گیا ہو۔شمالی ہند کے بہت سے مسلم قبائل جمشید کو اپنا مورث اعلیٰ قرار دینے لگے ہیں۔
جمشیدکے دور حکومت میں آبادی میں اس قدر اضافہ دیکھنے میں آیا کہ رہائش کے لیئے جگہ کم پڑنے لگی اور یوں اسے مجبوری کے تحت تین بار رہائشی علاقوں کو وسیع کرنا پڑا (احتمالا زمین سے مراد اس کی حکومت کا علاقہ بھی ہو سکتا ہے )- جمشید وہ پہلا شخص ہے کہ جس کو افسانوی داستانوں میں شاہ (خشائیتھ )کے نام سے ذکر ہوا ہے -
وہ ایرانی ثقافت میں موجود افسانوی داستانوں کا ایک قوی ترین بادشاہ ہے کہ جس نے معاشرے میں طبقانی نظام متعارف کروایا اور لوگوں کو مختلف طرح کے پیشوں مثلا خیاطی ، معماری ، حکمت، کشتیرانی وغیرہ وغیرہ سے روشناس کرایا - جمشید کو علاقے کی تمام ملتوں کے درمیان ایک اعلی مقام حاصل رہا ہے - مثال کے طور پر بہت سی عرب تاریخی کتابوں میں بادشاہ جمشید کی نیکیوں اور راست بازی کا ذکر ہوا ہے - تخت جمشید سے اس کی نسبت بھی اس کی بزرگی کی یاد دلاتی ہے -
جشن نوروز کے دنوں میں اس کی تاج پوشی کی تقریب ہوئی اس لیئے یہ جشن اسے ہمیشہ یاد رہتا اور اس نے نوروز کو دو حصوں عام اور خاص میں تقسیم کر دیا -
جمشید کے دوسرے اقدامات میں اس کا انسان کے لیئے جاودانی کا تقاضا تھا - جہان کو آباد کرنے کے بعد جمشید بادشاہ میں غرور اور تکبر آ گیا اور اس کے دشمنوں نے اس کے ملک کو فتح کر لیا -
بادشاہ جمشید کے اہم اقدامات :
1- معاشرے میں چار طبقانی نظام کو متعارف کیا جن میں مذھبی پیشوا ، سپاہی ، کاشتکار ، صنعت کار شامل تھے - ان کا شاہنامے میں بالترتیب یوں ذکر کیا گیا ہے آتورنیان، تیشتاریان، پَسو ییِ، اُہتوَخوشی -
2- جواھرات کو دریافت کیا ،عطر بنائے ، جنگی سازوسامان کی تیاری- اس کے علاوہ جولاہے ، درزی ، معمار ، ڈاکٹری اور کشترانی جیسے پیشوں کو معاشرے میں متعارف کروایا -
3- نوروز میں اس کی تاج پوشی کے جشن کا انعقاد اور ایک اجتماعی معاشرے کے قیام کی وجہ سے وہ لوگوں میں بے حد مقبول ہو گیا -
ایران کا بادشاہ جمشید اپنے پیالے میں جھانک کر واقعاتِ عالم کی جھلک دیکھ لیا کرتا تھا۔ دنیا بھر میں جمشید کے اس پیالے کی ایسی دھوم مچی کے اسے جامِ جمشید کے ساتھ ساتھ جامِ جہاں نما بھی کہا جانے لگا
جمشید نے ایران کے قدیم دارالسلطنت ’’پرسی پولس‘‘ تخت جمشید کی تعمیر بھی کی۔
جمشید شمسی کیلنڈر ، نوروز ، شراب ، اسلحہ جات ، ریشمی کپڑا غرض تمام علوم و فنون کا موجد خیال کیا جاتا ہے ۔ آخر میں اس نے خدائی کا دعوی کیا۔ تب زرتشتی عقائد کے مطابق آسمانی طاقتوں نے ضحاک کو اس کی سرزنش پر مامور کیا۔ ضحاک نے جمشید کو شکست دی۔ اور اُسے آرے سے چیز کر ہلاک کر دیا۔جمشید نے دنیا کو آباد کیا اور بہت سی اصلاحات کیں اور قاعدے مرتب کئے ۔ اس نے قاعدے ، تنظیم، پیشے ، علوم، و تجارت کو فروغ دیا، نیز بہت سی ایجادات کیں۔ یہاں تک شیطان نے اسے گمراہ کردیا۔ انگوری شراب کی ایجاد اس سے منسوب کی جاتی ہے ۔


غدیر، جب دین مکمل ہوا۔
روزنامہ ریپڈ 10 ستمبر 2017
تحریر و تحقیق: شبیر احمد شگری

یَااَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَاْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَالل یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ اِنَّ اللَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِین۔
ترجمہ: ”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے ، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔
اھل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ کی âتمام شیعہ مشھور کتابوں میںá بیان ھوا ھے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے ۔
ان احادیث کو بہت سے اصحاب نے نقل کیا ھے ، منجملہ: ”ابوسعید خدری“، ”زید بن ارقم“، ”جابر بن عبد اللہ انصاری“، ”ابن عباس“، ”برائ بن عازب“، ”حذیفہ“، ”ابوھریرہ“، ”ابن مسعود“اور ”عامر بن لیلی“، اور ان تمام روایات میں بیان ھوا کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے متعلق ھے اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے ۔
یہ بات اجمالاً معلوم ھوجاتی ھے کہ یہ آیہ شریفہ بے شمار شواھد کی بنا پر امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے ، اور اس سلسلہ میں âشیعہ کتابوں کے علاوہá خود اھل سنت کی مشھور کتابوں میں وارد ھونے والی روایات اتنی زیادہ ھیں کہ کوئی بھی اس کا انکار نھیں کرسکتا۔
ان مذکورہ روایات کے علاوہ بھی متعددروایات ھیں جن میں وضاحت کے ساتھ بیان ھوا ھے کہ یہ آیت غدیر خم میں اس وقت نازل ھوئی کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا وصی و خلیفہ بنایا، ان کی تعداد گزشتہ روایات کی تعداد سے کھیں زیادہ ھے ،
جو حضرات حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں مزید مطالعہ کرنا چاہتے ھیںوہ درج ذیل کتابوں میں رجوع کرسکتے ھیں:
۱۔ عظیم الشان کتاب الغدیر جلد اول تالیف ،علامہ امینی علیہ الرحمہ۔
۲۔ احقاق الحق، تالیف ،علامہ بزرگوار قاضی نور اللہ شوستری، مفصل شرح کے ساتھ آیت اللہ نجفی، دوسری جلد ، تیسری جلد، چودھویں جلد، اور بیسویں جلد۔
۳۔ المراجعات ،تا لیف ،مرحوم سید شرف الدین عاملی۔
۴۔ عبقات الانوار ، تالیف عالم بزرگوار میر سید حامد حسین ھندی (لکھنوی) ۔
۵۔ دلائل الصدق ، جلد دوم، تالیف ،عالم بزرگوار مرحوم مظفر۔
حدیث غدیر :ھم یھاں تمام روایات کے پیش نظر واقعہ غدیر کا خلاصہ بیان کرتے ھیں، âالبتہ یہ عرض کردیا جائے کہ بعض روایات میں یہ واقعہ تفصیلی اور بعض میں مختصر طور پر بیان ھوا ھے ، بعض میں واقعہ کے ایک پھلو اور بعض میں کسی دوسرے پھلو کی طرف اشارہ ھوا ھے ، چنا نچہ ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ھے :)پیغمبر اکرم (ص)کی زندگی کا آخری سال تھا”حجۃ الوداع “کے مراسم جس قدر باوقار اور باعظمت ھو سکتے تھے وہ پیغمبر اکرم کی ھمراھی میں اختتام پذیر ھوئے ، سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررھی تھی ۔ اصحاب پیغمبر کی کثیر تعداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سا تھ اعمال حج انجام دینے کی عظیم سعادت پر بہت زیادہ خوش نظر آرھے تھے ۔
نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ھمراہ تھے ۔سرزمین حجاز کا سورج درودیوار اور پھاڑوںپر آگ برسارھا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی حلاوت نے تمام تکلیفوں کو آسان بنارھا تھا۔ زوال کا وقت نزدیک تھا، آھستہ آھستہ ”جحفہ“ کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے ”غدیرخم“ کا بیابان نظر آنے لگا۔در اصل یھاں ایک چوراھا ھے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ھے ، شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ھے یھی وہ مقام ھے جھاںآخری او راس عظیم سفر کااھم ترین مقصدانجام دیاجا نا تھا اور پیغمبر مسلمانوں کے سامنے اپنی آخری اور اھم ذمہ داری کی بنا پر آخری حکم پہچا نا چا ہتے تھے ۔
جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال، آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے سب کو ٹہر نے کا حکم دیا گیا، مسلمانوں نے بلندآواز سے قافلہ سے آگے چلے جانے والے لو گوں کوواپس بلایااوراتنی دیر تک رکے رھے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پھنچ گئے ۔ آفتاب خط نصف النھار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظھر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ھوگئے ، لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی حصہ سر پر رکھنے کے لئے مجبور تھے ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رھی تھیں۔
اس صحرا میں کوئی سایہ نظر نھیں آتا تھا اور نہ ھی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند خشک جنگلی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رھے تھے کچھ لوگ انھی چند درختوں کا سھارا لئے ھوئے تھے ، انھوں نے ان برھنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان بنا رکھا تھا لیکن سورج کی جلا دینے والی گرم ھوا اس سائبان کے نیچے سے گزر رھی تھی ،بھرحال ظھر کی نمازاداکی گئی۔مسلمان نماز کے بعد فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لینے کی فکر میں تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ھوجائیں جسے ایک مفصل خطبہ کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور تھے وہ اس عظیم اجتماع میں پیغمبر کا ملکوتی اور نورانی چہرہ دیکھ نھیں پارھے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا،پیغمبر اس پر تشریف لے گئے ،پھلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقریب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے ھوئے تمھارے درمیان سے جا نے والاھوں ،میں بھی جوابدہ ھوںاورتم لو گ بھی جوابدہ ھو ،تم میرے بارے میں کیا کہتے ھو ؟سب لو گوں نے بلند آواز میں کھا:”نَشھَد انّکَ قَد بَلَغْتَ وَ نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً“۔
”ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے فریضہ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ھماری ھدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے “۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ھونے کی گواھی نھیں دیتے ؟
سب نے کہا:کیوں نھیں ھم سب گواھی دیتے ھیں۔
آپ نے فرمایا: خدایا!گواہ رھنا۔
آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رھے ھو؟
انھوںنے کہا: جی ھاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ھوگیا، سوائے ھوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی ، پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا ھوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے ؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ھیں؟
تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے ، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے ،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ھو جاؤگے ، دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت (ع) ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ بھشت میں مجھ سے آملیںگے ۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے ) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ھی ان سے پیچھے رھنا کہ اس صورت میں بھی تم ھلاک ھو جاؤگے ۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاھیں دوڑارھے ھیں گویا کسی کو تلاش کررھے ھیں جو نھی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ھاتھ پکڑلیا اور انھیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو اسلام کا وھی سپہ سالار ھے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نھیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند ھوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
”ایُّھا النَّاس مَنْ اولیٰ النَّاسِ بِالمَومِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھم۔“
اے لوگو! بتاؤ وہ کون ھے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولویت رکھتا ھے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ھیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا اوررھبر ھے اور میں مومنین کا مولااوررھبر ھوں اورمیںان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ھوںâاور میرا ارادہ ان کے ارادے پرمقدم ھے á۔
اس کے بعد فرمایا:”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“۔”یعنی جس کا میں مولاھوں علی ؑ بھی اس کے مولا اوررھبر ھیں“۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی، او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دھرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:”اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاحب مَنْ احبہُ وَ ابغِضْ مَنْ ابغَضہُ وَ انْصُرْمَنْ نَصَرُہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ، وَادرِالحَقّ مَعَہُ حَیْثُ دَارَ“
یعنی بار الٰھا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرموڑدے جدھر وہ رخ کرے ۔
اس کے بعد فرمایا:”الَا فَلْیُبَلِّغ الشَّاھدُ الغائبُ“ ” تمام حاضرین آگاہ ھوجائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پھنچائیں جو یھاں پر اس وقت موجود نھیں ھیں “۔پیغمبر کا خطبہ ختم ھوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینہ میں غرق تھے ، دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رھا تھا۔
ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ھوئے اور پیغمبر کو ان الفاظ میں تکمیلِ دین کی بشارت دی:
الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی۔ ”آج کے دن ھم نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”اللّٰہُ اکبرُ اللّٰہُ اکبرُ عَلیٰ اکْمَالِ الدِّینِ وَاتْمَام النِعْمَِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِی وَالوِلاٰیَ لِعَلیّ مِنْ بَعْدِی“
”ھر طرح کی بزرگی وبڑائی خداھی کے لئے ھے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ھم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد علی ؑ کی ولایت کے لئے خوش ھوا۔“
پیغمبر کی زبان مبارک سے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی ولایت کا اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور بلند ھوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی ؑشیر خداکو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کرنے لگے ،جس میں کچھ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ھیں کہ انھوں نے کھا:”بخٍ بخٍ لک یا بن ابِی طالب اصبحتَ وَاَمسیتَ مولای و مولاکُلّ مومن و مومنٍ“ ”مبارک ھو ! مبارک ! اے فرزند ابو طالب ؑ کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رھبر ھوگئے “۔مسند احمد میں بیان ھوا ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے اعلان کے بعد حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کو ان الفاظ میں مبارک باد دی:”ھنئیاً یا بن ابِی طالب اصبحتَ وَاَمسیتَ مولی کُلّ مومن و مومنٍ۔مبارک ھو مبارک! اے ابو طالب کے بیٹے ! آج سے تم ھر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے “۔
علامہ فخر الدین رازی نے یَااَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ ۔کے ذیل میں تحریر کیا ھے کہ حضرت عمر نے کہا: ”ھنئیاً یا بن ابِی طالب اصبحتَ وَاَمسیتَ مولی کُلّ مومن و مومن ۔جس سے معلوم ھو تا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام کوخود حضرت عمر اپنااور ھر مومن و مومنہ کا مولا سمجھتے تھے ۔
)مذکورہ روایت کی طرح مجمع البیان میں بھی یہ روایت ابو القاسم حسکانی سے نقل ھوئی ھے ، اور اسی مضمون کی روایت بہت سے اھل سنت مفسرین اور راویان حدیث نے مختصر سے اختلاف کے ساتھ نقل کی ھے ، منجملہ: قرطبی نے اپنی مشھور تفسیرمیں،آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں، اور ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں۔علامہ امینی علیہ الرحمہ نے کتاب الغدیر میں تیس علمااھل سنت سے (معہ منابع ) اس روایت کو نقل کیا ھے ، جن میں سے : سیرہ حلبی، فرائد السمطین حموینی، درر السمطین شیخ محمد زرندی، السراج المنیرشمس الدین شافعی، شرح جامع الصغیر سیوطی، تفسیر غریب القرآن حافظ ابوعبید ھروی، اور تفسیر شفائ الصدور ابو بکر نقّاش موصلی ، وغیرہ بھی ھیں۔ تفسیر آلوسی، ، جلد ۲۹، صفحہ ۵۲۔
نور ا لابصار شبلنجی ، صفحہ ۷۱ کے نقل کے مطابق۔تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸۱۔


"امامت و ولایت، غدیر سے پہلے" کے موضوع پر روزنامہ ریپڈ میں چھپنے والی میری تحریر
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ 8 ستمبر 2017
ولایت و امامت، غدیر سے پہلے

حضرت امیر المؤمنین کی ولایت کا اعلان غدیر کے دن پرمنحصر نہیں کیا جاسکتا بلکہ بلکہ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو آغاز بعثت کے موقع پرہی ہوچکا تھا بعثت کو ابھی تین سال بھی نہ گذرے تھے کہ خدا وند عالم نے اپنے حبیب سے فرمایا :â ۱َْنِذْرَعِشْیَرتََک اْلاَْقَربْیَن )سورہ ٔشعرائ / ۱۲( اے رسول تم اپنے قرابت داروں کو عذاب الہی سے ڈراؤ á۔
اس آیت کے نازل ہو تے ہی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسلام کے لئے مخفیانہ دعوت تمام ہو گئی اور وہ وقت آگیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور قرابت داروں کو اسلام کی دعوت دیں تمام مفّسرین اور مؤرّخین تقریباً بالاتفاق یہ لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے کا بیڑہ اٹھا لیا،اور یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ۔ کو گوشت اور شیرâدودھáسے غذا بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ بنی ہاشم کے بڑے لوگوں میں سے چالیس یاپینتالیس لوگوں کو کھانے پر دعوت دیں۔دعوت کی تیاریاں ہو گئیں ، سب مہمان مقررہ وقت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔لیکن کھانے کے بعد â ابو لہبáکی بیہودہ اور سبک باتوں کی وجہ سے مجلس درہم برہم ہو گئی اور کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکا ، تمام مدعوین کھانا کھا کر اور دودھ پی کر واپس چلے گئے ۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ اسکے دوسرے دن ایک اور ضیافت کا انتظام کیا جائے اور ایکبارپھر ان سب لوگوں کو دعوت دی جائے ، رسوِل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے حضرت علی ؑ نے ا ن لوگوں کو دوبارہ کھانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمات سننے کی دعوت دی سارے مہمان ایک مرتبہ پھر مقررہ وقت پر حاضر ہو گئے ، کھانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد جناب رسوِل خدا نے فرمایا: جو اپنی اُّمت کا حقیقی اور واقعی راہنما ہوتا ہے وہ کبھی ان سے جھوٹ نہیں بولتا اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ، میں اسکی طرف سے تمہارے لئے اور سارے جہان والوںکے لئے بھیجا گیا ہوں ہا ں اس بات سے آگاہ ہو جاؤ کہ جس طرح سوتے ہو اس ہی طرح مرجاؤگے ،اور جس طرح بیدار ہوتے ہواس ہی طرح قیامت کے دن زندہ ہو جاؤ گے اعمال نیک بجا لانے والوں کوجزائے خیر اورُبرے اعمال و الوں کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ،نیک اعمال والوں کے لئے ہمیشہ رہنے والی جنت اور بدکاروں کے لئے ؛ ہمیشہ کے لئے جہنّم تیّا ر ہے میں پورے عرب میں کسی بھی شخص کو نہیں جانتا کہ جو کچھ میں اپنی اّمت کے لئے لایا ہوں اس سے بہتر اپنی قوم کے لئے لایا ہو ؛جس میں بھی دنیا وآخرت کی خیر اور بھلائی تھی میں تمہارے لئے لے کر آیا ہوں میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اسکی وحدانیّت اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دوں۔اسکے بعد فرمایا :بتحقیق خدا وند عالم نے کوئی نبی نہیں بھیجا کہ جسکے قریبی رشتہ داروں میں سے اس کے لئے بھائی ، وارث ، جانشین اور خلیفہ مقرر نہ کیا ہو پس تم میں سے کون ہے جوسب سے پہلے کھڑا ہو اور اس امر میں میری بیعت کرے اورمیرا بھائی ،وارث ،وصی اوروزیر بنے تو اسکا مقام اورمنزلت میری نسبت و ہی ہے جو موسٰی کی نسبت ہارون کی تھی فرق صرف اتناہے کہ میرے بعدکوئی پیامبر نہیں آئے گا ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملے کو تین بار تکرار فرمایا :ایک اور روایت میں ہے کہ فرمایا : پس تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے اور یہ کہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی،وصی اور خلیفہ ہو گا؟ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمانے کے بعد کچھ دیر توقّف کیا تاکہ دیکھ سکیں کہ ان لوگوں میں سے کس نے انکی دعوت پر لبّیک کہا اور مثبت جواب دیا؟سب لو گ سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت علی ۔ کو دیکھاâجنکا سن اس وقت ۵۱سال سے زیاد ہ نہ تھا۔ á کہ وہ کھڑے ہوئے اور سکوت کو توڑتے ہوئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رخ کر کے فرمایا: اے خدا کے رسول !میں اس راہ میں آپکی مدد کروں گا۔áاسکے بعد وفاداری کی علامت کے طور پر اپنے ہاتھ کو جناب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھا دیا ،رسوِل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹھ جانے کا حکم دیا ؛ اور ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بات دہرائی،پھر حضرت علی ۔ کھڑے ہوئے اور اپنی آمادگی کا اظہار کیا ،اس بار بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹھ جانے کا حکم دیا ؛تیسری دفعہ بھی حضرت علی ۔ کے علاوہ کوئی کھڑانہ ہوا،اس جماعت میں صرف حضرت امیُرالمؤمنین ۔ تھے جو کھڑے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقّدس ہدف کی حمایت اور پشت پناہی کا کھلا اظہار کیا اور فرمایا: یا رسول االلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس راہ میں آپکا مدد گار و معاون رہونگا۔ )آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک حضرت علی ۔ کے دست مبارک پر رکھا اور فرمایا:بے شک یہ علی ۔ تمہارے درمیا ن میرا بھائی ،وصی اور جانشین ہے اسکی بات سنو اور اسکی اطاعت کرو ۔) لٰہذا ولایت کا اعلان،رسول االلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ۳سال بعداوراسلام رائج ہوتے وقت ہی ہو گیا تھا اور غدیرُخم سے پہلے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت داروں اوربزرگاِن قریش کے کانوں تک پہنچ گیا تھا ۔
جنگ تبوک کے موقع پر بھی اعلان ولایت کرتے ہوئے حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اے علی ! تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے جیسے ہارون ، کی موسٰی کے ساتھ تھی لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
حضرت علی ۔کے رہبر ہونے کا اعلان غدیر سے پہلے :رسوِل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام۔ کے بارے میں کچھ اس طرح ارشا د فرمایا !
اے علی ؑ ۔ ! تم مومنین کے بزرگ اور رہبر ہو اور پرہیز گاروں کے امام ہو اور با ایمان عورتوں کے رہبر ہو۔رسوِل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تین بار حضرت علی ۔ کے بارے میں مجھ پر وحی نازل ہوئی : علی ۔ مسلمانوں کے سردار ،پرہیزگاروں کے امام اور با ایما ن خو اتین کے رہبر ہیں۔اس طرح واضح اور روشن انداز میں ولایت کااظہار بھی واقعۂ غدیر سے پہلے ہو چکا تھااور کسی سے پوشیدہ نہ تھا ۔:ایک اور بہت واضح اور روشن حقیقت یہ ہے کہ رسوِل گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعۂ غدیر سے پہلے حضرت علی بن ابیطالب ۔ کو â امیُرالمؤمنین áکا لقب دیا جوکہ حضرت علی کی امامت اور خلافت کی حکایت کرتا ہے اور یہ لقب آپ کی ذات اقدس کے ساتھ مخصوص ہے ۔
ا نس بن مالک نے نقل کیا ہے کہ میں جناب رسوِل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خادم تھا ؛ جس رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوُاِّم حبیبہ کے گھرمیں شب بسر کرنا تھی ،میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وضو کا پانی لے کر آیا تو آپ نے مجھ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا :اے انس ! ابھی اس دروازے سے امیرالمؤمنین و خیر الوصیّین داخل ہونگے ؛ جو سب سے پہلے اسلام لائے جنکا علم سب انسانوں سے زیادہ ہے ؛ جو حلم ا ور بردباری میں سب لوگوں سے بڑہ کر ہیں، انس کہتے ہیں کہ! میں نے کہا کہ خدایا کیا وہ شخص میری قوم میں سے ہے ؟ ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ میں نے دیکھا علی بن ابیطالب دروازے سے داخل ہوئے جبکہ رسوِل خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرنے میں مشغول تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضوکے پانی میں سے کچھ پانی حضرت علی کے چہرہ مبارک پرڈالا۔
نقل شیخ مفید: ایک اور روایت میں شیخ مفید بہ سند خود ابن عبّاس سے نقل کرتے ہیں : اے اّم سلمٰی میری بات سنو اور اسکی گواہ رہنا کہ یہ علیâبن ابیطالب áمومنوں کا امیراوروصیّوں
کا سردار ہے ۔
واقعۂ غدیر سے پہلے حضرت امیُرالمؤمنین ۔ کی وصایت و ولایت کا اعلان ہو چکا اس کے باوجود تپتے ہوئے صحرامیں صرف ولایت کے اعلان کے لیے لوگوں کو روکا گیا ۔
ایک اھم مطلب خداوند عالم کے فرمان کے بارے میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میں اپنے لئے بندگی اور اس کے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا ہوں اس کے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کھیں ایسا نہ ہوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہواگر چہ بڑی تدبیر سے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ھے - اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایا ھے تو اس کی رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شر سے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ھے -
اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ھے :بسم اللہ الرَّحْمٰن الرَّحیم، یٰااَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلغْ مٰااُنزلَ الَیکَ منْ رَبکَâ فی عَلیٍّ یَعْنی فی الْخلاٰفَۃلعَلی بْن اَبی طٰالبٍ) وَانْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رسٰالَتَہُ وَاللہ یَعْصمُکَ منَ النّٰاس۔ اے رسول! جو حکم تمھاری طرف علی ؑیعنی علی بن ابی طالب کی خلافت ) کے بارے میں نازل کیا گیا ھے ، اسے پہنچادو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اللہ تمھیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا “
ایھا الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوئی کوتا ہی نہیں کی اور میں اس آیت کے نازل ہونے کا سبب واضح کر دینا چاہتا ہوں :جبرئیل تین بار میرے پاس خداوند سلام پروردگارکا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پر ٹہر کر سفید و سیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب ؑ میرے بھائی، وصی، جانشین اور میرے بعد امام ہیں ان کی منزل میرے لئے ویسی ھی ھے جیسے موسیٰ کے لئے ھارون کی تھی - فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، وہ اللہ و رسول کے بعد تمھارے حاکم ھیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پر یہ آیت نازل کی ھے :انَّمٰاوَلیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہُ وَالَّذیْنَ آمَنُوْاالَّذیْنَ یُقیْمُوْنَ الصَّلاٰہَوَیُوْتُوْنَ الزَّکٰاۃ وَھُمْ رٰاکعُونَ”:بس تمھارا ولی اللہ اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ھیں اورحالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے ھیں “علی بن ابی طالب ؑ نے نماز قائم کی ھے اور حالت رکوع میں زکوٰۃدی ہے وہ ھر حال میں رضا ئ الٰھی کے طلب گار ھیں-
میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجھے اس وقت تمھارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت ، فساد برپاکرنے والے ، ملامت کرنے والے اور اسلام کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوں سے با خبر ہوں ، جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ھے کہ” یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ھیں جو ان کے دل میں نھیں ھے ، اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ھیں حالانکہ پروردگار کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ھے “- اسی طرح منافقین نے بارھا مجھے اذیت پہنچائی ھے یھاں تک کہ وہ مجھے ”اُذُنْ” ھر بات پر کان دھرنے والا“ کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ھی ہوں چونکہ اس âعلی ؑá کہ ہمیشہ میرے ساتھ رہنے ، اس کی طرف متوجہ رہنے ، اور اس کے مجھے قبول کرنے کی وجہ سے یھاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ھے :
”اور ان میں سے بعض ایسے ھیں جو رسول کو ستاتے ھیں اور کہتے ھیں کہ یہ بس کان ھیâکانá ھیں âاے رسول ) تم کھ دو کہ (کان تو ھیں مگر) تمھاری بھلائی (سننے ) کے کان ھیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ھیں اور مو منین â کی باتوںáکا یقین رکھتے ھیں “ورنہ میں چاہوں تو ” اُذُنْ “ کہنے والوں میں سے ایک ایک کا نام بھی بتا سکتا ہوں، اگر میں چاہوں تو ان کی طرف اشارہ کرسکتا ہوں اور اگرچا ہوں تو تمام نشانیوں کے ساتھ ان کا تعارف بھی کرا سکتا ہوں ، لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں -
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضی خدا یہی ھے کہ میں اس حکم کی تبلیغ کردوں- اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلا وت فرما ئی :یٰااَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلغْ مٰااُنزلَ الَیکَ منْ رَبک âفیْ حَق عَلیْ á وَانْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رسٰالَتَہُ وَاللہُ یَعْصمُکَ منَ النّٰاس۔”اے رسول!جوحکم تمھاری طرف علی ؑ کے سلسلہ میں نازل کیا گیا ھے ، اسے پہنچادو، اوراگر تم نے ایسا نہ کیا تور سالت کی تبلیغ نھیں کی اور اللہ تمھیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔


میانمار(برما) میں ظلم کی انتہا اور عالم اسلام ۔
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 7 ستمبر 2017


میانمار(برما) میں ظلم کی انتہا اور عالم اسلام ۔
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ 7 ستمبر 2017


میانمار(برما) میں ظلم کی انتہا اور عالم اسلام ۔
تحریر: شبیر احمد شگری
میانمار کے مسلمانوں پر ظلم وستم، ان کی نسل کشی، مساجد کی شہادت اور میانمار میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا سلسلہ مسلسل جاری ہے ۔ اور ظلم کی ایسی داستانیں رقم کی گئی ہیں کہ ہم سننا اور دیکھنا بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔ لیکن بین الاقوامی برادری اس انسانیت سوز کارروائیوں کو روکنے میں اب تک نا کام رہی ہے ۔ جبکہ اقوام متحدہ بھی میانمار حکومت کی اس نسل کشی پر جواب طلبی میں نا کام ہے اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں یہ مسئلہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اٹھانے سے قاصر نظر آرہی رہیں۔ تاہم مسلسل خاموشی کے بعداقوام متحدہ نے اپنی خاموشی توڑی اور میانمار کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے حکومت میانمار پر برہمی کا اظہار کیا۔ جبکہ ساری مسلم امہ خاموش ہے سوائے ایران اور ترکی کے جنھوں نے اس معاملے پر سخت موقف کا اظہار کیا ہے ۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس سلسلے میں ترکی، ملیشیا اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ سے ٹیلیفون پر بات چیت کی ہے ۔اورتینوں ملکوں کے وزارئے خارجہ کو روہنگیا مسلمانوں کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے اس معاملے میں اسلامی دنیا کے درمیان ہم آہنگی کو ضروری قرار دیا۔اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سمجھتا ہے کہ میانمار کے مسلمانوں کے قتل عام اور مظالم کا سلسلہ رکوانے کے لیے اسلامی دنیا کو ہم آواز ہوکر فوری اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے ۔اور اس سلسلے میں ایران بین الاقوامی اداروں اور اسلامی ملکوں کے مشترکہ اقدامات میں ہر قسم کا تعاون کرنے لیے تیار ہے ۔
ہیومن رائٹ واچ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی حکومت، بدھ مانکس، سیاست دان اور بیوروکریسی ایک خاص منصوبے کے تحت میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم میں شریک ہے ۔ اوروسطی میانمار میں تقریباً 400 بدھسٹ کا مسلمان آبادی پر حملہ اسی مزموم سازش کا حصہ تھا۔ شمال مشرقی میانمارکے شہر میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مسجدیں شہید کی گئیں، قرآن کریم نذر آتش کئے گئے اور مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سعودی عرب کی جانب سے جو مسلم اتحادی فوج بنائی گئی ہے اس کا ٍعالم اسلام کے مسائل میں کیا کردار ہے ۔ اب تک تو یہی نظر آتا ہے کہ یہ فوج آل سعود کے مفادات پر ہی عمل کر رہی ہے ۔ اس آل سعود کے لئے جو مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے حرمین شریفین کی آڑ میں خود ایک جانب اسلامی ممالک میں مظالم کا مرتکب ہورہا ہے اور دوسری جانب اسرائیل اور امریکہ سے تعلقات بھی بڑھا رہا ہے ۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اسلامی ممالک سربراہوں کے اجلاس کی صدارت امریکہ کے اس صدر سے کروائی جاتی ہے جس نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف اپنے پروگرامز کا بارے میں بتا دیا تھا اور اقتدار میں آتے ہی اس پر عمل بھی شروع کر دیا۔ تو کیا آل سعود کی اتحادی افواج سے آپ توقع کر سکتے ہیںکہ وہ مسلمانوں کی فلاح کے اقدامات اٹھائیں گے؟ ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم آج یمن،بحرین،شام،فلسطین، کشمیر اور برما سمیت مسلمانوں کی آہ وزاریاں اور نالہ و فریاد نہیں سن رہے ہوتے ۔ یہاں تو معاملہ ہی
الٹ ہے اور اسلامی ممالک میں جارحیت کی جا رہی ہے ۔ فلسطین کی مظلوم عوم کی حمایت کرنے کی بجائے غاصب اسرائیل سے ہاتھ ملایا جا رہا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق روہنگیا میں مسلمانوں کے قتل عام کا اصل مجرم بے نقاب ہو گیا ہے ۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی حکومت نے میانمار کو اسلحے کی فراہمی کا سلسلہ تیز کر دیا ہے ۔اسرائیلی اخبار کا کہناہے کہ صہیونی حکومت کے ہتھیار برآمد کرنیوالے ادارے کے سربراہ میشل بن باروخ نے گزشتہ دنوں میانمار کا دورہ کیا تھا جس کے دوران اسرائیلی جنگی کشتیوں کی فروخت کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔
اس سے پہلے ستمبر دوہزار پندرہ میں میانمار کی فوجی کونسل کے ایک اعلی عہدیدار نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور صہیونی فوج کے سربراہ سے ملاقات کی تھی۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اسرائیل اور میانمار کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی کے بعد سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف حملوں میں شدت اور ان کے نسلی تصفیے کا عمل تیز ہوگیا ہے ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل بعض ممالک میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو مسلمانوں کیخلاف بھڑکاتے ہیں جبکہ مسلمان ممالک میں خود مسلمان اپنے بھائیوں کے قتل عام پر تلے ہوئے ہیں اور ان دو دہشتگرد قوتوں سے تعلقات بڑھانے میں مصروف ہیں۔
کوئی بھی مہذب قوم اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم پر خاموش نہیں رہتی بلکہ بھرپور احتجاج ان کا حق بنتا ہے ۔لیکن یہاں مسلم امہ کی خاموشی انتہائی افسوسناک ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف جس طرح گھناونی سازشیں کی جا رہی ہیں اور جس طرح ان کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس سے نمٹنے کا واحد حل مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق میں ہے ۔کاش کہ ہماری امت اپنے ذاتی مفادات کو چھوڑ کرایک ہوجائے اور اپنی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور اپنے مسائل کو خود آپس میں حل کرلیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگوں کی مجرمانہ خاموشی اپنے جسم سے ہی بہتا ہوا خون دیکھنے کی منتظر ہے ۔کیا یہ بہتا ہوا خون، آہ وزاریاں اور نالہ و فریاد ہمارے ہی بھائیوں کے نہیں ہیں ۔ اس بارے میں سوچئے گا ضرور۔اور اگر میری یہ بات آپ کو سمجھ آجائے تو دشمنوں کی سازشوں اور اپنی مجرمانہ خاموشی پر بھی ضرور غورکیجئے گا کیوںکہ خود پر ہونے والے مظالم پر آواز نہ اٹھانا بھی جرم ہے۔



"غدیر رسالت کے تناظر میں"
عید غدیر کے حوالے سے آج کے روزنامہ ریپڈ میں شائع ھونے والا مضمون۔
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ 5 ستمبر 2017


عید قربان کے موقع پر روزنامہ افلاک میں چھپنے والی میری تحریر" اللہ کو کونسی قربانی چاہئے؟"
روزنامہ افلاک عید قربان 2 ستمبر 2017
تحریر:شبیر احمد شگری


عید قربان کے موقع پر روزنامہ ریپڈ میں چھپنے والی میری تحریر" اللہ کو کونسی قربانی چاہئے؟"
روزنامہ ریپڈ عید قربان 2 ستمبر 2017
تحریر:شبیر احمد شگری

عید قربان یا عید الاضحٰی (10 ذولحجہ) مسلمانوں کی بڑی عیدوں میں سے ہے ۔ احادیث کے مطابق اس دن خدا کی طرف سے حضرت ابراہیم خلیل کو بشارت ہوئی کہ اللہ کیلئے اپنے عزیز بیٹے حضرت اسماعیلؑ ذبیح اللہ کی قربانی دیں ۔ حضرت ابراہیم ؑنے لبیک کہا اور قربانی کی قصد سے جب حضرت اسماعیل ؑ کی گردن پر چھری پھیرنے لگے تو خدا نے جبرائیل کے ساتھ ایک مینڈھے کو بھیجا اور حضرت ابراہیم نے اسماعیل ؑکے بدلے اس کی قربانی دے دی۔ اس دن سے آج تک اس واقعے کی یاد میں ادیان ابراہیمی کو ماننے والے اور مسلمان قربانی کی اس سنت پر عمل کرتے ہیں اوربیت اللہ الحرام کی زیارت یعنی حج پر مشرف ہونے والے حاجیوں پر قربانی دینا واجب ہے اور یہ حج کے اعمال میں سے ایک واجب عمل ہے ۔
عید کے دن اور رات کو احادیث میں بہت سارے اعمال وارد ہوئی ہیں جن میں عید کی رات کو شب بیداری کرنا دعا و مناجات اور نماز میں مشغول رہنے کی بہت زیادہ فضیلت ذکر ہوئی ہے ۔ عید قربان کے دن غسل کرنا، نماز عید پڑھنا، قربانی کرنا، امام حسینعلیہ السلام کی زیارت اوردعائے ندبہ پڑھنا مستحب موکد ہے ۔ جبکہ اس دن روزہ رکھنا عید فطر کی مانند حرام ہے ۔تقریبا تمام اسلامی ممالک میں عید قربان کے دن سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہیں اور مسلمان اس دن جشن مناتے ہیں۔
اللہ کی راہ میں قربانی کا مطلب ہے کہ جس طرح انسان اپنے لئے اچھی چیزوں کا انتخاب کرتا ہے تو اس ستر ماووں سے زیادہ محبوب ذات کے لئے بھی بہت محبت سے پیاری چیز کی قربانی دے ۔ اس کے لئے ضروری نہیں کہ آپ بڑے بڑے جانور اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر قربانی دیں۔ اللہ کو آپ کی قربانی کے گوشت اور کھالوں کی کیا ضرورت اس ذات باری تعالیٰ نے تو آپ کا خلوص دیکھنا ہے ۔
کیا فائدہ کے آپ اللہ کے نام پر قربانی کا کہہ کر اپنے بکرے یا جانور کی خوب نمائش کر کے دھوم دھام سے قربانی کریں لیکن اس کا گوشت آپ کی فریزر کی حد تک ہی رہے ۔ اور آپ کا غریب ہمسایہ اس سے محروم رہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ شرم کا مقام اور کیا ہوگا۔یہ تو اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے ۔ قربانی والے دن صرف جانور ہی ذبح کرنا لازم نہیں ہے ۔ جو کوئی اس کی استطاعت نہیں رکھنا اسے نمود و نمائش سے قطع نظر یہ دیکھنا چاہئیے کہ عید کے کیا معنٰی ہیں ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں "مومن کے لئے ہر وہ دن عید کا دن ہے جس دن وہ کوئی گناہ نہ کرے " یعنی عید روح کی پاکیزگی کا نام ہے گناہ سے دوری کا نام ہے ۔ تو کیوں نہ ہم گناہ سے دوری اور نیک اعمال بجا لائیں ۔ شب عید سے ہی خدا سے رازو نیاز کریں اپنے غلطیوں کی معافی مانگیں۔ حتٰی کہ خلوص کے ساتھ کوئی ایک گناہ یا غلط کام مثلاً ایک جھوٹ بولنا ہی چھوڑ دیں تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ عمل اس ذات باری تعالیٰ کی خدمت میں جانے کتنے افراد کی بڑے بڑے جانوروں کی قربانی سے بھی بڑھ کر ہو ۔ ہمیں چاہئے کہ ان دنیاوی مشکلوں اور پریشانیوں سے نہ گھبرائیں ۔آزمائیشیں بھی انسان پر ہی ہوتی ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ بھی خدا کا امتحان تھا لیکن وہ اپنی محبوب ترین ذات کی خاطر اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ایک باپ اپنے بیٹے کی ہلکی سی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لئے وہ اپنے بیٹے کے گلے پر چھری پھیرنے کے لئے بھی تیار ہوگئے ۔ اس موقع پر جب آپ منٰی میں جمرہ اول کے مقام پر پہنچے تو شیطان ان کے سامنے ظاہر ہوا اور حضرت ابراہیمؑ کو ورغلانے کی کوشش کی تو حضرت ابراہیمؑ نے سات پتھر مار کر اسے بھگایا اسی طرح جمرہ دوم اور سوم کے مقام پراس عمل کا تکرار ہوا یوں حضرت ابراہیمؑ کا یہ عمل حج کے اعمال میں شامل ہوا اور آج ہر جاجی پر واجب ہے کہ حج کے دوران اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے شیطان کو کنکریاں ماریں۔
حضرت ابراہیمؑ نے اپنے لخت جگر کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کا مصمم ارادہ کیا۔جب خدا نے باپ بیٹے کا اخلاص دیکھا تو ان کی قربانی کو قبول کیا اور جبرائیل ؑکے ساتھ ایک مینڈھے کو اسماعیل ؑکے بدلے قربانی کیلئے بھیجا ۔یہاں سے قربانی کی سنت مرسوم ہوئی اور آج قربانی کرنا حج کے واجب ارکان میں سے ہے ۔
اب ذہن انسانی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو بچانا ہی مقصود تھا تو پھر ان کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم کیوں ہوا؟ اور اگر حکم ہوا تھا تو ان کی زندگی کو تحفظ کیوں دیا گیا۔ حکم اس لئے ہوا کہ سراپائے ایثار و قربانی پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لخت جگر سے ذبح کی تاریخ کی ابتدا ہوجائے کہ راہ حق میں قربانیاں دینے کا آغاز انبیائ کی سنت ہے اور بچا یااس لئے گیا کہ اس عظیم پیغمبر کی نسل پاک میں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہونا تھی۔ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لانا تھا۔
یہاں پر اگر شہادت امام حسین علیہ السلام کا تعلق ذبح اسماعیل سے جوڑا نہ جائے تو بات مکمل نہیں ہوتی، شہادت کا عمل ادھورا رہ جاتا ہے اور بات مکمل طور پرسمجھ میں نہیں آتی۔ بات یہ ہے کہ اس وقت تو اللہ پاک نے اس قربانی کو ایک مینڈھے کے ساتھ تبدیل کر دیا ۔ لیکن یہ قربانی بالآخر حضرت ابراھیم علیہ السلام کے ایک اور بیٹے یعنی ان کی اولاد میں سے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کو کربلا کے میدان اپنی گردن کٹا کر دینی پڑی ۔اور دیکھیں یہ قربانی کی ایک عظیم مثال تھی ۔ کہ وہاں تو صرف حضرت اسماعیل ؑ تھے جو پھر بھی زندہ رہے لیکن یہاں اہلبیت ؑ کے کئی افراد کو اپنی قربانی دے کر اپنے سروں کو کٹا کردین کو بچانا پڑا ۔ اور ان کے سروں کو نیزوں پر گلی گلی اور بازاروں میں پھرایا گیا۔ اللہ اکبر کیسی قربانیاں تھی جو اللہ کے حضور پیش کی گئیں۔ آپ دیکھیں اگر کربلا میں یہ قربانیاں نہ دی گئی ہوتیں تو آج کونسا دین ہوتا ۔ یزید لعین کا کیا دین تھا دین تو تباہ ہوجاتا۔ اس لئیے ہمیں تو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پاک کو بھی کسی موقع پر بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ نبی پاک کے پھیلائے ہوئے دین کو ان کی ہی عظیم آل پاک نے عظیم قربانیوں سے بچایا۔اور آج جو دینی اعمال ہم انجام دے رہے ہیں انھی کی قربانیوں کے صدقے میں ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام نے اسی حج کی ہی قربانی دی تاکہ خانہ خدا میں خونریزی نہ ہو اس کے بعد اہل و عیال کے ساتھ قربان گاہ کربلا کی طرف رُخ کیا جن میں ایک نہیں جانے کتنے اسماعیل موجود تھے ۔ لیکن امام عالی مقام اپنے سامنے ایک ایک قربانیاں پیش کرتے رہے ۔ تو آپ دیکھیں یہ سب عظیم قربانیاں صرف اس ذات پاک کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دین کو بچانے کے لئے ہی نہیں تھیں بلکہ ہمیں بھی یہ سبق دیا گیا کہ دین ایثار و قربانی کا نام ہے ۔اور یہ بھی کربلا کے درس کا ایک پہلو ہے۔ اس لئے عزیز دوستو عید الاضحٰی کا مقصد صرف بڑے بڑے جانور ذبح کرنا ہی قربانی نہیں ہے بلکہ اللہ کو مطلوب اپنے نفس کی قربانی، جھوٹ کی ، گناہ کی دوسرے برے عادات کی، پیاری نیندکی قربانی جب آپ کو عبادت کرنی ہو خدا سے رازو نیاز کرنا ہو۔ حرام کاموں کی قربانی اور آرام و آسائش کی قربانی۔ اپنے انا کی قربانی جس کی وجہ سے آپ رشتوں سے کٹ جاتے ہیں ۔ اس پیاری زندگی کی قربانی کہ آپ اس کو اللہ کی راہ میں اور اچھے اچھے نیک کاموں میں صرف کردیں۔
کیوں کہ ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے کہ خدا کی راہ میں چلنے والوں کو بہت قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ اس لئیے ہم پر لازم ہے کہ دین کے معاملے میں کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔


شاہنامہ فردوسی کے عظیم خالق فردوسی کا مقبرہ میری ڈائری سے
تحریر شبیر احمد شگری
شاہ خراسان امام ہشتم حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے حرم میں حاضری دینے اور زیارت کے بعد اور دستر خوان امام کا شاندار کھانا کھا کر سیر ہوئے تو میں نے کچھ کھانا اور نمک محفوظ کر لیا ۔ تاکہ جب لاہور واپس اپنے گھر پہنچوں تو اپنی بیگم کو تاکید کے ساتھ کہوں گا کہ یہ نمک گھر کے نمک میں ضرور شامل کرے۔ کیوں کہ یہ معمولی نمک نہیں اہل بیت علیھم السلام کے دسترخوان کا نمک ہے۔ جسے اگر اپنے گھر کے رزق میں شامل کرلیا جائے تواس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ رزق میں اللہ پاک بے پناہ برکت عطا فرمائیں گے۔ اور الحمد اللہ ایسا ہی ہوا ہے۔ نمک اور کھانے کی باتیں انشا اللہ لاہور پہنچنے کے بعد کے حصے میں بیان کروں گا۔ اس عظیم الشان دسترخوان کی شان میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا اس کو آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب آپ خود اس سے فیضیاب ہوں۔ ظاہر ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پاک کا دسترخوان ہے۔ یہاں سے فیض یاب ھونے کے بعد ہمیں مختلف کتابوں کے تحفے عطا کئیے گئے۔
اس کے بعد ہمیں کہا گیا کہ اب یہاں سے چلنا ہے۔ پتہ چلا کہ ہمیں مقبرہ فردوسی کی سیر کے لئے لے جایا جائے گا۔ اور پرآسائش بسوں میں زائرین کا سفر دوبارہ شروع ہوا۔ جب ایران کا سفر کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایران کی سڑکیں اور بسیں کس قدر آرام دہ ہیں۔ اس لحاظ سے ایران یورپ سے کسی بھی طور پیچھے نہیں ہے۔ اقتصادی پابندیوں اور دنیا کے بائیکاٹ کے باوجود ایران نے ہر میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے۔ اور پابندیاں لگا کر ایران کو عالمی سطح پر تنہا اور مشکلات کا شکار کرنے کی خواہش رکھنے والے ممالک کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ کیونکہ انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام اور ایران دشمن طاقتوں سے اس وقت فرما دیا تھا کہ تم ایران کے چاروں طرف لوہے کی دیواریں بنادو لیکن پھر بھی وہ اللہ ہمیں رزق پہنچائے گا۔ اس جذبہ ایمانی سے سرشار ایرانی قوم کو کون شکست دے سکتا ہے۔
خیر ہم بس میں سوار چلے جارہے تھے اور خوبصورت مناظر کو بس تیزی سے پیچھے چھوڑے جا رہی تھی۔ یہ ایک بس ہی نہیں تھی جو مقبرہ فردوسی کی جانب رواں دواں تھی بلکہ کئی بسوں کا ایک قافلہ تھا اور ان بسوں میں ہماری طرح امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی چھبیسویں برسی میں ایران آئے ہوئے بہت سے ملکوں کے بیشمار لوگ سوار تھے۔
ہماری بس میں میرے ساتھ لاہور سے آئے ہوئےلعل مہدی خان صاحب، محمد حسین گولڑوی صاحب،سید قاسم رضوی،رضی شمسی صاحب،محسن خان صاحب،میاں ساجد صاحب،میاں محمد علی صاحب،مختار احمد چوہان صاحب کے علاوہ پاکستان کے دوسرے شہروں اور دنیا کے دیگر ممالک سے آئے ہوئے افراد براجمان تھے۔
اچانک آگے بیٹھے میاں ساجد نے آواز دی شبیر صاحب یہاں آئیں۔ میں نےان کے پاس جانے کی بجائے وہیں سے پوچھا کہ کیا بات ہے تو انھوں نے دوبارہ اپنے پاس آنے کو کہا۔ میں نے جو کچھ تھکن محسوس کر رہا تھا دوسرے چونکہ میرے دوست کبھی شرارتیں بھی کرتے تھے اس لئیے ان کی بات کو سنی ان سنی کر دیا لیکن انھوں نے جب تاکید کی تو مجھے محسوس ہوا کہ کچھ خاص بات ہے۔ میں ان کے پاس چلا گیا تو انھوں نے مجھے کتاب "صوبہ خراسان رضوی"دکھائی ۔ میں نے کہا تو کیا بڑی بات ہے یہی کتاب مجھے بھی ابھی امام کے حرم سے تحفہ میں ملی ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کتاب کے اندرونی صفحات میں سے شروع کا ایک صفحہ کھولا اور ایک سطر پر انگلی رکھ دی جہاں لکھا تھا طراحی: شبیر احمد شگری۔ مجھے جھٹکا لگا میں نے اپنے بیگ میں موجود وہی کتاب نکال لی اور کتاب کو دیکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو وہی کتاب "صوبہ خراسان رضوی" جسے میں نے تیار کیا تھا۔ اور یہ اعزاز بھی مجھے حاصل ہے۔ کہ اردو زبان میں لکھی گئی یہ پہلی کتاب ہے جو ایران سے باہر تیار کی گئی ہے۔ اور یہ کتاب اب تک ہاتھ نہیں لگی تھی لیکن واہ میرے مولا کا کرم کہ انھی کی محبت میں ڈیزائن کی ہوئی یہ خوبصورت کتاب مجھے اس وقت ملنی تھی جب میں نے ان کے حرم میں حاضری دی۔ بہرحال بہت خوشی ہوئی اور ایسے محسوس ہوا جیسے خود مولا نے انعام سے نوازنا تھا اسی لئے اب تک یہ کتاب مجھے نہیں مل سکی تھی۔۔
آپ کو بھی موقع ملے تو یہ کتاب ضرور پڑھیے گا کیوں کہ اس خوبصورت ڈیزائن والی کتاب میں تصاویر کے ساتھ صوبہ خراسان رضوی کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ااور اس فرط مسرت سے ہم اس وقت باہر آئے جب تقریباً 20 کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد بس کو بریک لگی اورپتہ چلا کہ ہم طوس میں مقبرہ فردوسی پہنچ چکے ہیں۔ بس سے اترے تو ایک خوبصورت مقام تھا لیکن تھوڑی گرمی بھی تھی جس کا احساس ہمیں اس وقت ہوا جب ہمیں پیاس لگی۔ بسیں مقبرہ فردوسی کے احاطے کی سلاخ دار دیواروں سے باہر رکی تھیں۔ اور وہیں سےاندر کافی دور بلند قامت مقبرہ فردوسی نظر آرہا تھا۔ ہمیں بے اختیار یہ معروف شعر یاد آگیا۔
بسی رنج بردم درین سالِ سی عجم زنده کردم بدین پارسی
شام ہونے کو تھی ہمارے پاس وقت کم تھا جونکہ اگلے دن صبح پاکستان کے لئے ہماری واپسی کی فلائٹ تھی۔اس لئے ہم عجلت میں باغ نما احاطے میں مقبرہ کی طرف روانہ ہوئے۔تاکہ جتنا ممکن ہوسکے یہاں موجود مقامات دیکھ لیں۔ شاہنامے کے عظیم خالق کے اس بلند و بالا مقبرہ کے اطراف میں خوبسورت سبزہ اور پھول کھلے تھے پانی کے فوارے اور بڑے حوض میں خوبصورت پھول آسمان کا نیلگوں رنگ اور مقبرہ کا عکس دلربا مناظر پیش کر رہے تھے۔
سب سے پہلے عظیم الشان مقبرہ میں داخل ہو کر اس عظیم شخصیت کی قبر پرفاتحہ پڑھی۔ یہاں پر کافی لوگ حاضری کے لئے آئے ہوئے تھے۔ کچھ سٹال بھی تھے جہاں پر مختلف کتابوں کے علاووہ شاہنامہ فردوسی اور ان کے سافٹ وئیرز بھی سی ڈیز کی شکل میں موجود تھے۔باقیوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن میاں ساجد صاحب جو نادر چیزوں کا دیوانہ وار شوق رکھتے ہیں، وہاں خریداری کر رہے تھے ۔ انھوں نے پورے ایران مین اس طرح کا کوئی بھی موقع ضائع جانے نہیں دیا۔ وسیع باغ، دیوقامت مجسمے اور پانے کے بڑے تالاب کی ساتھ خوبصورت تصویریں لینا ہم نہیں بھولے۔ کیونکہ یہ ہمارے لئے یادوں کا ایک عظیم سرمایہ تھا۔ھمیں جلدی واپس جانا تھا لہٰذا بسوں میں سوار ہوگئے۔ اور بسیں روانہ ہوگئیں۔ بسیں روانہ ہونے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے دو ساتھی محمد حسین گولڑوی صاحب اور اور غالباً اسلام آباد کے ساجد صاحب تھے دونوں مقبرے کی طرف ہی رہ گئے ہیں۔ کافی پریشانی ہوئی کیوں کہ ان کو فارسی زبان بھی نہیں آتی تھی ۔ہر جگہ ان کی رہنمائی کے لئے میں موجود ہوتا تھا۔ غلطی ان دونوں دوستوں کی ہی تھی جو تقریباً ہر جگہ زیادہ تحقیق کے شوق میں رہتے تھے۔ خیر ہماری پریشانی اس وقت ختم ہوئی جب ہوٹل پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد یہ صاحبان بھی پہنچ نہ جانے کیسے پہنچ ہی گئے۔ وہاں سب کے پاسپورٹ جمع ہونے لگے کیوںکہ ہم سمیت جنھوں نے اگلے دن مشھد سے فلائیٹ کے ذریعے لاہور روانہ ہونا تھا انھوں نے مشھد ٹہرنا تھا اور باقی دوستوں نے تھوڑی دیر بعد واپس تہران روانہ ہونا تھا۔ اور وہاں سے کراچی کے لئے روانہ ہونا تھا۔
فردوسی ایران کی تاریخ اور داستان کو زندہ کرنے والا اور فارسی زبان میں نئی جان ڈالنے والا ایران کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ علم شعر تاریخ اور اخلاق کے اعتبار سے فردوسی عہد غزنویہ کی تمام ادبیات کا محور نظر آتا ہے،اس لئے اس کو اگرفردوسی عہد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ فردوسی کی حالات زندگی۔اُس کا شاعر انہ لقب فردوسی اور کنیت ابوالقاسم ہے۔ فردوسی علاقہ طوس میں طاہران کے قریب ایک گاؤں ریگبار میں پیدا ہوئے ۔وہاں ان کے آباؤ اجداد کھیتی باڑی کرتے تھے۔ یہ وہی مردم خیز خطہ ہے جس نے امام غزالی جیسے محقق طوسی اور نظام الملک جیسے نامور عالم پیدا کیے۔فردوسی کی تاریخ پیدائش نہ تو روایتوں کے ذریعے اور نہ ہی شاہنامہ کے ذریعے سے پتہ چل سکی لیکن یہ بات ختمی طور پر کہی جاتی ہے کہ شاہنامہ 1009 عیسوی میں مکمل ہوا کیونکہ خود فردوسی کی شہادت اس سلسلے میں موجود ہے۔
فردوسی شروع شروع میں طوس میں کھیتی باڑی کا کام کر تا تھا ۔ اُسے ہر طرح کی اسائشیں حاصل تھی، جوانی بھی اس نے راحت اور آرام میں بسر کی۔ وہ طاہران کے ایک باغ میں رہتا تھا جہاں اس کے دوست اس کے پاس آتے جاتے تھے اور وہ بہت اطمینان سے زندگی گزارتا تھا۔ اس دوران وہ شاہنامے کےلکھنے میں مصروف تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی۔ خیال تھا کہ شاہنامے کا کچھ صلہ ملے تو وہ اس سے بیٹی کا جہیز تیار کرے گا۔ بالا آخرجب شاہنا مہ مکمل ہوگیا تو پیری اور ناتوانی نے اس کو گھیر لیا تھا، خوشحالی کی جگہ افلاس نے لے لی تھی۔اسی اثنائ میں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شاہنامے کو کسی بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جائے۔چنانچہ فردوسی نے سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھ کر اس شاہنامے میں شامل کیا اور دربار غزنی میں رسائی حاصل کی۔ فردوسی کچھ مدت تک دربار غزنی میں شاہنامہ سنا کر داد و تحسین حاصل کرتا رہا لیکن جب انعام واکرام کا وقت آگیا تو دربار میں حسدکرنے والوں نے بد گوئی کی جس کیوجہ سے بادشاہ بددل ہوگیا اور فردوسی کو توقع کے خلاف ساٹھ ہزار اشرفیوں کے بجائے بیس ہزار درھم ملے۔
فردوسی باردشاہ اس سلوک سے افسردہ ہوا، غسل کرنے کیلئے ایک حمام میں گیا، غسل سے فارغ ہو کر باہر آیا، عطار سے ایک گلاس شربت پیا اور بادشاہ کا انعام حمامی اور عطار میں تقسیم کر کے دربار غزنی سے نکل گیا ۔
محمودجب ہندوستان کی مہم سے واپس آرہا تھا غزنی پہنچ کر محمود نے ساٹھ ہزار اشرفیاں فردوسی کو بھجوادیں۔ لیکن جب اُس کے شہر میں انعام ایک دروازے سے داخل ہوا تو دوسرے دروازے سے فردوسی کا جنازہ شہر سے باہر نکل رہا تھا۔ بالا آخر محمود کا یہ انعام فردوسی کی بیٹی کو پیش کیا گیا لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ محمود نے حکم دیا کہ اس رقم سے فردوسی کے نام پر کاروان سرائے بنادی جائے۔بعض تذکرہ نویسوں کے بیان کے مطابق فردوسی کی وفات 1040ئ میں ہوئی۔








ایران سے چھپنے والے میگزین ایران نوین میں چھپنے والی تحریر"حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام "
شبیر احمد شگری
ر،ضان المبارک میں روضہ مبارک امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام میں منعقد ہونے والی روحانی محافل کے بارے میں تہران ایران سے چھپنے والے میگزین میں میں 12 صفحات پر مشتمل چھپنے والی میری خصوصی تحریر۔
تحریر: شبیر احمد شگری
سالنامہ میگزین "ٗایران نوین" ایران ۔ اگست 2017















یوم آزادی کے موقع پر "ایران پاکستان کو تسلیم کرنے والا سب سے پہلا ملک" کے موضوع پر خصوصی تحریر
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ ریپڈ 16 اگست 2017





"جمعۃ الوداع یوم القدس کے طور پر" کے بارے میں آصف حمید ک تحریریں
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 22 جون 2017








"روضہ مبارک امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام"
ر،ضان المبارک میں روضہ مبارک امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام میں منعقد ہونے والی روحانی محافل کے بارے میں روزنامہ نوائے وقت کے فیملی میگزین میں چھپنے والی خصوصی تحریر
تحریر : شبیر احمد شگری
فیملی میگزین 18 جنوری 2017


"بانی انقلاب اسلامی سید روح اللہ الموسوی خمینی ؒ"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ پاکستان 4 جون 2017


"انقلاب کیسے آتا ہے"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک یکم جون 2017

"انقلاب کیسے آتا ہے" دوسرا حصہ
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 2 جون 2017





"ایران و پاکستان کے مظبوط ثقافتی رشتے"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ مساوات 7 مارچ 2017



"اسلامی جمہوریہ ایران کے سینما گھر" ایران کے سینما کے بارے میں روزنامہ پاکستان کا خصوصی ایڈیشن
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ پاکستان 27 فروری 2017


"انقلاب اسلامی ایران کی کہانی"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ پاکستان 11 فروری 2017


"ایران و پاکستان کے مظبوط ثقافتی رشتے"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ پاکستان 2 فروری 2017


"ایران و پاکستان کے مظبوط ثقافتی رشتے"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 2 فروری 2017


"ہمدان ایران کا تاریخی شہر"
ھمدان کے بارے میں روزنامہ پاکستان کے میگزین زندگی میں خصوصی تحریر۔
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ پاکستان 8 جنوری 2017






"ہفتہ وحدت اسلامی، عالم اسلام کومتحد کرنےکی قابل تحسین کوشش"
تحریر: شبیر احمد شگری
فیملی میگزین 25 دسمبر 2016


"جشن میلاد النبی(ص)اور ہفتہ وحدت"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ پاکستان 23 دسمبر 2016


"حافظ شمس الدین شیرازی"
حافظ شمس الدین شیرازی کے بارے میں 2 صفحات پر مشتمل روزنامہ نوائے وقت کے فیملی میگزین میں چھپنے والی تحریر
تحریر : شبیر احمد شگری
فیملی میگزین 06 دسمبر 2016
















"محرم الحرام معیشت میں ترقی کا اہم سبب"
تحقیق وتحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک ۔ 11 اکتوبر 2016


"زمین پر خٍورشید" امام حسین علیہ السلام کی مدینہ سے کربلا تک روانگی اور 10 محرم تک کے واقعات کو تصویری شکل میں ڈھالہ گیا جو کہ انتہائی سادگی اور آسانی سےان واقعات کو سمجھنے میں میں مدد دیتا ہے۔ ایک نیا اندازجسے بہت پسند کیا گیا۔
اور اس سال اسے روزنامہ افلاک میں خصوصی طور پر دوبارہ شائع کیا گیا۔
تخلیق کار: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 12 اکتوبر محرم 2016





















"واقعہ غدیر، جب دین مکمل ہوا"
تحقیق وتحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 22 ستمبر 2016


"مشھد ایک تاریخی شہر"
ایران کےسیاحتی اور زیارت مقامات کے بارے میں روزنامہ پاکستان کے میگزین زندگی میں شروع کیا جانے والا سلسلہ جس میں ہر ہفتے ایران کے سیاحتی اور زیارتی مقامات کے بارے میں خصوصی مضمون چھپا کرے گا۔
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ پاکستان 18 ستمبر 2016


"امام رضا علیہ السلام کی حیات مبارکہ"
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک یکم ستمبر 2016


"انقلاب اسلامی سے پہلے اور بعد کا سبنائ ایران"
تحریر : شبیر احمد شگری
خصوصی ایڈیشن ۔ روزنامہ الشرق 20 اگست 2016


"امام رضاعلیہ السلام کی مبارک شخصیت"
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 18 اگست 2016


"امام حسن علیہ السلام کی شخصیت"
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 22 جون 2016


"امام مہدی علیہ السلام کی خصوصیات"
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک کی خصوصی پیشکش 23 مئی 2016


"حضرت علی علیہ السلام کے فضائل"
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک کی خصوصی پیشکش ۔ 20 اپریل 2016


"پاک ایران باہمی تعلقات کی اہمیت"
اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے دورہ پاکستان
کے موقع پر لکھی گئی تحریر
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 26 مارچ 2016


"اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا دورہ پاکستان"
اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے دورہ پاکستان
کے موقع پر روزنامہ افلاک کا خصوصی ایڈیشن
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 25 مارچ 2016






"انقلاب اسلامی ایران کی کہانی"کے موضوع پر چھپنے والی میری تحریر
تحریر : شبیر احمد شگری
روزنامہ سرزمین 18 فروری 2016


انقلاب اسلامی ایران کی 38 ویں سالگرہ کے موقع پر پر روزنامہ افلاک نے خصوصی ایڈیشن جاری کیا
تحریر و پیشکش: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک ۔ 12 فروری 2016


"میر سید علی ھمدانی کانفرنس" لاہور میں خانہ فرھنگ ایران لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے تعاون سے منعقدہ دو روزہ سید علی ھمدانی انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس پر روزنامہ افلاک نے خصوصی ایڈیشن جاری کیا
تحریر و پیشکش: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 22 دسمبر 2015


"اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا یورپی جوانوں کے نام خط"
پیشکش: شبیر احمد شگری
روزنامہ پاکستان 9 دسمبر 2015


"چہلم امام حسین علیہ السلام کی تاریخی حیثیت"
پیشکش: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 3 دسمبر 2015


"اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا یورپی جوانوں کے نام خط"
پیشکش: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 3 دسمبر 2015


"زمین پر خٍورشید" امام حسین علیہ السلام کی مدینہ سے کربلا تک روانگی اور 10 محرم تک کے واقعات کو تصویری شکل میں ڈھالہ گیا جو کہ انتہائی سادگی اور آسانی سےان واقعات کو سمجھنے میں میں مدد دیتا ہے۔ ایک نیا اندازجسے بہت پسند کیا گیا۔
تخلیق کار: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 28 اکتوبر محرم 2015


21 اکتوبر 2015












"امام رضا علیہ السلام کی حیات مبارکہ" ۔ خصوصی ایڈیشن
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ یکم ستمبر 2015


"شہادت امام علی علیہ السلام"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 7 جولائی 2015


"نواسہ رسول(ص) حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک 3 جولائی 2015


"آنحضرت (ص) کی حضرت خدیجہ (س) کے ساتھ محبت و عقیدت"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک 2 جولائی 2015


"آیت اللہ خامنہ ای اقبالؒ کے شیدائی"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک 23 اپریل 2015


"شان زھرا (ص) اقبال ؒ کی نظر میں"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک 21 اپریل 2015



یوم خواتین کے موقع پر چھپنے والا خصوصی ایڈیشن "فضائل حضرت خوتون جنت سلام اللہ علیھا"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ آفتاب 18 اپریل 2015


"Lady of Paradise in Iqbal's poetry" (Hazrat Fatima s.a)
Written by : Shabbir Ahmad Shigri
daily The Frontier post
12 Aprill 2015



"ہجری شمسی سال کا پہلا دن نوروز"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک 20 مارچ 2015


اسلامی جمہوریہ ایران پر روزنامہ اوصاف کادو صفحات پر مشتمل خصوصی ایڈیشن۔
تحریر: شبیر احمد شگری
2 مارچ 2015


"انقلاب اسلامی کی کامیابی کے 36 سال" اور "انقلاب اسلامی سے پہلے اور بعد کا سینما" کے موضوع پر خصوصی ایڈیشن
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 4 مارچ 2015


"انقلاب اسلامی ایران کے اثرات" خصوصی ایڈیشن
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ 10کشمیر لنک ۔ فروری 2015


"عصر حاضر کا تقاضا وحدت"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک 6 جنوری 2015


"امام رضا علیہ السلام کی شہادت"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک 24 دسمبر 2014




"ایران و پاکستان کی لازوال دوست"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک ۔ 16 دسمبر 2014


"درس کربلا"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک 31 اکتوبر 2014

"درس کربلا" حصہ دوم
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک ۔ یکم نومبر 2014

"کربلا خاندانی تعلقات کا خوبصورت نمونہ"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک ۔ 31 اکتوبر 2014

"درس کربلا"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک ۔ 30 اکتوبر 2014





"واقعہ غدیر جب دین مکمل ہوا"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ افلاک 25 ستمبر 2014





یوم القدس کے موقع پر لکھا گیا کالم "یوم القدس کی اہمیت"
تحریر: شبیر احمد شگری
25 جولائی 2014


"حضرت علی علیہ السلام کی وصیت"
تحریر: شبیر احمد شگری
22 جولائی 2014


"امام مھدی علیہ السلام"
تحریر: شبیر احمد شگری
17 جون 2014








" صوبہ خراسان رضوی" سازمان فرہنگ و اارتباطات اسلامی مشھد کی جانب سے چھپنے والی کتاب جسے لاہور میں تیار کیا گیا۔
ڈیزائئننگ: شبیر احمد شگری


"ایران کی فلمی صنعت"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ اوصاف ۔ 6 اکتوبر 2012


"انقلاب اسلامی ایران کی 33ویں سالگرہ"
تحریر: شبیر احمد شگری
روزنامہ ابتک ۔   20تا 23 فروری 2012







"انقلاب کے بعد کا ایرانی سینما"

تحریر: شبیر احمد شگری ۔ 

روزنامہ الشرق

انقلاب کے بعد کا ایرانی سینما

اساتذہ کی عزت نہ کرنے سے پاکستانی معاشرہ رو بہ زوال ہے"
تحریر : شبیر احمد شگری 

روزنامہ الشرق ۔ 18 جنوری 2012



ایرانی سینما کے بارے میں چھپنے والا خصوصی ایڈیشن۔ 

تحریر شبیر احمد شگری روزنامہ الشرق۔ 15ستمبر2011



"حافظ شمس الدین شیرازی"
حافظ شمس الدین شیرازی کے بارے میں 2 صفحات پر مشتمل روزنامہ نوائے وقت کے فیملی میگزین میں چھپنے والی تحریر
تحریر : شبیر احمد شگری
فیملی میگزین 06 دسمبر 2016


اصفہان نصف جہان
تحریر: شبیر احمد شگری
زندگی میگزین روزنامہ پاکستان
27 نمبر تا 3 دسمبر 2016









Shabbir ahmad shigri has written more than 300 columns, articles and scripts on Islamic cultural and political topics. Which are printed in domestic and foreign newspapers and magazines. Which gets a lot of praise.

His columns and articles adorn major newspapers and magazines in Pakistan and other countries. These articles are in Urdu, Persian and English

He has also written a beautiful book on Iran called "سیاحت ایران". This book is in Urdu language and it is described in detail in Iran.Everything has been tried through pictures. This is the only unique book in the Urdu language in terms of design and information.

Click to view his article page. https://web.facebook.com/shigriscolumns/ https://web.facebook.com/shigriscolumns

No comments:

Post a Comment